میں نے شاہین باغ میں کیا دیکھا؟

تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی
     میں گزشتہ 13سال سے شاہین باغ میں رہتاہوں اور اسی دوران یہ علاقہ آباد ہواہے۔ جب ابتدا میں یہاں آیا تھا تو بہت کم مکانات تعمیر ہوئے تھے مگر حالیہ برسوں میں آبادی اس قدر بڑھی ہے کہ راستہ چلنا بھی مشکل ہوگیا ہے۔اب شاہین باغ کے سی اے اے مخالف احتجاج نے علاقے کو بین الاقوامی پہچان دلائی ہے۔جب سے یہاں احتجاج چل رہا ہے،تقریباً روزانہ احتجاج گاہ پرجاتا ہوں، ایک صحافی کی حیثیت سے اور احتجاجی کے طور پر بھی۔احتجاج کے تمام کوائف بیان کرنے کے لئے ایک دفتر درکار ہے لہٰذا یہاں ہم صرف چند خاص جھلکیاں ہی پیش کرسکتے ہیں۔ 
    پچھلے دنوں ایک غریب احتجاجی خاتون نازیہ کے بچے کی سردی لگنے سے موت ہوگئی جو محض چارمہینے کا تھااور اس کی ماں روزانہ اسے احتجاج میں لے کر آتی تھی۔ اس خبر نے دنیا کے ہراس انسان کو مغموم کردیا جس کے سینے میں دل دھڑکتا ہے لیکن اگر کسی کو فرق نہیں پڑا تو وہ ہیں،بھارت کے وزیرداخلہ امت شاہ اور وزیراعظم نریندر مودی۔ کیا کسی کا دل اتنا سخت ہوسکتا ہے۔ حالانکہ نازیہ کا حوصلہ بھی نہیں ٹوٹا۔ وہ اب بھی نم آنکھوں اور اداس چہرے کے ساتھ احتجاج میں حصہ لینے آتی ہے۔ دوسری طرف  90 سالہ عاصمہ خاتون کہتی ہیں کہ ’ہم آئین اور اپنے تمام بھائیوں کے لئے لڑ رہے ہیں۔ وہ لوگ جو مجھ سے معلومات طلب کرتے ہیں، میں انھیں دے سکتی ہوں۔ اپنے آباء واجداد کے نام بتاسکتی ہوں۔ 7پشتوں کے نام بتا سکتی ہوں۔ عاصمہ ہر دن شام 3 بجے سے رات 9 بجے تک احتجاج  میں حصہ لیتی ہیں۔ وہ تب بھی یہاں موجود تھیں جب دہلی کا درجہ حرارت ڈیڑھ ڈگری پر آگیا تھا۔ حالانکہ اس احتجاج میں جس طرح بزرگ عاصمہ خاتون شامل ہیں،اسی طرح آٹھ سالہ ارسلان بھی اپنی ماں کے ساتھ آیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ فی الحال اسکول میں سردی کی چھٹیاں چل رہی ہیں لہٰذا وہ ہر شام اپنی ممی فرحانہ کے ساتھ چلا آتا ہے۔یہاں تقریریں سنتا ہے، نعرے لگاتا ہے اور دیش بھکتی گیت گاتا ہے۔ اسے اس بات کی بھی خوشی ہے کہ یہاں گرما گرم چائے کے ساتھ  بسکٹ بھی ملتی ہے۔
خواتین کے جذبوں کو سلام
    جامعہ ملیہ اسلامیہ (یونیورسٹی) میں پولیس کاروائی کے دوران حنا احمد کی بیٹی کو چوٹیں آئی تھیں، جس کے بعد سے وہ مستقل طور پر مظاہرہ میں آرہی ہیں۔ مظفر پور (بہار)سے تعلق رکھنے والی 70 سالہ سانو پروین کا کہنا تھا کہ وہ صرف احتجاج میں شامل ہونے کے لئے بہار سے آئی ہیں۔ اگرچہ ان کے کنبہ کے افراد یہاں رہتے ہیں، لیکن وہ اپنے گاؤں میں رہتی ہیں۔انھوں نے کہا کہ جب تک شہریت قانون واپس نہیں ہوتا، ہم اسی طرح سڑکوں پر رہیں گے۔جب کہ 82 سالہ بلقیس نے کہا، ہندوستان ہماری شناخت ہے اور ہم اسے کیسے چھوڑ سکتے ہیں۔ میرے پاس سرٹیفکٹ نہیں ہے، نہ ہی میں زیادہ تعلیم یافتہ ہوں۔ ایسی صورتحال میں ہم اپنی شہریت کیسے ثابت کریں گے۔ بلقیس نے کہا، مجھے سردی سے خوف محسوس نہیں ہوتا، مجھے حکومت کی پالیسیوں سے ڈرلگتا ہے۔ 80 سالہ عشرت جہاں نے کہا ’میرے آباء و اجداد نے آزادی کی جنگ لڑی ہے اور اب ہم آزاد ملک میں اپنی آزادی کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں کیونکہ آج ہم سے شہریت کا ثبوت مانگا جارہا ہے۔‘ اس بار دہلی میں سردی نے 118 سال کا ریکارڈ توڑ دیا ہے، لیکن اس شدید سردی میں بھی خواتین اپنے چھوٹے بچوں کے ساتھ دھرنے کے مقام پر بیٹھی رہتی ہیں۔33 سالہ سیما نے بتایا، ایک ماں کی حیثیت سے، میں اپنے بچوں کے مستقبل کو بچانے کے لئے اس پروگرام میں آئی ہوں۔ ہمیں ہمارے حقوق دیئے جائیں۔ یہ صرف میری لڑائی نہیں ہے، یہ آئین کو بچانے کی لڑائی ہے۔ ایک گھریلو خاتون صائمہ کا کہنا ہے
کہ وہ اپنے بچوں کو سلانے کے بعد اس دھرنا میں شامل ہونے کے لئے آتی ہیں۔ وہ یہ بھی کہتی ہیں کہ یہ پہلا موقع ہے جب وہ کسی احتجاج میں شامل ہو رہی ہیں۔
ایسی تقریبات واہ!
    شاہین باغ کے مقامِ احتجاج پرنیاسال منایا گیا،پھر یوم جمہوریہ کی تقریب دھوم دھام سے منائی گئی اور اس سے پہلے23جنوری کونیتاجی سبھاش چند بوس کا یوم ولادت بھی منایا گیا۔ 31 دسمبرجو 2019 کا آخری دن تھا اور دنیا بھر کے نوجوان لہولعب میں شامل تھے۔ شراب کی پارٹیاں دی جارہی تھیں اور صرف دلی میں کروڑوں روپئے کی شراب فروخت ہوئی، تب علاقے کے نوجوان، بچے، مردوعورت دھرنے کے مقام پر بیٹھے ’جن گن من‘ گارہے تھے اور ’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘ گنگناکر نریندر مودی اور امت شاہ کو دیش بھکتی کی پاٹھ پڑھا رہے تھے جن کے کان پر جوں نہیں رینگ رہی۔ بہت سارے نوجوانوں نے سڑک پر ترنگا لہرایا اور بہت سے لوگوں نے اس قانون کے خلاف پلے کارڈ اٹھا کر ’آزادی آزادی‘ کے نعرے لگائے۔ اس کے بعد یوم جمہوریہ کی تقریبات میں تولاکھوں افراد جمع ہوئے۔ جس قدر بھیڑ یہاں تھی انڈیا گیٹ پر بھی نہیں تھی، جہاں صدرجمہوریہ اور وزیراعظم موجود تھے۔روہت ویمولا اور گمشدہ جے این یو طالب علم نجیب کی ماؤں نے پرچم کشائی کی اور لاکھوں افراد نے ایک ساتھ قومی ترانہ گایا۔
 عوامی دسترخوان
     شاہین باغ کو کالندی کنج سے ملانے والی سڑک پر لگ بھگ ایک کلومیٹر تک ہزاروں ترنگے لگے ہیں۔ این آر سی، سی اے اے اور این پی آر کے خلاف اس سڑک پر احتجاج جاری ہے۔یہاں دن کے وقت 5ہزار کے قریب لوگ ہوتے ہیں مگر شام ہوتے ہی،یہاں تل رکھنے کی جگہ نہیں ہوتی۔عورت، مرد، بچے اور بوڑھے، ہرعمر کے لوگوں کی بھیڑ ہوتی ہے۔اتنی بڑی بھیڑ کو کنٹرول کرنے کے لئے کوئی انتظام نہیں ہے۔ ابتدا میں چند دن تک کو کوئی پولس والا بھی دکھائی نہیں دیا مگراب کچھ پولس والے لنچ، ڈنر اور ناشتہ میں دکھ جاتے ہیں جو یہاں کے لنگر کی دعوتیں اڑارہے ہوتے ہیں۔ یہاں چوبیس گھنٹے قومی اور بین الاقوامی میڈیا کے لوگ بھی موجود ہوتے ہیں، جن کے لئے مظاہرین کی طرف سے ناشتے کے پیکٹوں کا انتظام ہوتا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ احتجاج کا انتظام کسی فرد یاجماعت کے ہاتھ میں نہیں ہے۔یہاں کسی بھی تنظیم، کسی بھی شخص کی قیادت کے بغیر انتظامات جاری ہیں۔ کوئی لیڈر نہیں ہے۔ یہاں ہر احتجاجی، رضاکار ہے اور ہرکوئی لیڈر ہے۔
     دھرنے پر بیٹھے لوگوں کے لئے کھانے، چائے کا بندوبست کرنے میں مقامی افراد مدد کرتے ہیں۔ یہاں لوگ رضاکارانہ طور پر پانی، چائے اور کھانا بھیجتے ہیں۔کچھ لوگوں نے سردی سے بچاؤ کے لئے گیس ہیٹر لگائے ہیں تو بعض اہل خیر  نے کمبل اور رضائیاں فراہم کی ہیں۔ کچھ دن پہلے ہی پنجاب سے سکھ برادری کے لگ بھگ 500 افراد اس تحریک میں شامل ہونے آئے تھے۔ان میں سے بیشتر بھارتیہ کسان یونین کے ممبر تھے۔انھوں نے اپنے قیام کے دوران ایک لنگر کا اہتمام کیا تھا جو ان کے جانے کے بعد بھی جاری رہا۔ سکھ بھائی یہاں جب تک رہے، وہ اپنے ساتھ لائی ہوئی چیزوں سے سبزی، پوری اور کھیرپکاکر خود کھاتے تھے اور دوسروں کو کھلاتے تھے مگر ان کے جانے کے بعد یہ سلسلہ ان کے مالی تعاون سے ایک مدت تک جاری رہا۔ سکھوں کی آمدحال میں بھی ہوئی ہے۔ سینکڑوں کی تعداد میں انھیں یہاں دیکھا جاسکتاہے۔ احتجاج کے مقام پرایک دوسرالنگر ہریانہ چھتیس برادری کی جانب سے شروع کیا گیا۔ اس کا اہتمام ہریانہ والوں نے کیاتھا،جن میں بڑی تعداد غیرمسلم برادران وطن کی ہے۔حالانکہ عموماً خواتین کو کھانے پینے کی اشیاء کے لئے لنگر میں جانے کی ضرورت نہیں پڑتی کیونکہ بڑی مقدار میں مقامی صاحب خیرلوگ بریانی، طاہری، نمکین، بسکٹ، سموسے اور دیگر اشیاء خوردنی پہنچاجاتے ہیں جو ان کے کھانے سے بہت زیادہ ہوتی ہیں۔چائے اور پانی کی تقسیم وقت،وقت پر چلتی رہتی ہے۔کچھ لوگ جوس اور مشروبات کے چھوٹے چھوٹے پیکٹ بھی لاکر تقسیم کردیتے ہیں۔ خواتین کی نشست گاہوں سے باہر مردکھڑے ہوتے ہیں،جن کے لئے بیٹھنے کا کوئی انتظام نہیں کیا گیاہے۔ یہاں بھی بہت سے لوگ کھانا لاکر تقسیم کرتے ہیں۔ 
حالانکہ ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو مفت کے کھانوں کو ضرورت مندوں کا حق قراردیتا ہے اور خود خرید کر کھاتا ہے۔ ایسے میں یہاں اسٹال لگانے والوں کی فروخت بھی بڑھ گئی ہے۔
آرٹ وکلچر کا نظارہ
