ماہ رجب المرجب؛ کیا کریں‘کیا نا کریں!

    شیخ ڈاکٹر بسام عبد الکریم الحمزاوی
   تلخیص وترجمانی: عبدالرشیدطلحہ نعمانیؔ

    ہر سال ماہ رجب کا آغاز ہوتے ہی لوگوں کے درمیان سوشل میڈیا وغیرہ پرکثرت سے اس طرح کے سوالات گشت کرنے لگتے ہیں: کیا ماہ رجب کی کوئی خصوصی وامتیازی شان ہے؟کیا یہ واقعی فضیلت والا مہینہ ہے؟کیا اس کی اہمیت کتاب و سنت سے ثابت ہے؟ وغیرہ 
    ماہ رجب المرجب کی فضیلت و اہمیت کے حوالے سے مسلم معاشرے میں بنیادی طور پر دو نقطہائے نظر پائے جاتے ہیں۔ایک نقطہئ نظر ان احباب کا ہے جو اس سلسلے میں غلو پسند واقع ہوئے ہیں اور موضوع  و من گھڑت روایات کا سہارا لے کر اس مہینے کی فضیلت کو ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔دوسرا نقطہئ نظر ان لوگوں کا ہے جو سرے سے اس کی فضیلت و اہمیت کے قائل نہیں اور بعض منصوص چیزوں کے انکار سے بھی دریغ نہیں کرتے۔لہذا آغازِ رجب کے اس موقع پرمناسب محسوس ہوا کہ رجب کی اہمیت و فضیلت کے حوالے سے افراط و تفریط سے پاک،اسلاف امت سے منقول،معتدل و و اضح  نقطہئ نظر قارئین کی خدمت میں پیش کیا جائے؛تاکہ حقائق سے آگہی ہوسکے اور خرافات و رسومات سے بچا جاسکے۔
ماہ رجب سے متعلق کیا ثابت ہے:
    الف: یہ مہینہ حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے جو امن و سلامتی کا علم بردارہے،اس میں جنگ کا اقدام کرنا جائز نہیں، اور اگر جنگ کی نوبت آجائے تو اسے روکنا ضروری ہے۔قرآن مجید میں حق تعالی شانہ کا ارشاد ہے:لوگ آپ سے حرمت والے مہینے کی بابت (یعنی) اس میں قتال کی بابت دریافت کرتے ہیں۔ آپ کہہ دیجئے کہ اس میں قتال کرنا بڑا (گناہ) ہے۔(البقرۃ)
    ب: مسلمان کو اس مہینے میں گناہ سے اجتناب کرنا چاہیے؛کیوں کہ ماہ رجب کا شمار حرمت والے مہینوں میں ہوتاہے،اللہ تعالی کا فرمان ہے: حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالی کے نزدیک مہینوں کی تعداد بارہ ہے،جو اللہ تعالی کی کتاب یعنی لوح محفوظ کے مطابق اس دن سے چلی آ رہی ہے جس دن اللہ تعالی نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کیا تھا،ان بارہ مہینوں میں سے چار حرمت والے مہینے ہیں،یہی دین کاسیدھا سادہ راستہ ہے، سو ان میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو اور مشرکوں سے ہر حال میں لڑو، جیسے وہ ہر حال میں تم سے لڑتے ہیں اور جان لو کہ اللہ متقی لوگوں کے ساتھ ہے۔(سورۃ التوبہ)
مفسر قرآن حافظ ابن کثیر ؒاس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:“پس اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق تم ان پاک مہینوں کااحترام کرو، ان میں خصوصیت کے ساتھ گناہوں سے بچو اس لیے کہ اس میں گناہوں کی برائی اور بڑھ جاتی ہے، جیسے کہ حرم شریف کا گناہ اور جگہ کے گناہ سے بڑھ جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ جو حرم میں الحاد کا ارادہ ظلم سے کرے ہم اسے درد ناک عذاب کریں گے۔ (الحج)اسی طرح سے ان محترم مہینوں کا گناہ اور دنوں کے گناہوں سے بڑھ جاتا ہے اس لیے امام شافعی رحمہ اللہ اور علماء کی ایک بڑی جماعت کے نزدیک ان مہینوں کے قتل کی دیت بھی سخت ہے۔ اس طرح حرم کے اندر قتل کی اور ذی محرم رشتے دار کے قتل کی بھی۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: آیت میں (فیھن)سے مراد سال بھر کے کل مہینے ہیں۔ پس ان کل مہینوں میں گناہوں سے بچو خصوصاً ان چار مہینوں میں کہ یہ حرمت والے ہیں۔ ان کی بڑی عزت ہے ان میں گناہ سزا کے اعتبار سے اور نیکیاں اجر و ثواب کے اعتبار سے بڑھ جاتی ہیں۔
سیدنا قتادہ رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ ان حرمت والے مہینوں میں گناہ کی سزا اور بوجھ بڑھ جاتا ہے گو ظلم ہر حال میں بری چیز ہے؛لیکن اللہ تعالیٰ اپنے جس امر کو چاہے بڑھا دے۔ دیکھیے! اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں سے بھی پسند فرما لیا فرشتوں میں انسانوں میں اپنے رسول چن لیے اسی طرح کلام میں سے اپنے ذکر کو پسند فرما لیا اور زمین میں سے مسجدوں کو پسند فرما لیا اور مہینوں میں سے رمضان المبارک کو اور ان چاروں مہینوں کو پسند فرما لیا اور دنوں میں سے جمعہ کے دن اور راتوں میں لیلتہ القدر کو پس تمہیں ان چیزوں کی عظمت کا لحاظ رکھنا چاہیئے جنہیں اللہ تعالیٰ نے عظمت دی ہے”۔
مختصر یہ کہ رجب کا مہینہ رمضان کا پیش خیمہ ہے اس مہینے سے بہ طور خاص ترک معاصی کی کوشش کرنی چاہیے،چوں کہ ہر شخص کسی نہ کسی پہلو سے مبتلائے معصیت ہے؛لہذااسے گناہوں کو چھوڑنیکی جدوجہد کرنی چاہیے تاکہ رجب کا مہینہ تخلیے کا ہوجائے اور شعبان کا مہینہ تحلیہ اور آراستہ ہونے کا۔
    ج: اس قابل عظمت مہینے میں بغیر تحدید و تعیین کے عبادت کرنا مشروع ہے۔ نسائی شریف کی روایت ہے، اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے منقول ہے،فرماتے ہیں: میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! جتنا میں آپ کو شعبان کے مہینے میں روزہ رکھتے ہوئے دیکھتا ہوں اتنا کسی اور مہینے میں نہیں دیکھتا، آپ نے فرمایا: ”رجب و رمضان کے درمیان یہ ایسا مہینہ ہے جس سے لوگ غفلت برتتے ہیں، یہ ایسا مہینہ ہے جس میں آدمی کے اعمال رب العالمین کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں، تو میں چاہتا ہوں کہ جب میرا عمل پیش ہو تو میں روزہ سے رہوں“۔اس سے یہ اشارہ ملتاہے کہ لوگ رجب اور رمضان میں اپنے رب کی عبادت کرتے تھے اور رمضان کی تیاری رجب ہی سے شروع ہوجاتی تھی۔
    اسی طرح مسلم شریف میں حضر ت عثمان حکیم انصاری کے صاحب زادے سے روایت ہے کہ انہوں نے سیدنا سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ سے رجب کے روزوں سے متعلق پوچھا؟ اور یہ سوال ماہ رجب میں کیا تو سیدنا سعید رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے سنا ہے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہ فرماتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روزے رکھتے تھے یہاں تک کہ ہم کہتے تھے: اب افطار نہ کریں گے اور افطار کرتے تھے یہاں تک کہ ہم کہتے تھے: اب روزہ نہ رکھیں گے۔ اس روایت سے پتہ چلا کہ رجب میں بھی عام مہینوں کی طرح روزہ  رکھاجاسکتا ہے،البتہ رجب کے کسی خاص دن میں روزہ رکھنا صحیح سند سے منقول نہیں۔
ماہ رجب سے متعلق کیا ثابت نہیں:
    حافظ ابن حجر عسقلانیؒ (م 852 ھ)نے اس موضوع پر“ تبیین العجب بماوردفی فضل رجب”کے نام سے مستقل ایک کتاب لکھی جس میں انہوں نے ماہ رجب سے متعلق رائج  بدعات وخرافات پر تفصیلی روشنی ڈالی،ایک مقام پر لکھتے ہیں:
    ”رجب کے مہینے کی فضیلت، اُس کے روزوں کی فضیلت، اُس کے چند مخصوص دنوں کے روزوں کی فضیلت اور اُس کی رات میں مخصوص قیام کی فضیلت کے تعلق سے کوئی بھی صحیح حدیث وارد نہیں ہے جو احتجاج کے قابل ہواور مجھ سے پہلے بالجزم یہ بات امام ابو اسماعیل الہروی رحمہ اللہ نے کہی ہے، ہم نے اِس قول کو اُن سے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے اور اِسی طرح اس بات کو ہم نے دوسروں سے بھی روایت کیا ہے“۔
