ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز ایڈیٹر گواہ اردو ویکلی اتنی وحشت… اتنی ہیبت… کبھی نہیں ہوئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے ایک خاندان کے تین افراد یوں چلے جائیں گے… تصور یا گماں بھی نہیں کیا۔ حالیہ عرصہ کے دوران جس طرح سے انتقال کی خبریں سننے اور پڑھنے میں آرہی ہیں‘ اب تک ان پر تبصرہ […]
دیکھتے ہی دیکھتے ایک خاندان کے تین افراد یوں چلے جائیں گے… تصور یا گماں بھی نہیں کیا۔ حالیہ عرصہ کے دوران جس طرح سے انتقال کی خبریں سننے اور پڑھنے میں آرہی ہیں‘ اب تک ان پر تبصرہ کرتے رہے۔ خود پر بیتی تو پتہ چلا کہ ایسے سانحات ہی کو کہتے ہیں ”قیامت صغریٰ“ یا ”غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑنا“ اندازہ ہوا کہ کتنا فرق ہوتاہے اپنے اور پرائے درد میں۔ 28/جون 2020ء…. جنید میرے خالہ زاد بھائی نے اطلاع دی کہ ان کے چھوٹے بھائی نوید کی طبیعت خراب ہے‘ ساگر روڈ کے ایک ہاسپٹل لے جایا گیا ہے۔ فوری ہاسپٹل پہنچے۔ اس ہاسپٹل والوں نے بیڈ نہ ہونے کے بہانے مریض کو لے جانے کے لئے کہا گیا۔ ہاسپٹل سے دوسرے ہاسپٹل کے لئے ایمبولنس… من مانی رقم پر… ایمبولنس میں آکسیجن لیتے ہوئے نوید کو میں نے ہمت بندھائی کہ ان شاء اللہ بہت جلد اچھے ہوجاؤگے۔ نوید خود حافظ قرآن‘ مفتی صادق محی الدین کے داماد‘ درشہوار ہاسپٹل سے وابستہ رہ چکے ہیں۔ انہیں اندازہ تھا کہ ان کی حالت کیا ہے۔ ہم ایمبولنس کے ذریعہ انہیں گچی باؤلی کے ایک ہاسپٹل کے لئے روانہ کرکے گھر آگئے۔ کچھ دیر کے بعد فون آیا کہ وہاں بھی بیڈ نہیں ہے۔ جنید اور مفتی صادق صاحب کے فرزند مفتی شاہد محی الدین انہیں ایمبولنس میں لے کر جانے کتنے ہاسپٹل پھرتے رہے۔ پھر اطلاع دی گئی کہ ملک پیٹ کے ایک کارپوریٹ ہاسپٹل میں شریک کیا گیا ہے۔ مغرب کے وقت جنید نے اطلاع دی کے نوید کی طبیعت بگڑ رہی ہے۔ ہم فوری ہاسپٹل پہنچے۔ عین اُسی وقت انہیں ICU لے جایا جارہا تھا۔ جہاں کسی اور کو آنے کی اجازت نہیں۔ رات دس بجے تک ہم اپنے بُرے اور آزمائشی وقت کے اچھے ساتھی مجاہد محی الدین کے ساتھ اِدھر اُدھر کی باتیں کرتے رہے اور یاد کرتے رہے کہ ملک پیٹ کے اسی کارپوریٹ ہاسپٹل میں ہماری چھوٹی بہن پروین بھی 2017ء میں شریک رہیں…. اتفاق سے دوسرے دن یعنی 29/جون کو اس کی تیسری برسی تھی۔ بہر حال رات دیر گئے گھر واپس ہوئے۔ رات تین بجے کے قریب شہباز نے نیند سے اٹھایا۔ دل دھک سا ہوکر رہ گیا۔ ساتھ جنید بھی تھے۔ حافظ عبدالرزاق نوید… اللہ کو پیارے ہوچکے تھے۔ اناللہ وانا الیہ راجعونo یا اللہ! رات میں نوید کی والدہ یعنی میری اکلوتی خالہ کو میں نے تسلی دی تھی کہ ان شاء اللہ نوید بہت جلد اچھے ہوجائیں گے۔ ان کا سامنا کیسے کروں! ہونی کو کون ٹال سکتا ہے۔ نوید کی اہلیہ جو خود بھی عالمہ ہیں… گم سم… سکتہ کے عالم میں… ان کے بھائی… بہن کو بھی سنبھال رہی ہیں اور خود کو بھی… کسی کو یقین نہیں آتا۔ ایک صحت مند ہنستا کھیلتا انسان یوں چلا جائے گا۔ خالہ بیگم… جنید، نوید کی بہنیں… اللہ ان کی آہ و زاری… نوید کے معصوم بچے… پانچ بیٹے… جن میں دو حافظ قرآن… سب سے چھوٹے بیٹے کو سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ اس کے ابو خاموش کیوں لیٹے ہیں.. اور سب کیوں رورہے ہیں۔ وہ ایک ایک کی صورت دیکھ رہا ہے… سب سے بڑا بیٹا ابراہیم اور دوسرا بیٹا قاسم کسی حد تک سمجھدار ہیں۔ دونوں نے ابھی رمضان میں اپنے گھر والوں کو تراویح پڑھائی۔ خود نوید ان دونوں کو قرآن کا دور کرواتے تھے۔ چھ بہنوں کے دو بھائی جنید اور نوید پورے خاندان کے لئے مثال رہے۔ ایک بھائی عالم، ایک بھائی حافظ قرآن۔ اخلاق و کردار بے مثال۔ ہم یعنی میں، جنید، نوید، صابر، شریف اور سید عامر حنیف دو بہنوں اور ایک بھائی کی اولاد ہیں۔ صابر اور عامر ماموں کے بیٹے، جنید اور نوید خالہ کے بیٹے۔ چوں کہ ان سب سے عمر میں بڑا میں ہی ہوں‘ اس لئے ننھیال کا بھیا کہلاتا ہوں۔ ہم کبھی رشتے کے بھائیوں کی طرح نہیں رہے۔ سگے بھائیوں سے زیادہ ہم میں محبت رہی۔ خالو پاشاہ اور خالہ بیگم دونوں سرکاری ملازم تھے۔ میدک کے مختلف علاقوں میں خدمات انجام دیتے رہے۔ لہٰذا ان کا زیادہ وقت سنگاریڈی، جوگی پیٹ، ظہیرآباد میں گزرا۔ نوید نے انوارالعلوم سے گریجویشن کیا۔ در شہوار ہاسپٹل میں کچھ عرصہ کام کیا‘ پھر سعودی عرب چلے گئے۔ 1997ء میں جب مجھے عمرہ کی سعادت نصیب ہوئی تو ریاض میں ان کے ساتھ قیام ہوا۔ یہ جامعہ نظامیہ کے طلبہ کے ساتھ تھے۔ جتنی خدمت انہوں نے کی وہ الفاظ میں بیان نہیں کی جاسکتی۔ اور پھر 2014ء میں بھی ریاض جانے کا موقع ملا تھا۔ تب بھی نوید نے ایک چھوٹے بھائی کا رول نبھاتے ہوئے دل سے دعائیں لیں۔ وہ ریاض سے واپس آچکے تھے۔ شاہین نگر میں گھر بنالیا تھا۔ ان کے والد یعنی خالو پاشاہ ایک سال سے بیمار تھے۔ والد کی خدمت کی خاطر وہ سعیدآباد کالونی آگئے تھے۔ اور آخری وقت تک دونوں بھائیوں نے اپنے والدین کی خدمت کی۔ معمولی سے بخار نے انہیں چھین لیا۔ قبرستان حضرت سید عبداللہ شاہؒ میں انہیں سپرد لحد کیا گیا۔ کچھ دیر بعد گلاب کی چادر کے نیچے خاکی لحد چھپ گئی۔ صرف گلاب نظر آرہے تھے۔ مگر میری نظروں میں نوید کے معصوم گلاب تھے۔ کل اور آج میں کتنا فرق آگیا… یہ گلاب اچانک بدلتے موسم کی وجہ سے مرجھاسے گئے تھے… ہم اپنے بھائی کو رخصت کرکے واپس ہورہے تھے… 29/جون… ایک تاریخ… دو زخم… کبھی مندمل نہ ہونے والے۔ خالو پاشاہ اور خالہ بیگم پر کیا گزری ہوگی۔ اس کا اندازہ ان والدین کو ہوسکتا ہے جن کی آنکھوں کے سامنے ہنستے کھیلتے صحت مند صالح جوان بیٹے گزر جاتے ہیں۔ خالو پاشاہ بیمار ہیں‘ زیادہ بات چیت نہیں کرسکتے۔ دیکھتے ہیں‘ محسوس کرتے ہیں… اور آنکھوں سے ان کے کرب کا اندازہ ہوتا ہے۔ نوید کی اہلیہ پر کیا گزری ہوگی… ایک شریک حیات جس نے اپنے ساس خسر کی خدمت میں کوئی کسر نہیں رکھی… جواں سالی میں بیوگی کا لباس پہن لیا۔ معصوم بچے… بڑے تو ہوجائیں گے مگر قدم قدم پر اپنے باپ کی کمی کو ہمیشہ محسوس کرتے رہیں گے۔ ایک دن گزرا… اطلاع ملی کہ خالہ بیگم کی حالت بھی بگڑ رہی ہے۔ ہم قریب قریب ہی رہتے ہیں۔ جاکر تسلی دی تو کہا تم نے تو نوید کے وقت بھی تسلی دی تھی۔ میرے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ یکم جولائی کی رات آکسیجن کم ہونے لگی۔ ڈاکٹرس سے رابطہ کیا۔ کسی ہاسپٹل میں جگہ نہیں‘ خالہ بیگم جانا بھی نہیں چاہتے تھے۔ مجھے زبردستی گھر واپس بھیج دیا۔ وہ کلمہ اور اذکار میں مصروف رہیں۔ آکسیجن کی کمی کا انہیں بھی اندازہ تھا…. اور شاید وہ آنے والے وقت سے بڑی حد تک باخبر ہوچکی تھیں۔ اور پھر فجر کے وقت وہ خاموشی سے اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں۔ یا اللہ! یہ کیسی آزمائش ہے جنید کے لئے جس کی اپنی طبیعت ٹھیک نہیں… خالہ بیگم کا چہرہ بھی گلاب تھا۔ ایک دائمی سکون، قلبی طمانیت کا مظہر… اکلوتی خالہ جنہوں نے ہم یتیم بھانجے بھانجیوں اور اپنی بیوہ بہن کی کفالت کے لئے نوکری کی۔ جن کی گود میں ہم پروان چڑھے۔ ہماری کامیابی، ترقی پر خوش ہونے والی خالہ چلی گئیں۔ امی بتاتی تھیں کہ خالہ بیگم مجھے گود میں لے کر ”ننھا منا راہی ہوں… دیس کا سپاہی ہوں“ گنگناتیں۔ میری بڑی بہن انیسہ کو لے کر ”جوہی کی کلی میری لاڈلی… گنگناتیں“۔ خالو پاشاہ اور خالہ بیگم کے درمیان 55 سالہ ازدواجی رشتہ تھا۔ بڑا ہی دلچسپ رشتہ۔ اکثر ایک دوسرے سے بات نہیں کرتے اور ایک دوسرے کو دیکھے بغیر رہ بھی نہیں سکتے۔ خالو پاشاہ کو اپنی شریک حیات کا آخری دیدار کروایا گیا… وہ کچھ کہہ نہیں سکتے تھے۔ صرف آنکھ سے آنسو ٹپکے… کچھ دیر بعد خالہ بیگم بھی ماضی اور تاریخ کا حصہ بن گئیں۔ یااللہ! خالو پاشاہ کا کیا ہوگا۔ جواں سال بیٹا، نصف صدی سے زائد عرصہ تک زندگی کے ہر کٹھن سفر کی ہم قدم رفیق حیات کے بغیر وہ کیسے رہیں گے…. اور خالو پاشاہ نے اس کا موقع نہیں دیا۔ 48گھنٹے خاموشی سے چھت کو ٹکٹکی باندھے گھورتے رہے اور پھر تھک کر ہمیشہ کے لئے آنکھیں بند کرلیں۔ خالو پاشاہ‘ دنیا کے بہترین خالو، فراخ دل، جنہوں نے یتیمی کا احساس ہونے نہیں دیا۔ ان کی میزبانی، ضیافت مثالی تھی۔ یاد آیا کہ کس طرح چھٹیوں میں ہم کبھی جوگی پیٹ، کبھی پیداپور، کبھی ٹیکمال جاتے اور وہ کس طرح سے آم، سیتاپھل کے ٹوکرے، گنے کی چھریاں لاتے… جیب خرچ کے لئے پیسے دیتے۔ اکثر کہتے… پرویز میرا بڑا بیٹا ہے۔ ایک چھوٹا بھائی، ماں جیسی خالہ اور باپ جیسے خالو سے محرومی پر تاثرات کا اظہار کیسے کریں۔ الفاظ کہاں سے لائیں۔ بچپن سے جوانی اور آج تک جو ساتھ رہا اب بس یاد بن کر رہ گیا…. جنید اور ان کی تمام بہنوں کے لئے اس صدمہ کے اثرات ایک طویل عرصہ تک رہیں گے۔ اسی طرح نوید کی اہلیہ اور ان کے بچے شاید ہی یہ غم بھلا پائیں گے۔ اللہ رب العزت انہیں صحت دے۔ ایک گھر، چھ دن، تین اموات کے دوران اندازہ ہوا کہ نفسا نفسی کا عالم کیا ہوتا ہے۔ وباؤں کے ڈر نے رشتوں کے درمیان سرحدیں، دیواریں کھڑی کردی ہیں۔ ایسا لگ رہا ہے کہ یہ عالم حشر کا ٹریلر ہے… مگر اس نفسا نفسی کے عالم میں بھی جنید کے مالک مکان کلیم اور ہمارے دوست مجاہد محی الدین نے انسانیت کا جو مظاہرہ کیا‘ اسے الفاظ سے خراج تحسین پیش نہیں کیا جاسکتا۔اللہ تعالیٰ انہیں اس کا اجر دے۔ اور جو ہم سے بچھر گئے انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے۔ آمین(یو این این)
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں