تحریر! جاوید اختر بھارتی
انسان جب دنیا میں آتا ہے تو وہ کورے اور سادے کاغذ کی طرح ہوتاہے اور سادے کاغذ پر جو چاہے لکھا جا سکتا ہے اب یہ لکھنے والے پر منحصر ہے کہ وہ کیا لکھتا ہے لیکن ہاں جو لکھا جائے گا وہ کوئی نہ کوئی ضرور پڑھے گا اور جب پڑھے گا تو تبصرہ بھی ضرور کرے گا یہ الگ بات ہے کہ وہ کسی دوسرے کو نہ پڑھائے لیکن اس تحریر پر کچھ نہ کچھ غوروفکر کرے گا ہی،، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ غور وفکر کرنے کے بعد نظر انداز کردے مگر کوئی یہ کہے کہ کچھ لکھا جائے یا نہ لکھا جائے کاغذ کا رنگ بدلنے والا نہیں ہے،، تو یہ بات غلط ہے،، کیونکہ کاغذ کا رنگ ضرور بدلے گا اور سادے کاغذ کا رنگ بدلے گا تو وہ اور بھی زیادہ خراب نظر آئے گا اور وہ خراب کاغذ جب کسی کے ہاتھ میں جائے گا تو وہ ضرور کہے گا کہ کاش اس پر کچھ لکھا ہوتا تو کتنا بہتر ہوتا،، دوسرے پہلو پر غور کیا جائے تو لکھنے کے باوجود کاغذ خستہ حالی کاشکار ہوگیا تو یہ افسوس ہوگا کہ نہ جانے اس کاغذ پر کیا لکھا تھا اور تحریر جوں کی توں موجود ہے مگر اس پر عمل درآمد نہیں ہوا ہے تو بھی سوچنے اور غور وفکر کرنے کی بات ہے کہ اگر اس عمل کیا گیا ہوتا تو ہوسکتا ہے اس کا کچھ فائدہ ملا ہوتا،، تحریر پڑھتے وقت یہ بات بھی ذہن میں آسکتی ہے کہ یہ بات ایسے لکھ دی گئی ہے،، اگر ایسے لکھا ہوتا تو کتنا اچھا ہوتا،، ابب آئیے 1947 میں ملک آزاد ہوا تحریک آزادی میں کل مذاہب، کل برادری نے حصہ لیا آزادی کے بعد ملک کا آئین بنا اور آئین نے سب کے تحفظ کی ضمانت دی ہے ، ووٹ دینے کا حق دیا ہے،، تو ووٹ مانگنے کا بھی حق دیا ہے،، بھارت کل مذہبی، کل مسلکی، کل برادری کا حسیں سنگم ہے سب کو سیاست میں حصہ لینے کا حق ہے اسی لیے ملک میں پیدا ہونے والے ہر سماج کے لوگوں نے مذکورہ کاغذات پر غوروفکر کیا تو کہا کہ۔ اس میں ایسی تحریریں ہیں کہ جس پر عملدرآمد کرنے سے ہمیں ماسٹر چابی حاصل ہوسکتی ہے ،ہم سیاست، ملازمت، وزارت اور شعبہ تعلیمات میں اپنی حصہ داری درج کراسکتے ہیں اور وہ سرگرم عمل ہوئے،، سماج کی بنیاد پر ہر سماج کے لوگوں نے اپنے اپنے سماج کو بیدار کرنا شروع کیا اور وہ بیدار ہوتے گئے اور متحد ہوتے گئے اقتدار کا ذائقہ تک چکھ لیا اور مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ لگتا ہے کہ اس کاغذ کو ابھی تک پڑھا ہی نہیں یا کہ پڑھا ہے تو نیک نیتی کے ساتھ نہیں پڑھا ہے ، کچھ لوگوں نے پڑھا ہے تو کسی کو استاد مان کر اور استاد نے پڑھایا ہے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایک ایک صفحہ چھوڑ کر پڑھایا ہے شاگردوں کو یقین ہے کہ استاد کی بات غلط ہو ہی نہیں سکتی انہوں نے سیاست میں بھی عقیدت مندی کا اظہار کیا اور استاد انہیں سبز باغ دکھاتا رہا اور کبھی کبھی اس باغ کا پھل بھی دے دیا اور شاگرد اس پھل کی میٹھاس میں مست مگن ہو گیا کبھی یہ نہیں سوچا کہ کاش میرا پورا سماج اس پھل کا ذائقہ چکھ لیتا ،، بس اپنے لیڈروں کی تعریف میں مصروف نظر آتا ہے یعنی جو سیاست میں نہیں ہے تو اس کے بارے میں تو سمجھ میں آتا ہے لیکن جو سیاست میں ہے اس پر افسوس ہوتاہے کہ اس نے ایسا طریقہ کیوں نہیں اپنایا کہ پارٹی اپنی ہو، جھنڈا اپنا ہو، پارٹی کے کارکن اپنے ہوں، پارٹی کا دستور العمل اپنا ہو، قیادت اپنی ہو، لیڈر اپنا ہو تاکہ سروس اور حکومت میں ہماری بھی حصہ داری ہو،، یہ بات بھی واضح ہے کہ چاہے کوئی بھی پلیٹ فارم ہو ، کوئی بھی پارٹی ہو اس کے اصول و ضوابط ہوتے ہیں اور اس پر عمل کرنا ضروری ہوتاہے مسلم سیاسی لیڈروں کو خود اپنی پارٹی کے اصول معلوم نہیں ہیں بس ایک اصول معلوم ہے کہ پارٹی صدر اور اعلیٰ کمان کی گل پوشی کرنا ہے اور قصیدہ خوانی کرنا ہے بسا اوقات کچھ جوش آبھی جاتاہے تو اظہار کرنے پر پارٹی میں ان کا قد چھوٹا کر دیا جاتاہے اس موقع پر بھی مسلم سیاسی لیڈروں کو سمجھ میں نہیں آتا یا کہ احساس نہیں ہوتا ہے کہ ہمیں بھی اپنے سماج کو متحد کرنا چاہیے اور آئین کے مطابق حاصل حقوق کی بنیاد پر سیاسی طور پر طاقتور ہوناچاہیے تاکہ جو سیاسی پارٹیاں سیکولر ازم کا جھوٹا ڈھیڈورا پیٹ رہی ہیں اور جب وقت آتا ہے سیکولر ازم کا ثبوت دینے کا تو منافقانہ رویہ اختیار کرتی ہیں تو ان کو بھی اپنی اوقات معلوم ہوسکے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ تمام سیاسی پارٹیاں مسلمانوں کو پارٹی کے اندر ڈاٹ ریفل کی نوک کی طرح رکھتی ہیں اوپر انگوٹھے سے دبانے پر جس طرح ریفل کی نوک نظر آتی ہے باقی وقت میں نظروں سے غائب اسی طرح ایک پنجسالہ میں صرف چھ ماہ کے لئے مسلم لیڈروں کے چہروں کو ظاہر کیا جاتا ہے اور مسلم لیڈران پھر بھی تعریف کرتے نہیں تھکتے لیکن بی جے پی نے تمام سیاسی پارٹیوں کے سیکولر ازم کے جھوٹے نقاب کو نوچ کر پھینک دیا اور پوری طرح بے نقاب کر دیا اور یہی حقیقت ہے کہ سبھی سیاسی پارٹیاں مسلمانوں کو صرف ووٹ بینک سمجھتی ہیں ، کرکٹ کے میدان کا بارہواں کھلاڑی سمجھتی ہیں،، اس میں قصور ہمارا بھی ہے ہم ووٹوں کی اہمیت کو جاننے کی کوشش نہیں کرتے اور ووٹوں کی اہمیت کو اچھے ڈھنگ سے بتایا بھی نہیں جاتا جو مسلم سیاسی لیڈر آتا ہے تو وہ اتنی جذباتی تقریر کرتا ہے کہ لگتا ہے کہ وہ جنگ کے میدان میں لے جانا چاہتا ہے ،، حالانکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ جمہوریت کیا ہے اور جمہوریت کے فوائد کیا ہیں یہ بتایا جائے، جمہوریت میں جو قوم سیاسی طور پر بیدار ہوتی ہے وہ صفحہ ہستی پر نمایاں ہوتی ہے اور جو قوم جمہوریت میں بھی سیاسی شعور سے محروم ہوتی ہے وہ صفحہ ہستی سے گم ہوجاتی ہے،، جب آئین کو ترتیب دیا جارہا تھا تو ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر نے جہاں اپنے سماج کا درد محسوس کیا وہیں انہوں نے مسلمانوں کا بھی درد محسوس کیا اور مسلمانوں میں جو طبقات ریزرویشن کے حقدار تھے انہیں بھی وہ سہولت دی تھی جو سہولت آج دلت سماج کو مخصوص انداز میں ملتی ہے مگر کانگریس کی حکومت تھی ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت دلت زمرے میں آنے والے مسلمانوں کو اس سہولت سے محروم کردیا گیا اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امبیڈکر جی نے درد محسوس کیا تو سہولت دی اور جب اسی سہولت سے محروم کیا گیا تو بڑے بڑے مسلم سیاسی لیڈران نے اپنی زبانیں کیوں بند رکھی تھیں اور جب اس وقت خاموش تھے تو آج دلت مسلم کی بات کرنے کی ضرورت کیوں پیش آگئی اسی سے پتہ چلتا ہے کہ مسلمانوں کو مسلمانوں سے بھی زبردست نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ہے اور جہاں مسلمانوں کے چھوٹے طبقے کی بات آتی ہے تو یہ کہہ کر ٹال مٹول سے کام لیا جاتا ہے کہ اسلام میں کوئی چھوٹا بڑا نہیں ہے ،، لیکن حقیقت یہ ہے کہ جہاں اسلام میں کوئی چھوٹا بڑا نہیں ہے وہیں مسلمانوں میں چھوٹا بڑا ہے، اونچ نیچ، بھید بھاؤ ہے اگر مسلم لیڈران نے نیک نیتی اور سچائی کا مظاہرہ کیا ہوتا تو مسلمانوں کے اندر حلال خور، نٹ، بنجارہ، بھانٹ وغیرہ جیسی برادریوں کے حالات میں بھی تبدیلی ضرور آئی ہوتی آج بھی بڑے بڑے امراء، رؤساء، جانشین، سجادہ نشین، سیاستداں ان سے دور ہی رہتے ہیں اور ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر نے اسی درد کو محسوس کیا تھا،، جہاں ایک طرف سبھی سیاسی پارٹیوں نے مسلمانوں کو بی جے پی سے ڈرایا اور بی جے پی و مسلمانوں کے درمیان زبردست کھائی پیدا کرائی اور خود اپنے پورے خاندان کے ساتھ اسمبلی و پارلیمنٹ میں پہنچتی رہیں اسی بدنیتی کی دین ہے کہ آج اپوزیشن پارٹیاں بی جے پی سے پوری طرح خوفزدہ ہیں اور اقتدار سے باہر رہنا بڑا مشکل ہورہاہے تو کبھی مسلمانوں کے مسائل پر خاموشی اختیار کی جاتی ہے تو کبھی ملی تنظیموں اور جماعتوں سے تعلق ختم کرنے کی بات کی جاتی ہے در حقیقت یہ اقتدار سے دوری کی بوکھلاہٹ ہے –
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
جواب دیں