چندضعیف او ر موضوع روایات پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے چلیں!
1:''جنت میں ایک ندی ہے جسے رجب کہتے ہیں: اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھا ہے''۔ یہ روایت ضعیف ہے۔
2:''جو شخص رجب میں ایک دن روزہ رکھے گا خدا اسے اس ندی سے پانی دے گا''۔یہ روایت بھی ضعیف ہے۔
3: '' بہترین مہینہ رجب کا مہینہ ہے، جو اللہ کا مہینہ ہے،ا سی نے رجب کو عظمت والا بنایا ہے،جس نے امر اللہ کی تعظیم کی اللہ اسے نعمتوں کے باغات میں داخل کرے گا اور اس کے لیے اپنی خوش نودی کو لازم کردے گا۔بلاشبہ شعبان کا مہینہ میرا مہینہ ہے اور رمضان کا مہینہ میری امت کا مہینہ ہے…..۔یہ موضوع روایت ہے۔
بدعات رجب میں صلاۃ الرغائب بھی کافی اہمیت رکھتی ہے؛اس نماز کی کیفیت انس رضی اللہ عنہ کی ایک موضوع حدیث میں اس طرح بیان ہوئی ہے: ''جو شخص ماہ رجب کی پہلی جمعرات کو روزہ رکھے اور جمعہ کی رات عشاء اور تاریکی ہونے کے درمیان بارہ رکعت نماز پڑھے، ہر رکعت میں سورہ الفاتحہ ایک مرتبہ اور (انا انزلناہ فی لیلۃ القدر) تین مرتبہ اور (قل ھو اللہ احد) بارہ مرتبہ اور ہر دو رکعت میں سلام پھیرے۔ پھر جب نماز سے فارغ ہوجائے تو مجھ پر ستر مرتبہ درود بھیجے، پھر دو سجدے کرے پہلے سجدے میں ستر مرتبہ (سبوح قدوس رب الملائکۃ والروح) پڑھے، پھر سجدے سے سر اٹھائے اور ستر مرتبہ (رب اغفر وارحم وتجاوز عما تعلم، انک انت العزیز الاعظم) کہے پھر دوسرا سجدہ کرے اور اس میں بھی یہی دعا پڑھے، پھر اللہ تعالی سے اپنی حاجت کا سوال کرے، تو اللہ تعالی اس کی حاجت پوری فرمائے گا۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! جو بندہ یا بندی اس نماز کو پڑھے اللہ اس کے تمام گناہوں کو معاف کردے گا خواہ اس کے گناہ سمندر کے جھاگ، ریت کے ذرات، پہاڑوں کے وزن اور درختوں کے اوراق کے برابر ہوں، نیز قیامت کے دن وہ اپنے خانوادے سے ستر جہنم واجب لوگوں کی شفاعت کرے گا''۔(تبیین العجب فیما ورد فی فضل رجب لابن حجر، ص 22-24)
اس نماز  کے متعلق  شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:''جہاں تک صلاۃ الرغائب کا تعلق ہے تو اس کی کوئی اصل نہیں بلکہ بدعت ہے۔ لہذا اسے نہ تن تنہا پڑھنا مستحب ہے نہ باجماعت، کیونکہ صحیح مسلم کی حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کی رات کو تہجد کے لئے اور دن کو روزہ کے لئے خاص کرنے سے منع فرمایا ہے، صلاۃ الرغائب کے سلسلہ میں جو حدیث بیان کی جاتی ہے وہ باتفاق علماء جھوٹی اور موضوع ہے، کسی ایک بھی سلف اور امام سیاس کا ذکر تک منقول نہیں ہے''۔(فتاوی ابن تیمیہ: 23/132، 134، 135)
نوٹ:موضوع روایت پر عمل کرنا تو ناجائز ہے،البتہ یہ بات اپنی جگہ محقق ہے کہ محدثین نے باب فضائل میں ضعیف احادیث کو معتبر قرار دیا ہے اور اس حوالے سے چشم پوشی سے کام لیا ہے؛مگر اسی شرط کے ساتھ کہ اس کے ضعیف ہونے کا اعتقاد رکھا جائے۔اگر اس پر عمل کو ضروری سمجھ لیا گیا تو پھر اس کا ترک ہی اولی ہے۔

مضمون نگارکی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

 

 

«
»

بنگال پر فرقہ پرستی اور فسطائیت کا حملہ ….. سب کو مل کر اس کا مقابلہ کرنا چاہئے

اگر اظہار راۓ کی آزادی نہ بچی، تو آئینی جمہوریت نہیں بچ پائے گی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے