البتہ نہ کوئی خصوصی فضیلت وارد ہوئی ہے اور نہ کوئی مخصوص عملی اہمیت کی تاکید ہے ۔دینِ اسلام نے ہمیشہ توحیدِ خالص کی تعلیم دی ہے ،جاہلی معاشرے کے رسم و رواج ،توہم پرست سماج کی فرسودہ روایات اور یہود و نصاریٰ کی مذہبی تحریفات کی وجہ سے جو غلط فہمیاں اور بے بنیاد باتیں ،بے تُکے اعمال،اوربے وجہ توّہمات کی بناء پر اس مہینے کی بابت نحوست اور بد شگونی منسوب ہوگئی، اسلام کی آمد کے بعد قرآن نے دوٹوک الفاظ میں ان ساری چیزوں کی ممانعت کردی ۔
ماہ و سال ،صبح وشام اور دن و رات کے آٹھوں پہر اللہ کی مخلوقات میں سے ہیں ۔سارا زمانہ حرمت اور برکت والا ہے،اورتمام مہینوں کی طرح صفر کا مہینہ بھی ان اہم مہینوں میں سے ایک ہے جس میں عہدِ نبوت ،زمانۂ رسالت اور دور خلافت راشدہ کے بے شمار غزوات ،سریات اور فتوحات واقع ہوئیں،بے شمار ملکوں میں اسلام کا جھنڈا لہرایا گیا،لا تعداد لوگوں نے اسلام قبول کیا ،اور دنیا و آخرت کی سعادتوں سے مالا مال ہوئے ۔اسی لئے اس مہینہ کے نام کے ساتھ مظفر کا لفظ لگایا گیا، جسکے بعد یہ صفر المظفریعنی کامیاب اور صفر باظفر کہلانے لگااور معنوی اعتبار سے بھی صفر کامہینہ کامیاب ہوگیا ،اسی لئے اس میں بدشگونی تودور کی بات بدظنی کی بھی گنجائش نہیں ،اقوام و ملل اور زمان و مکان کی تاریخ کا خزانہ اس تاریخی حیثیت سے بھرا پڑا ہے قرآن و حدیث کے نصوص بھی اس کے شاہد ہیں کہ نحوست اور بدفالی کا تصور بے بنیاد ہے،خیر وشر، نفع و نقصان ،سود وزیاں ،عزت و ذلت ،مرض و شفا،غم و مسرت اور افلاس و تونگری صرف اور صرف قبضۂ قدرت میں ہے ،اسی وحدہ لا شریک کی مرضی و منشاء کے مطابق بندے کامیابیوں سے ہمکنار ہوتے ہیں،اور اس کی نافرمانی کرکے اور شرک و بدعت میں ملوث ہوکر تنہا اس کی عبادت نہ کرنے سے رسوائیوں اور ناکامیوں کے قعرِ مذلت میں جا گرتے ہیں،حقیقت یہ ہے کہ نحوست اور سعادت کا معیار انسان کا اپنا عمل ہوتا ہے ، ہر وہ نیک عمل جو خالص اللہ کی رضا کے لئے کیا گیا ہو چاہے وہ سال کے کسی مہینے، مہینے کے کسی روز وشب ،صبح وشام کے کسی پہر،پہر کے کسی وقت اور لمحہ میں ہو،وہ لمحہ ،وہ وقت،وہ مہینہ اور وہ زمانہ باسعادت ہے اسی طرح ہر برا عمل جسے انسان نے اپنی زندگی کے کسی بھی وقت کیا ہو وہ وقت اس کی نحوست کا باعث ہے،بالفاظِ دیگر دین و شریعت کے احکامات اورتعلیمات پر عمل کرنے کے لئے جدوجہد کرنا،اللہ اور رسول کی بتائی ہوئی چیزوں یعنی سنتوں کا اہتمام کرنے میں جو وقت گذرتا ہے وہ وقت انسان کی سعادتمندی اور فوزوفلاح کا سبب بنتا ہے اورمردِ مومن کے لئے اس کے ایمان کی تروتازگی اور نشوونما کا باعث ،اورخلافِ شریعت ترکِ سنت ،اور معصیت کے سبب انسان پر غیر شعوری طور پر جو منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں وہ اسکی زندگی میں قباحتوں اور نحوستوں کا احساس دلاتے ہیں ، جس کی وجہ سے وہ بعینہ اسی وقت کو منحوس سمجھنے لگتا ہے ، الغرض صفر ،مظفر ہے صفر باظفر ہے ،صفر نے غزوات کے سب سے پہلے غزوہ ،غزوۃ الابواء سے اسلام کو کامیابیاں بخشی ہیں،صفر نے صحابہ کرام سابقینِ اولین کو جینے کا حوصلہ دیا ہے۔
محترم قارئین ہم آپ سے یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ بدشگونی اور بدفالی کے اس عمل کو چھوڑ کر عزم و یقین ،نیک نیتی اور خلوص و للہیت سے ہر وہ عمل ماہِ صفر میں کریں جو آپ شبانہ روزاور ماہ و سال کے دوران کرتے ہیں شادی بیاہ ،خوشی ناخوشی، صحت و بیماری ،مرض و تندرستی اور اسلامی اور شرعی احکام کے پاس و لحاظ کے ساتھ سیروسیاحت کریں اور شوق سے کریں اور قرآنی حکم کے مطابق دنیا کے ہر منظر کو دیکھیںآپ کے دیدہ عبرت نگاہ کو سامانِ عبرت اورزادِ بصیرت حاصل ہو جائے گااور دنیا میں کفر و شرک میں مبتلاء اقوام ،شہوت اور ہوا پرستی میں ملوث ملتیں اور ظالم اور جابر حکمران کا عبرت خیز انجام اور ان کے ہلاک شدہ مقامات، کھنڈرات اور نشانات دیکھنے سے اللہ رب العزت پرایمان و یقین اور مضبوط ہو جائیگا اور ہرہر قدم آپ کو ایمان کی حلاوتیں نصیب ہونگی ۔
وماعلینا الا البلاغ
جواب دیں