میں نے جنت تو نہیں دیکھی ہے ماں دیکھی ہے

 وہی پھر مجھے یاد آنے لگی ہے۔
 
ابوسعید ندوی
آہ ! پچھلے سال رمضان میں امی جان ہمارے ساتھ تھیں۔ جی وہ ایک نیک صفت خاتون تھیں۔ وہ صاف دل والی تھیں، کبھی اس کا  چلا کر ہمیں ڈانٹنا یاد نہیں۔ ہم شرارتی بہت تھے اس لیے وہ ڈراتی تھیں لیکن نرمی اتنی تھی کہ ہمیں اس میں بھی پیار کی خوشبو آتی۔ اس کی تربیت کا انداز نرالا تھا، اسی لیے تو ہر کوئی اس سے محبت کرتا تھا،امی جان سب کی تھیں اور سب اس کے تھے۔ وہ اپنے گھر کی لاڈلی اور اپنے سسرال کی ہر دل عزیز وہ اپنے بچوں کے لیے حد درجہ مشفق ماں تھیں۔
ہائے ہائے! امی جان ہم سے جدا ہوگئیں۔ ہاں ہاں وہ ہم سے جدا ہوگئیں،کیا عجب کہ جنت نعیم کی بہاروں سے وہ ہم سب کو دیکھ رہی ہوں! اور باغ وبہار کے مزے میں چور حورانِ بہشتی کے درمیان اپنی داستان سنارہی ہوں! اور پھر رمضان کی آمد بابرکت سے خلدبریں بھی سج دھج گئی ہوگی۔اللہ کی معصوم بندی کے نصیب میں خوشیاں ہی خوشیاں ہوں گی اب تو اس کے وارے نیارے ہی ہوں گے۔ اللہ کرے ایسا ہی ہو۔
سچ پوچھو تو جب سے رمضان کا بابرکت مہینہ آیا ہے اس کی یادوں کے نقوش ابھر ابھر کر سامنے آرہے ہیں، سالہا سال ساتھ گزرے وہ سحری و افطار یاد آرہے ہیں،کتنا مزہ آتا تھا جیسے ماں کیوجود سے رحمتیں ابر باراں کی طرح برستیں۔
 اب وہ نہیں ہیں، ماں کے بغیر زندگی کیسی؟ ممتا کا پیار کس سے مانگوں، ممتا کا پیار دنیا میں ہر کسی کو ایک بار ہی ملتا ہے نا! ہم نے قدر نہیں کی۔ چھین لی گئی۔ اللہ ہماری حفاظت فرمائے۔
امی عبادت کا شوق رکھتی تھی،اپنے اللہ سے خاص تعلق تھا،
اسی لیے قرآن کی تلاوت اس کا خاص مشغلہ تھا، رمضان میں اس کی تلاوت یاد آتی ہے۔ وہ اپنے ساتھ اپنے بچوں کو لے کر بیٹھتی، ہاں وہ بغیر کچھ کہے ان میں تلاوت کا شوق پیدا کرتی۔ 
جی استغنا و سخاوت اللہ نے اسے عطا کی تھی۔ کوئی سائل اس کے در سے خالی ہاتھ واپس نہیں جاتا، خاموش زبان سے ہمیشہ یہ پیغام دیتی کہ دینے سے کم نہیں ہوتا اور دوسرے کی دولت پر نظر رکھنے سے ہم مال دار نہیں بنتے۔ ہاں وہ آواز بھی ہم سے جدا ہوگئی“ماں چاکلیٹ”اس پر فورا الماری کی آواز اور وہ بچوں کی بھیڑ (وہ کثیر الاولاد تھیں)
اس کی زندگی کی ابتدا فرماں بردار بیٹی سے ہوتی ہے اور پھر انتہاء فرماں بردار بیوی سے ہوتی ہے۔ اسی لیے اللہ نے دنیا ہی میں اس کا بدلہ پُرسکون زندگی اور کلمہ کی موت کی شکل میں عطا فرمایا۔
چلتی پھرتی ہوئی آنکھوں سے اذاں دیکھی ہے
میں نے جنت تو نہیں دیکھی ہے ماں دیکھی ہے
ہاں ماں تو یاد رہے گی تیرے لیے دعائیں کرتے رہیں گے۔
ہاں ماں بچے یاد کرتے ہیں اور پھر زبانیں
اللهم اغفر لها و ارحمها سے تر ہوتی ہیں۔
ماں ایک ایسی دولت ہے جس کا کوئی بدل نہیں وہ ایک بار ملتی ہے۔ جس کے پاس یہ دولت ہے وہ اس کی قدر کریں۔ وہ مغفرت کا ذریعہ ہے اس کی موجودگی کو اپنے لیے مغفرت کا سامان بنائیں۔ 
اللہم اغفرلھا و ارحمھا

«
»

مسلم بھائیوں سے ایک دردمندانہ اپیل

لاک ڈاؤن میں نمازِ تراویح کیسے پڑھیں؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے