مہاتماگاندھی کے قاتل،گوڈسے کاتعلق آرایس ایس سے تھا

سیکولرجمہوریت کی قابل تعریف دین ہے کہ ملک اورصوبوں کے نظام حکومت سنبھالنے کیلئے ہرشہری کوووٹ دینے کاحق ہے،یہ نعمت مرتبہ ہے۔ووٹ امانت ہے، یہ گواہی کے مانندہے۔جسے زبان،مذہب،خونی رشتوں دیگربھیدبھاؤاورتعصب کودرکناکرتے ہوئے،حق وانصاف،سچائی کومدنظررکھکر، دیناہے۔اگرہم ایسانہ کریں تو ہمارے ووٹوں کی بنیادپرناہل،رشوت خور،بدعنوان،فرقہ پرست عناصر،امیدواراورفرقہ پرست پارٹیاں،ہمارے ووٹوں سے چناکرآئیں گے تواس کے برے اثرات ملکی،قومی،ملّی،فلاحی ترقی پرمبنی ہوتے ہیں۔اسے روکناانتہائی ضروری ہے۔اس وقت مذہب،زبان،ذات پات ودیگربھیدبھاؤانہ تعصب کے نام پر،عوام الناس سے ووٹ کی اپیل کی جارہی ہے۔زمین،ہوائی اڈے،بڑی سڑکیں،شاپنگ مال کی بات توہورہی ہے۔ہوائی قلعے بنائے جارہے ہیں۔افسوسناک پہلوہے کہ شہری ودیہاتی ترقی کے ساتھ ساتھ ملک میں بڑھتی ہوئی فرقہ پرستی کے خلاف موثرآوازمتحد ہوکرنہیں اٹھائی جارہی ہے۔جوامن وآشتی،بھائی چارہ،محبت،قومی یکجہتی ودیگرترقیات کے ساتھ ضروری ہے۔
ملک کی آزادی سے پہلے سے ہندوفرقہ پرستی کی جڑیں قائم ہونے لگیں،کسی بھی مذہب ،زبان،ذات پات کے جائزمفادات کی خاطر،تنظیمیں،جماعتیں،ادارے ہوناکوئی غیرانسانی بات نہیں۔افسوس ناک پہلوہے کہ مذہب،ذات پات،زبان کی تعمیروترقی کے نام پر،ملک کے عوام کے دلوں میں نفرتیں پیداکردی جاتی ہیں۔ایسی تنظمیں،ادارے،جماعتیں بظاہرقوم پرستی کے جذبہ سے سرشاردکھائی دیتی ہیں۔درپردہ تعمیرکی بجائے،تخریب ہواکرتی ہیں۔راشٹریہ سیویم سیوک سنگھ ،آرایس ایس ایک ایسی ہی ہندوفرقہ پرست جماعت ہے جسے جمہوریت سے ازلی دشمنی اورفاشزم ،فسطائیت کی دلدادہ ہے۔اسے جغرافیائی قومیت سے ازلی دشمنی ہے۔آرایس ایس کے نزدیک قوم،ہندواورہندوتواکے ہم معنی ہے۔۱۹۲۵؍میں ڈاکٹرہیڈگوارنے اسکی بنیادرکھی تھی۔اس کامقصد’’برہمن واد‘‘کی ترجیحات ہی ہے۔ہٹلرجرمنی قوم کوہی یہودیوں کی طرح دنیامیں سب سے اعلیٰ سمجھتاتھامگرآج دنیاکے سامنے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ظاہرہوگیاکہ اس نے کتنے یہودیوں کوگیس چیمبرمیں جلادیا۔اس کی وجہ سے کتنی بھیانک لڑائیاں ہوئیں،کس قدرمعصوموں کے جان ومال کے ساتھ کھلواڑہوا۔دنیاآج تک اس پرلعنت وملامت کرتی ہے۔لیکن دنیامیں شیطانوں کوبھی پوجنے والے اورقدردان ہیں۔آرایس ایس ہٹلرکی بڑی مداح ہے۔وہ ان کیلئے مثالی ہے۔ہٹلربھی ’’ووٹ‘‘ہی کے ذریعہ جرمنی کے عوام کوگمراہ کرکے حکمراں بن بیٹھااوراس کے ہاتھوں کس قدرجرمنی قوم ہی نہیں انسانیت کاجنازہ اٹھا۔یہ ایک ضرب المثل ہے۔آرایس ایس کا۱۹۲۵؍میں قیام مذہب کی دوسوسالہ احیائی کوششوں کانتیجہ ہے۔اپنے قیام کے بعدسے آرایس ایس نے ہندوستانی سماج کے متعددشعبوں میں بڑھت بنائے رکھی ہے۔۱۹۵۲؍میں سیاست میں جن سنگھ کے روپ میں آئی۔پہلاپارلیمانی الیکشن لڑا۔ہندی،ہندوستان،ہندوکے راگ الاپتی رہی۔گائے،گؤہتھیاپرواویلہ اس کاپراناشیوہ ہے۔جاتی ووستھا،جاتی ورن اس کے منصوبوں وعزائم میں ہے۔سیاست،طلباء،خواتین،مزدوروں،ادی واسیوں،سرکاری کرم چاریوں میں آرایس ایس کی منظم ذیلی شاکھائیں ہیں۔ثقافت وسماجیات کی آرمیں فاشزم،فسطائیت اورہندوفرقہ پرستی پرخوش نمانقاب پہن رکھاہے۔مسلم اقلیت اورمسلم دشمنی آرایس ایس کی قوم پرستی کااہم حصہ ہے۔اس بحث کوآگے بڑھایاجائے تواس کامطلب ہوگاکہ ’’جنگ میں فتح‘‘کے بعدمسلم دشمنی کازورباقی رہے گا۔تب یہ شایدانسانیت سے قریب ہوجائے۔جیساکہ ۲۰۰۲؍کے گجرات کے بھیانک فسادات کے بعدآج پورے ملک میں آرایس ایس کے پرچارک مودی اپنے دورحکومت گجرات میں،پورے ملک کے سامنے گجرات ماڈل کے نام پراپنی نام نہادترقی وکاس کادن رات ڈھنڈوراپیٹ رہے ہیں۔بکاؤمیڈیاکوپورے ملک میں مودی کے گجرات میں ہی ترقی نظرآرہی ہے۔ممتابنرجی کامغربی بنگال صوبہ نظرنہیں آرہاہے۔جہاں ممتانے صرف تقریباًڈیڑھ سال میں بطوروزیراعلیٰ مغربی بنگال ترقی وتعمیروکاس کے نمایاں کام کیساتھ اقلیتوں،مسلمانوں کے دل جیت لئے ہیں۔جھوٹ،ملمع کاری میں ہندوستانی میڈیانے حدکردی۔مغربی ممالک کے اخبارات اورمیڈیاملک میں انتخابی سرگرمیوں کے پیش نظرنمایاں طورپر،مودی کی سیاسی وسماجی کارگزاریوں پرتنقیدکررہے ہے۔ان کے ہندوفرقہ وارانہ کردارکوبھی سامنے رکھ رہے ہیں۔ہندوستانی میڈیاخاص طورپرالیکٹرانک میڈیامودی کے عیارانہ،شاطرانہ انٹرویوکوایک سے دوبارٹی وی پردہرارہے ہیں۔جس میں قومی یکجہتی،انسانیت دوستی،گجرات کے فرقہ وارانہ فسادات اورآرایس ایس کے ساتھ ان کے رشتوں پرمیڈیا،مودی سے سوال تک نہیں کرتے۔مودی لگتاہے اپنے دامن پرفرقہ پرستی کے خونی داغ کوداغ ہی نہیں مانتے!؂
میرے قاتل تجھے قاتل نہ کہے گاکوئی 
تیرے ہاتھوں میں لہومیرارنگ حنالگتاہے 
آرایس ایس کی ہندوقوم پرستی میں مسلمانوں،عیسائیوں ودیگرمذاہب کیلئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ان کیلئے یہ غیرملکی پیدائش کے لوگ ہیں۔جن کوہندوکلچراورزبان اختیارکرلیناچاہئے۔ہندومذہب کی توقیروعزت کے ساتھ ہندونسل اورہندوکلچرکی تعریف وتوصیف میں لگ جاناچاہئے،یاپھرانہیں کوئی شہری حقوق نہ دیاجائے۔ہندوستان،وسیع وعریض اورکثیرآبادی،متعددمذاہب پرمشتمل ہے۔آرایس ایس کے ہندوراشٹرکانظریہ ہندوستان کے اتحادکے لئے خطرہ ہے۔آرایس ایس کے سابق سرسنچالک گولوالکرنے اپنی کتاب میں لکھا’’ہندوستان میں بیرونی نسلوں کولازمی طورپریاتوہندوکلچراورزبان اختیارکرلینی چاہئے،ہندودھرم کی تعظیم اوراس کااحترام سیکھ لیناچاہئے۔ہندونسل اورکلچریعنی ہندوراشٹریہ کے نظریہ کے علاوہ کسی اورپرفخرنہیں کرناچاہئے۔اپنی علیحدہ شناخت کوترک کرکے ہندونسل میں شامل ہوجاناچاہئے۔بصورت دیگرانہیں اس ملک میں پوری طرح ہندوراشٹریہ کے ماتحت بن کررہناچاہئے۔جس میں وہ کسی قسم کادعوتی کام نہ کریں۔کسی ترجیحی سلوک توالگ کسی رعایت کے بھی مستحق نہ ہوگے۔یہاں تک کہ وہ حقوق شہریت کے بھی حقدارنہ ہونگے۔‘‘
ہندوتواکی خاطرآرایس ایس تاریخ سے بھی کھلواڑکرنے میںیکتاہیں۔آرایس ایس کے لیڈران اورنگ زیبؒ ،ٹیپوسلطان جیسے رعیت پسند،عدل وانصاف کے حامل مسلم حکمرانوں کے خلاف زہرافشانی کرنے میں ماہرہیں۔نصابی کتابوں میں تاریخ سے کھلواڑکرکے،بچپن سے ہی،ہندوبچوں کے دماغ میں فرقہ واریت کازہرگھولاجاتاہے۔ساورکرآرایس ایس کے سربراہوں میں سے ایک ہے۔ساورکرچاہتے تھے کہ بھارت کوہندوتواکیلئے محفوظ ملک بنانے کی خاطرمسلمانوں کاصفایاکردیاجاتا۔انہوں نے اس امرکی ستائش کی کہ جس طرح اسپین،یونان،پرتگال،بلغاریہ نے ماضی میں اس طرح کے کام کئے گئے اورعیسائیت کے تحفظ کویقینی بنایاگیا۔ساورکربھارت کوایسابناناچاہتے تھے کہ جس میں مسلمانوں کے لئے کوئی جگہ نہ ہو،بھارت کواسلام اوراسلام کے پیروکاروں سے بالکل صاف کردیاجائے۔ساورکرکانظریہ کہتاہے کہ مسلمانوں کونہ صرف ان جرائم کی سزادینے کی ضرورت ہے جوخودانہوں نے کئے ہیں،بلکہ ان جرائم کی بھی سزادینے کی ضرورت ہے جوان کے ہم مذہب لوگوں نے ماضی میں کئے ہیں۔انتقام،بدلہ،جیسے کوتیساکے موجد،ساورکرہیں۔سنگھ پریوار،شیوسینا،ہندومہاسبھاسے لیکرہیڈگیوار،مودی،بال ٹھاکرے،توگڑیاجیسے ہندوتواوادی سنگھٹنوں،جماعتوں اورافرادکی رہنمائی ساورکرکرتے آئے ہیںیہ تاریخی حقیقت ہے۔نواب کلیان کی بہوکوچھترپتی شیواجی مہاراج کی فوج نے پکڑلیا۔شیواجی مہاراج کے سامنے ان کے فوجی نے یہ سمجھ کر نواب کلیان کی بہوکوپیش کیاکہ وہ اسے شاباشی دیں گے۔مگرشیواجی نے اس طرح کے عمل کی سرزنش کی،بلکہ سزابھی دی۔اس خاتون کوواپس احترام کے ساتھ اس کی جگہ بھیج دیا۔ساورکرنے شیواجی مہاراج کے اس عمل کی مذمت کی۔ساورکرنے ایک جگہ لکھاکہ شیواجی مہاراج نے عزت واحترام کیساتھ نواب کلیان کی بہوکواس کی جگہ پہونچادیا۔شیواجی کووہ زیادتیاں،زنابالجبراوربدسلوکیاں یادنہیں آئیں۔محمودغزنوی،محمدغوری،علاؤالدین خیلجی،اوردوسرے لوگوں نے ہندوعورتوں اورخواتین کے ساتھ کیں۔ساورکرکہتے ہیں کہ شیواجی ایسی بدسلوکی مسلم عورتوں کے ساتھ کیوں نہ کرسکے۔یہ بڑی حیرت انگیزبات ہے کہ کٹرپنتھی ہندوؤں کواپنے آقاؤں کے مشورہ پرعمل کرتے ہوئے سورت میں عورتوں کی اجتماعی آبروریزی میں ۱۹۹۲؍میں کوئی عارمحسوس نہ ہوئی۔جس کی ویڈیوفلم بنائی گئی۔بہت سی جگہوں پردکھائی گئی،شایدیہ نظریہ گجرات کے قتل عام ۲۰۰۲؍کے فسادات میں عملی طورپر،ہندوتواوادی غنڈوں کے ذریعہ مسلم عورتوں کے ساتھ ہوا۔آرایس ایس اس بات کومانتی ہے کہ بھارت کی قومی زندگی دراصل ہندوقومی زندگی ہے۔جومسلمان،عیسائی حملہ آوروں سے قبل اس ملک میں جاری وساری تھی۔اس طرح بھارت کی قومی زندگی قدیم ہے۔قومی یکجہتی ہندوقومی دھاراکومضبوط کرنے کانام ہے۔اقلیتوں اورفرقوں کے نام پرگفتگواورسوچ کاخاتمہ کردیناچاہئے۔یہ باتیں ساورکرکی کتاب’’بنچ آف تھاٹ‘‘میں لکھی ہیں۔آرایس ایس کی ابتداء اورارتقاء مسلم مخالف جذبات میں ہوئی ہے ،مسلم مخالف جذبات ہی اسکے قیام کامقصدہے۔مسلمانوں اورعیسائیوں کودوبارہ ہندوبنانااورانہیں ہندوسماج میں ضم کرلیناایک مستقل عزم اورمقصدرہاہے وہ چاہتاہے کہ غیرہندواپنے لباس،رسوم،شادی بیاہ کی تقریبات اورمرنے کے بعدکی رسوم(سنسکار) میں ہندوطریقہ زندگی اختیارکرلیں۔آرایس ایس مسلم مسئلہ کوحل کرنے کیلئے زورزبردستی اورطاقت کے استعمال سے انکارنہیں کرتا۔بلکہ ۱۹۷۰؍میں اس نے اپناموقف اس طرح واضح کیاکہ اب تک اس نے کوئی مارپیٹ نہیں کی ہے لیکن ضرورت ہوگی تووہ یہ بھی کریں گے۔
قومی یکجہتی کیلئے کی جانے والی کوشش،تمام احکامات جوانسانی اقتدارپرہواکرتی ہیں آرایس ایس کواس سے نفرت ہے۔اردو،مسلمانوں کیلئے کئے جانے والے فلاحی وتعمیری اقدامات سے اسے کدورت ہے ان کی سیکولرزم سے نفرت جگ ظاہرہے۔ایک ہندوانتہاپسندنتھورام گوڈسے کے ہاتھوں مہاتماگاندھی بابائے قوم کاقتل ہوا۔اس نے سیاست کی دنیامیں پہلاقدم آرایس ایس میں شمولیت کے ساتھ رکھا۔اسی آرایس ایس کے پرچارک بی جے پی کے متوقع وزیراعظم ہیں۔جھوٹ،مکروفریب،عیاری آرایس ایس میں کوٹ کوٹ کربھری ہے۔آزادی کے بعد سے آج تک ملک میں بے شمارفرقہ وارانہ فسادات ہوئے۔کمیشنوں کی رپورٹ آرایس ایس،بی جے پی ،جن سنگھ اوردیگرہندوتواوادی جماعتوں کواس میں شامل ہونے کی بات کرتی ہیں۔بجرنگ دل،وشوہندوپریشد،ابھینوبھارت،سناتن سنگھٹناآرایس ایس کی بغل بچہ ہیں۔اجمیردرگاہ،مکّہ مسجد،سمجھوتہ ایکسپریس میں بم دھماکے ہوئے۔مسلم تنظیموں کے نام میڈیامیں آنے لگے۔سرکاری تحقیقات،پولس تحقیقات سردخانہ میں چلی گئی۔آخرکیوں؟مدھیہ پردیش میں آرایس ایس کی نورنظربی جے پی کی حکومت تھی۔سنگھی دہشت پسندوں پرپکڑنہیں ہورہی تھی۔یہ ہیمنت کرکرے تھے جنہوں نے جان ہتھیلی پرلیکرسمجھوتہ ایکسپریس،مکّہ مسجد،اجمیردرگاہ دھماکوں پرسے نقاب ہٹائی۔آرایس ایس کے پرچارکوں اوراس کی اتحادی ہندوتواوادی تنظیموں کے ورکروں کی پھیلائی ہوئی دہشت گردی سے اس وقت تک پردہ نہ اٹھایاگیاجب تک مہاراشٹراے ٹی ایس کے سربراہ ہیمنت کرکرے نے اس کودنیاکے سامنے کھل کررکھ نہ دیا۔آرایس ایس اپنے ارادوں اورمنصوبوں کے شیطانی عزائم کی راہ میں آنیوالی رکاوٹوں کوراستے سے ہٹانے میں ماہرویکتاہے۔ذومعنی باتیں کرنے میں استادہیں۔اپنے ممبروں کاریکارڈبتلانے کوتیارنہیں۔بہت سی باتیں اورمنصوبے یہاں زبانی اورسینہ درسینہ چلتے ہیں تاکہ آرایس ایس کے خلاف قانونی کاروائیوں میں ناکامی ہو۔یہ اس کے سواکیاہے؟
کیجریوال آرایس ایس کی نورنظربی جے پی کے بارے میں کیاکہتے ہیں’’بی جے پی ملک کااقتدارحاصل کرنے کیلئے کسی بھی حدتک جاسکتی ہے اس کے اظہارکی ضرورت کوئی بھی نہیں کرتا۔جب کہ اس حقیقت سے بی جے پی کے حمایتی اورمخالفین بھی جانتے ہیں۔آرایس ایس کی بی جے پی سیاسی بازوہے۔سنگھ اپنے فلسفے اورطریقے کے لحاظ سے کیاہے؟سیاست وسماجی امورکے ماہرین خوب جانتے ہیں۔آرایس ایس کی یہ پارٹی ماضی میں دواوردوچارکی طرح کئی بار ثابت ہوچکی ہے کہ انسانیت کیلئے انتہائی خطرناک ہے۔کیجریوال کے پاس پختہ ثبوت ہونگے،جب ہی تووہ کہہ رہے ہیں کہ’’اقتدارحاصل کرنے کیلئے بی جے پی کے لوگ خوداپنے آدمیوں کوبھی مرواسکتے ہیں‘‘اسے ہندؤں کی پرواہ ہے نہ مسلمانوں کی۔اقتدارکیلئے اس کے نزدیک سب برابرہے۔یہ لوگ بچوں کوبھی ختم کروادیتے ہیں۔
موجودہ انتخابات میں ترقی اورخوشحالی کی باتیں کرتے کرتے اچانک جن سنگھ کی طرح بی جے پی اپنے اصل رنگ میں آگئی ہے۔رام مندر،یکساں سول کوڈ،دفعہ ۳۷۰؍کواپنے ایجنڈے میں شامل کرلیاہے۔امیت شاہ،سوم دت،سندھیا،پروین توگڑیاکی زہرافشانیاں کس بات کی نشان دہایاں کررہی ہیں۔ایک فرضی مسلم دہشت گردوں کے ہاتھوں اکثریہ خبرآتی ہے کہ بی جے پی کے متوقع وزیراعظم پرحملے کامنصوبہ ہے وغیرہ وغیرہ۔وزارت عظمیٰ کاخواب چکناچورہوتے دیکھکرآر ایس ایس اور بی جے پی کیا کیا حرکتیں کر سکتی ہے۔
ووٹ انتہائی اہمیت کاحامل ہے۔عدل وانصاف،حق وسچائی کی بناء پرہمیں ووٹ دیناہے۔ووٹوں کی تقسیم سے بچناہے۔کسی بھی صاف ستھری امیج رکھنے والے مضبوط سیکولرامیدوارکوووٹ دیکر،ہندوتواکے علمبردار،آرایس ایس کی نورنظربی جے پی کوروکناہے۔آرایس ایس کے پرچارک اورمتوقع وزیراعظم کوشکست سے دوچارکرناہے۔یہ ہم سیکولرجمہوریت میں ووٹ کے استعمال سے ہی کرسکتے ہیں۔جوناممکن نہیں۔تھوڑی سی ایماندارانہ مشقت کی ضرورت ہے۔
ہجوم دارپررکھتے چلوسروں کے چراغ
جہاں تک ستم کی سیاہ رات چلے

«
»

حماس اور فتح میں مفاہمت

آر ٹی آئی ایکٹ عوام کو بہلانے کا ذریعہ ؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے