یوں اے ٹی ایس کی رپورٹ ایک طرح سے ردہوگئی۔مسلم نوجوانوں نے اصل ملزمین کی گرفتاری کے بعدخودکومقدمہ سے خارج کرنے کیلئے عدالت میں عرضی داخل کی۔دراصل کیس میں ضمانت سے رہائی،مقدمہ سے خارج یابری ہونے کی سندنہیں،جس پرکورٹ نے اے ٹی ایس سے جواب مانگاتھا۔اے ٹی ایس جواب کیلئے آناکانی کرتی رہی۔کئی مہینوں کے بعدگذشتہ دنوں اے ٹی ایس نے عدالت میں جواب داخل کیا۔جس سے بے قصورمسلمانوں کودھچکالگا۔اے ٹی ایس نے نہ صرف انہیں مقدمہ سے خارج ہونے کی مخالفت کی بلکہ ضمانت پررہابے قصوروں کوہی بم دھماکوں کاملزم قراردیا۔اہم بات یہ ہے کہ دھماکوں کے الزام میں این آئی اے قومی تفتیشی ایجنسی نے بھگوادہشت گردتنظیم کے ۴؍افرادکوگرفتارہی نہیں کیابلکہ ان کے خلاف چارج شیٹ بھی داخل کردی۔اے ٹی ایس نے عدالت میں داخل کردہ جواب میں یہ دعویٰ کیاکہ پولس نے ملزمین کے خلاف جوثبوت اکٹھاکئے ہیں وہ کافی پختہ ہیں۔مہاراشٹراے اٹی ایس بے قصورمسلمانوں کے خلاف پھرپُرانی ہٹ دھرمی پرقائم ہے۔وہ بضدہے کہ مالیگاؤں بم دھماکوں میں مسلمان شامل ہیں۔
مرکزی قومی جانچ ایجنسی این آئی اے نے ملک میں دہشت گردی جیسے الزامات میں مسلم نوجوانوں کواپنی تفتیش میں مسلم نوجوانوں کوبے قصور،بے گناہ پایا،انہیں کلین چٹ دی۔جس کی بناء پرانہیں عدالتوں سے باعزت رہائی ملی۔مہاراشٹرمیں کانگریس اورراشٹروادی کانگریس کی حکومت ہے اے ٹی ایس راشٹروادی کانگریس کے وزیرداخلہ کے ماتحت ہے وزیراعلیٰ مہاراشٹرکانگریس ہی کاہے دونوں پارٹیاں اقلیتوں ومسلمانوں کادم بھرتی ہیں۔ان دونوں پارٹیوں کے راج میں گذشتہ ۱۵؍سالوں سے مسلمانوں کے متعددجائزمسائل حل طلب ہیں۔پولس دہشت گردی اوربم دھماکوں میں بے قصورمسلمانوں کوپولس گرفتارکرتی ہے۔گذشتہ چندسالوں میں مہاراشٹرمیں خاص کرچندمہینوں میں سنگین فسادات ہوئے۔پولس شرپسندوں کے خلاف معیاری کارگزاری کرنے میں ناکام ہے۔ہندوشدت پسندوں کے حوصلے بڑھ چکے ہیں۔ان تنظیموں پرپابندی لگانے میں کانگریسی سربراہی والی سرکارمیں دم خم نظرنہیں آتا۔حالیہ پارلیمانی الیکشن میں مرکزکی کانگریس سرکارکوسخت ناکامی ہوئی۔سب کچھ رشوت،روٹی،کپڑا،مہنگائی اورفرقہ واریت کے تعلق سے معیاری کارگزاری نہ کرنے کی وجہ سے ہوا۔
ایک ذی ہوش،صاحب ضمیر،غیوراورجری قوم کی طرح ہمیں اپنے گردپیش کاجائزہ لیناضروری ہے۔اس سلسلہ میں جوغلطیاں صوبہ مہاراشٹرمیں سیکولراورجمہوری کانگریس اورراشٹروادی کانگریس پارٹیوں کے دورحکومت میں ہوتی آرہی ہیں اس کاازالہ بے حدضروری ہے۔ایک ہندوستانی ہونے کی حیثیت سے پوری طاقت ونیک نیتی سے اس پروقت رہتے تنقیدکرنے کی ضرورت ہے۔پھرنہ کہناپڑے کہ چڑیاں چُک گئیں کھیت۔اس سلسلہ میں کسی بدگمانی اورکم ہمتی نہیں ہوناچاہئے۔حق بات کہنے سے ڈراورخوف کیسا۔لیڈران قوم جن میں علماء حضرات بھی شامل ہیں آگے آنے کی ضرورت ہے۔حق وصداقت کہنے کیلئے جواوصاف چاہئے ایک آدھ کوچھوڑکرباقی سب میں یہ نداردہے۔
کسی دانشورنے کہاتھاکہ علماء حضرات تالاب کے پاس ہیں پھربھی پیاسے ہیں۔لیڈران نے پانی دیکھاہی نہیں۔اس کی وضاحت کیلئے کیامثالیں دی جاسکتی ہیں۔
نقش گزرے ہوئے لمحوں کے ہیں دل پہ کیاکیا
مڑکے دیکھوں تونظرآتے ہیں منظرکیاکیا
مالیگاؤں بم دھماکوں ہی کے بے قصورمسلمانوں کوجب ضمانت پررہائی ملی،یہ کوئی ایسی بات نہ تھی کہ جس پربے پناہ خوشیاں اورشادمانی کی جاتی۔ضمانت پررہائی کامطلب الزامات سے بری ہوناہرگزنہیں۔ہمارے لیڈران بشمول علماء حضرات فوراً وزیراعلیٰ کوہارپھول پہنانے منترالیہ پہونچ گئے۔جس وزیراعلیٰ کے راج میں بے قصوروں کوکئی سال زنداں میں رہناپڑا۔ضمانت ملنے پراس وزیراعلیٰ کاہارپھول کیسا؟شادیانے کس لئے؟یہ توعدالتی کاروائی کے ذریعہ ہوا۔وزیراعلیٰ اگرمعیاری ہوتے،ہرگزبے قصور،بے گناہ مسلمانوں کوجھوٹے الزامات میں گرفتارنہ کیاجاتا۔وزیراعلیٰ بھی خوش نصیب ہیں کہ ایسے لیڈران قوم ہیں کہ مسلم نوجوانوں کو بلاوجہ قید و بند کی صعوبتیں دینے کے باوجودہارپھول دیئے جارہے ہیں۔سراسرقومی غیرت وحمیت کے خلاف ہے۔اسے قائم رکھنے کیلئے،دنیاوی ذاتی مفادسے بالاترہوکرسوچنے اورعمل کرنے کی ضرورت ہے۔موجودہ قیادت میں وہ دم خم دکھائی نہیں دیتا۔
پہلے قوت فکروعمل فنا ہوتی ہے
تب کسی قوم کی شوکت پرزوال آتاہے
اس بات کاخدشہ ہے کہ چندمہینوں میں مہاراشٹراسمبلی کے الیکشن ہیں۔کانگریس وراشٹروادی کانگریس کی سرکار،مرکزکی طرح بی جے پی وشیوسیناکے ہاتھوں شکست کامنہ نہ دیکھ لے۔کیونکہ یہاں بھی بے شمارگڑبڑگھوٹالے،کسانوں کی خودکشیاں،مہنگائی،فرقہ واریت جیسے سنگین مسائل کوحل کرنے میں صوبائی حکومت انتہائی ناکام ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔آنے والی متوقع شکست اورہارسے بچنے کے لئے کانگریس وراشٹروادی تیزی کے ساتھ میدان عمل میں ہے۔مراٹھوؤں اورمسلمانوں کوجنکی تعدادپوری آبادی میں۴۵؍فیصدہے انہیں ریزرویشن دینے کی بات ہورہی ہے۔کیاحقیقت میں ریزرویشن ملے گا؟کیااسے کورٹ میں چیلنج نہیں کیاجائے گا؟اسی طرح دونوں پارٹیاں مسلم لیڈران اورعلماء حضرات کے ساتھ میٹنگیں لے رہی ہیں۔اقلیتوں کے مسائل کوسمجھ رہی ہیں۔ان کوحل کرنے کاوعدہ کیاجارہاہے۔عام مسلمان اسے دکھاواہی سمجھ رہاہے۔ممبئی اورمہاراشٹرکے مسلمانوں پرموجودہ کانگریس سربراہی والی حکومت جس میں راشٹروادی کانگریس بھی شامل ہے اس سے اعتماداُٹھ چکاہے۔گذشتہ ۱۵؍برسوں سے مسلمان،گویااس حکومت کوجھیل رہاہے۔۹۳،۱۹۹۲؍کے ممبئی فسادات پرسری کرشناکمیشن کی رپورٹ پرکافی وعدے ہوئے۔رپورٹ کی سفارشات پرموجودہ حکومت نے کیاکیا۔کتنے پولس والوں اورشرپسندوں کے خلاف کاروائی ہوئی۔بے گناہ مسلمانوں کی دہشت گردی اوربم دھماکوں پرگرفتاریاں ہوئیں۔کتنے عدالتوں ہی سے بے قصورباعزت رہاہوئے۔خاطی پولس افسران کے خلاف کیاکاروائی ہوئی۔بلکہ ان کو ترقی بھی دی گئیں۔اوقاف میں دھاندلیاں ہوئیں۔کتنے اردواسکولوں کوسرکاری اجازت نامے ملے۔انہیں سرکاری امداددی گئیں۔مسلم علاقوں کوسماجی تعلیمی امدادیں دی گئیں۔اردومہاراشٹرمیں مراٹھی کے بعدسب سے زیادہ لکھی،بولی،پڑھی جانیوالی زبان کی ترقی کیلئے کیاہوا۔اردوگھرکاکیاہوا؟قدآورلیڈرشردپوارنے مسلمانوں کواسماعیل یوسف کالج دینے کی بات کہی۔وعدہ اب تک وفانہیں ہوا۔
مالیگاؤں بم دھماکوں میں بے قصورمسلمانوں کی رہائی کے معاملہ میں اگلی سماعت ۲؍اگست کوہے۔امیدہے کہ انہیں عدلیہ سے عدل وانصاف انشاء اللہ ضرورملے گا۔اللہ کے یہاں دیرہے اندھیرنہیں۔
لاکھ آندھیاں چلے لاکھ بجلیاں گرے
وہ پھول کھل کررہیں گے جوکھلنے والے ہیں۔
جواب دیں