کیا آپ جانتے ہیں کہ بنگلہ دیش تیار لباس Ready Made Garments RMGکا سب سے بڑا سپلائیر ہے ؟اس کے معنی یہ ہیں کہ بنگلہ دیش سے غربت اور بیروزگاری کا خاتمہ ہو جا نا چاہیے ۔لیکن ایسا نہیں ہے ۔ اس کے باوجود کہ بنگلہ دیش ،وال مارٹ ،پولو،اَیرو اورمارکس اینڈ اسپنسر ، سمیت دنیا کے کم و بیش سبھی تیار ملبوسات کے بڑے ملٹی نیشنل اداروں کا ہول سیل آرڈر سپلایئر ہے ،خوش حالی اس کے لیے آج بھی ایک سراب ہے ۔ 2002 میں میک اِن بنگلہ دیش کی شروعات ہوئی تھی لیکن بنگلہ دیشی گارمنٹ فیکٹریوں کے کارکن جن کی اکثریت نوجوان لڑکیوں اور خواتین پر مشتمل ہے ،دنیا کے سب سے کم اجرت پانے والے کارکن ہیں جن کو علاج معالجے اور ناگہانی حادثے کی صورت میں کسی طرح کا کوئی بھی قانونی تحفظ حاصل نہیں ۔ مثال کے طور پر ایک پولو شرٹ جو کناڈا میں 14ڈالر میں فروخت ہوتی ہے وہ بنگلہ دیش میں 5.67ڈالر میں تیار ہوتی ہے جس میں سے ورکر کے حصے میں صرف 0.12ڈالر آتے ہیں ۔ یا مثلاً ایک ٹی شرٹ جس پر امریکی فیکٹری میں 13.22ڈالر لاگت آتی ہے جس میں ورکر کی مزدوری 7.47ڈالر ہوتی ہے وہ بنگلہ دیش میں صرف 4.70ڈالر میں تیار ہوجاتی ہے جس میں 0.22ڈالر مزدوریبھی شامل ہے !تو میک اِن تھرڈ ورلڈ کی کہانی یہی ہے کہ تیسری دنیا کی حد درجہ بد عنوان حکومتیں خود اپنے ہی عوام کے استحصال کی قیمت پر امریکہ اور یورپ کی کمپنیوں کو اپنے یہاں بلاتی ہیں انہیں نہایت سستی زمین اور بجلی اور تقریباً مفت پانی سپلائی کرتی ہیں اور مزدوری تو ہندستان ،پاکستان ،بنگلہ دیش اور افریقی ممالک میں کم و بیش ایک ہی جیسی کمترین اور اقل ترین ہے یعنی امریکہ اور یورپ کے مقابلے میں ۔ہر چند کہیں کہ ہے ،نہیں ہے ۔ کے زمرے میں آتی ہے۔
لیکن استحصال کی یہ افسوسناک کہانی یہیں ختم نہیں ہو جاتی ۔ تیسری دنیا کے خود غرض اور عوام دشمن حکمرانوں نے 1990 سے شروع ہونے والے لبرلائیزیشن ،گلو بلا ئیزیشن اور آزاد معیشت کے عہد میں اپنے لیبر قوانین کو عالمی کارپوریٹ دھنا سیٹھوں کی مرضی کے مطابق ڈھال دیا ہے یعنی کسی بھی طرح کے حادثے کی صورت میں اُن کی کوئی ذمہ داری نہیں ۔ اس کو بنگلہ دیش ہی کی مثال سے سمجھیے کہ وہاں پچھلے بارہ تیرہ برسوں کے دوران گارمنٹ فیکٹریوں میں آگ لگ جانے یا مخدوش عمارتوں کے منہدم ہو جا نے کیکم و بیش اتنے ہی واقعات ہو چکے ہیں جن میں سیکڑوں ورکر ہلاک اور زخمی ہوئے لیکن نہ کسی کو ایک ٹکا معاوضہ ملا اورنہ کسی فیکٹری مالک کو سزا ہوئی ۔سب سے بڑا حادثہ رانا پلازہ کے انہدام کا تھا جس میں بیک وقت پانچ گارمنٹ کار خانے تھے ۔ اس سانحے میں 1134ورکر ہلاک اور کئی سو زخمی ہوئے تھے لیکن کروڑوں ڈالر سالانہ کمانے والی کمپنیوں اور ان کے مقامی ایجنٹ کارخانہ داروں نے کسی مہلوک یا زخمی کو ایک ڈالر معاوضہ بھی نہیں دیا ۔ یہ سبھی حادثات محض اس وجہ سے ہوئے کہ ان کارخانوں میں مناسب اور لازمی حفاظتی انتظامات نہ ہو نے کے برابر تھے ۔ بنگلہ دیش کے گلو بلائیزیشن والے نئے لیبر قوانین اور نئی انڈسٹریل پالیسیاں ان صنعتی سانحوں کے دیگر اسباب ہیں ۔
مودی کے میک ان انڈیا کا حشر بھی بنگلہ دیش جیسا نہیں ہوگا ، اس کی ضمانت کون دے گا ؟
جواب دیں