آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ وطن عزیز کے ہندو دانشور کس طرح اوٹ پٹانگ باتیں کر رہے ہیں۔یہ درست ہے کہ ان میں ابھی کچھ لوگ ایسے باقی ہیں جو بروقت احمقانہ باتوں پر گرفت کر رہے ہیں۔مگر کب تک؟بہت جلد وہ وقت آئے گا کہ ایسے لوگ ناپید ہو جائیں گے یا کر دئے جائیں گے اور تب اس قوم کی آخری سانسیں دور نہ ہوں گی۔یہ سب مثالیں ہمیں خلافت راشدہ اور پھر ملوکیت کے دور میں دیکھنے کو ملیں گی۔ہمارے اسلاف نے ایک زمانے تک وقت کے جابر حکمرانوں پر تنقید کا علم بلند رکھا ۔جب ایسے علماء ناپید ہوگئے تب مسلم سلطنتوں پر زوال آیا۔جسٹس انیل آر دوے کے فرمودات پر جسٹس مارکنڈے کاٹجو و دیگرکی گرفت سے ابھی ہمیں امید ہے کہ وطن عزیز کا آخری وقت نہیں آیاہے۔
حالانکہ ہماری معاشرتی قدریں بڑی تیزی سے منہدم ہو رہی ہیں مگر پھر بھی ہمارے معاشرے میں ڈاکٹروں کی طرح جج صاحبان کو بھی قابل احترام سمجھا جاتا ہے کیونکہ وہ سماج کو انصاف فراہم کرتا ہے۔لیکن اگر جج محترم دوے کی طر ح غیر ذمے دارانہ باتوں کا سلسلہ جاری رہا تو بہت جلد یہ احترام ہوا میں تحلیل ہو جائے گا اور سب سے بڑا اندیشہ یہ ہے کہ یہ اپنے ساتھ عدا لتوں کا احترام بھی لے جائے گا ۔اسلئے ان کے فرمودات ہر صاحب عقل کے لئے لمحہء فکریہ ہو ناچاہئے۔یہ صرف مسلمانوں کا مسئلہ نہیں ہے۔یہ سیکولرزم کے تمام چاہنے والوں کا مسئلہ ہے۔ملک کے تمام اداروں کا مسئلہ ہے۔اگر اس طرح کے خیالات کی دیگر اداروں میں بھی ہمت افزائی کی گئی تو ملک کا مستقبل کیا ہوگا؟
نومبر ۱۹۵۱میں پیدا ہونے والے عزت مآب جسٹس انیل آر دوے کبھی گجرات ہائی کورٹ کے چیف جسٹس تھے ۔فی الوقت وہ سپریم کورٹ میں جج ہیں۔۲۔اگست کو گجرات لاء سوسائٹی کی طرف سے گجرات یونیورسٹی کے کنونشن ہال میں منعقدہ ایک پروگرام میں اپنی تقریر میں جناب نے فرمایا کہ’’ اگروہ ہندوستان کے ڈکٹیٹر ہوتے تو پہلی جماعت سے ہی مہابھارت اور رامائن کا پاٹھ لازمی قرار دیتے تاکہ لوگ زندگی گذارنے کا یہ طریقہ سیکھ لیں۔مجھے معاف کریں چاہے کوئی مجھے سیکولر کہے یا نہ کہے مگراچھی چیزیں جہاں سے بھی ملیں انھیں حاصل کرنا چاہئے ‘‘انھوں نے اپنی تقریر میں آگے مزید فرمایا کہ ’’ہندوستان کو اپنی پرانی تہذیب کی طرف لوٹنا چاہئے۔اگر آج یہ روایات زندہ ہوتی توتشدد اور دہشت گردی جیسے مسائل نہ ہوتے۔اگر ہم اپنے قدیم صحیفوں سے وابستہ رہتے تو کسی بھی شخص کے حقوق کی خلاف ورزی نہ کرتے۔
عزت مآب جسٹس انیل آر دوے کے درج بالا بیان پر درجنوں مضامین ہم پڑھ چکے ہیں مگر کہیں بھی ہمیں یہ فکر یہ تشویش نظر نہ آئی کہ کیا ایسا ذہنی رجحان رکھنے والے شخص کومسند انصاف پر براجمان رہنا چاہئے؟کیا اس طرح کا رجحان رکھنے والا شخص دیگر اقوام کے ساتھ انصاف کر سکتا ہے؟۲۰۰۸ سے اب تک چھ سال گذر چکے ہیں مگر لگتا ہے جسٹس دوے اب بھی اس بات سے بے خبر ہیں کہ وطن عزیز میں اب دہشت گردی کا رنگ سبز سے زعفرانی ہوگیا ہے اور اب دہشت گردی میں وہی لوگ ملوث ثابت ہو رہے ہیں ہندوستان میں رامائن اور مہابھارت کے سب سے بڑے داعی ہیں ۔جسٹس انیل دوے نے جن مقدس صحیفوں کی تدریس کے جنون میں اپنے منصب کی حدود سے باہر جا کرجوش کا مظاہرہ کیا ہے آئے مختصراً ان کا جائزہ لیتے ہیں۔ہم اس کا اقرار پہلے ہی کر لیں کہ ہم نے رامائن اور مہا بھارت کا پورا پورا مطالعہ نہیں کیا ہے مگر ہندو احباب سے بہت کچھ سنا ہے اور ٹی وی سیرئلوں میں دیکھا ہے۔اگر میڈیا میں مسلمانوں کے مذہبی صحیفوں کے بارے میں رتی برابر بھی خلاف واقعہ بات آتی ہے تو
مسلمان فوراً اس پر رد عمل ظاہر کرتے ہیں۔مگر رامائن اور مہابھارت سیرئلوں کے زمانے میں کسی بھی بات پر ہندو علماء کی گرفت ہماری نظر سے نہیں گذری اسلئے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ان میں جو کچھ دکھایا گیا وہ عین صحائف کے مطابق تھا۔مہابھارت کی ابتداء میں ہی یہ بات ہے کہ ارجن ایک مقابلے میں دروپدی کو جیتتا ہے۔جیتنے کے بعد وہ اپنی ماں کو جو اندھی تو نہیں ہوتی مگرآنکھوں پر پٹی باندھ کر زندگی گذارتی ہے یہ خبر دیتا ہے کہ اس نے فلاں مقابلے میں فتح حاصل کی ہے اور ایک ٹرافی جیت کر لایا ہے۔ماں یہ جانے بغیر کہ وہ ٹرافی کیا ہے ارجن اور اس کے بھائیوں سے کہتی ہے کہ وہ سب مل کر اسے استعمال کریں اس طرح دروپدی ۵ بھائیوں کی مشترکہ بیوی بن جاتی ہے۔کیا جسٹس دوے چاہتے ہیں کہ یہ ’’ یہ اچھی بات‘‘آئندہ بھی وطن عزیز میں جاری رہے۔بی آر چوپڑہ کی بنائی ہوئی سیریل مہابھارت میں خود دریودھن اور اس کے بھائی اس حوالے سے دروپدی کواْس وقت برے برے القاب سے مخاطب کرتے ہیں جب پانڈو اسے جوئے میں ہارجاتے ہیں۔کیا جسٹس دوے چاہتے ہیں کہ یہ سب جدید بھارت میں بھی ہو؟کروکشیتر کی آخری لڑائی میں ارجن نے بھیشم پتامہ کا شکار کرنے کے لئے ایک ہیجڑے کا سہارا لیا تھا ۔کیا یہ ترکیب مردانگی کے مطابق ہے ۔خصوصاً اس حالت میں جبکہ اسے بھگوا ن شری کرشن جی کی ہر طرح کی پشت پناہی بھی حاصل ہوتی ہے آپ کو یہ کہنے کی آزا دی ہے کہ everything is right in love and warمگر پھر آپ کی اچھی باتوں کا کیا ؟کہیں آپ کی اچھی باتیں بھی پردھان منتری نریندر مودی جی کے اچھے دنوں کی طرح تو نہیں۔لگتا تو یہی ہے کہ آپ بھی ان ہی کے گروپ کے آدمی ہیں۔
آئیے اب کچھ باتیں رامائن کے دور میں بھی دیکھ لیتے ہیں۔سب سے مشہور بات یہ ہے کہ ’’سیتا میا‘‘ کو ایک دھوبی کے شک کی بنیاد پر ’’اگنی پریکشا ‘‘ سے گذرنا پڑا تھا۔اگنی پریکشا میں ’’پاس ‘‘ ہونے کے باوجود بھگوان رام نے سیتا میّا کو اپنا یا نہیں تھا۔دوسری بات یہ بھی کہی جاتی ہے کہ ایک برہمن کے یہ شکایت کرنے پر کہ ایک آدیواسی جنگل میں ویدوں کے شلوک پڑھتا ہے رام چندر جی نے جنگل میں جاکراس کا قتل کر دیا تھا۔
اب ایک جدید زمانے کا جج جو درج بالا باتوں کواچھی باتیں سمجھتا ہو انھیں عین انصاف مانتا ہو ،ہم سمجھتے ہیں کہ ہماری عدلیہ کے ارباب اقتدار کو یا تو اس جج کی ماضی اور مستقبل کی کارکردگی کے بارے میں سوچنا چاہئے یا پھر دستور ہند پر ہی نظر ثانی کی جانی چاہئے۔اور اس میں حیرت زدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ماضی کی این ڈی اے حکومت میں بھی تو دستور پر نظر ثانی کی بحث چھیڑی گئی تھی ۔ہوسکتا ہے کہ جسٹس دوے کا چٹکلہ اسی سے تعلق رکھتا ہو ۔ہو سکتا ہے وطن عزیز کے اچھے دن اسی طرح آنے
والے ہوں۔
جواب دیں