محمود مدنی کی پہل

لیکن مودی کی مشکل یہ ہے کہ خودان کی،پارٹی لیڈروں کی اور کیڈر کی ذہنیت ایک مخصوص سانچے میں ڈھلی ہوئی ہے۔ مودی کے پیش نظر جو کارنامہ ہے اس کو انجام دینے کے لئے اس کو بدلنا ہوگا۔ یہ کام آسان نہیں۔لیکن انتظار کرنا چاہئے۔ تبدیلی کے کچھ اشارے مل ضرور رہے ہیں۔
ایسے موقع پر اگر ہم بولتے ہیں تواس کا ردعمل دوسرا ہوگا۔ ہم کو گرتی ہوئی دیوار کا سہارا نہیں بن جانا چاہئے۔تاہم صورتحال پر غور و خوض کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ جمعیۃعلماء ہند کے فعال جنرل سیکریٹری مولانا محمود صاحب نے جماعت اسلامی ہند، مسلم پرسنل بورڈ، جمعیت اہلحدیث اور ملی کونسل کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کی پہل کی ہے تاکہ کوئی مشترکہ تدبیر تلاش کی جائے۔ اس کا خیرمقدم ہونا چاہئے۔ لیکن بہتر ہوگا کہ اس کو مزید وسعت دی جائے ۔ شیعہ اور اہل سنت تنظیموں کو بھی مشورے میں شامل ہونا چاہئے۔جمعیۃعلماء کے قیام میں سبھی طبقات شامل تھے۔ اگرمحمودصاحب کی پہل سے جمعیۃ اپنی اصل کی طرف لوٹتی ہے تو ایک مبارک بات ہوگی۔ اچھا یہ ہوگا کہ مولانا ارشد کی تنظیم بھی اس میں شامل ہو۔
ساکشی کو نوٹس
ایک خبر یہ ہے بی جے پی نے اپنے دریدہ دہن رکن پارلیمان ساکشی کو ان کے چاربچوں والے بیان پر نوٹس جاری کیا ہے۔ دیرآید درست آید۔ دیکھنا یہ ہے کہ ساکشی کاکیا جواب آتا ہے۔ پارٹی دہلی الیکشن سے قبل صرف لیپا پوتی کرتی ہے یا کچھ سنجیدگی بھی دکھاتی ہے۔ دریں اثنا ایک خبر یہ آئی ہے آر ایس ایس کی ایک اہم تنظیم سودیشی جاگرن منچ نے آراضی ایکوائر ایکٹ میں اس تبدیلی پر ناراضگی جتائی ہے جس کے لئے آرڈی ننس لایا گیا ہے۔اس تبدیلی مقصد کل کارخانے لگانے کے لئے زرخیز زمین کو ایکوائرکرنا آسان کرنا ہے۔منچ کا یہ اندیشہ درست ہے کہ کاشت کی زرخیز آراضی کم ہونے سے غذائی پیداوار پر منفی اثرپڑیگا۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ مودی سرکار، گھر کے اندر سے اٹھنے والے اس مخالفانہ آواز پر کیا رخ اختیار کرتی ہے؟(ختم)

 

«
»

مر اعشق بھی کہانی ،تر ا حسن بھی فسانہ

پیرس حملہ : امن عالم کے لئے ٹھوس لائحہ عمل کی ضرورت

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے