بعد ازاں دہلی سے بھی ایسے واضح اشارے ملے تھے کہ جن کی وجہ سے مفتی سعید مفادات اور ننگ مراعات کی تزویر کے شکار ہوگئے کیونکہ جب انسان اقدار کو پسِ پشت ڈال دے تو ضمیر فروشی میں عار اور حجاب بھی سوا ہوجاتا ہے۔ تاہم یہ امر مسلم ہے کہ پی ڈی پی کے پاس اتحاد کے علاوہ اور کوئی راہ نہ تھی۔ گویا بقول شخصے
کافر نتوانی شد ناچار مسلماں شو
حکومت جس کی بھی ہو اور جیسی بھی ہو یہ سوال اہمیت کا حامل ہے کہ جو کچھ اتحاد اور اختلاط کے پسِ پردہ انجام پا رہا ہے وہ کس حد تک درست ہے؟ قرآنی پیغام روزِ ازل سے ہی ہمارے سامنے ہے ان اللہ لا یغیر بقوم حتی یغیروا بانفسہم لیکن واحسرتا ہم کسی اور خواب میں مست اور محو ہیں۔ ہم تمام تراکیب اور عوامل کی تلاش و تفحص میں سرگرداں ہوتے ہیں تاہم حتی یغیرو بانفسہم کی طرف کج نگاہی سے بھی دیکھنا گوارہ نہیں کرتے۔ ہماری سیاسی اور معاشرتی زندگی بے سمت گزر رہی ہے لیکن یغیروا بانفسہم سے خدا چاہی دوری کے شکار ہیں۔ جب ہم کامل اور اکمل طریقہ سے یغیروا بانفسہم پر عمل پیرا ہونگے تب ہی خدا کی رحمت اور بخشش جوشِ خاطر میں آئے گی۔ اس کو تازیانہ ہی تصور کیا جائے کہ پی ڈی پی کیساتھ بی جے پی اشتراک کے ساتھ حکومتی فرائض انجام دے رہی ہے۔ مسرت عالم کی رہائی اور پھر حراست کے تمام پیش آمدہ واقعات ہماری فکر کو اسی نقطہ کی طرف موڑ دیتے ہیں کہ حکومت میں غلبہ مخصوص فکر کے حاملین کی ہے۔ جب مسرت عالم کی رہائی ہوئی تھی تو جموں اور شمالی ہندوستان کے بعض دوسرے مقامات میں بھگوا دھاریوں نے جگہ جگہ زبردست احتجاج کیے بڑے بڑے بورڈ اور بینر لیے اشتعال انگیز فلک بوس نعروں سے آسمان کو سر پر اٹھا رکھا تھا کہ مفتی صاحب اپنے اصرار پر قائم رہیں تو سنگین نتائج بھگتنے کیلئے خود کو تیار رکھیں۔ یہاں موضوع مسرت عالم کی رہائی اور گرفتاری نہیں ہے بلکہ بھگوائیوں کا ذہنی دیوالیہ لب و لہجہ اور اشتعال انگیز رویہ ہے۔ اسی طرح جموں کے ایک جوگیاں نامی بستی کے مسلم قبرستان میں جہاں شر پسندوں کے حسب ایماء4 دنگل کرائے جانے کی اجازت دینا ہے مقامی مسلمانوں اور رہنماؤں نے صوبائی کمشنر کے دفتر کے احاطہ میں احتجاج درج کرایا ہے اور یہ الزام ثابت کیا ہے کہ مخصوص فکر کے ذی حیثیت افراد کی وجہ سے مسلمانوں کے جذبات سے کھلواڑ کو روا سمجھا جارہا ہے۔ الغرض یہی عیاں ہوتا ہے کہ شرپسندوں کے ایماء4 کی کار فرمائی یہاں بھی موجزن ہے۔ کبھی اس طرح کا واقعہ شمالی ہندوستان کے مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں پیش آتا تھا۔ لیکن اب یہ شکایت مل رہی ہے کہ جموں اور کشمیر میں بھی ایسا ہو رہا ہے۔ یہ تمام واقعات رونما نہ ہوتے اگر مخلوط حکومت قائم نہ ہوتی۔ ریڈیو کشمیر اور دیگر ذرائع ابلاغ نے مخلوط حکومت کے عواقب و نتائج کے ضمن میں بحث و مباحثہ کا انعقاد کیا تھا بڑے بڑے سیاسی تجزیہ کاروں نے شرکت کی تھی جس کا خلاصہ یہی تھا کہ مخلوط حکومت سازی سیاسی خود کشی کے مترادف ہے تاہم مفتی سعید اپنی ضد پر اڑے رہے اور برف کی دنیائیسرد و رنگا رنگ میں سیاسی آگ لگ گئی۔ راقم ماقبل میں ہی یہ واضح کرچکا ہے کہ مفتی سعید کے سامنے اس کے علاوہ اور کوئی دوسری راہ نہ تھی۔
جموں کشمیر بالخصوص وادی پر ہمیشہ ہی مرکزی حکومت کی روباہ نگاہ رہی ہے اور کبھی بھی اس کی نیت میں صدق کا شائبہ نہ ہوا اور ہوبھی کیوں کہ اس کا مقصد اصلی تو ابد تک کشمیر کو اپنے تزویرِ کفاری میں الجھا کر رکھنا ہے تو بھلا نفاقاً ہی سہی صدق کا اظہار کیوں ہو؟جوگیاں نامی بستی میں دنگل کرائے جانے کا صاف مقصد یہی ہے کہ انتشار پیدا ہو اور قتل و خون نیز غارت گری کی نئی داستاں رقم ہو جیسا کہ ماضی میں ہوتا چلا آ رہا ہے۔ مذہبی مقامات کا تحفظ اور اس کی تقدیس کو عموماً عوام کے باہمی ارتباط سے ہی یقینی بنایا جاسکتا ہے لیکن جب ابتدا سے ہی ارتباط کا فقدان ہوتو اس کی ضمانت نہیں لی جاسکتی پھر انتظامیہ کا فرض ہے کہ وہ آگے بڑھ کر مسئلہ کا حل پیش کرے تاہم یہاں تصویر مختلف ہے۔ انتظامیہ بیرونی دباؤ کی وجہ سے اپنے ممکنہ اقدامات سے یکلخت گریزاں ہے۔ اور اس گریز پائی کی وجہ جموں کشمیر میں بڑھتے مخصوص افکار کا تناسب ہے۔ اور یوں احساس ہوتا ہے کہ انتظامیہ خود اس میں اثباتی پہلو وضع کرچکی ہے۔ جوگیاں بستی میں واقع قبرستان ہی ایک واحد مسئلہ نہیں ہے بلکہ ان جیسے سینکڑوں واقعات ہیں جو مخصوص افکار کے بڑھتے غلبہ کو ثابت کرتے ہیں۔ جب جموں اوقاف کی فائل کا مطالعہ کریں تو اس کربناک صورتحال کا اندازہ ہوگا۔ کئی سو کنال وقف اراضی پر ناجائز قبضہ کرکے رہائشی علاقوں میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ ان گنت مساجد اور قبرستانوں کو بے نام و نشاں کر کے اسکولی عمارت تعمیر کی گئی ہے۔ ذرا ان تلخ حقائق کا گماں کیجئے کہ جموں ضلع کے میراں جاگیر نامی گاؤں کے 65 کنال اراضی پر محکمہ تعلیم نے قبضہ کرکے غیر قانونی اسکولی عمارت بنائی اور آج بھی اس سلسلے میں قانونی پیش رفت ایک قصہ فرسودہ ہے۔ اس کربناک تصویر کا دوسرا پہلو بھی ملاحظہ کریں آر ایس پورہ تحصیل میں 25 قبرستانوں اور مساجد کے احاطوں سمیت قابل کاشت اراضی پر قبضہ جمالیا گیا اور ستم تو یہ ہے کہ انتظامیہ خاموش تماشائی ہے۔ فوج کی کارستانی ملاحظہ ہو جموں سے بہت دور بالاکوٹ میں 50 کنال قبرستان کی اراضی پر قابض ہے۔ اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ اراضی ان کے آباء4 کی میراث اور ان کا ترکہ ہے۔ آخر ان تمام ناجائز قبضوں کا کون جوابدہ ہوگا کون ہے جو ان اراضی کو قابضین سے واپس لاسکے؟ جواب میں ہمیں کوئی فرد بشر نظر نہیں آتا کیونکہ ہم نے دانستہ یا نا دانستہ ان ملحقات سے خود کو وابستہ کرلیا جن سے گریز کا ہمیں آفاقی حکم ملا تھا۔ انتظامیہ بھی ایسی پالیسی اختیار کر رہی ہے جس سے قابضین کو تقویت ملتی ہے اور ان کو تفویض کئیجانے کے عمل کا آغاز نظر آتا ہے۔ ان تمام تناظر میں حقیقتاً انتظامیہ بھی ملوث اور گنہ گار ہے اور ایسا اسی وقت ممکن ہوتا ہے جب اندرونی حمایت بھی حاصل ہو۔
مخلوط حکومت کا ہی شاخسانہ کہہ لیں کہ دفعہ 370کو کالعدم اور غیر ضروری سمجھا جا رہا ہے قبرستان میں دنگل کی اجازت مل رہی ہے اور وسیع پیمانے پر وقف اراضی کو اپنی آبائی جائیداد سمجھ کر بے دریغ استعمال کیا جارہا ہے۔ مخلوط حکومت کی ہی کرشمہ سازی کہہ لیں کہ قبرستان میں دنگل منعقد کرکے عامتہ المسلمین کے جذبات سے دل لگی کی جارہی ہے۔ وقت رہتے ہوئے اگر ان مکروہ افعال پر قدغن نہ لگائی گئی تو یقیناً برف میں آتش فشاں پھوٹ پڑے گا اور جنت ارضی کسی جہنم کدہ کا نظارہ پیش کرے گی لہذا انتظامیہ اور حکمراں جماعت کو اپنی ذمہ داری اور فرائض کا خیال رکھ کر مناسب اقدامات کو لازمی تصور کرے ورنہ نتائج کی خود فریبی ریاست میں تزلزل پیدا کر سکتی ہے۔
جواب دیں