ماہنامہ پھول سے ادارہ ادب اطفال تک (قسط ۲)

( دوسری قسط )

                  تحریر:۔   سید ہاشم نظام ندوی

 

کارواں اسٹوڈیو ۔ " ننھا علی "  :۔

ادارہ ادبِ اطفال بھٹکل کے " کارواں اسٹوڈیو " سے  " ننھا علی " کی سلسلہ وار پیش کش بھی قابلِ استفادہ ہے،اس کا اسلوبِ تحریر  دلوں کو موہ لینے والا ہے، انذازِ بیان بہت خوب، اسلوب دل نشیں اور دل چسپ ہے، جسے عزیزی علی سلمہ اللہ پیش کرتے ہیں، اس کے پیچھے ان کے والدِ ماجد صدر ادارہ ادبِ اطفال  ڈاکٹر عبد الحمید ندوی کی  قلمی کاوش اور کوشش کے اثرات نمایاں ہیں ۔

مسابقوں کا انعقاد  :۔

ادارہادب اطفال بھٹکل کے اراکین و منتسبین کی جفا کشی اور جفا طلبی بھی قابلِ رشک ہے، جوتعلیم وتدریس سے فارغ اوقات میں کسی نہ کسی طرح علمی  و دعوتی مشغولیات اور  تعمیری کوششوں میں منہمک رہتے ہیں، خواہ وہ سماجی و فلاحی کام ہوں یا تعمیری و ثقافتی پروگرام، گیسوئے اردو کی آراستگی ہو یا شعر وسخن کی رنگین نوائی،حصولِ علم سے خاک و خمیر کی آبیاری ہو یااہلِ قلم کے ذوق و شوق کو فروغ دینے کے لئے کلماتِ تبریک  وآفریں ، یا ثقافتی و علمی مسابقوں سے نوخیزانِ ملت کی تربیت یا تقسیمِ انعامات و اسناد سے ان کی ہمت افزائی۔

خوشی ہوتی ہے کہ  الحمد للہ ادارہ ادبِ اطفال جہاں ایک طرف صریرِ خامہ کی سعی و سیادت کے ساتھ ساتھ قوم کے نو نہالوں کی اسلامی و دینی تربیت و ذہن سازی اور  افراد کی سیرت سازی کی طرف توجہ دے رہا ہے ،وہیں  وقفہ بہ وقفہ مسابقوں کے انعقاد سے بچوں کی ہمت افزائی،اور ساتھ ہی مختلف موضوعات پر مختصر نشستوں کے انعقاد سے  اہلِ علم و ہنر کی  قدر شناسی اور اہلِ  فن کی عزت افزائی وغیرہ  میں بھی قائدانہ  کردار انجام دے رہا ہے۔

شعبۂ نشریات ۔

اس شعبے کے تحت بچوں کے لیے ان کے معیار کے مطابق چھوٹے چھوٹے کتابچے، اصلاحی کہانیاں اور افسانے وغیرہ کی معیاری  طباعت  ادارے کے مقاصد میں شامل ہے۔ان شاء اللہ بہت جلد ادبِ اطفال کے تعلق سے یہ کام بھی منظرِ  عام پر آئے گا، کوششیں جاری ہیں۔

کاروانِ اطفال :۔

ادارے کے تحت بچوں کی ایک تنظیم "کاروان اطفال"کے نام سے تشکیل دی گئی، جس میں ذمے داران کی نگرانی ہی میں اس تنظیم کے مقاصد متعین کیے گئے،   کام کے لیے ذیلی کمیٹیاں تشکیل دی گئیں ،عہدے بنائے گئے اورجملہ ذمہ داریاں  بھی نونہالوں اور بچوں ہی کے سپرد کی گئیں۔ جن کی باہمی مشاورتی نشستیں ہوتی ہیں،اس طرح مرتب انداز میں  بڑوں کی سرپرستی میں بچوں میں خدا اعتمادی کے ساتھ ساتھ خود اعتمادی پیدا کرنے کے لیے ان نونہالوں کو میدانِ عمل میں اتارا گیا، تاکہ ان میں انتظامی صلاحیتیں بچپن ہی سے پیدا کی جائیں، اور ذمے داریوں کو نباہنے کی استعداد پیدا کی جائے ، جو درحقیقت مادرِ علمی جامعہ ہی کے طلبہ کی انجمن "اللجنة العربية" اور دار العلوم ندوۃ العلماء کی انجمنِ طلباء "الإصلاح"   کا  چھوٹا سا عکس  اور اس کا مظہر ہے ۔

کہکشاں: ۔

اسلامی اور دینی روح کے ساتھ ادبِ اسلامی کو فروغ دینےکے لیے ادارے کے زیرِ اہتمام "کہکشاں" کے نام سے ایک شعبہ قائم کیا گیا، جس  کے ذریعے خوش نوایانِ قوم کے کچھ فائق خوش آواز، خوش گلو اور خوش الحان نونہالوں اور نوجوانوں کی ایک بزم سجا کران کوایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی کامیاب  کوشش کی گئی۔ جس میں ایک طرف ان خوش نواؤں کی خوابیدہ صلاحیتیں اجا گر کی گئیں تو دوسری طرف معیاری شعراء کے کلام سے حسنِ انتخاب  بھی کیا گیا ، تاکہ لوگوں تک دینی پیغام کو ادب کے حسین  دائرے میں رہ کرخوبصورت  وخوش الحان آواز میں پیش کیا جائے،  جس سے  روح میں بالیدگی اور تازگی  پیدا ہو،اسلامی  اور دینی طرز پر لکھے گئے ترانے اور نظموں کے ذریعے صرف نونہالانِ قوم ہی نہیں بلکہ امت مسلمہ میں جذبۂ ایمانیسے بھر پور اسلامی روح بیدار کی کوشش کی جائے، ہم اپنی صفوں میں اتحاد واتفاق قائم کرنے کی مہم چلا سکیں اورایک اللہ کی اطاعت کرتے ہوئے اس کے دین کو دنیا کے تمام ادیان  پر غالب کرنے کا نقشہ پیش کرسکیں۔ جس میں "کہکشاں" نے انتہائی  کم مدت میں بڑی کامیابی حاصل کی ہے۔

موجودہ دور میں بے دینی وبے حیائی اور فحاشی و عریانیت  کے گانوں اور غزلوں اور مخرب اخلاق ویڈیوز  کا چلن عام ہے ایسے میں ہمیں چاہئے کہ قرآن مجید  وسیرت النبیﷺ اور ہمارے اسلاف کے  دینی جذبوں اور کارناموں پر مشتمل ایسے  حسین و خوب صورت پروگرام پیش کیے جائیں، جن کو ناظرین دیکھ کر اور سامعین سن کر لطف اندوز ہوں اور ان میں شریعت پر عمل پیرا ہوکر دنیا  میں ایمانی خوشگوار زندگی اورآخرتکی ازلی وابدی  کامیابی وکامرانی حصول کا داعیہ جنم پائے۔ بقول علامہ اقبال "سید کی لوحِ تربت پر " کے آخری  دو مصرعوں میں معانی کا سمندر پایا جاتا  ہے۔

سونے والوں کو جگا دے شعر کے اعجاز سے

خرمن باطل جلا دے شعلہء آواز سے

اسی جانب ایک قدم بڑھاتے ہوئے ماشاء اللہ گزشتہ رات یعنی مورخہ ۱۲ ربیع الثانی ۱۴۴۲ ہجری شہر کے وسیع وعریض خوش حال شادی ھال میں اسی کہکشاں کے پلیٹ سے فارم مدحتِ سلطانِ مدینہ کا ایک منفرد پروگرام پیش کیاگیا، بطورِ مہمانِ خصوصی آل انڈیا پیامِ انسانیت کے جنرل سکریٹری حضرت مولانا بلال عبدالحیحسنی ندوی دامت برکاتھم تشریف فرما تھے،جس میں نوجوان ابھرتے ہوئے شعرائے بھٹکل کی منتخب  نعتیں پیش کی گئیں،بچوں نے   بہت کم مدت میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا، آواز کے جادو نے محفلِ نعت میں چار چاند لگا دیے اور بچوں و نوجوانوں نےاسے کامیابی سے ہمکنار کیا ،  جو" کہکشاں "کی کامیابی کے ساتھ ساتھ ادبِ اطفال کےروشن وتابناک مستقبل کا غماز تھا۔اس خوبصورت پروگرام کو ترتیب دینے والے اساتذۂ فن اور اہلِ ذوق رفقاء سب سے زیادہ مبارک بادکے مستحق ہیں۔

اس کہکشاں کے عزائم میں یہ بھی شامل ہے کہ جدید ذرائع  اور ٹیکنالوجی کامفید  استعمال کرتے ہوئے  ایک "اسٹوڈیو" کا قیام کیا جائے، جس کے لیے ادارے کے ذمے داروں  کے شانہ بہ شانہ"کہکشاں" کے سرپرست جناب رحمت اللہ صاحب راہی اور اس کے روحِ رواں مولانا محمد سمعان خلیفہ ندوی بھی سرگرمِ عمل ہیں۔

جہاں ایک طرف نئی نسل  کے ذہن ودماغ میں صحیح اسلامی افکار کو جاگزیں کرانے اور اسلامی تعلیمات سے روشناس کرانے کے لیے کہکشاں ہی کے زیرِ اہتمام اسلامی پیغامات کی ترسیل کا سلسلہ قابلِ قدر ہے، جس میں اعلی اور معیاری شعراء کے کلام  کا حسنِ انتخاب  خوب صورت تصاویر "  Images"  کی شکل میں تیار  کر کے سوشیل میڈیا کے مختلف روپ میں روانہ کی جاتی ہیں، احباب اس کو اپنے اسٹیٹس اور فیس بک وغیرہ میں بھی رکھتے ہیں، جس سے شعوری یا غیر شعوری طو پر دعوتی پیغام خوبصورت کلام میں لوگوں تک پہنچتا ہے ۔

تعارفی نشستیں : ۔

ادارے کے ذمے داران مختلف مناسبتوں اور موقعوں کو غنیمت جان کر  شہر اور اطراف کے علاقوں کی مسجدوں،  تعلیمی درس گاہوں اور چھوٹی بڑی انجمنوں  کا دورہ کرتے رہتے ہیں ۔ یہ نشستیں کبھی ماہانہ ہوتی ہیں تو کبھی کسی مقابلے کے تقسیمِ انعامات یا کسی خاص مناسبت سے رکھی جاتی ہیں، مہمانِ خصوصی کے طور پر شہر کی کوئی بڑی یا مہمان شخصیت  مدعو کی جاتی ہے،   جسے "پھول" کی تعارفی مہم کا ہی کا ایک حصہ بھی  سمجھا جاتا ہے، اس لیے کہ اس میں کسی نہ کسی عنوان کے ساتھ  ساتھ ادارے  کی اہم  سرگرمیوں سے با خبر کیا جاتا ہے۔

اشاعتی دورے: ۔

مقامی تعارفی نشستوں کے ساتھ ساتھ اشاعتی دورے بھی ادارے کے منصوبوں میں سے ایک اہم منصوبہ ہے، جسے ہمارے نوخیز علماء اور ذمے دارانِ ادارہ  ادبِ اطفال  بڑے منظم  اور عمدہ پیمانے پر انجام دے رہے ہیں، بالخصوص جب مدرسوں اور اسکولوں میں تعطیل ہوتی ہے تو ان چھٹیوں کے ایام کو غنیمت جان کر اشاعتی دوروں کا پروگرام بناتے ہیں اورپہلے سے طے شدہ پروگراموں کے مطابق ایک وفد  کی شکل میں روانہ ہوتے ہیں، جہاں ان کا پرتپاک استقبال کیا جاتا ہے، کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ نشستوں اور پروگراموں کے انعقاد کی کوشش کی جاتے ہیں، اگر سرِ راہ  کوئی بستی یا گاؤں  ملتا ہو تو وہاں کچھ گھنٹے قیام یا  آرام کے بہانے رکتے ہیں اور  اگر ممکن ہو تو وہاں بھی کسی اسکول یا مدرسے ،  یا کسی انجمن یا ادرے میں مختصر نشست ترتیب دی جاتی ہے۔ جس سے پورا سفر کار آمد بنتا ہے اور بچوں کی تعلیم وتربیت کے تعلق سے ایک منظم پروگرام کا  ایک نمونہ پیش کر کے انھیں بھی اس طرح کی کوششوں کے لیے آمادہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، جس کے بڑے اچھے اثرات اور نتائج ہمارے سامنے ہیں۔  یہ اشاعتی اور تعارفی دورے ملک کے طول وعرض میں وقتا فوقتا ہوتے رہتے ہیں۔ جس کے تحت اب تک پایہ تخت  دہلی کے علاوہ ریاستِ کرناٹک، راجستھان، مدھیہ پردیش ، اترا پردیش، آندھرا پردیش اور   گجرات قابلِ ذکر ہیں  ۔

 اسی طرح  وقتا فوقتا ملک کے طول وعرض میں منعقد ہونے والی ادبی  یا ثقافتی سرگرمیوں میں بالواسطہ یا بلاواسطہ شرکت کی کوشش کی جاتی ہے، بالخصوص اہم سیمناروںاور جلسوں میں  دو چار نمائندوں کے شرکت کی  پوری   کوشش ہوتی  ہے ۔ جس  کے بے حد فوائد ہیں، اس میں سے اہم فائدہ یہ ہے  کہ وہاں تشریف لائے ہوئے احباب مختلف دینی، ثقافتی وعلمی  اداروں اور   اسکولوں و مدرسوں کے ذمے داران ہوتے ہیں، اس میں شرکت سے باہمی روابط بڑھتے ہیں، ایک دوسرے کی خدمات سراہتے ہیں،نئے نئے تجربات ملتے ہیں، میدان میں کام کرنے والوں سے مثبت ومنفی مفید مشورے اور تبصرے سننے ملتے ہیں، صالح تنقید سے اپنی کمیوں اور کوتاہیوں کے تدارک کا احساس جنم پاتا ہے اور قدر دانوں کی زبانی جب ان کے دلی جذبات اور نیک خواہشات سنتے ہیں تو کام کرنے والوں میں حوصلے بڑھتے ہیں، قربانیوں سے قربانیاں وجود میں آتی ہیں اور  شاعرِ مشرق علامہ اقبال کے اس شعر کی حقیقت واضح ہو جاتی ہے۔

دوعالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو

عجب چیز ہے لذتِ آشنائی

ابنائے جامعہ : ۔

سال ٣٤-١٤٣٣ / ١٣-٢٠١٢ کے ابنائے جامعہ اسلامیہ بھٹکل   اپنے مادرِ علمی جامعہ سے عالمیت کے بعددار العلوم ندوة العلماء لکھنو سے فضیلت   کر کے جب وہ  شہر لوٹے تو علمی، ثقافتی ، اصلاحی  اور معاشی  وتجارتی الگ الگ میدانوں  میں سرگرم عمل ہو کر اپنے مادرِ وطن ہی کی فکر میں لگے رہے ۔۔۔ جس کے نتیجہ میں " کپڑا بینک" کے ساتھ " ماہنامہ بچوں کا پھول" اور" ادارہ ادب ِاطفال" وغیرہ  کی سرگرمیاں وجود میں آئیں،الحمد للہ ان تمام کوششوں اور فکروں میں  وہ  اپنے اساتذہ اور اپنے مادر علمی سے وابستہ رہ کر " پیوستہ رہ شجر سے امیدِ بہار رکھ" کی عملی مثال قائم کر تے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں۔

خدمات کا اعتراف اور کرناٹکا اردو اکیڈمی کا ایوارڈ : ۔

ماہِ جون سن 2019 میں جب بھٹکل کے دوصحافیوں کو کرناٹکا اردو اکیڈمی نے ایوارڈ کے لیے منتخب کیا تھا،ان میں سے ایک بھٹکل نیوز کے ایڈیٹر جناب عتیق الرحمن شاہ بندری تھے، تو دوسرے ایڈیٹر ماہنامہ پھول مولوی عبد اللہ دامدا ابو ندوی ۔ جو ایوارڈ درحقیقت ایک فرد نہیں بلکہ ان کے ساتھ " ماہنامہ پھول" کے بھی نام تھا، جس ماہنامے نےانتہائی مختصر مدت میں ہندوستان کے مختلف شہروں سے نکلنے والے رسائل میںاپنی ایک حیثیت اور پہچان  قائم کی اور دینی بنیاد پر بچوں کی تربیت کا ایک انوکھا دعوتی مشن شروع کیا، جسے اردو اکیڈمی کی طرف سےسراہتے ہوئے اعزاز سے نوازا گیا اور اعترافِ خدمات میں پچیس  ہزار روپے نقد کے علاوہ ایک توصیفی سند، ایک مومنٹو اور ایک شال پیش کی گئی۔ یقینا اکیڈمی کا یہ حسنِ انتخاب  اور  ایوارڈ کو صحافتی  وادبی حلقوں میں بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا گیاہے اور ہم سے بھی ان کی کے ساتھ پورے ادارے کی  ہمت افزائی  استحقاق رکھتا  ہے۔ اس لیے کہ اس ایوارڈ  سے مادرِ علمی ہی نہیں بلکہ مادرِ وطن کا بھی نام روشن کیا ہے۔

اعترافِ حقیقت  :۔

ادارہ ادبِ اطفالکے جملہ رفقاء اور معاونین کی  جتنی بھی پذیرائی اور ہمت افزائی کی جائے کم  ہے۔   ہم  ادارے کے بڑھتے قدم پر دل کی گہرائیوں سے قدر دانی کے جذبات و احساسات سے معمور مبارکبادیوں کی سوغات پیش کرتے ہیں،الحمد للہ  ہمارے ادارے "ادارہ فکر وخبر" نے بھی اس کے قیام کے روزِ اول سے ان  کی جانب سے انجام پانی والی تمام  کوششوں کو سراہا ہے۔ بالخصوص " ماہنامہ بچوں کا پھول" اور "ادارہ ادبِ اطفال" کی سرگرمیوں،اس کے جلسوں اور  پروگراموں سے ہمارے قارئین کو متعارف کراتے رہنے کی حتی المقدور کوشش کی ہے، تاکہ اس کا فیض دور دور تک پہنچے اور اس کی افادیت واہمیت کا  بھی لوگوں کو اندازہ ہو سکے۔

معزز قارئین:۔  بلاشبہ قافلۂ شوق کی مخلصانہ کوششیں قابلِ قدر و ستائش ہیں، کاوشیں صد آفریں ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ  ان شاء اللہ یہ محنتیں مزید  رنگ لائیں گی، اس  شمعِ فروزاں سے  نویدِ صبح روشن ہوگی،اک چراغ سے سو چراغ جلیں گے، جس سےتاریکیاں کافور اور کوچہ و راہ اجالوں سے پرنور ہوں گے۔   بالخصوصاردو کی موجودہ  مایوس کن صورتِ حال کو دیکھنے کے بعد ان نو نہالوں کی کاوشوں اور ان جیالوں ونوخیزوں  کی شبانہ روز محنتوں اور کامیاب  کاوشوں  کو دیکھ کر  مستقبل کے منظر نامے بشارتوں سے معمور نظر آتے ہیں اور ساحر ؔلدھیانوی کا یہ شعر بے اختیار زبان پر آ رہا ہے ۔

کچھ اور بڑھ گئے ہیں اندھیرے تو کیا ہوا

مایوس تو نہیں ہیں طلوعِ سحر سے ہم

ربنا تقبل منا إنك أنت السميع العليم، وتب علينا إنك أنت التواب الرحيم۔

 

تحریر کردہ: ۔ مورخہ ۔ ۱۲/ ربیع الثانی ۱۴۴۲ ہجری    مطابق ۔  ۲۹ نومبر ۲۰۲۰ عیسوی

 

«
»

ملک میں مسلمانوں کو اپنے وجود کا احساس دلانا ضروری ہے۔

سیاست سے حمایت تک

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے