ماہ ربیع المنور اور کرنے کے اہم کام

 

مولانا عبدالرشیدطلحہ نعمانیؔ

 

 

چھٹی صدی عیسوی کا وہ جاں بہ لب ماحول،جاہلیت قدیمہ کا وہ وحشت ناک زمانہ،علم و معرفت سے عاری اور تہذیب و ثقافت سے خالی وہ تاریک ترین دور،جہنم کے دہانے پر کھڑی،اپنی بربادیوں کا نظارہ کرتی اور اپنی درندگی پر ناز کرتی انسان نماحیوانیت۔ایک ایسا سنسان عالم جہاں نہ صنف نازک کے حقوق کا پاس نہ خونی اور نسبی رشتوں کا لحاظ،نہ بچوں کے ساتھ ہمدردی کے جذبات، نہ بوڑھوں کی ضعیف العمری کا احساس ۔خدا فراموشی اور خود فراموشی کی ایک ایسی صدی جس کی جہالت و ناخواندگی میں کوئی نظیر نہیں،سفاکی وخون ریزی میں کوئی مثیل نہیں،جہاں بھائی بھائی میں عداوتیں ،گھر گھر میں رنجشیں،خاندان قبیلوں میں جھگڑے،معمولی معمولی باتوں پر جنگیں،حالی مرحوم نے اس کی یوں منظر کشی کی ہے ؎

کہیں     تھا     مویشی     چرانے    پہ    جھگڑا               کہیں     پہلے    گھوڑا    بڑھانے    پہ    جھگڑا

لبِ    جو    کہیں    آنے   جانے   پہ   جھگڑا              کہیں      پانی     پینے     پلانے     پہ     جھگڑا

یونہی    روز   ہوتی   تھی   تکرار   ان   میں         یونہی    چلتی   رہتی   تھی   تلوار   ان   میں

پھرکیا ہوتا ہے؟؟ رحمت خداوندی کو اس سسکتی بلکتی اور تڑپتی انسانیت پہ رحم آتاہےاور ظلمتوں کی شب دیجور سحر ہوتی ہے،گھٹاٹوپ تاریکی میں ضلالت کے دبیز پردوں کو چاک کرتا ہوا ایک نور کامل نمودار ہوتا ہے اورآن کی آن میں سارا عالم مطلع انوار ہوجاتاہے۔ظلم و بربریت کے افق پر عدل و مساوات کا ایک آفتاب طلوع ہوتاہے،جس کی ضیاء بار کرنیں عالم انسانی کو امن و آشتی کا گہوارہ بنادیتی ہیں۔خزاں رسیدہ چمنِ انسانیت میں بلبل خوش نوا بہار گلستاں کی نوید لے کر آتی ہےاور دیکھتے ہی دیکھتےروئے زمین  لالہ زار ہو جاتی ہے۔حالی مرحوم نے اس کی بھی  خوب ہی عکاسی کی ہے  ؎

یکایک ہوئی غیرتِ حق کو حرکت بڑھا جانبِ بوقبیس ابرِ رحمت
ادا خاکِ بطحا نے کی وہ ودیعت چلے آتے تھے جس کی دیتے شہادت
ہوئی پہلوئے آمنہ سے ہویدا دعائے خلیل اور نویدِ مسیحا

ذکر میلادالنبیﷺ:

آپ علیہ السلام کی ولادت و طفولیت سے لے کر مرض وفات و وصال تک ایک ایک واقعے کا ذکر اور رُخِ مصطفی  کی ایک ایک جھلک کا تذکرہ سرمۂ چشمِ بصیرت،باعث راحت وسکینت اور رحمتِ الٰہی و برکاتِ ایزدی کے نزول کا موجب ہے۔

 ایک مسلمان کے لیے تو رسول اللہ ﷺسے وابستہ ہرچیزکا تذکرہ ،آپ کی ذات گرامی سےمتعلق ہرواقعہ کا بیان بھی عین عبادت ہے، خواہ ان کی ظاہری حیثیت کیسی ہی کیوں نہ ہو۔ جب رسول اللہ ﷺسے نسبت رکھنے والی چیزوں کا تذکرہ عین عبادت ہوا تو آپ  کا ذکرِ ولادت کیوں باعثِ تسکینِ ایمان نہ ہوگا؟ دنیا کا کوئی مسلمان، خواہ اس کا تعلق کسی مکتبِ فکر سے ہو، آپ کے ذکرِ ولادت اور اس ماہِ مقدس سے تَنفُّر اختیار نہیں کرسکتا۔ امام اہلِ سنت مولانا عبد الشکور لکھنویؒ ارقام فرماتے ہیں:’’بعض جُہلاء نے یہ مشہور کر رکھا ہے کہ مسلمانوں کا کوئی گروہ حضور انور ﷺکے ذکرِ مولد شریف کو بدعت کہتا ہے۔میرے خیال میں وہ مسلمان،مسلمان ہی نہیں جو حضورِ پاک  کے تذکرے کو منع کرے یا برا کہے۔ مولد شریف کا بیان طبعاً اور شرعاً ہر طرح سے عبادت ہے، بلکہ ہم خستہ جانوں کے لیے یہی تذکرہ باعثِ بالیدگیِ حیات اور غذائے روح ہے۔ جو شخص آپ  کے ذکر شریف کو منع کرے، یا بدعت قرار دے ہمیں اس کے خارج از اسلام ہونے میں ذرہ بھر کلام نہیں۔‘‘ ( علامہ عبد الشکور لکھنویؒ: حیات وخدمات، لاہور:ادارہ تحقیقاتِ اہل سنت، ۲۰۰۹ئ، ص:۶۰۰-۶۰۱)

لیکن ذکر رسول اور جلسہائے سیرت کے ساتھ ہمیں اس بات پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا آج ربیع الاول کی اتنی سی اہمیت رہ گئی کہ ملت کے کچھ افراد اسے جشن کے طور پر مناکر فارغ ہوجائیں؟کچھ دیر کے لیے جلسے جلوس کا انعقاد کرلیا جائے؟کچھ نعتیہ مشاعروں اور مدحیہ مجلسوں کا اہتمام ہوجائے!اس کے بعد سال کے گیارہ مہینے سنتوں کا جنازہ نکلے،فرامین رسول سے سرتابی ہو، تعلیمات نبوی کو پامال کیاجائے اور جانتے بوجھتے خلاف شرع امور انجام دیے جائیں ہمیں اس سے کوئی مطلب نہ ہو؟۔۔

نہیں نہیں! ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا۔ امت مسلمہ کو اس نادر موقع سے بہت کچھ فیض لینا ہے،بہت کچھ نفع پہونچانا ہے،امت کے لیے یہ موقع اس اہم ترین سبق کی یاد دہانی ہے جسے اس نے فراموش کردیا ہے اور اسی وجہ سےاقوام عالم کے درمیان نشان عبرت بنی ہوئی ہے۔

ربیع الاول کا مہینہ پوری امّت کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا مہینہ ہے، حالانکہ سارے مہینے ہمارے آقا علیہ السلام کے ہیں مگر یہ مہینہ آپ علیہ السلام کی ولادت کے ساتھ مخصوص ہے اس لیے امت کو چاہیے وہ اس نادر موقع سے بھرپور اٹھائے،لوگوں میں ضروری امور سے متعلق شعور بیدار کرے اور سنت کے مطابق زندگی گزارنے کو ترجیح دے۔

کرنے کے اہم کام :

اس مہینے کی مناسبت سے تمام امت کو چاہیے کہ وہ اپنے آقا علیہ السلام کی سیرت مبارکہ کا مطالعہ کرے، اس سلسلے میں مساجد، مدارس، سکولز، کالجز اور یونیورسٹیز میں سیرت پاک کے لیے روزانہ کی بنیاد پر سلسلہ وار دروس منعقد کیے جائیں۔

آج امت کو ہٹلر، سٹالن،مارکس اور لینن کی بائیوگرافی تو حرف بہ حرف یاد ہے؛ مگر اپنے محبوب آقا علیہ السلام کی زندگی کے متعلق کچھ علم نہیں۔وہ نبی صلی اللہ تعالی علیہ و سلم جن کی ذات پوری انسانیت کے لیے کامل نمونہ ہے آج امت نے ان کی زندگی کو بھلا دیا ہے اور اپنے مسائل کا حل ناقص العقل دانشوروں کے ہاتھوں تلاش کرتی ہے۔

 

ربیع الاول کے مہینے میں ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ سیرت رسول صلی اللہ تعالی علیہ و سلم کے حوالے سے کوئی کتاب لازمی ختم کرے، چاہے وہ مختصر ہو یامفصل۔آج انٹرنیٹ کے دور میں کتب تک رسائی انتہائی آسان ہو گئی ہے۔اب سارا علم انگوٹھے کے نیچے آگیا ہے۔ہر پڑھے لکھے شخص کو چاہیے کہ وہ اس موقع پر فضول بحث میں اپنا قیمتی وقت ضائع کرنے کے بجائے سیرت رسول صلی اللہ تعالی علیہ و سلم کا خود بھی مطالعہ کرے اور دیگر دوستوں کو بھی یہ پیغام پہنچائے۔

مقامی زبانوں میں سیرت رسول کے مختصر خاکے شائع کرنے اور انہیں برادران وطن کے مابین تقسیم کرنے کا اہتمام کیا جائے۔متمول اہل خیر اس طرف توجہ کریں اور سیرت رسولﷺکے پیغام کو عام کرنے میں حصہ دار بنیں،شاید کل روز قیامت یہی نجات کا ذریعہ بن جائے۔

مسلم رفاہی تنظیمیں خصوصیت کے ساتھ اس مہینے میں بھی مفلسوں، بیماروں اور پریشان حالوں کا خاص خیال رکھیں،ان کا بھرپور تعاون کریں اور انہیں اسلامی تعلیمات و نبوی اخلاق کا عملی نمونہ بن کر دکھائیں۔

اخیر میں ایک صاحب دل کےاس اقتباس پر قلم روکتا ہوں

«
»

ہندوستان اور کیش لیس سوسائٹی

پھر وہی مذہبی جذبات کا آزمودہ حربہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے