مہاتما گاندھی کو ”ملک بدر“ کرنے کی تیاریاں

حامداکمل 

اشتعال انگیزی ’بدتہذیبی اور لوگوں کی بے عزتی کے ذریعہ خبروں میں رہنے والے بی جے پی کے ایم پی اننت کمار ہیگڈے نے مہاتماگاندھی کو ڈرامہ باز قرار دے کر ہندوستان کی پوری تحریک آزادی ہی کی توہین کی ہے۔ ان کی بدزبانی والا ویڈیو کافی وائرل ہورہا ہے۔ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر متعددارکان پارلیمنٹ نے اننت کمار ہیگڈے کی زبان بیان اور بابائے قوم کی تذلیل پرزبردست احتجاج کیا ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی اس پر چپی سادھے ہوئے ہیں۔ بی جے پی کی پارلیمنٹری پارٹی کے اجلاس میں اننت کمار کو شامل ہونے سے روکا گیا۔ کیا وزیراعظم مودی کی نظر میں اننت کمار ہیگڈے کے لئے اتنی سزا کافی ہے جس طرح انہوں نے سادھوی پرگیا کوگوڈسے کو عظیم محب وطن قرار دینے پر صرف یہ دھمکی دی کہ وہ زندگی بھرپرگیا کو دل سے معاف نہیں کریں گے۔ ادھر مودی اپنے فیصلے پر قائم ہیں اور ادھر پرگیا گوڈسے سے اپنی عقیدت پر قائم ہے۔ اننت کمار ہیگڈے کو بی جے پی پارلیمنٹری پارٹی اجلاس میں شریک نہ ہونے کا مشورہ دے کر پرگیہ کی طرح انہیں بھی درپردہ طور پر معاف کردیا گیا۔ اگر مودی مہاتما گاندھی کی عزت کرتے ہیں تو یہ بی  جے پی کا موقف نہیں بلکہ ایک سیاسی مجبوری ہے۔ بی  جے  پی کے سارے لیڈر اور کارکن گاندھی جی کے مخالف ہوں نہ ہوں گوڈسے اور ساورکر کے عقیدت مند اور مداح ضرور ہیں۔ کتنے ارکان پارلیمنٹ، مرکزی وزراء آئے دن بابائے قوم کی توہین کرتے رہتے ہیں ان کے خلاف کوئی کارروائی نہ حکومت کرتی اور نہ کوئی عدالت۔ موجودہ حکومت کے کالے قانونوں کے خلاف تحریک چلانے اور وزیراعظم پر تنقید کرنے والوں کو حکومت غدار قرار دیتی ہے اور بابائے قوم کی توہین کرنے والوں اور گاندھی جی کے قاتلوں کو بھارت رتن دینا چاہتی ہے۔ بی جے پی حکومت درپردہ طورپر ساورکر کوبابائے قوم مانتی ہے اور یہی درجہ ناتھو رام گوڈسے کو بھی دیتی ہے۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے پچھلے دنوں جب نریندر مودی کو جدید ہندوستان کا بابائے قوم قرار دیا تھا وزیراعظم مودی نے ایک ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ اس اعزاز کو قبول کرلیا۔ انہیں ٹرمپ کے منہ پر یہ کہہ دینا چاہئے تھا کہ ہندوستان کے بابائے قوم مہاتما گاندھی ہیں اور وہی ہمارے باپو رہیں گے۔ وزیراعظم کی خاموشی سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے امریکہ کے اس خطاب کو قبول کرلیا۔ اس کے علاوہ ہندوستان کی مختلف سیاسی جماعتوں نے اس مسئلے پر ٹرمپ کی کوئی کھنچائی نہیں کی۔ اب بی  جے پی کھل کر کہہ رہی ہے کہ مودی ہندوستان کے بابائے قوم ہیں۔ 
اننت کمار ہیگڈے نے بنگلور میں تقریر کرتے ہوئے مہاتما گاندھی کی جس طرح توہین کی ہے کوئی بھی ہندوستانی اسے برداشت نہیں کرسکتا۔ اننت کمارنے کہا ہیکہ ہمارے ملک میں انگریزوں کے ساتھ جنگ کے نام پر درپردہ مفاہمت تھی۔ ایک طبقہ ستیہ گرہ کے نام پر جنگ آزادی کاڈرامہ کررہا تھا اس طرح جنگ لڑنے والوں نے لاٹھیاں نہیں کھائیں  بلکہ لاٹھیاں دیکھی تک نہیں۔ ان لوگوں نے انگریزوں سے کہا کہ ہم جدوجہد اور ستیہ گرہ کرنے کا ڈھونگ رچائیں گے آپ ہمیں جیلوں میں ڈالئے اور ہماری دیکھ بھال کیجئے۔ اننت کمار ہیگڈے نے یہ ساری باتیں مہاتما گاندھی کو مرکز بحث بناکرکہی ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ کیا بھوک ہڑتال سے ہمارا ملک آزاد ہوا، انہوں نے ہندوستانی مجاہدین آزادی کی تضحیک کرتے ہوئے یہ کہا کہ انگریز بھوک ہڑتال سے گھبراکرہندوستان چھوڑکر بھاگ گئے۔ ایسی (جھوٹی)جدوجہد بلکہ ڈرامہ کرنے والوں کو ہمارا ملک مہا پرش (مہاتما) قرار دیتا ہے اس پرانہیں (اننت کمارکو) افسوس ہے۔ اننت کمار ہیگڈے کی اس ساری بکواس اور تنقید کا نشانہ کون تھے اور وہ کس لئے ان کی توہین کرنا چاہتے تھے وہ سب پر واضح ہے۔ اننت کمار ہیگڈے مہاتما گاندھی کے دشمن نمبر ایک ہیں۔ بی جے پی کے بیشتر قائدین مہاتماگاندھی کے بارے میں تذلیلی بیانات دیتے رہتے ہیں۔ اس سے پہلے بھی یہ سلسلہ چلتا رہا ہے۔ ان میں دستور ہند کے نام پر حلف اٹھانے والے بھی شامل ہیں اور گاندھی جی کے قاتل گوڈسے کو دیش بھگت قرار دینے والی پرگیا ٹھاکر بھی شامل ہے۔بی جے پی کے سابق صدر اور موجودہ وزیر داخلہ امیت شاہ نے مہاتما گاندھی کوچالاک بنیا (چالو بنیا) قرار دیا ہے۔ دیش بھگتی کواپنا نصب العین قراردینے والی دنیا کی سب سے بڑی نام نہاد سیاسی پارٹی بی جے  پی کے ایک اعلی قائد امیت شاہ ”چالو بنیا“ قرار دیکر گاندھی جی  کی توہین کے ذریعے کونسا مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ 
ملک میں غداری کے مقدمات دائر کرنے کا رجحان حالیہ عرصہ میں زیادہ نظر آرہا ہے۔ سوشیل میڈیا میں اپنے تاثرات یا رائے کا اظہار کرنے والے متعدد افرادکے خلاف ملک سے غداری کے مقدمات درج کروائے گئے ہیں۔ ایک عوامی مظاہرے میں ”فری کشمیر“ (آزاد کشمیر) کی تختی اٹھانے والی لڑکی پر غداری کامقدمہ دائر کیا گیا ہے۔ کیا  مہاتما گاندھی کی قیادت میں ملک کو آزادکروانے والی جدوجہد کو ڈرامہ بازی قرار دے کر اس کی توہین کرنا ملک سے غداری کی تعریف میں نہیں آتا۔ مہاتما گاندھی کے فلسفہ عدم تشدداور ستیہ گرہ کے طرز پر احتجاج کو ساری دنیا اور بڑے بڑے مجاہدین آزادی عزت و احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ ساری دنیا اس طریقہ احتجاج کو حیرت سے بھی دیکھتی ہے کہ ملک کو آزاد کروانے کا یہ طریقہ قتل و غارت گری اور خون خرابے کی بجائے امن اور انسانیت کے ذریعہ اچھے مقاصد کے حصول میں کس طرح کامیاب ہے۔ اننت کمارہیگڈے جس ہندوتوا کے علمبردار  ہیں اور وہ جس انداز سے دنیا کے تمام دھرموں اورمذاہب کی تضحیک کرتے رہتے ہیں۔ وہ سارے مذاہب اہنسا و عدم تشدد کی تعلیم دیتے ہیں۔ ہندو دھرم بھی دنیا کے سبھی دھرموں کا احترام کرتا ہے اور کسی کے خلاف تشددکی تعلیم نہیں دیتا۔ زبان درازی، بدزبانی اوردوسروں کی تضحیک کو سیاسی آزادی قرار دے کر نظرانداز نہیں کیاجانا چاہئے۔ فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور قومی اتحادکو برباد کرنے والے اور خاص طور پربابائے قوم کی تضحیک کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی بہرحال ہونی چاہئے۔ وزیراعظم یا بی جے پی سے یہ توقع کرنا کہ وہ بابائے قوم کے نقادوں اور تضحیک کرنے والوں کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی کرے گی بے سود ہے۔ بی جے پی نے انہیں اگر نوٹس بھی جاری کی ہے تو اس کے جواب کے بعد ان کے خلاف کسی کارروائی کی توقع کرنا بھی عبث ہے۔ 
تازہ اطلاع یہ ہے کہ اننت کمار ہیگڈے نے کہا کہ انہوں نے اپنے حالیہ بیان میں جس میں انہوں نے جنگ آزادی کو اشارتاً گاندھی جی کا ڈرامہ قرار دیا ہے اخبارات پر اسے توڑمروڑ کر شائع کرنے کا الزام لگایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جنگ آزادی کے تذکرے میں انہوں نے کسی مخصوص سیاسی پارٹی یالیڈر کا نام نہیں لیا ہے۔ ہیگڈے کا یہ وضاحتی بیان بچکانہ ہے۔ ستیہ گرہ اور عدم تشددکو ڈرامہ قرار دے کر وہ مہاتما گاندھی کے سوا کس کی طرف اشارہ کررہے تھے؟ یہ بات وزیراعظم نریندر مودی کو ان سے ضرور پوچھنی چاہئے۔ کیا قومی تحریک آزادی کو ڈرامہ اور دھوکہ قرار دینے والے کے خلاف دیش سے غداری کا مقدمہ دائرنہیں کیاجانا چاہئے۔ کیا اس ملک میں برسراقتدارپارٹی کے ارکان پارلیمنٹ کے لئے ایک الگ قانون اور دوسروں کے لئے دوسرا قانون ہے؟ بی جے پی کے بعض شرافت پسند قائدین نے مبینہ طور پروزیراعظم کو اپنی تشویش سے واقف کرواتے ہوئے اننت کمار کے خلاف تادیبی کارروائی کامطالبہ کیا ہے۔ کیا واقعی بی جے پی میں اب بھی ایسے قائدین موجود ہیں جوبابائے قوم مہاتما گاندھی اور دیگرمجاہدین آزادی کا احترام کرتے ہیں۔ یہ سوال اس لئے اٹھ رہا ہے کہ آئے دن بی جے پی کے لیڈر گاندھی جی کی توہین کرتے رہتے ہیں لیکن پارٹی کے اندر سے ان کے خلاف کسی کارروائی یااظہار تاسف کا پتہ نہیں چلتا۔اب ہیگڈے کے خلاف نوٹس کے اجراء اور اس کے جواب کے بعد ان کے خلاف کیاکارروائی کی جائے گی یقیناً اس کا انتظار کیاجانا چاہئے حالانکہ ہمیں اس کی کوئی امید نہیں ہے۔ کم از کم وزیراعظم نریندر مودی کو ایسے بیانات کے خلاف سخت انتباہ تو دینا ہی چاہئے۔ اور یہ سب کچھ بی  جے پی ہی کیوں کرے یا بابائے قوم مہاتما گاندھی کے چاہنے والے بھی اس کے خلاف قانونی کارروائی کیوں نہیں کرسکتے۔ بی جے پی لیڈروں کے بیانات سے ایسا لگتا ہے کہ مہاتما گاندھی کو اب بعد از مرگ ملک بدر کیا جانے والا ہے؟ 

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ 
11/ فروری 2020

«
»

’قوم پرستی‘ اور ’بھارت ماتا‘کا نشہ پلایا جارہا ہے

ہندوستان میں جمہوریت کا استحکام کیونکر ممکن ہوا؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے