انڈونیشیا کے نہایت دور دراز کے اندرونی علاقہ میں فوجا پہاڑوں سے گھری اس وادی میں امریکی سائنسدانوں کی ایک مہم جو ٹیم نے سب سے پہلے قدم رکھا ۔یہ علاقہ مشرقی صوبہ ببوا سے پریسٹائن استوائی جنگل تک دومیلین ایکڑ تک پھیلا ہو اہے۔اس مقام پر ہزاروں ہزار میل تک کسی انسانی آبادی کا وجود نہیں ۔یہ وہ مقام ہے جہاں ہزاروں برس سے کسی انسان نے قدم نہیں رکھا ۔یہاں کسی بھی تہذیب کے آثار نظر نہیںآئے اور نہ ہی اس بات کا پتہ چلتاہے کہ کبھی انسانی آبادی ان علاقوں میں رہی ہوگی۔
بروس بیہلر اس امریکی مہم جو ٹیم کے ایک سربراہ نے بتایا کہ ایک ماہ کی طویل مسافت کے بعد وہ لوگ اس مقام تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے تھے۔انہوں نے فوجا پہاڑی سلسلوں کی سیاحت کی ۔یہ علاقہ مشرقی صوبہ ببوا سے مشرق میں دوملین ایکڑ زمینی رقبہ پر پھیلا ہوا ہے۔انہوں نے رہنمائی کے لئے کوئر با اورپاپاسینا قبیلوں سے دوافراد کو ساتھ لیا تھا ۔یہی دو قبیلے ہیں جو ان پہاڑی سلسلون کے روایتی مالک تسلیم کئے جاتے ہیں۔اس مسلسل مہم جوئی میں یہ افراد شامل تھے۔
امریکی ماحولیاتی تنظیم کنزرویشن انٹرنیشنل اور انٹر نیشن انسٹی ٹیوٹ آف سائنس نے اس مہم جوئی کا انتظام کیا تھا۔اس مہم جوئی کے اخراجات کئی تنظیموں نے مشترکہ طورپر برداشت کیا تھا اور مالی تعاون نیشنل جغرافک سوسائٹی نے بھی دیا تھا۔امریکی ،انڈونیشیا اور آسٹریلین سائنسدانوں کی ٹیم اس مقام پر ہیلی کاپٹر کے ذریعہ اتری ۔ان کے ہیلی کاپٹر نے ایک خشک جھیل کے کنارے لینڈ کیا ۔ان لوگوں نے اسی گودی میں پہاڑوں کے دامن میں اپنے خیمے نصب کئے جو مغربی علاقہ میں واقع تھا۔
سائنسدانوں نے اس ویران اور سنسان علاقے میں ایک قدیمی عہد کا انڈا دینے والا جانور دیکھا ۔اس جانور کو سائنسدانوں کی ٹیم نے بغیر کسی مزاحمت کے آسانی سے اٹھا لیا اور اس پر تحقیق وتجربہ کرنے کے لئے اسے اپنے ساتھ لے آئے۔اس مقام کو سائنسدانوں نے گم شدہ دنیا کا نا م دیا۔جہاں کبھی کسی انسان کے قدم نہیں گئے ۔سائنسدانوں نے اس مقام پر کچھ اور بڑے قد کے دودھ پلانے والے جاور دیکھے جنہیں ان لوگوں نے اپنا قیدی بنالیا ۔اس کے علاوہ ان لوگوں نے درجنوں نئے قسم کے مینڈک ،کچھ تتلیوں کے نایاب اقسام اورپام کا نادر نمونہ دیکھا۔ٹیم کے ایک سربراہ نے کہا کہ ہم لوگوں نے سطح زمین کو کھرچ کر دیکھا لیکن ہمیں کسی قدیمی آبادی ،کسی تہذیب کے آثار نہیں نظر آئے ۔ان لوگوں نے وہاں چڑیوں کی ایک نئی نسل کا تعاقب بھی کیا ۔یہ سرخ چہرے والی ’’ویٹلڈہنی ایٹر ‘‘تھی ۔اسی مقام پر ان لوگوں نے چھ چوٹی والی (جنت الفردوس)پیراڈائز کی چڑیا بھی دیکھی۔اس چڑیا کا تذکرہ 19ویں صدی کے شکاریوں نے کیا تھا اور اس کا نام پیراڈائز برڈ اس لئے رکھا کہ اس کے سر پر چھ منفرد چوٹیاں تھی جو کلفی کے مقام پر تھی۔اس چڑیا کے جوڑے کا مشاہدہ کرکے انہیں بے انتہا حیرت اور خوشی ہوئی ۔ا س لئے کہ اس پرندے کے جوڑے نے اظہار محبت کا عجب انداز اختیار کیاتھا۔نر پرندے نے مادہ کو ملتفت کرنے کیلئے اس کے گرد خوبصورت رقص پیش کیا۔اپنے طویل پنکھوں سے مادہ کے سر پر مالش کی۔سائنسدانوں نے اس مقام سے مینڈک کی 20نئی دریافت شدہ نسلوں کے نمونے بھی تکجا کئے۔ان میں ایک نسل کا مینڈک آدھا انچ سے بھی کم قدوقامت کا تھا۔تتلیوں کی چار نئی نسل اور قسم کے علاوہ ان لوگوں نے پانچ نئے قسم کے پام دریافت کئے۔
خیر الصالح جن کا تعلق ورلڈ وائڈفنڈ فار نیچر سے ہے ۔اس نے گزشتہ دس سال کے اندر سیکڑوں سے زیادہ نئے انکشافات کئے ہیں۔اس نئی دریافت کے متعلق انہوں نے بتایا کہ ایسی بہت ساری نسلیں اور جاندار ہیں جن کو ابھی دریافت نہیں کیا گیاہے۔خاص طور پر انڈونیشیا میں ہی ایسی نسلیں اور جاندار موجود ہیں جن کے متعلق واقفیت نہیں۔ببوا انڈونیشا کا نہایت پسماندہ اور پچھڑا علاقہ ہے۔اس مقام نے کئی دہائی تک علیحدگی کی جنگ لڑی ہے اور اس طویل جنگ میں تقریبًا ایک لاکھ افراد ہلاک ہوئے تھے۔جغرافیائی اعتبار سے اور سیاسی اعتبار سے اس علاقہ میں غیر ملکیوں کے داخلہ پر سخت پابندی ہے۔سائنسدانوں نے بتایا کہ اس مقام تک پہنچنے کے لئے انہیں چھ مقام پر اجازت نامہ حاصل کرنے کی ضرورت پیش آئی۔اس کے بعد ہی وہ اس پہاڑی علاقہ تک پہنچ سکے جو نیو گینیا جزیرہ کے مغربی علاقہ میں واقع ہے۔
جنوبی آسٹریلیا میوزیم کے اسٹیفن رچرڈ نے ایڈی لیڈی کا خیال ہے کہ اس مقام پر پہنچ کر انہوں نے اور ان کی ٹیم ممبران نے ایک ایسے جہان کو دیکھا ہے جو 50ہزار سال قدیمی زمانہ کی جھلک دکھاتاہے۔اس لئے کہ وہاں کبھی شکار نہیں کھیلا گیا اور نہ ہی آمد ورفت کو کوئی نشان ملا ۔انہوں نے اس مقام کے واقعات کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا قابل یادگار تجربہ لمبے چونچ والے ’’ایکڈناز‘‘کا تعاقب کرنا تھا۔یہ دودھ دینے والے ایسے جانوروں کی قدیمی نسل سے تعلق رکھتے ہیں جو انڈا بھی دیتے ہیں۔ا ن کو مونو ٹریموز کہا جاتاہے۔ایسے دوجانوروں کو ہم نے تفتیش کے لئے پکڑا ہے۔
بیہلر نے اس حقیقت کو تسلیم کیا کہ اس علاقہ میں کبھی بھی کسی انسان نے قدم نہیں رکھا لیکن دوسرے جانور جیسے سنہرے سروں والے درختوں پر رہنے والے کنگارو یہا ں پائے جاتے ہیں اور اس جنگل میں یہ آرام سے گھومتے ہیں۔یہ کنگاروانڈونیشیا کے لئے بھی نئے ہیں۔لیکن یہ اس قدر شرمیلے اور تیز رفتار ہیں کہ جنگل میں ان کی صرف ایک جھلک ہی نظر آسکی اور وہ گھنے قدیمی جنگل میں نظروں سے اوجھل ہوگئے۔اس جنگل میں ان کی نسل کچھ میل کے علاقوں تک ہی محدود رہے اور اس دائرہ سے آگے وہ نہیں جاتے ۔میلانیشیا سینٹر فار بایوڈائیورسٹی اور کنزرویشن انٹرنیشنل کے نائب صدر بیہلر نے کہا کہ اس مقام پر سائنسدانوں کی ایک ٹیم کے ساتھ ایک بار پھر وہ آئیں گے۔انہوں نے آبادی کے نہیں ہونے کی وجہ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہاکہ اس کی وجہ اس علاقہ میں ہونے والی زبردست بارش ہے جس کی وجہ سے اس پورے خطہ میں صرف کچھ سو افراد نے ہی بود و باش اختیا ر کی ہے اور وہ پہاڑی علاقوں میں شکار کرتے ہیں۔یہ شکار اس قدر وافر
مقدار میں ہیں کہ ان لوگوں کو گھنے جنگل میں جانے کی ضرورت ہی نہیں۔لیکن اس کے باوجود شکار کئے جانے والے جانوروں کی تعداد کے کم ہونے کا امکان نہیں۔اس پہاڑی وادی اور جنگل نے قدرتی چڑیا خانہ (Zoo)کی صورت اختیار کی ہوئی ہے۔اس علاقہ میں چونکہ آمد ورفت کا کوئی ذریعہ نہیں ہے ا سلئے یہ خطہ دنیا کی نظروں سے اوجھل رہا اور تہذیب سے کٹ گیا۔لیکن ا ب اس مقام سے واقفیت کے بعد یقینی طورپر اس کے حالات میں تبدیلی رونما ہوگی اور یہاں سے جنگلوں کی لکڑی جاپان اور چین جیسے ممالک کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے کام آئے گی۔
جواب دیں