    شاہین باغ کے احتجاج میں ثقافتی سرگرمیاں بھی خوب نظر آرہی ہیں جو یہاں آنے والوں کو لبھا رہی ہیں۔ اسٹیج پر بچوں کو دیش بھکتی گیت اور انقلابی نظمیں گاتے ہوئے آپ دیکھ سکتے ہیں مگر یہاں درودیوار،سڑک اور کاغذ پر بھی ننھے ننھے بچے آرٹ کے نمونے پیش کر رہے ہیں۔ یہاں انڈیا گیٹ کا ایک ماڈل بھی بنایا گیا تھا جو اب ٹوٹ چکاہے۔ حراستی کیمپ کا ایک نمونہ لوگوں کو خوب بھارہا ہے جس کی تصویریں میڈیا سے سوشل میڈیا تک چھائی ہوئی ہیں اور بھارت کا عظیم الشان نقشہ تو لاجواب ہی ہے۔ کولکاتہ کے طلباء نے تقریبا ڈھائی ٹن آئرن سے 35 فٹ اونچا ہندوستان کا نقشہ تیار کیا ہے۔یہ نقشہ مغربی بنگال کی شانتی نکیتن یونیورسٹی کے ویرچندر اور راکیش کمار اورجادب پور یونیورسٹی کے پون شکلا اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے دھننجئے نے تیار کیا ہے۔ 
 کتاب اور قلم
    شاہین باغ میں احتجاج کی غرض سے فائن آرٹ کا زبردست طریقے سے سہارا لیا جارہا ہے اور اس میں پیش پیش ہیں مختلف یونیورٹیوں اور کالجوں کے طلبہ۔انھوں نے ایک خیمہ لگارکھا ہے جس میں وہ چوبیس گھنٹے کتاب، قلم اور کاپی کے ساتھ موجود رہتے ہیں۔ لڑکیوں نے فٹ اور برج کے اوپر ڈیرہ ڈال رکھا ہے۔ یہاں موجود دلی یونیورسٹی، جواہر لعل نہرو نیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اسٹوڈنٹس کی تخلیقات کو دیکھتے بن رہا ہے۔ کچھ طلبہ نے زمین پر دل کی شکل، کاغذ کی چھوٹی چھوٹی کشتیوں سے بنائی تھی اور ہر کشتی پر فیض ؔ کی نظم ’ہم دیکھیں گے‘لکھی ہوئی تھی۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کی فائن آرٹس کی طالبہ کوثر جہاں نے اپنی ٹیم کے ساتھ 12 جنوری 2020 کو صبح 8 بجے سے 11 بجے کے بیچ تقریباً 600 میٹر سڑک پر پیٹنگ کی جس میں گاندھیائی انداز میں اپنے مطالبات کورکھنے کی کوشش کی۔شاہین باغ بس اسٹینڈ کو کچھ طالب علموں نے لائبریری میں تبدیل کردیا ہے۔ جہاں چھوٹے بچے پینٹنگ اور پوسٹر بناتے نظر آتے ہیں نیز وہ یہاں پڑھتے بھی ہیں۔ یہاں آنے والے سبھی لوگوں کے لئے کتابیں موجود ہیں۔ کئی بڑے رائٹرس کی کتابیں دیکھی جاسکتی ہیں۔ اسی کے ساتھ ایک عارضی ہسپتال اسٹیج کے بالکل پیچھے خیمے میں کھولا گیا ہے۔ یہ ہسپتال شام 4 بجے سے رات 11 بجے تک چلتا ہے۔ جہاں مفت علاج کیا جاتا ہے۔ ہر روز 200-300 افراد کا علاج کیا جارہا ہے۔ ایمس، اپالو کے نصف درجن ڈاکٹرز یہاں پر جز وقتی طور پر رضاکارانہ خدمات انجام دے رہے ہیں۔

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا  ضروری نہیں۔ 
08/ فروری 2020

 

«
»

شاہین پرائمری اسکول بیدرکی طالبہ کی درد بھری فریاد

آخر کیوں کچوکے نہیں لگتے دیکھ کر مساجد کی ویرانیاں؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے