ملالہ کے ساتھ یورپ کی مسلسل مہربانی

نوبل کی انعامی رقم تقریباً 12لاکھ ڈالر ہے ۔یہ رقم دونوں کے درمیان مساوی طور پرتقسیم کی جائے گی۔سال رواں نوبل امن ایوارڈ کے لیے 278امیدوارنامزد ہوئے تھے۔نوبل ایوارڈ 10دسمبر کوناروے کے دارلحکومت اوسلو میں دیا جائے گا۔
ملالہ کواپنی اس کم عمری میں اقوام متحد ہ میں خطاب اورامریکی صدر اوبامہ سے ملاقات کا اعزاز حاصل ہے۔ ملالہ کو جن ملکی اورعالمی اعزازات سے نوازا گیا ہے ان میں نیشنل یوتھ پیس پرائز، ستارہ شجاعت، مدر ٹیریسا میموریل ایوارڈ، روم پرائز فار پیس، سیموں دابوار پرائز، ضمیر کی سفیرایوارڈ،ایمنسٹی انٹرنیشنل، کلنٹن گلوبل سٹیزن ایوارڈ، سخاروف پرائز برائے آزادی،وومن آف دا ائیر ،گلیمر میگزین، اعزازی ڈاکٹر آف سول لاء، کینیڈا، سکول گلوبل ٹریڈر ایوارڈ شامل ہیں۔
نوبل انعام سال 2014 کے لئے ملالہ یوسف زئی کے انتخاب کے بعد پاکستان میڈیا میں تہلکہ مچا ہوا ہوا ہے ، دانشوران ، مفکرین سیاست داں اور صحافی سبھی اسے پاکستان کی بہت بڑی کامیابی قرار دے رہیں ۔پاکستان کے ایک اخبار نوائے وقت نے اداریہ میں یہاں تک لکھا ہے کہ دختر پاکستان کو نوبل انعام ملنے کے بعد پاکستان اپنے اس مقصد میں کامیاب ہوگیا ہے جس کی خاطر وہ ہند وستان الگ ہوا تھا ،اور جس پاکستان کا قائد اعظم نے خواب دیکھاتھا۔
’’پیغمبر انقلابﷺ نے فرمایا تھا کہ علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔ قائد اعظمؒ بھی اسی حدیث مبارکہ کی روشنی میں یہی تعلیمی نظام کے حق میں تھے۔ جن مذہبی لیڈروں نے قیام پاکستان کی مخالفت کی تھی ان کے مذہبی اور سیاسی وارثوں کے زیر انتظام دینی مدرسوں کے فارغ التحصیل تانیم فارغ التحصل طالبان نے طالبات کے کئی مدرسوں کو تباہ کر دیا اور اپنی مرضی کی شریعت کے مطابق قوم کی بیٹیوں پر علم کے دروازے بند کر دیئے۔ پاکستان کی بیٹی ملالہ یوسف زئی کے لئے نوبیل امن انعام کا اعلان دراصل حقیقی اسلام کی فتح اور قائد اعظم کے مشن کی کامیابی ہے اور ہتھیار بردار شریعت کے علمبرداروں کی ناکامی‘‘
انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا کے مطابق نوبل انعام ایک سوئیڈش سائنس دان الفرڈ بن ہارڈ نوبیل کی یاد میں دیا جاتا ہے۔ نوبیل 21 اکتوبر 1833ء میں سٹاک ہوم کے مقام پر جو کہ سوئیڈن کا دارالحکومت ہے پیدا ہوا اور 10 دسمبر 1896ء کو اٹلی میں فوت ہوا۔ نوبیل ایک کیمیا دان اور انجینئر تھا، ڈائنا مائٹ کا موجد اور اور سائنٹسٹ تھا ، جنگی آلات، بارود اور تار پیڈ وغیرہ پر تحقیقات کرتا رہا۔ بالا آخر اس نے جنگی آلات تیار کرنے والی دنیا کی سب سے نامور کمپنی بوفورز کمپنی خرید لی۔ ڈائنا مائٹ کے تجربات کرتے کرتے اس کے بھائی کی اور تین اور اشخاص کی موت واقع ہوئی، جو اس کے تجربات کی بھینٹ چڑھ گئے۔
مرتے وقت اس نے کچھ رقم مخصوص کر کے وصیت کی کہ فزکس، فزیالوجی، کیمسٹری، میڈیسن، ادب اور امن کے شعبوں اور میدانوں میں نمایاں اور امتیازی کارنامہ سر انجام دینے والے کو اس رقم کے سود میں سے انعام دیا جائے۔ اس کی وصیت کے مطابق ایک فاونڈیشن بنائی گئی جس کا نام نوبیل فاونڈیشن رکھا گیا، یہ فاونڈیشن ہر سال 15 انعامات دیتی ہے، ان انعامات کی تقسیم کا آغاز دسمبر 1901ء میں ہوا جو کہ الفرڈ نوبیل کی پانچویں برسی تھی۔
نوبل انعام ایک طلائی تغمہ اور سرٹیفکیٹ اور رقم پر مشتمل ہوتا ہے۔ وقف کی اصل رقم (اس زمانہ کہ ایکسچنج کے مطابق) تراسی لاکھ گیارہ ہزار ڈالر تھی۔ وصیت یہ کی گئی تھی کہ اصل رقم بینک میں محفوظ رہے گی اور اس کے سود سے انعامات کی رقم پانچ شعبوں میں مساوی تقسیم کی جائے گی، ہر شعبہ میں اگر ایک ہی آدمی انعام کا مستحق قرار دیا جائے تو اس شعبہ کے حصہ کی پوری انعامی رقم اس کو دی جائے اور اگر کسی شعبے میں ایک سے زائد افراد کے نام (جن کی تعداد تین سو سے زیادہ کسی صورت نہیں ہونی چاہیے) انعام کے لئے تجویز کیے جائیں تواس شعبہ کے حصہ کی سودی رقم ان افراد میں برابر تقسیم کر دی جائے، ایک شرط یہ بھی رکھی گئی کہ اگر مجوزہ شخص انعام وصول کرنے سے انکار کر دے تو اس کا حصہ اصل زر میں شامل کر دیا جائے۔
ان انعامات کی تقسیم میں تقسیم کنندگان کی کچھ سیاسی ومذہبی مصلحتیں کار فرما ہوتی ہیں اور جن افراد کو ان انعامات کے لئے منتخب کیا جاتا ہے، ان کے انتخاب میں بھی یہی مصلحتیں جھلکتی ہیں، چناچہ ان سینکڑوں افراد کے ناموں کی فہرست پر سرسری نظر ڈالئے جن کو نوبل انعام سے نوازا گیا تو ان میں آپ کو سب کے سب یہودی، عیسائی، اور دہرئیے نظر آئیں گے۔ سویڈن کے منصفوں کی نگاہ میں پوری صدی میں ایک مسلمان بھی ایسا پیدا نہیں ہوا جو طب، ادب، طبعیات وغیرہ کے کسی شعبہ میں کوئی اہم کارنامہ سر انجام دے سکا ہو، ہر شخص منصفان سویڈن کی نگاہِ انتخاب کی داد دے گا، جب وہ یہ دیکھے گا کہ رابند ناتھ ٹیگور ہندو کو بنگالی زبان کی شاعری پر، جاپانی ادیب کو اپنی زبان میں ادبی کارنامے پر اور جنوبی امریکہ کی ریاستوں کے باشندوں کے اپنی زبان میں ادبی کارناموں کو مستند سمجھتے ہوئے لائق انعام سمجھا گیا، لیکن ہندوپاک کے کسی ادیب، کسی شاعر اور کسی صاحب فن کی طرف منصفان سویڈن کی نظریں نہ اٹھہ سکیں کیوں صرف اس لئے کہ وہ مسلمان تھے؟؟ مثال کے طور پر حجۃ لاسلام مولاا محمد قاسم ناناتوی اور سرسید احمد خاں کو لے لیجئے جن دونوں نے ہندوستان میں تعلیم کے فروغ کے لئے کس قدر اہم کا کارنامہ انجام دیا ہے ہندوستان میں دینی اور عصری تعلیم کے فروغ کا سہر ا انہی دونوں شخصیتوں کے سر جاتا ہے ۔ علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کو لیجئے، پوری دنیا میں ان کے ادب وزبان کا غلغلہ بلند ہے۔ انگلستان کے نامور پروفیسروں نے ان کے ادبی شہ پاروں کو انگریزی میں منتقل کیا، لیکن وہ نوبل انعام کے مستحق نہیں گردانے گئے ہیں۔ہندو وستان کی جن شخصیات کو اب تک یہ انعام ملاہے ان سب کے پیچھے مغربی مفاد ہی کارفرماہے دور جانے کی ضرورت نہیں ہے اسی انعام میں دیکھ لیجئے کیلاش سیتارٹھی کو حقوق اطفال کی جنگ لڑنے کے لئے یہ ایوارڈ دیا گیا ہے کیوں کہ بچوں کے حقوق کے تئیں ان دنوں یورپ میں سرگرمیاں تیز ہیں۔ورنہ اور بھی لوگ ہیں جو ہندوستان میں فروغ امن کے برسوں سے جدوجہد کررہے ہیں۔
جہاں تک بات ہے ملالہ کی تو اس کو نوبل انعام اسلام اور پاکستان کو بدنام کرنے کے صلہ میں ملا ہے۔ڈارھی ، پردہ ، قرآن ، اسلامی تعلیمات ، جہاد اور علماء کا مذاق اڑانے کے صدقے میں ملالہ کو اس منزل تک پہچنے میں کامیابی ملی ہے ۔ ایک اسلام دشمن کو نوبل انعام سے نواز کر مغرب نے یہ کھلا اعلان بھی کیا ہے کہ صلیبی بادشاہ گروں کے ایوارڈز اور انعام و اکرام صرف اور صرف اسلام کے ننگِ دین و ملت کرداروں کے لئے دستیاب ہیں۔ ملالہ کا سب سے بڑا وکیل گورڈن براؤن وہی ہے جس نے عراق پر حملہ کرنے کیلئے نہ صرف برطانوی پارلیمنٹ میں ووٹ دیا بلکہ دھواں دار تقریر بھی کی تھی۔ جس کے نتیجے میں عراق پر وہ جنگ مسلط کی گئی جس نے لاکھوں لوگوں سے صرف تعلیم کا نہیں بلکہ زندگی کا حق بھی چھین لیا۔
ملالہ کے تئیں امریکہ اور یورپ کی اس تمام ہمدردی اور مہربانی کے پس پردہ ایک بہت بڑی سازش ہے ، جس اسکول وین پر اکتوبر 2012 میں طالبان کے ذریعہ ملالہ پر حملہ کا واقعہ دیکھایا گیا تھا اس کے فرضی ہونے پر اہم ترین ثبوت آچکے ہیں ۔لندن میں اس کے علاج کا سارا واقعہ بھی فرضی ہے ، ملالہ کے بہانے یورپ براہ راست اسلام اور پاکستان کے خلاف سازشوں کا جال بچھارہاہے۔بات کی اگر کی جائے ملالہ کے تعلیمی جدو جہد کی تواس کی حقیقت بس اتنی ہے کہ وہ سوات میں بچیوں کی تعلیم کے لئے گل مکئی کے نام سے اپنی ڈائری لکھتی تھی۔جس میں اس نے بچیوں کے لیے تعلیم کی ضرورت کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ طالبان کے اقدامات پر تنقید کی تھی۔گل مکئی کی یہ ڈائری ایک غیر ملکی خبر رساں ادارے نے نمایاں طور پر شائع کی تھی۔لیکن اس سے ہزار گنا ہ آگے پاکستان کی ایک ہونہار بیٹی عافیہ صدیقی کی خدمات اور قابلیت ہے جو ان دنوں امریکی جیل میں بند ہے حقیقت تو یہ ہے ملالہ کا عافیہ سے کوئی تقابل ہی نہیں کیا جاسکتا ہے ، لیکن عافیہ کے تئیں پاکستان حکومت خاموش ہے اس میں اتنی جرات وہمت نہیں ہے کہ وہ امریکہ سے اس کی رہائی کا مطالبہ کرسکے ۔پہلی مرتبہ آئی ایس آئی ایس نے امریکہ سے عافیہ صدیقی کی رہائی مطالبہ کیا ہے۔
امریکہ ملالہ کو بے شمار اعزازات واکرامات سے نواز کر اسے پاکستان کی سیاست میں لانا چاہتاہے ، ملالہ نے پاکستان کی سیاست میں آنے کا اشارہ بھی دے رکھاہے ، اس کے سیاست میں آنے کے بعد امریکہ اور یورپ کو پاکستان میں اپنی مرضی کے مطابق کام کرنے کا موقع ملے گا ، پاکستان کی اسلامی تحریکوں کوختم کرنے کی کوشش کی جائے گی۔مدارس کی خلاف تحریک چلائی جائے گی۔
ملالہ کیا چاہتی ہے ، اس کا نظریہ کیا ہے ، اسلام سے اس کا رشتہ کیساہے اور مستقبل میں وہ کیا کرنا چاہتی ہے ، اس کے عزائم کیا ہیں ۔ وہ سب کچھ ملالہ نے اپنی کتاب آئی ایم ملالہ میں لکھ دیا ہے ۔ چند اہم اقتباسات آپ بھی دیکھ لیں۔
’’سوات بدھ حکمرانوں کی مملکت تھا محمود غزنوی اپنے ساتھ اسلام لے آیا اور حکمراں بن بیٹھا۔ ہمیں بدھا کے مجسموں پر فخر تھا جنہیں طالبان نے توڑ دیا۔
جنرل ضیاء الحق ایک ڈراونا شخص تھا اسکی آنکھوں کے گرد پانڈہ کی طرح سیاہ حلقے تھے اور دانت ہوشیار باش کی حالت میں کھڑے نظر آتے۔ میرے والد کے مطابق ضیاء الحق سے پہلے ملا ایک نشان تمسخر ہوا کرتا تھا جو شادیوں میں کسی کونے کھدرے میں چھپا بیٹھا رہتا اور جلدی واپس چلا جاتا۔
ہمارے ملک میں ہاکی ایک نمایاں کھیل رہا ہے مگر ضیاء الحق نے عورتوں کو نیکر کے بجائے ڈھیلی ڈھالی شلواریں پہنا دیں۔
درسی کتاب دینیات کو اسلامیات میں بدل دیا گیا جو آج بھی رائج ہے۔مسجد کے مولویوں نے جہاد کو اسلام کا چھٹا رکن بنا دیا۔
پاکستان کو اسلام کا قلعہ کہا جانے لگا۔
ہماری درسی کتابوں میں یہودیوں اور ہندووں پر لعن طعن کی گئی۔
سلمان رشدی کی کتاب کے خلاف آئی ایس آئی کے ملا نے احتجاج شروع کیا ، لیکن میرے والد اس کے اظہار آزادی کے حق کو تسلیم کرتے تھے۔ہمارے شہر میں لوگوں کو لالٹین جتنی لمبی داڑھی اور عورتوں کو برقع پہننے پر مجبور کیا جاتا، برقع بھی ایسا جیسے شٹل کاک کے اندر چل رہی ہوں، گرمیوں میں ایک کیتلی کی طرح لگتا ہے‘‘۔
ملالہ نے ابھی سے وہ کام کرنا شروع کردیا ہے جو اب تک سلمان رشدی اور تسلیمہ نسرین کا ہاتھوں انجام پارہا تھا جس کا اہم ثبوت ملالہ کی کتاب کا یہ اقتباس ہے ۔
’’یہ کتاب سلمان رشدی کی’’دی سیٹانک ورسز‘‘ تھی، اور یہ نبی کی زندگی کی نقل تھی جسے بمبئی میں دکھایا گیا تھا۔ مسلمانوں نے بڑے پیمانے پر اس کتاب کو گستاخانہ سمجھا اور اس نے اتنا ہنگامہ کھڑا کیا کہ لوگ کسی اور چیز پر کم ہی بات کرتے۔ عجیب بات یہ تھی کہ کسی نے کتاب کی بارے میں اس جانب توجہ ہی نہیں دی کہ یہ حقیقتاً پاکستان میں فروخت کے لیے تھی ہی نہیں لیکن اردو اخبارات میں ایک ملّا، جو انٹیلی جنس سروس سے قریبی تعلق رکھتا تھا، کی جانب سے متعدد مضامین میں کتاب کو نبی کی شان میں گستاخانہ قرار دیا گیا اور کہا گیا کہ مظاہرہ کرنا اچھے مسلمانوں پر فرض ہے۔ جلد ہی پاکستان بھر کے ملّا کتاب کی مذمت کرنے شروع ہوگئے، اور اس پر پابندی عائد کرنے لگے، اور اشتعال انگیز مظاہرے منعقد کیے۔ سب سے پرتشدد مظاہرہ 12 فروری 1989ء کو اسلام آباد میں ہوا جہاں امریکن سینٹر کے سامنے امریکی جھنڈے نذر آتش کیے گئے، حالانکہ رشدی اور اس کی کتاب کا ناشر برطانوی تھے۔ پولیس نے مظاہرین پر فائرنگ کی اور پانچ افراد مارے گئے۔ اس کتاب پر غصہ صرف پاکستان ہی میں نہیں بلکہ دیگر ملکوں میں بھی تھا۔ دو دن بعد ایران کے رہنما آیت اللہ خمینی نے ایک فتویٰ صادر کیا جس میں رشدی کو قتل کرنے کا کہا گیا۔
میرے والد کے کالج میں اس معاملے پر ایک زبردست مباحثہ ہوا۔ کئی طلبہ نے مطالبہ کیا کہ کتاب پر پابندی عائد کردینی چاہیے اور اسے جلا دینا چاہیے اور فتویٰ درست ہے۔ میرے والد نے بھی کتاب کو اسلام کے حوالے سے ناپسندیدہ قرار دیا لیکن وہ آزادی اظہار رائے پر یقین رکھتے ہیں۔ سب سے پہلے کتاب پڑھیں اور پھر اس کا جواب کتاب سے کیوں نہ دیں،انہوں نے رائے دی۔ انہوں نے گرج دار آواز میں سوال کیا، ایسی آواز جس پر میرے دادا کو فخر ہوگا، کہ کیا اسلام اتنا کمزور مذہب ہے کہ وہ اپنے خلاف لکھی گئی ایک کتاب کو بھی برداشت نہیں کر سکتا؟ یہ تو میرا اسلام نہیں ہے‘‘۔
یہ ہے ملالہ کی حقیقت اور اصلیت جس کا اظہار ابھی سے شروع ہوچکا ہے ۔مسلمان لڑکی کالبادہ اوڑھ کر اسلامی شعائر کے خلاف ابھی سے اس نے تحریک چلانی شروع کردی ہے ۔اپنا آئیڈیل اور رہنما اس نے محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کو منتخب کرنے کے بجائے یورپی اور امریکی لیڈروں کو منتخب کیا ہے ۔اپنی پوری کتاب میں کہیں بھی اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام مبارک کے ساتھ صلاۃ وسلام نہیں لکھا ہے۔
ملالہ نوبل امن انعام حاصل کرنے والوں کی اسی صف میں ٹھیک ہے جس میں اسرائیل کے تین قاتل وزرائے اعظم بیگن، اسحق رابین اور شمعون پیرس بھی کھڑے ہیں۔ نوبل انعام لیتے ہوئے ان کے ہاتھ ہزاروں معصوم فلسطینیوں کے خون سے رنگے ہوئے تھے۔ اس فہرست میں عراق ، افغانستان ، اور پاکستان میں معصوموں کی جانیں لینے والا بارک اوباما اور مسلم امہ کا سب سے بڑا دشمن ہنری کسنجر بھی کھڑا ہے۔آئندہ دنوں میں ملالہ بھی یہی سب کچھ کرے گی اور انہیں مقاصد کے حصول کے لئے امریکہ اور یورپ کی ملالہ پر مسلسل مہربانی ہورہی ہے ۔

«
»

اب کیا کہا جائے گا داعش کے بارے میں؟

تھکن دور کرنے والی غذائیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے