ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی
شوال کے ۶ روزے واجب یا سنت؟قرآن وسنت میں شوال کے ۶ روزوں کے واجب ہونے کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔ اس وجہ سے امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ شوال کے یہ چھ روزے فرض یا واجب نہیں ہیں بلکہ سنت ہیں۔ شوال کے ان ۶ روزوں کے سنت ہونے پر جمہور علماء کا اتفاق ہے، صرف امام مالک ؒ نے اپنی کتاب موطا امام مالکؒ میں (رمضان کے فوراً بعد یعنی عیدالفطر کے دوسرے دن سے) ان ۶ روزوں کے اہتمام کو مکروہ تحریر کیا ہے۔ بعض حضرات نے عیدالفطر کے فوراً بعد ان چھ روزوں کو رکھ کر ساتویں شوال کی شام کو ایک تقریب کی صورت بنانی شروع کردی تھی، ممکن ہے کہ اسی وجہ سے امام مالکؒ نے عیدالفطر کے دوسرے دن سے اہتمام کے ساتھ ان ۶ روزے رکھنے کو مکروہ قرار دیا ہوتاکہ رمضان اور غیر رمضان کے روزوں میں فرق کیا جاسکے، جیساکہ امام قرطبیؒ نے تحریر کیا ہے کہ خراسان کے بعض حضرات نے رمضان کی طرح عیدالفطر کے ان ۶ روزوں کا اہتمام کیا۔ جمہور علماء کی رائے یہی ہے کہ شوال کے ۶ روزے سنت ہیں اور عید الفطر کے دوسرے دن سے ان روزوں کا اہتمام کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان کے مشہور عالم دین حضرت مفتی زر ولی خان صاحب کی شوال کے ۶ روزوں کے مکروہ ہونے کے متعلق رائے حدیث کے خلاف ہونے کی وجہ سے قابل قبول نہیں ہے۔ اسی وجہ سے موجودہ دور میں بھی کسی بھی حنفی مکتب فکر کے دارالافتاء نے شوال کے ۶ روزوں کے مکروہ ہونے کا کوئی فتوی جاری نہیں کیا۔ دارالعلوم دیوبند، مظاہر العلوم سہارن پور، ندوۃ العلماء لکھنؤ، مدرسہ شاہی مرادآباد، دارالعلوم کراچی اور جامعہ اشرفیہ لاہور جیسے مشہور اداروں کے کسی دارالافتاء سے شوال کے ۶ روزوں کے مکروہ ہونے کا کوئی فتوی جاری نہیں ہوا۔ بلکہ واضح حدیث کی بنیاد پر ان روزوں کے سنت یا مستحب ہونے کو ہی کہا ہے اور جن بعض علماء سے اِن روزوں کی کراہیت کے متعلق قول منقول ہے اُن آراء میں توجیہ وتاویل کی جائے گی نہ کہ حدیث شریف میں۔
شوال کے ۶ روزے رکھنے کی فضیلت:حضرت ابوایوب انصاری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: جس نے رمضان کے روزے رکھے پھر اُس کے بعد چھ دن شوال کے روزے رکھے تو وہ ایسا ہے گویا اُس نے سال بھر روزے رکھے۔ (صحیح مسلم، ابوداود، ترمذی، ابن ماجہ) اس مذکورہ حدیث میں دہر کا لفظ آیا ہے جس کے اصل معنی زمانے کے ہیں لیکن دیگر احادیث کی روشنی میں یہاں سال مراد ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنی امت کو بشارت دی ہے کہ ماہِ رمضان کے روزے رکھنے کے بعد شوال کے چھ روزے رکھنے والا اس قدر اجر وثواب کا حقدار ہوتا ہے کہ گویا اس نے پورے سال روزے رکھے، اللہ تعالیٰ کے کریمانہ قانون کے مطابق ایک نیکی کا ثواب کم از کم دس گنا ملتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: جو شخص ایک نیکی لے کر آئے گا اس کو دس نیکیوں کا ثواب ملے گا۔ (سورۃ الانعام ۰۶۱) تو اس طرح جب کوئی ماہ رمضان کے روزے رکھے گا تو دس مہینوں کے روزوں کا ثواب ملے گا اور جب شوال کے چھ روزے رکھے گا تو ۰۶ دنوں کے روزوں کا ثواب ملے گا تو اس طرح مل کر بارہ مہینوں یعنی ایک سال کے برابر ثواب ہوجائے گا۔مذکورہ فضیلت کے علاوہ علماء کرام نے تحریر کیا ہے کہ رمضان المبارک کے روزوں میں جو کوتاہیاں سرزد ہوجاتی ہیں، شوال کے ان چھ روزوں سے اللہ تعالیٰ اس کوتاہی اور کمی کو دور فرمادیتے ہیں۔ اس طرح ان چھ روزوں کی رمضان کے فرض روزوں سے وہی نسبت ہوگی جو سنن ونوافل کی فرض نمازوں کے ساتھ ہے کہ اللہ تعالیٰ سنن ونوافل کے ذریعہ فرض نمازوں کی کوتاہیوں کو پورا فرمادیتا ہے جیساکہ واضح طور پر نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے۔
شوال کے ۶ روزے مسلسل رکھنا ضروری نہیں ہیں:احادیث میں چھ روزے مسلسل رکھنے کا ذکر نہیں ہے، لہذا یہ چھ روزے ماہ ِشوال میں عید الفطر کے بعد لگاتار بھی رکھے جاسکتے ہیں اور بیچ میں ناغہ کرکے بھی۔
