تحریر ۔سید ہاشم نظام ندوی ایڈیٹر انچیف فکرو خبر بھٹکل اکیسویں صدی کی پہلی دہائی سے جہاں کئی ایک آن لائن لائبریریاں منظرِ عام پر آ رہی ہیں اورمختلف زبانوں میں الیکٹرانک برقی کتابیں ، ڈکشنریاں ومعلوماتی انسائیکلو پیڈیا تیار کی جا رہی ہیں ،وہیں انٹرنیٹ پر مجلات و رسائل اورجرائد و نیوز پیپر کاگرانقدر […]
اکیسویں صدی کی پہلی دہائی سے جہاں کئی ایک آن لائن لائبریریاں منظرِ عام پر آ رہی ہیں اورمختلف زبانوں میں الیکٹرانک برقی کتابیں ، ڈکشنریاں ومعلوماتی انسائیکلو پیڈیا تیار کی جا رہی ہیں ،وہیں انٹرنیٹ پر مجلات و رسائل اورجرائد و نیوز پیپر کاگرانقدر مواداور معلومات افزا خزانہ بھی صارفین کومیسرہواہے ۔جس سے اطلاعات کا سلسلہ بھی لمحہ بہ لمحہ روز افزوں ہے،خبریں بڑی تیزی سے آن کی آن میں پہنچ رہی ہیں۔جس کی بہ دولت زبان و ادب کا گنجہائے گرانمایہ اور تہذیب و ثقافت کاقیمتی سرمایہ شائقین ِعلم وفن کو گھر بیٹھے بیٹھے ملنے لگا،جو "دنیا کی سیر کیجیئے گوشہ میں بیٹھ کر" کے مصداق ہے اور دنیائے علم و ثقافت میں اس قدرپیش رفت ہوچکی ہےکہ بچوں سے لے کرعمر رسیدہ لوگوں کے لئے الگ الگ پیمانہ پر کوششیں جاری ہیں ۔جس کا ایک چھوٹا سا مظہرشہرِ بھٹکل سےعربی زبان میں" مجلۃ الروضۃ " کے نام سےمنظرِ عام پر آ چکا ہے ۔
اس مجلہ کی ادارت میں جامعہ اسلامیہ بھٹکل کےچند ایسے جواں سال اور جواں ہمت اساتذہ کی ایک جماعت نظر آ رہی ہے، جن کی فکر اورتحریر کا محور اسی جامعہ کا مرہونِ منت ہے، جو اسی مادرِ علمی کے فیض یافتہ ہیں، اسی کے پروردہ اور اسی گلستاں کے خوشہ چیں اور ساختہ و پرداختہ ہیں، گویا یوں از اول تا آخر مادرِ علمی جامعہ ہی کی کوششوں کاایک مظہر اور"ادارہ ادبِ اطفال بھٹکل" سے جڑے بلکہ اس کی تعمیر و ترقی میں شامل علماء کی کاوشوں کا ایک تسلسل ہے ۔گویا اسی کا ایک بڑھتا قدم " مجلۃ الروضۃ" کی شکل میں قارئین کے سامنے ہے، ابھی اس کا یہ عربی شمارہ ہے،کوششِ حرفِ بسم اللہ ہے،جو اپنے طرز کی فکرِ نو اور سعئ جمیل ہے، ان شاء اللہ اسی طرز پر عالمی زبان انگریزی اور ریاستی زبان کنڑا میں بھی شروع کرنے کا ارادہ ہے، جس کے لئے کوششیں درکار ہیں، بہت جلد نہ سہی کچھ عرصہ بعد نکالنے کا ارادہ ہے ۔
مجلہ کو دیکھ کر مضامین کا خوشگوارتنوع اور ان کا حسن انتخاب پسند آیا ، صحابئ رسول اور اسلامی مختلف ادوار سے شخصیات اورتاریخ کی مثالیں سامنے آئیں،اسی طرح یہ مجلہ ادبِ اطفال کے پیشِ نظرکارٹون کی زبان میں تصاویر سے مزین ہے،طرائف و امثال اور زبان کی چاشنی کے لئے ادبی شہپاروں کا اضافہ بھی اس مجلے کے امتیازی محاسن ہیں،۔ مجلے کے مشمولات کو دیکھنے سے اس کے روشن مستقبل کا پتہ چلتا ہے، ان شاء اللہ مزید کوششوں سے جگمگاتی ہوئی یہ سطریں اور تخلیقی تحریریں مادیت پرست ذہنوں کی تطہیر و تنویر میں مؤثر کام کریں گی اور دلوں کی دھڑکنوں سے ہم آہنگ ہو کر قارئین کو مسحور کر دیں گی۔ پرورشِ لوح و قلم میں مصروف قلم کار اپنی خوابیدہ علمی اور ادبی کوششوں کو زیب قرطاس کرنے میں پیہم مصروف رہیں گے ، بالخصوص پوری دنیا میں پہلی کورونا کی وبا کے اس عرصہ میں وقت سے استفادہ کی غرض سے بڑھتا ہوا قدم فالِ نیک ثابت ہوگا اور انہی کوششوں سے نئے عزائم و حوصلوں سے لبریز نوجوان علماء و فضلاء کی سر پرستی میں عربی زبان میں کچھ اہلِ قلم ہماری سرزمین سے جنم پائیں گے، جن کے ذریعہ تاریخِ دعوت و عزیمت کی ایک نئی تاریخ رقم کی جائے گی۔
