مفتی عبد المنان قاسمی دیناج پوری
اس کار گاہِ عالم میں انسانیت کی بود وباش ابو البشر سیدنا حضرت آدم علیہ السلام سے ہوئی، اُن ہی سے انسانیت کی رہنمائی کا سلسلہ بھی جاری ہوا، یعنی وہی سب سے پہلے پیغمبر بھی ہیں۔ پھر یہ سلسلہ دراز سے دراز تر ہوتا چلاگیا اور انسانوں کی آبادی بڑھتی اور پھیلتی چلی گئی۔ خداوند قدوس نے اس عالم کو وجود بخشنے کے بعد اس میں طرح طرح کی مخلوقات کو وجود بخشا اور سب کو انسانوں کا خادم بنادیا۔ انسانوں کی ضروریات کی تکمیل کے لیے نہ جانے کتنی مخلوقات روز پیدا ہوتی اور اپنا فریضہ ادا کرکے فنا کے گھاٹ اترجاتی ہیں۔ خود انسان بھی آتے جاتے اور خدائی دستور اساسی پر عمل پیرا ہوکر موت کے راستے سے پردۂ عدم میں جاکر چھپ جاتے ہیں۔
انسانیت کی رہنمائی کا یہ سلسلۃ الذہب سیدنا آدم علیہ السلام سے شروع ہوکر خاتم الانبیا وسید المرسلین حضرت لولاک علیہ افضل الصلوات والتسلیمات تک چلا اور پھر بالآخر اس سلسلہ کا بھی انقطاع ہوگیا؛ لیکن انسان کو ابھی اور بھی آباد رہنا ہے اور جب تک قیامت نہیں آجاتی، تب تک اس کی رہنمائی کی ضرورت برقرار رہے گی، اسی لیے اللہ رب العزت نے اس کا بھی انتظام فرمادیا، کہ حضرتِ باعثِ کن فکاں علیہ ازکیٰ التحیات والتسلیمات کی امت اجابت کے علمائے کرام کو وراثتِ نبوی عطا فرمادی گئی اور قیامت تک آنے والی امت تک کے لیے رہنمائی ورہبری کا سامان مہیا فرمادیا۔
رہبرانِ قوم وملت اور مراکز علم وعشق کا سلسلۃ الذہب:
اس قرار واقعی تمہید کے بعد یہ بات قابل لحاظ اور لائق توجہ ہے کہ اس امت میں جو علمائے کرام کو رہبری ورہنمائی کا فریضہ سونپا گیا ہے، وہ تیار کیسے اور کہاں سے ہوں گے؟ظاہر ہے کہ اُن کے لیے کوئی غیبی نظام اور خرقِ عادت کوئی مخفی سلسلہ نہیں ہے، جہاں سے وہ تیار ہوکر لوحِ کائنات پر رونما ہوجائیں۔ واضح ہے کہ اس کے لیے ابتدائے اسلام ہی سے تعلیم وتعلم کا راستہ ہی اختیار کیا گیا ہے، امت کے علمائے کرام نے جہاں ملت کی رہنمائی ورہبری کا فریضہ دوسروں کو صحیح راستہ اور اَوامر کے امتثال اور نواہی سے اجتناب کی راہ دکھا کرانجام دیا، وہیں رجال سازی ومردم گری کی بیش قیمتی خدمت بھی انجام دی، اور جہاں یہ علمائے کرام تعلیم پاتے ہیں، وہ مراکز علم ودانش اور میکدۂ عشق ومعرفت کہلاتے ہیں۔
جہاں علم وعشق کے میکدوں کی تاریخ بڑی طویل ترین، نہایت ہی پُربہار، جذّاب، دل نشیں اور روشن وتابناک ہے، وہیں انتہائی اہمیت کی حامل، لائق التفات اور قابل توجہ واعتنا بھی۔ ہر دور میں مراکز علم ودانش کی ایک بڑی تعداد رہی ہے، جہاں سے علم ومعرفت کے سوتے پھوٹتے ہیں، حکمت وبصیرت کے آبشار اپنی مکمل رعنائی وزیبائی اور تابانی کے ساتھ بہتے ہیں، فہم وفراست اور ذکاوت وذہانت کی ندیاں نکلتی ہیں، انسانیت سازی، مردم گری اور ذرہ کو آفتاب وماہتاب بنانے والی ہوائیں چلتی ہیں، الفت ومحبت، اخوت وبھائی چارگی، اتحاد ویک جہتی، ملکی وملی اور قومی اقدار وروایات کے تحفظ، تہذیب وتمدن اور ثقافتوں کی حفاظت کے راستے کھلتے ہیں۔ الغرض! ذہن ودماغ کے بند دریچے کھلتے، سنورتے اور نکھرتے ہیں۔
ہندوستان مسلم دور حکومت میں:
وطن عزیز ہندوستان کو بھی اس میدان میں شرف وفضیلت اور امتیاز حاصل رہا ہے، پہلی صدی ہجری ہی سے یہاں اسلام کی روشن تعلیمات نے اپنی جگہ بنالی تھی اور اپنے پیغام کی تازگی وپاکیزگی اور انسانیت کی ہمہ جہت رعایت ورہنمائی، نیز فطرت انسانی کے عین مطابق ہونے کی وجہ سے بہت جلد قبولیت ومقبولیت حاصل کرگئیں، جس کا لازمی تقاضا یہ تھا یہاں بھی انسانیت ساز ادارے اور مراکز علم ودانش کا قیام ہو؛ چناں چہ دن گزرتے گئے اور بہ قدر ضرورت ادارے بھی قائم ہوتے چلے گئے؛حتی کہ مسلمان اس ملک کے سفید وسیاہ کے مالک ہوگئے اور چوطرف اُن کا طوطی بولنے لگا۔ ملک میں امن وامان کا بسیرا ہوگیا، امیر وغریب اور رنگ ونسل کا امتیاز مٹ گیا، ہر کسی کو پڑھنے لکھنے اور تعلیم حاصل کرنے کا حق مل گیا، دولت وثروت میں شہرۂ آفاق حاصل ہوا، یہاں تک کہ ہندوستان ’’سونے کی چڑیا‘‘ کہلانے لگا۔
ہندوستان دورِ غلامی میں:
حکومت کے زیر اثر ملک بھر میں اسلامی تعلیمی ادارے پھیل گئے اور تعلیم وتدریس کے میدان میں نمایاں مقام حاصل ہوگیا۔ یہ سلسلہ جاری ہی تھا کہ سترہویں صدی عیسوی میں انگریزوں کی ہندوستان آمد بہ غرض تجات ہوئی اور دیکھتے دیکھتے اُن کے ناپاک ارادے اپنا اثر دکھانے لگے۔ پھر کیا تھا ملک بھر میں انگریز عیاروں نے اپنا قبضہ جمالیا اور ہندوستان کو غلامی کے شکنجے میں جکڑدیا۔ اور ۱۸۵۷ء؍ میں سلطنت مغلیہ کے ٹمٹماتے ہوے چراغ کے غل ہوجانے کے بعد تو ہندوستانی اقوام کی رہی سہی چین وسکون خاکستر ہوگئی، امن وامان اور تحفظ کی عمارت ملیامیٹ ہوگئی، اقدار وروایات اور تہذیب وثقافت کی عمارت زمیں بوس ہوگئی، ہندوستانی اقوام کی اپنی شناخت پر انگریزی چھاپ لگانے کی کوششیں ہونے لگیں، تمام اقوام وملل کو ایک عیسائی رنگ میں رنگنے کا خواب دیکھا جانے لگا اور اس کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے لیے اسباب ووسائل کی فراوانی کی جانے لگی۔
یہ ایسا وقت تھا کہ ہندوستانی اقوام سے نہ صرف حکومت چھینی گئی تھی؛ بل کہ ان کے دین ومذہب اور عقیدہ وایمان کی دولت کو بھی چھینے کی سعئ پیہم ہونے لگی۔ دینی اور دنیاوی؛ ہر دو اعتبار سے ہندوستانی اقوام مصائب سے جوجھ رہی تھیں۔اپنے اپنے قومی وملی اقدار وروایات کے تحفظ کے لیے اقدام تو درکنار، کوئی اس کے بارے میں سوچنے کو بھی تیار نہیں تھا، عوام وخواص سبھی اضطراب اور دوراہے پر کھڑے تھے، کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کدھر جائیں اور کیا کریں۔
قدرت نے کیا ایک جوہر فرد کا انتخاب:
ایسے پُر آشوب، پرفتن، پر آزمائش دور میں اللہ تعالی نے ملت اسلامیہ ہندیہ کے لیے ایک جوہر فرد کا انتخاب فرمایا اور اس نے اپنی خداداد صلاحیت اور اپنی حرارت پوستی سے اُس زہر ہلاہل اور سِمِّ قاتل کا تریاق دریافت کرلیا۔ جس سے راقم الحروف کی مراد حجۃ اللہ فی الارض، حجۃ الاسلام، معدن الحقائق، مخزن الدقائق، مجمع المعارف، مظہر اللطائف، جامع الفیوض والبرکات، قاسم العلوم والخیرات، حضرت الامام حضرت اقدس مولانا محمد قاسم النانوتوی نور اللہ مرقدہ، بانئ دارالعلوم دیوبند کی علمی، عملی، فکری، عبقری وآفاقی اور انقلابی شخصیت ہے۔
حجۃ الاسلام حضرت الامام النانوتویؒ اور تاسیس دارالعلوم دیوبند:
حضرت الامام النانوتویؒ نے ایسے وقت میں آنکھیں کھولیں، جب اسلامیانِ ہند ایسے زوال پذیر حالات سے گزر رہے تھے، کہ مستقبل کی کوئی امید، امنگ اور نوید باقی نہیں تھی۔ آپ نے اپنی بے پناہ خداداد صلاحیت، مستقبل بینی، دور اندیشی اور غیر معمولی فطری قابلیتوں کے ذریعہ آنے والے بگاڑ اور زوال کا ادراک اور اندازہ کرلیا، کہ جہالت وناخواندگی، بے راہ روی ودین بے زاری اور خدا بے زاری کی جو فضا قائم ہے، اگر ابھی سے اس کے مقابلہ کا منصوبہ نہیں بنایا گیا، اور اس آنے والے طوفان بلاخیز کے روک تھام کا بند وبست اور فکر وکوشش نہیں کی گئی، تو حالات کا یہ بہاؤ، بگاڑ کا یہ سامان اور یہ زوال پذیر روش، ملک وملت اور باشندگانِ وطن عزیز کو اپنے ساتھ بہا لے جائے گی، اور پھر اس درخت کے تنے مضبوط کرنا، نئی پود اور نئی نسل اور اس کی شاخوں کو تراش وخراش کی بات تو دور، اس کی جڑوں کا تحفظ بھی دشوار ہوجائے گا۔
ان کے سینے میں خدا کا آخری پیغام تھا
وہ خدا کی سر زمین پر حجۃ الاسلام تھا
حضرت الامام النانوتویؒ نے ان حالات کا ادراک فرمالیا اور پھر ان کے تدارک اور ملک وملت کو تحفظ فراہم کرنے کی فکر نے آپ کو بے چین ومضطرب کردیا۔ اسی لیے آپ نے اپنی پوری زندگی ملک وملت کا تحفظ، دفاع عن الدین اور اس کو اپنی شکل وصورت میں باقی رکھنے کی فکر میں صرف کردیں۔
صاحب زادۂ حکیم الاسلام خطیب الاسلام حضرت مولانا محمد سالم قاسمی صاحب نور اللہ مرقدہ رقم طراز ہیں:
‘‘حضرت الامامؒ کی یہ قیادتِ اسلامیہ جس کی صحت پر وقت کی نزاکت من جانب اللہ مہر تصدیق ثبت کرچکی تھی، اس کی عملی تشکیل میں بے سروسامانی کے علاوہ سب سے بڑی رکاوٹ یہ تھی کہ انگریزوں نے برِّ صغیر کی حکومت چوں کہ مسلمانوں سے چھینی تھی؛ اس لیے اپنے غاصبانہ اقتدار کی تاراجی کے بارے میں انگریز اگر خائف تھا، تو صرف مسلمانوں ہی سے تھا، اسی خطرہ وخوف کے تحت اس نے ۱۸۵۷ء؍ میں مکمل تسلط کے بعد مسلمانوں کے بر خلاف قتل وغارت گری، لوٹ مار، اور جائدادوں اور جاگیروں کی ضبطی کو اپنے ظالمانہ اقتدار کی برقراری کا واحد ذریعہ قرار دے کر ان کو دانہ دانہ کا محتاج بنادیا؛ لیکن دین وایمان پر اپنا سب کچھ قربان کرنے والے، اور حریت طلبی کو قومی، ملکی اور سیاسی ضرورت سے آگے بڑھ کر مذہبی اور دینی فریضہ باور کرنے والے، قائلینِ ’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ‘‘ کو بے تحاشا ظلم وستم کی گرم بازاری ، آزادئ وطن کے لیے جرأت مندانہ اقدامات سے روکنے میں حکومتِ وقت کو ذلت ناک ناکامی سے دوچار ہونا پڑا۔ جس کا انگریز نے ایک دانا دشمن کی حیثیت سے گہرا جائزہ لے کر اس حقیقت کو پالیا کہ مسلمانوں کے آزادئ وطن کے جذبۂ صادق کو ناقابلِ شکست قوت وطاقت دینے والے صرف یہ مدارس ہیں، جن کا باقابلِ شمار تعداد میں ملک بھر میں جال پھیلا ہوا ہے۔‘‘(مقالات خطیب الاسلام، غیر مطبوعہ)
آپ نے ملک وملت کے تحفظ کے لیے مختلف کوششیں کیں اور متعدد حربے اپنائے؛ لیکن جب خاطر فائدہ نظر نہیں آیا، تو آپ نے اپنی توجہات کا رخ رجال سازی کی طرف موڑ دیا اور اس کے لیے ۱۵؍محرم الحرام ۱۲۸۳ھ/ مطابق ۳۰؍مئی ۱۸۶۶ء؍ کو دارالعلوم دیوبند قائم فرماکر ملک وملت کے تحفظ کا سامان فراہم کردیا۔ آج آزاد ہندوستان کی تاریخ اِن مخلصین کے تذکرہ کے بغیر ادھوری اور ناقص ہے۔ اکابر دارالعلوم دیوبند کی دینی، علمی، علمی، ملی، سیاسی، سماجی، رفاہی، فلاحی خدمات اور کارنامے عالمی طور مسلَّم اور لائق صد تشکر وامتنان ہیں۔
تقریب صد سالہ:
دارالعلوم دیوبند اپنی ہمہ جہت خدمات میں مصروف تھا، یہاں تک کہ ایک صدی بیت گئی۔ایک صدی کی تکمیل کے بعددارالعلوم دیوبند کے ارباب حل وعقد اور اصحاب فکر وفن نے اس کی ہشت پہل خدمات اور بانیان سے لے کر اُس وقت تک کی شخصیات کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے نبیرۂ حجۃ الاسلام، صاحب زادۂ فخر الاسلام، حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحبؒ ، مہتمم دارالعلوم دیوبند کی قیادت وسیادت میں ۱۹۸۰ء؍ میں ’’اجلاس صد سالہ‘‘ کا فیصلہ لیا۔ اجلاس صد سالہ نے اپنی تمام تر جلوہ سامانیوں اور نور افشانیوں کے ساتھ کامیابی کی ساری منزلیں طے کرلی اور عالمی وآفاقی طور پر داد ودہش اور تحسین وآفرین بھی حاصل کی۔
دارالعلوم وقف دیوبند:
اُس کے بعد تاریخ نے ایک نیا موڑ لیا اور دارالعلوم دیوبند پر نظر بد لگ گئی۔ ۱۴۰۲ھ/ ۱۹۸۲ء؍ میں دارالعلوم دیوبند میں وہ روح فرسا سانحہ پیش آیا، جس کا تذکرہ کرتے ہوے بھی کلیجہ منھ کو آجاتا ہے،جس نے بھی اس واقعہ کو دیکھا، یا اس کے بارے میں سنا اور پڑھا ہے، وہ اس کی سنگینی کو محسوس کرسکتا ہے۔ پچاسی علما وکارکنانِ دارالعلوم دیوبند سر خیل علمائے دیوبند، مسلک ومشرب دیوبند کے روح رواں، فکر دیوبند کے ترجمان، علوم قاسمی کے شارح حضرت حکیم الاسلامؒ کے ساتھ دارالعلوم سے باہر آگئے اور اس قضےۂ نامرضیہ اور انقلاب کے بعد دارالعلوم دیوبند کی نشأۃِ ثانیہ بہ شکل ’’دارالعلوم وقف‘‘ دیوبند ہوئی اور بے سروسامانی کے عالم میں کبیدہ خاطر اور رنجیدہ دل علما نے جامع مسجد دیوبند میں حضرت حکیم الاسلام علیہ الرحمہ کی قیادت میں درس وتدریس کا سلسلہ شروع کردیا اوراللہ پر توکل کرتے ہوے طالبانِ علوم نبوت کو سیراب کرنے میں مصروف ہوگئے۔ نہ طلبہ کے رہنے کا انتظام، نہ کھانے کا بند وبست، نہ کتابیں، نہ تپائیاں اور نہ اساتذہ کے لیے تنخواہ ودیگر ضروریات کا کوئی نظم ونسق۔
حضرت حکیم الاسلامؒ ، دارالعلوم اور انقلاب دارالعلوم:
نبیرۂ حجۃ الاسلام، صاحبزادۂ فخر الاسلام، عارف باللہ حکیم الاسلام حضرت اقدس مولانا قاری محمد طیب صاحب قاسمی، نور اللہ مرقدہ، سابق مہتمم دار العلو م دیو بند، جن کا نام نامی اسم گرامی زبان پر آتے ہی دل ودما غ پر علم وعمل، فضل وکمال، حکمت ومعرفت، فہم وفراست، لطا فت ونفاست، طہارت وپاکیزگی اورجسم وجاں کا ایک گلشنِ صد رنگ اور قلب وروح کی ایک نفیس و لطیف اور حسین ودل فریب فردوس بریں، ہزاروں دلوں کی طمانینت اور بے چین روحوں کی تسکین وتازگی کا سامان لیے ہوئے معصومیت کے پیکر میں جلوہ گر ایک دیدہ زیب تصویر ابھر آتی ہے۔ آپ مسلک دیوبند کے عظیم شارح، دیوانِ حکمت قاسمیہ کی جنس نایاب، بیان وخطابت کے شیشے میں شراب طہور، الفا ظ کو خاتم کلام پر نگینہ بنا کر جڑ دینے کا ہنر مند، اپنے وقت کے رازی وغزالی، فخرِ روزگا ر علما و صلحا کی یا د گار، سلفِ صا لحین وبزرگان دین کا تذکا رِ جلیل اور نقش جمیل تھے۔
حکیم الاسلام علیہ الرحمہ کی شخصیت ایک شفاف ابلتے ہوئے چشمے کی مانند تھی، جس سے کتنی شفاف نہریں نکل کر سینکڑوں کشت زاروں اور چمنستانوں کی سرسبزی وشادابی اور شبابی ورعنائی کا سامان بنی ہوئی ہیں، جو طیب صو رت، طیب سیرت، طیب مقال، طیب گفتار اور طیب احوال؛ ’’اَلْمُؤْمِنُ غِرٌّ کَرِیْمٌ‘‘ کے پیکر جمیل، ’’أَھْلُ الْجَنَّۃٌِ بُلْہٌٌ‘‘ کی دل کش تصویر، معصو میت اور سادگی کی واضح تفسیر، رہن سہن، نشست وبرخاست، معاملات، اور طرز زندگی ’’مَا أَنَا مِنَ الْمُتَکَلِّفِیْنَ‘‘ کی حسین تعبیر؛ ہر موضوع پر معرکۃ الآراء مصنفات ومؤلفات کا ایک خزانۂ عامرہ، ہر عنوان پر پند ونصائح اور مواعظ و خطبات کا ایک بیش قیمتی ذخیرہ۔ درس گاہ ہو یا خانقاہ، علمی مجلس ہو یا دینی محفل، کانفرنس ہو یا سمینار؛ ہر ایک کی نازش وزینت۔
حضرت حکیم الاسلام علیہ الرحمہ کی عبقری شخصیت کے خد وخال، آپ کے کمالات واکتشافات، تحقیقات وتشریحات، توضیحات وتنقیحات، اختصاصات وامتیازات اور خدمات وکارنامے بہت ہی نمایاں اور منفرد ہیں، بہت ہی کم ایسی شخصیات پردۂ عدم سے وجود میں آتی ہیں، جن کو ہمہ جہتی خدمات کاموقع میسر آئے، اور ہر میدان میں اپنی شناخت اور چھاپ چھوڑ جائیں۔
بشر میں عکس موجودات عالم ہم نے دیکھا ہے
وہ دریا ہے یہ قطرہ؛ لیکن اس قطرے میں دریاہے
آپ نے اپنی پوری حیاتِ مستعار دارالعلوم دیوبند کی تعمیر وترقی میں صرف کردی، ساٹھ سال تک اس ادارہ کے مسند اہتمام پر جلوہ افروز رہے اور دارالعلوم کو ایک مدرسہ سے جامعہ تک کا سفر طے کرایا اور دارالعلوم کو ایک عالمی اور آفاقی اسلامی یونیورسٹی بنانے میں اپنی انمول زندگی کا ہر لمحہ لگادیا۔ نہ کبھی اپنی خاطر جیے اور نہ اپنے لیے کچھ کیا، جب بھی کہیں گئے، تو دارالعلوم کے لیے، کچھ کیا، تو دارالعلوم کے لیے؛ حتی کہ اپنی زندگی کا ہر عمل دارالعلوم ہی کی فلاح وبہبود سے عبارت تھا؛لیکن آپ کی زندگی کے آخری پڑاؤ میں حالات نے ایک نیا موڑ لے لیا، دارالعلوم دیوبند کے اجلاس صد سالہ کی کامیابی کے بعد دارالعلوم اختلاف کا شکار ہوگیا اور آپ پچاسی اساتذہ وکارکنان کی معیت میں دارالعلوم سے باہر آگئے۔
آپ نے صبر، سکوت، استغنا کے دامن کو مضبوطی سے تھام کر، قنوط ومایوسی کی چادر اتار کر نہایت ہی جواں فکر اور پختہ عزم وحوصلہ وہمت کے ساتھ اپنے کارواں کو جاری رکھا اور مسلک ومشرب کی خشت اساس کے تحفظ کے خیال، فکر دیوبند کی بقا وارتقا کی تڑپ اور امت مسلمہ ہندیہ کو دوراہے سے بچانے کی کڑہن نے دارالعلوم وقف دیوبند کی نئی شکل اختیار کی اور جامع مسجد دیوبند میں درس وتدریس کا سلسلہ شروع فرمادیاگیا، جیساکہ سابق میں گزرا۔
دارالعلوم وقف دیوبند کے آفیشیل پیج سے ایک اقتباس:
’’۱۸۵۷ء؍ میں مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد ہندوستان میں سب سے پہلی علمی اور اصلاحی تحریک کا آغاز شمالی ہند کے ایک چھوٹے سے قصبے دیوبند سے ہوا۔ حجۃ الاسلام حضرت الامام مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ نے ۱۵؍محرم الحرام ۱۲۸۳ھ؍ کو سر زمین دیوبند پر مدرسہ عربی اسلامی دیوبند قائم فرمایا۔ قیام مدرسہ کی اس مبارک تحریک میں بالخصوص حاجی عابد حسین دیوبندیؒ اور امام ربانی مولانا رشید احمد گنگوہیؒ نے کو اہم تعاون فراہم کیا۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے امام محمد قاسم نانوتویؒ کے ’’مدرسہ عربی اسلامی دیوبند‘‘ نے ’’جامعہ اسلامیہ دارالعلوم دیوبند‘‘ کے نام سے ایک عالمی شہرت یافتہ یونیورسٹی کی شکل اختیار کرلی۔ یہاں دنیا کے مختلف ممالک سے طلبہ تفسیر، حدیث، فقہ اور دیگر اسلامی علوم کے حصول کے لیے آتے رہے ہیں۔ در اصل امام محمد قاسم نانوتویؒ نے دارالعلوم دیوبند کے قیام کے ذریعہ سر زمین دیوبند پر امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی قدس سرہ العزیز کے مکتب فکر کے احیا کا عظیم کارنامہ انجام دیا، اور حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمۃ اللہ علیہ (مہتمم دارالعلوم دیوبند از ۱۳۴۸ھ؍ تا ۱۴۰۳ھ) نے ۱۴۰۲ھ؍ (۱۹۸۲ء) میں ولی اللہی اور قاسمی علمی وراثت کو دارالعلوم وقف دیوبند کی شکل میں محفوظ کردیا۔ وللہ الحمد والمنۃ‘‘۔
حضرت خطیب الاسلامؒ اور دارالعلوم وقف دیوبند:
جانشینِ حکیم الاسلامؒ ، رئیس المتکلمین، محدث جلیل، خطیب الاسلام حضرت مولانا محمد سالم صاحب قاسمی نور اللہ مرقدہ (۲۲؍ جمادی الثانی ۱۳۴۴ھ/ مطابق ۸؍ جنوری ۱۹۲۶ء____۲۷؍ رجب المرجب ۱۴۳۹ء/ مطابق۱۴؍ اپریل ۲۰۱۸ء) کی شخصیت ہمہ جہت خصوصیات، متنوع امتیازات اور متعدد اوصاف وخصائل اور کمالات کا حسین سنگم تھی۔ آپ کی شخصیت کے مختلف پہلو اور گوشے ہیں، ہر گوشہ نمایاں، جلی، روشن اور قابل تقلید وعمل ہے۔ آپؒ کی زندگی نے مختلف کروٹیں لیں، متعدد احوال دیکھے، گوناگوں حالات سے دوچار ہوے، حیات مستعار کا کوئی پہلو ایسا نہیں ہے، جو اسوہ ونمونہ نہ ہو، کبھی حرف شکوہ وشکایت زبان پر جاری نہ ہوا، جیسے بھی حالات رہے ہوں، کتنی ہی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہو، ہر وقت اور ہر حال میں صبروسکوت اور استغنا وبے نیازی کو دامن میں سجائے رکھا۔ خداوند قدوس نے آپ علیہ الرحمہ کو ایسی عالی نسبتوں اور خاندانی نجابتوں سے نوازا تھا، کہ عالم میں بہت کم ہی ایسی بانصیب شخصیات وجود میں آتی ہیں، جنھیں مجمع الکمالات، مجمع الفضائل اور خوبیوں کا سرچشمہ بنایا جائے۔ اور پھر ایک عالم ان سے مستفید ہو، اور وہ اپنی خداداد صلاحیت واستعداد سے ایک عالم کو فیض یاب، روشن وتابناک اور منور کریں۔
حضرت خطیب الاسلام علیہ الرحمہ کو حق جل مجدہ نے جہاں متنوع کمالات، امتیازات، خصوصیات اور خوبیوں سے نوازا تھا، وہیں آپؒ کو ایک عالم کی علمی قیادت وسیادت سے بھی نوازا تھا۔جہاں آپؒ کو مکتب فکر دیوبند کا سرخیل اور ترجمان بنایا تھا، وہیں عالم اسلام کی بہت سے مؤقر، معتمد اسلامی یونیورسٹیوں اور ملی تنظیموں کی سرپرستی بھی عطا فرمائی تھی۔ جہاں فکر قاسمی کی ترویج واشاعت اور علوم قاسمی کی ترجمانی کا سنہرا موقع عنایت ہوا تھا، وہیں ولی اللہی فکر کی نمائندگی بھی عطا ہوئی تھی۔ قادر وقدیر نے جہاں آپؒ کو درس وتدریس میں نمایاں، منفرد اور ممتاز مقام عطا فرمایا تھا، علوم وفنون میں دسترس اور ملکہ عطا فرمایا تھا، خاص طور پر فقہ وحدیث میں شان مرجعیت سے بہرہ ور تھے، وہیں خطابت وتقریر کے میدان کے بھی عظیم شہسوار بنائے گئے تھے۔
حضرت خطیب الاسلام قدس سرہ کی شخصیت ایک عہد آفریں اور تاریخ ساز عبقری شخصیت ہے، جن کے کمالات وامتیازات اور خوبیوں کو قلمی تحدیدات میں محدود کرنا اور قیدِ تحریر میں مقید کرنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہے؛ اس لیے کہ جسے قدرت فیاض اور واہب العطایا کی جانب سے دعاوئ منقولہ پر ناقابلِ شکست منقول براہین آفرینی سے منور وہ عقلِ عظیم عطا فرمائی گئی ہو، اور جس کو اسلامی علوم میں کامل دسترس کے ساتھ ساتھ ، جسے ایمانِ کامل سے پرنور وہ سراپا خشوع وخضوع والا قلب سلیم بخشا گیا ہو، جس کی شخصیت علمِ کتاب وسنت میں بے تمثال، عالم گیر اسلامی فکر میں بے مثال، زندگی کے ہر جز وکل میں متبعِ سنت، استاذیت میں منفرد، طاعت وعبادت میں شب زندہ دار، اصلاحِ باطن میں ماحئ ذوقِ معصیت، علم وقیع میں مرادِ حق شناس، تصنیف وتالیف میں اطمینان آفریں نکتہ سنج، انفرادیت میں متین، اور اجتماعیت میں متدین، رہنمائے عظیم جیسے بے شمار بنیادی امتیازاتِ عظیمہ کی حامل ہو، کہ جس نے طالبانِ علوم اسلامیہ اور سالکانِ راہِ ہدایت کو حسب صلاحیت بہ نگاہِ معنوی ‘‘أَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَأَنَّکَ تَرَاہُ؛ فَاِنْ لَمْ تَکُنْ تَرَاہُ؛ فَاِنَّہُ يرَاکَ’’کے مقامات تک رسائی عطا فرمادی ہو، اور جسے حکمتِ قرآن کی ترجمانی کے لیے ایسی فیاض زبان عطا فرمائی گئی ہو، جس نے دین متین کے بارے میں شکوک وشبہات اور اعتراضات وتلبیسات کی دلدلوں میں پھنسنے والے محروم یقین طبقات کو دولتِ ایمان ویقین سے مالا مال فرمادیا ہو، اور عصری تحدیات وچیلنجز سے گھبرائے ہوؤں کو حق شناسی، حق گوئی اور حق بیانی کی ایسی علمی قوت فراہم ہوتی ہو، جس سے میدانِ علم کے نوخیزوں کو تسکینِ قلب وجگر اور اطمینانِ فکر ونظر کی دولت بیش بہا نصیب ہوتی ہے۔
حضرت خطیب الاسلام علیہ الرحمہ کی زندگی کا سب سے نمایاں اور منفرد کارنامہ حضرت حکیم الاسلامؒ کی نگرانی وسرپرستی میں ’’دارالعلوم وقف دیوبند‘‘ کا قیام واستحکام ہے۔ آج دارالعلوم وقف دیوبند کو مقام عظمت ومرتبۂ رفعت حاصل ہے، وہ آپ ہی کی دعائے نیم شبی، آہِ سحر گاہی، شبانہ روز کی ہمہ جہت جہود وکاوش، سعئ پیہم اور جواں فکر وپختہ عزم وحوصلہ کا نتیجہ ہے۔
آپ نے ناساز گار حالات میں دارالعلوم وقف دیوبند کی قیادت سنبھالی تھی؛ لیکن کبھی بھی کسی قسم کا شکوہ اپنی زبان مبارک پر نہ آنے دیا۔ آگے بڑھے اور بڑھتے چلے گئے، کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ یہ ہی وجہ ہے کامیابیاں اور شادکامیاں آپ کے ہمرکاب ہوتی چلی گئیں اور دارالعلوم وقف دیوبند مسلک ومشرب کے تحفظ اور اسلامی علوم وفنون کی اشاعت میں عوام وخواص کا مرجع بنتا چلاگیا اور آج ایک شجر سایہ دار اور ثمر آور درخت کی شکل میں جانشین خطیب الاسلام حضرت اقدس مولانا محمد سفیان قاسمی صاحب دامت برکاتہم العالیہ، مہتمم وروح رواں دارالعلوم وقف دیوبند کے زیر نگیں اپنی ہمہ جہت خدمات میں مصروف عمل ہے۔
دارالعلوم وقف دیوبند کیا ہے؟
دارالعلوم وقف دیوبند کیا ہے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے، بادی النظر میں جس کا جواب نہایت ہی آسان ہے کہ دارالعلوم وقف دیوبند ایک دینی تعلیمی ادارہ ہے، جسے عند اللہ قبولیت اور عوام وخواص میں مقبولیت حاصل ہے، یا کہاجاسکتا ہے کہ دارالعلوم وقف دیوبند ایک ایسا مینارۂ نور ہے، جو اپنی علمی ضیاباریوں اور نور ریزیوں سے ایک عالم کو منور کیے ہوا ہے؛ لیکن یہ جواب اس سوال کے عین مطابق نہیں ہوگا؛ کیوں کہ جو افراد دارالعلوم وقف دیوبند کے قیام کے پس منظر سے واقف ہیں، وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ دارالعلوم وقف دیوبند محض کسی رسمی ارادہ کا نام نہیں؛ بل کہ فکر ولی اللہی اور فکر قاسمی کی بقا وارتقا اور اپنے اکابر واسلاف کے اقدار وروایات کا پاسبان وامین ایک ایساادارہ ہے، جس میں حرارتِ امدادیت، روحِ قاسمیت، تپشِ رشیدیت اور بزرگوں کے دیرینہ خوابوں کی تعبیر چھپی ہوئی ہے۔
دارالعلوم وقف دیوبند کے قیام کے پیچھے کیا اسباب ووجوہات اور کیا عوامل کارفرما تھے اور کن حالات میں دارالعلوم وقف دیوبند کا قیام عمل میں آیا؟ ان سب باتوں کا صحیح جواب صاحب زادہ وجانشین حکیم الاسلام خطیب الاسلام حضرت مولانا محمد سالم قاسمی صاحب نور اللہ مرقدہ کی زبانی سنیے!
’’درحقیقت دارالعلوم وقف کے قیام کی وجہ کیا تھی؟ اس سلسلے میں اتنا عرض کردینا کافی ہے کہ جب بانئ دارالعلوم حضرت الامام مولانا محمد قاسم صاحب نانوتویؒ کے اصولِ ہشت گانہ کے بعض اصولوں کو انقلابِ زماں اور گردش دوراں کی وجہ سے نظر انداز کیے جانے کا خطرہ درپیش ہوا، اور جب دارالعلوم کے دستور اساسی کی روح کو مجروح کیا گیا، تو بانئ دارالعلوم حضرت الامام مولانا محمد قاسم صاحب نانوتویؒ کے پوتے والد ماجد حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحبؒ جو دارالعلوم کے مہتمم و آل انڈیا مسلم پرسنل بورڈ کے بانی تھے اور جن میں اکابر دیوبند کا ذو ق پوری طرح رچا بسا تھا اور جن کا پابند وضع، استقلال طبع طرۂ امتیاز تھا، انھوں نے اکابر دیوبند کے ذوق کے تحفظ کے لیے سعئ بلیغ کی اور کرنا ضروری بھی تھا؛ کیوں کہ بقول شیخ الاسلام حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی
صدر مہتمم دارالعلوم دیوبند:
دارالعلوم ایک امانت الٰہی ہے، اس کی تعمیر تقویٰ کی اینٹوں سے ہوئی ہے، اس کا سنگ بنیاد رکھنے والے امرا اور اغنیا نہ تھے؛ بل کہ اس کی بنیاد ڈالنے والے چند مقدس نفوس فقرا و اہل اللہ تھے؛ اس لیے اس کی حفاظت اُن ہی کے اصول اور نقش قدم پر ہونی چاہیے اور سب ہی کو مل کر اس کی حفاظت کرنی چاہیے۔‘‘
بہ ہرحال! حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحبؒ ، مہتمم دارالعلوم دیوبندو بانئ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے اپنی مجوزہ کوشش کو خاطر خواہ نتیجہ بنانے کے لیے دارالعلوم دیوبند کے اجلاس صدسالہ منعقدہ ۱۹۸۰ء؍ کے بعد بنام ’’دارالعلوم وقف دیوبند‘‘ کی داغ بیل ڈالی (یہ کسی متوازی مدرسہ کی بنیاد پر نہیں؛ بل کہ روایت حقہ اور تحفظ مسلک دارالعلوم کے لیے قیام دارالعلوم وقف عمل میںآیا) اس دنیا میں چیزیں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں، اگربراہِ راست نہیں تو بالواسطہ طور پر ایک چیز کا اثر دوسری چیز پر پڑتا ہے اور وہ تنبہ، تلقین ، ترغیب کا ذریعہ بن جاتا ہے۔
بلامبالغہ حضرت حکیم الاسلامؒ نے مایوس قلوب میں عزم و اعتماد کی شمع روشن کی اور دارالعلوم کی دینی اور روحانی زندگی کے ليے حیات تازہ بخشی۔
آج الحمد للہ! آسمان علم و معرفت پر دارالعلوم وقف دیوبند مہتاب کی طرح جلوہ گر ہے۔ دارالعلوم وقف ہر جہت سے ترقی کی سمت رواں دواں ہے۔ بلاشبہ سلف صالحین اور بزرگانِ دین کے طریق اور نقوش کا محافظ اور پاسبان ہے اور لفظ ’’وقف‘‘ کے لاحقہ نے خط امتیاز کھینچ دیا ہے اور یہ ایک ایسا چشمۂ ساقی ہے کہ ہر سال ہزاروں تشنگانِ علوم کو سیراب کر رہاہے اور زبان حال سے بقول حکیم الاسلامؒ یہ کہتا ہے کہ:
’’ادارہ کا اصل مزاج روح ہے، رسم نہیں، حقیقت ہے، نمائش نہیں، اخفا ہے، تشہیر نہیں اور معنویت ہے، محض صورت سازی نہیں، گو تبعاً صورت سے انکار بھی نہیں۔‘‘
درحقیقت دارالعلوم وقف بزرگانِ دیوبند کے آثار کا امین اور ان کی روایات اور عادات و اطوار کا حامل ہے اور اپنی سادگی، صاف دلی کے لحاظ سے اور ٹھوس درس و تدریس و تعلیم و تعلم اور ملی و ملکی مسائل کی رہنمائی کے اعتبار سے آج اسے ایک مینارۂ نور اور مشعلِ راہ کی حیثیت و عظمت حاصل ہے‘‘۔(از: مقالاتِ خطیب الاسلامؒ ، غیر مطبوعہ)
اس مفصل اقتباس سے دارالعلوم وقف دیوبند کے قیام اور اس کے پس منظر، نیز اس کی اہمیت وافادیت، مقام ومرتبہ اور حیثیت عرفی سے مکمل طور پر واقفیت ہوجاتی ہے۔ اب نہ مزید کسی وضاحت کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے اور نہ کسی طول کلامی میں پڑنے کی حاجت۔
معمارانِ دارالعلوم وقف دیوبند پر ایک اجمالی نظر:
دارالعلوم وقف دیوبند اگرچہ کوئی متوازی اور الگ ادارہ نہیں ہے، جس کی بنا وتاسیس کا مسئلہ سامنے آئے۔ یہ اسی آفاقی فکر نانوتویؒ ہی کا ایک پرتَو ہے، جو فکر ولی اللہی کی نشأۃِ ثانیہ ہے، جس کا انتساب حضرت الامام النانوتویؒ ، بانئ دارالعلوم دیوبند کی طرف ہی ہے۔ بہ قول خطیب الاسلامؒ : ’’اس دنیا میں چیزیں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں، اگربراہِ راست نہیں، تو بالواسطہ طور پر ایک چیز کا اثر دوسری چیز پر پڑتا ہے اور وہ تنبہ، تلقین ، ترغیب کا ذریعہ بن جاتا ہے‘‘۔ جس سے یہ بات آشکارا ہوجاتی ہے کہ دارالعلوم وقف کی نسبت حضرت الامام النانوتویؒ کی طرف اگر من کل الوجوہ اور بہ راہِ راست نہیں، تو جزئی اور بالواسطہ طور پر ضرور ہے اور اتنی نسبت بھی مردانِ جفاکش کے لیے کافی ہوجایا کرتی ہے۔
لیکن اس موقع پر اُن نفوس قدسیہ کا تذکرہ بھی ازحد ضروری ہے، جن کی شبانہ روز کی کاوشیں دارالعلوم وقف دیوبند کو مینارۂ نور بنانے کے لیے ہوا کرتی تھیں، اُن میں سرفہرست دارالعلوم وقف دیوبند کے سرپرست اعلی نبیرۂ حجۃ الاسلام، صاحب زادۂ فخر الاسلام، حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب قاسمی صاحب نور اللہ مرقدہ کی قدسی صفات ذات گرامی ہے، جو اپنے کمالات وامتیازات کے باب میں مجمع البحرین جیسی خصوصیت وعبقریت رکھتی ہے؛ کیوں کہ آپ ہی نے دارالعلوم دیوبند کو ‘‘مدرسہ عربی اسلامی’’ سے ’’جامعہ دارالعلوم دیوبند‘‘ تک کا سفر طے کرایا اور عالمی شہرت دوام عطا فرمائی اور آپ ہی نے دارالعلوم دیوبند کی نشأۃِ ثانیہ فرماکر دارالعلوم وقف دیوبند کو ایک نئی زندگی، نئی تازگی، نئی حرارت، نئی روشنی، نئی چمک، نئی راہ عنایت فرمائی۔
حضرت حکیم الاسلامؒ کے بعد جانشین حکیم الاسلام خطیب الاسلام حضرت اقدس مولانا محمد سالم قاسمی صاحب نور اللہ مرقدہ کی ذات عالی ہے، آپ نے اپنی حیات مستعار کے لحظات قیمہ اور لمحات عزیزہ دارالعلوم کی تعلیمی وتدریسی سرفرازی کے لیے اور انقلاب دارالعلوم کے بعد دارالعلوم وقف دیوبند کی تعمیر وترقی اور اس کی بقا وارتقا کے تئیں فکرمندیوں میں صرف فرمادیں۔
بڑی ناسپاسی ہوگی اگر حضرت خطیب الاسلامؒ کے رفقائے کار کا تذکرہ نہ کیا جائے، جنھوں نے آپ کا ہر لمحہ ساتھ دیا اور زندگی کا اوڑھنا بچھونا ہی دارالعلوم وقف دیوبند کی تعمیر وترقی اور اس خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے کو بنالیا تھا۔ جن میں سرفہرست حضرت خطیب الاسلامؒ کے دیرینہ رفیق فخر المحدثین حضرت مولانا محمد انظر شاہ صاحب مسعودی کشمیریؒ ، حضرت اقدس مولانا محمد خورشید عالم صاحب عثمانیؒ ، حضرت مولانا نعیم صاحب دیوبندیؒ وغیرہ ہیں۔
عہدے اور مناصب:
مسند اہتمام‘‘ پر۱۹۸۲ء؍ سے ۲۰۱۴ء؍تک جانشین حکیم الاسلام خطیب الاسلام حضرت مولانا محمد سالم قاسمی صاحب نور اللہ مرقدہ فائز رہے، ۲۰۱۴ء؍ سے ۲۰۱۸ء؍ تک ’’صدر مہتمم‘‘ کے عہدۂ جلیلہ پر جلوہ فرما رہے۔ ۲۰۱۴ء؍ سے تا حال (۲۰۱۸ء) جانشین خطیب الاسلام حضرت اقدس مولانا محمد سفیان قاسمی صاحب دامت برکاتہم مسند اہتمام کو زینت ورونق بخشے ہوے ہیں، اللہ تعالی ادارہ کے روح رواں اور مہتمم کو نظر بد سے محفوظ رکھے اور آپ کے وجود مسعود کو امت کے لیے نافع تر بنائے!
’’شیخ الحدیث‘‘ کے منصب عظیم پر یہ حضرات جلوہ گر رہے: حضرت مولانا نعیم الدین صاحبؒ ، حضرت مولانا علامہ رفیق صاحبؒ ، فخر المحدثین حضرت مولانا انظر شاہ مسعودی صاحبؒ ، حضرت اقدس مولانا محمد خورشید عالم عثمانی صاحبؒ ، مفکر اسلام حضرت اقدس مولانا محمد اسلم قاسمی صاحبؒ ، اور جانشین فخر المحدثین حضرت مولانا احمد خضر شاہ مسعودی صاحب دامت برکاتہم (تاحال)۔
انتظامی وتعلیمی شعبہ جات:
انتظامی شعبہ جات: (۱)شعبۂ اہتمام (ادارہ کی ہےئت حاکمہ، جہاں سے ادارہ کے ہرہر شعبہ کی نگرانی اور جملہ امور کی تشخیص ہوتی ہے)۔ (۲)شعبۂ تعلیمات (تعلیم سے متعلقہ تمام امور اسی شعبہ سے متعلق ہوتے ہیں)۔ (۲)شعبۂ تنظیم وترقی (آمدات وغیرہ پر یہ ہی شعبہ نظر رکھتا ہے)۔ (۳)شعبۂ محاسبی (یہاں سے آمدات واخراجات کا تفصیلی جائزہ لیا جاتا ہے)۔ (۴)شعبۂ نشر واشاعت (نشر واشاعت سے متعلق تمام امور کی نگرانی یہ ہی شعبہ کرتا ہے)۔ (۵)شعبۂ تعمیرات (تمام تعمیراتی امور اسی شعبہ کے زیر نگیں ہوتے ہیں)۔ (۶)شعبۂ برقیات (لائٹ وبجلی وغیرہ کے متعلق امور اسی شعبہ سے متعلق ہوتے ہیں)۔
تعلیمی شعبہ جات: (۱)شعبۂ تکمیل افتاء (ایک سال)۔ (۲)شعبۂ عربی ادب (ایک سال)۔ (۳)شعبۂ تکمیل تفسیر (ایک سال)۔ (۴)شعبۂ بحث وتحقیق (حجۃ الاسلام اکیڈمی کے تحت (جو ادارہ کا ایک نہایت ہی فعال ومتحرک شعبہ ہے، جس میں احیائے تراث سلف اور عربی وزبان انگریزی زبانوں میں میگزین کے ساتھ ساتھ) اسلامی تحقیق کے جدید اصول ومناہج اور دور حاضر کے جدید تحدیات وچیلنجز سے آگہی اور ان سے نبرد آزمائی کے لیے تیاری پر مشتمل ایک سالہ ’’اسلامک ریسرچ‘‘ کورس) (۵)شعبۂ انگریزی (انگریزی زبان وادب کی اہمیت وضرورت کو مد نظررکھتے ہوے حجۃ الاسلام اکیڈمی، دارالعلوم وقف دیوبند نے ’’دو سالہ انگریزی ڈپلومہ کورس‘‘ کا آغاز کیا ہے)۔
دارالعلوم وقف دیوبند اپنی خدمات کے آئینے میں:
دور حاضر میں دارالعلوم وقف دیوبند اکابر واسلاف کی یادگار ہے، علم وحکمت اور بصیرت ودانائی کا بحر ذخار ہے، سلف صالحین کے اقدار وروایات اور اصولوں کا امین اور پاسبان ہے، علوم قاسمی کا شارح اور فکر دیوبند کا محافظ وترجمان ہے۔ ملت اسلامیہ سے ناخواندگی اور جہالت کی بیخ کنی کرنے کے عزم وحوصلہ کے ساتھ میدان تعلیم میں برسر عمل ہے۔
دارالعلوم وقف دیوبند ایسے نوجوان فضلا اورعلما تیار کررہا ہے، جو رنگ ونسل کے اعتبار سے ہندی ہو یا ترکی؛ لیکن فکری بالیدگی اور وسعت نظر کے اعتبار سے خالص اسلامی ہیں۔ دین اسلام کو ہر طرح کا تحفظ فراہم کرنے کے لیے رجال سازی ومردم گری کا عمل جاری ہے۔ ہر طرح کے خارجی حملوں اور داخلی دراندازیوں کی آلودگی سے محفوظ رکھنے کے لیے کوشاں ہے۔ دین کو اس کی اپنی شکل وصورت میں برقرار رکھنے کے لیے نئی نسل کا دینی مزاج کی حامل ہونا ناگزیر ہے، جس کے لیے ادارہ کی فکرمندیاں قابل ستائش اور لائق صد تحسین وآفرین ہیں۔ قدیم صالح اور جدید نافع کی آمیزش سے ایسے نوجوان فضلا تیار کیے جاتے ہیں، جو حالات حاضرہ کے تقاضوں کے مطابق کھرا اتر سکیں اور دور حاضر کے تحدیات وچیلنجز سے خوف زدہ ہوکر، پیٹھ دکھاکر بھاگنے کے بجائے اُن کا سینہ سپر ہوکر ڈٹ کر مقابلہ کرسکیں۔ نئی نسل کے روشن ومنور اور تاب ناک مستقبل کے لیے اور ہندوستانی باعزت شہری کے طور پر جینے کے لیے جن حقوق کی ضرورت ہے، اس کے لیے ادارہ کے اقدامات اور آئندہ کے منصوبے نہایت ہی مسرت افزا اور امیدآفریں ہیں۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ دارالعلوم وقف دیوبند کو اپنے اہداف واغراض اور مقاصد میں بھرپور کامیابی عطا فرمائے اور اس کی خدمات کو شرف قبولیت سے نوازے، نیز تمام ذمہ داران، اساتذہ وکارکنان، متوسلین ومحبین، تمام معاونین ومخلصین اور بہی خواہان کو جزائے خیر عطا فرمائے۔
جواب دیں