رمضان کے فوت شدہ روزوں اور شوال کے ۶ روزوں میں سے کون سے پہلے رکھے جائیں:اگر کسی شخص کے رمضان کے روزے کسی عذر کی وجہ سے چھوٹ گئے تو تحقیقی بات یہ ہے کہ رمضان کے روزوں کی قضا سے پہلے اگر کوئی شخص ان چھ روزوں کو رکھنا چاہے تو جائز ہے کیونکہ رمضان کے روزوں کی قضا فوری طور پر واجب نہیں ہے بلکہ کسی بھی ماہ میں رمضان کے فوت شدہ روزوں کی قضا کی جاسکتی ہے۔نبی اکرم ﷺ کے زمانے میں عورتیں حتی کہ ازواج مطہرات اپنے رمضان کے فوت شدہ روزوں کی قضا عموماً ۱۱ ماہ بعد ماہ شعبان میں کیا کرتی تھیں جیساکہ احادیث میں مذکور ہے۔
(نوٹ) اگر کسی شخص نے ان چھ روزوں کو رکھنا شروع کیا، لیکن کسی وجہ سے ایک یا دو روزہ رکھنے کے بعد دیگر روزے نہیں رکھ سکا تو اس پر باقی روزوں کی قضا ضروری نہیں ہے، اسی طرح اگر کوئی شخص ہر سال ان روزوں کے رکھنے کا اہتمام کرتا ہے مگر کسی سال نہ رکھ سکے تو وہ گناہگار نہیں ہے اور نہ ہی اس پر ان روزوں کی قضا واجب ہے۔
شوال کے ۶ روزے رکھنے کی فضیلت:حضرت ابوایوب انصاری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: جس نے رمضان کے روزے رکھے پھر اُس کے بعد چھ دن شوال کے روزے رکھے تو وہ ایسا ہے گویا اُس نے سال بھر روزے رکھے۔ (صحیح مسلم، ابوداود، ترمذی، ابن ماجہ) اس مذکورہ حدیث میں دہر کا لفظ آیا ہے جس کے اصل معنی زمانے کے ہیں لیکن دیگر احادیث کی روشنی میں یہاں سال مراد ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنی امت کو بشارت دی ہے کہ ماہِ رمضان کے روزے رکھنے کے بعد شوال کے چھ روزے رکھنے والا اس قدر اجر وثواب کا حقدار ہوتا ہے کہ گویا اس نے پورے سال روزے رکھے، اللہ تعالیٰ کے کریمانہ قانون کے مطابق ایک نیکی کا ثواب کم از کم دس گنا ملتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: جو شخص ایک نیکی لے کر آئے گا اس کو دس نیکیوں کا ثواب ملے گا۔ (سورۃ الانعام ۰۶۱) تو اس طرح جب کوئی ماہ رمضان کے روزے رکھے گا تو دس مہینوں کے روزوں کا ثواب ملے گا اور جب شوال کے چھ روزے رکھے گا تو ۰۶ دنوں کے روزوں کا ثواب ملے گا تو اس طرح مل کر بارہ مہینوں یعنی ایک سال کے برابر ثواب ہوجائے گا۔مذکورہ فضیلت کے علاوہ علماء کرام نے تحریر کیا ہے کہ رمضان المبارک کے روزوں میں جو کوتاہیاں سرزد ہوجاتی ہیں، شوال کے ان چھ روزوں سے اللہ تعالیٰ اس کوتاہی اور کمی کو دور فرمادیتے ہیں۔ اس طرح ان چھ روزوں کی رمضان کے فرض روزوں سے وہی نسبت ہوگی جو سنن ونوافل کی فرض نمازوں کے ساتھ ہے کہ اللہ تعالیٰ سنن ونوافل کے ذریعہ فرض نمازوں کی کوتاہیوں کو پورا فرمادیتا ہے جیساکہ واضح طور پر نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے۔
شوال کے ۶ روزے مسلسل رکھنا ضروری نہیں ہیں:احادیث میں چھ روزے مسلسل رکھنے کا ذکر نہیں ہے، لہذا یہ چھ روزے ماہ ِشوال میں عید الفطر کے بعد لگاتار بھی رکھے جاسکتے ہیں اور بیچ میں ناغہ کرکے بھی۔
رمضان کے فوت شدہ روزوں اور شوال کے ۶ روزوں میں سے کون سے پہلے رکھے جائیں:اگر کسی شخص کے رمضان کے روزے کسی عذر کی وجہ سے چھوٹ گئے تو تحقیقی بات یہ ہے کہ رمضان کے روزوں کی قضا سے پہلے اگر کوئی شخص ان چھ روزوں کو رکھنا چاہے تو جائز ہے کیونکہ رمضان کے روزوں کی قضا فوری طور پر واجب نہیں ہے بلکہ کسی بھی ماہ میں رمضان کے فوت شدہ روزوں کی قضا کی جاسکتی ہے۔نبی اکرم ﷺ کے زمانے میں عورتیں حتی کہ ازواج مطہرات اپنے رمضان کے فوت شدہ روزوں کی قضا عموماً ۱۱ ماہ بعد ماہ شعبان میں کیا کرتی تھیں جیساکہ احادیث میں مذکور ہے۔
(نوٹ) اگر کسی شخص نے ان چھ روزوں کو رکھنا شروع کیا، لیکن کسی وجہ سے ایک یا دو روزہ رکھنے کے بعد دیگر روزے نہیں رکھ سکا تو اس پر باقی روزوں کی قضا ضروری نہیں ہے، اسی طرح اگر کوئی شخص ہر سال ان روزوں کے رکھنے کا اہتمام کرتا ہے مگر کسی سال نہ رکھ سکے تو وہ گناہگار نہیں ہے اور نہ ہی اس پر ان روزوں کی قضا واجب ہے۔
جواب دیں