جب اپنا قافلہ عزم و یقیں سے نکلے گا
جہاں سے چاہیں گےرستہ وہیں سے نکلے گا
وطن کی خاک مجھے ایڑیاں رگڑنے دے
مجھے یقیں ہے چشمہ یہیں سے نکلے گا
البتہ اگرعربی رسم الخط میں تبدیلی لائی جائے تو اس کا حسن دو بالا ہو سکتا ہے۔اسی طرح اس کی برقی اشاعت کے بعد اگلے مرحلہ میں طباعت کو بہت جلد یقینی بنانے سے اس کی افادیت دو چند ہو سکتی ہے ، اس لئے کہ پرنٹ ایڈیشن کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے،اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا ۔
مجلۂ ”الروضۃ“ کی ادارت و صحافت میں شامل سب ہی علماء سپاس وشکریےکے مستحق ہیں کہ وہ اس نایاب اور بیش بہا قلمی و صحافتی ذمہ داریوں کو سنبھالتے ہوئے اسے منظر عام پر لے آئے ۔ جو در اصل کورونا وائرس کی وبائی مرض سے بچنے کے لئے " لاک ڈاون" میں گھر بیٹھتے رہنے کو ترجیح دینے اور نوخیزانِ ملت کو علمی کاموں میں مشغول رکھنے کے لئے کے ایک کامیاب کوشش ہے۔ ان شاء اللہ ڈاکٹر عبد الحمید اطہر ندوی کی حسن سرپرستی میں یہ قافلۂ ادب و صحافت فکر و فن کی تقدیس کے ساتھ ساتھ علم وعمل کی سر بلندی سے نوخیزانِ ملت کی تعلیم و تربیت اور اسلامی صحافت کا یہ سفر طے کرے گا ۔جس میں مولانا فیض احمد اکرمی ندوی کے فیض سے اس کی ادارت کو تقویت ملے گی اور مجھے یقین ہے کہ توفیقِ الہی سے ان کے معاونین میں مولانا ابراہیم رکن الدین ندوی، مولانا فواز منصوری ندوی ،مولانا محمد صہیب کولا ندوی، مولانا احمد کبیر ندوی، مولانا عبدالرشید شہراز ندوی، اور مفاز شریف ندوی جیسے اہلِ قلم کی شمولیت سے یہ کارواں مسلسل سوئے منزل رواں دواں رہے گا ، تشنگانِ علم و ادب اس سے سیراب ہوں گے، علاقائی یا ملکی سطح پر ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پرنئے نئے موضوعات پر بچوں کا ادب دریافت کرے گا ،مادیت کے نئے فکری افق پر اسلامی فکر کو غالب کرے گا، پُر اثر اور متنوع موضوعات پر تحریروں اور جاذب نظر تمثیلی تصویروں کے ساتھ ادبِ اطفال کی ترویج و اشاعت میں اہم کردار ادا کرنے میں اپنی مثال قائم کرے گا۔
محترم قائین : ۔دنیائے علم و ثقافت میں کتابوں، جرائد ورسائل اور مجلات وغیرہ کا پرنٹ ایڈیشن سے لے کر الیکٹرونک ایڈیشن تک کا یہ سفر قابلِ مبارک باد ہے ، کتاب و قلم ہی سے شعوری یا لا شعوری طور پر فکریں ڈھلتی ہیں، تہذبیں بنتی ہیں، شخصیات تیار ہوتی ہیں، قوموں کی تقدیریں بدلتی ہیں اور یقینا موجودہ دور میں نیٹ ورک کی دنیا اور صحافت و میڈیا ہی اس میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے، صحافت وکتابت کے گہرے نقوش و اثرات ذہن و دماغ پر ثبت ہوتے ہیں، اسی کے ذریعہ ہی لوگوں کے ذہنوں کو صیقل کیا جا سکتا ہے، ان کے ذہن و دماغ کو صحیح اور غلط رخ کی طرف موڑا جا سکتا ہے،کتابت و صحافت کو شریعت سے جوڑنا اور اس کے لئے ہر ممکن کوشش کرنا علمائے کرام اور اہلِ علم و قلم کی ذمہ داری ہے ۔ اسی لئے مفکرِ اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن ندوی رحمۃ اللہ علیہ نے اسلامی ادب کی ترویج کے لئے اپنی زندگی وقف کی ، دار العلوم ندوۃ العلماء کے بنیادی پیغام اور فکرِ ولہی اللہی کی ترویج کی، اس کے لئے علم و ادب کا گنج ہائے گراں مایہ تحریر فرمایا،درسی کتابیں ترتیب دی، نصابِ تعلیم کو نیا رخ دیا ،اپنے معاونین کے ساتھ مجلۂ " البعث الاسلامی" اور جریدۂ " الرائد" کے اجرا سے عربی ادب وصحافت میں گراں قدر اضافہ کیا،اردو صحافت میں " تعمیر حیات" کو نئے افق سے آشنا کیااور "مجلسِ صحافت و نشریات" و " رابطہ ادبِ اسلامی" کا قیام کر کے علماء و محققین اور دانشورانِ قوم وملت کو اسلامی صحافت سے جوڑنے کی کامیاب کوشش تھی۔
ہم اسی جامعہ کے فرزندان کے قائم کئے اورانہی کی سرپرستی میں چلنے والے ادارہ "فکر وخبر" اور " ادارہ ادبِ اطفال " کی طرف سے ان اصحابِ علم وقلم اور اساتذۂ جامعہ کو تبریک و تہنیت پیش کرتے ہیں ، جنہوں نے لاک ڈاون کے اس عرصہ میں اپنی مختصر سی کوشش سے لائق و فائق فرزندان ہونے کا ثبوت ہی نہیں دیا بلکہ اپنی فرزندگی کی مثال بھی قائم کر دی، جو بڑھ کر خود اٹھا لے ہاتھ میں مینا اسی کا ہے کی طرف پیش قدمی کر دکھائی، اپنی سعادت مندی اور فیروز بختی کا ثبوت فراہم کیا، دعا ہے کہ ثقافتی اور علمی میدان میں ان کی بازیابی کو خالقِ کائنات کی طرف قبولیت کی شرف یابی ملے ۔ ہمیں یقین ہے کہ اس ابتدائی کوشش کو قارئین پسند فرمائیں گے اورخدا کرے کہ ہر شائقِ علم اورر ہروِ فن و ادب اس کی قدر کرے، کام کرنے والوں کو حوصلہ فراہم کرے، ان کی ہمت افزائی کرے، قدم سے قدم ملا کر ساتھ رہنے کا ثبوت دیں، تاکہ یہ ایک چھوٹی سی کوشش پورے ملک ہی نہیں بلکہ عالمِ اسلام کے لئے مثالی بنے، اس کا خیر عام ہو جائے ۔
ہم وارثانِ لوح وقلم کو بھی ہو عطا یارب جہادِ حرف و قلم کا شرف کوئی
ہماری دعا ہے کہ اس مجلے کے ذریعہ نوخیز اہلِ قلم اور اساتذۂ جامعہ اسلامیہ کی تابانیوں اور قلمی کاوشوں کا سلسلہ جاری رہے ، اہلِ بھٹکل اور طلبائے جامعہ ہی نہیں بلکہ مدارسِ اسلامیہ اس فیض سے مستفیض ہوتے رہیں، قارئین وصارفین کی مرسلہ تجاویز وتبصرے یا مشورے بھی ادارہ کی بہتری و ترقی اور فروغِ ادبِ اطفال کی راہ میں ممد و معاون ثابت ہوں گے ۔ ہم ان کی علمی کاوشوں اور صحافتی کوششوں کو سلام کرتے ہیں اور ان کو عالمی سطح پر آسمانِ علم ادب اور فن وثقافت پر بہت بلند دیکھنے کے متمنی ہیں،مجلہ کے قلمی معاونین سدا شاد و آباد رہیں۔
والسلام
تحریر کردہ : ۔ 5 جولائی 2020 عیسوی ۔
بمقام : ۔ رہائش گاہ ۔ دبئ ۔ متحدہ عرب امارات
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں