اس وجہ سے پروفیشنل کورسیس کو سرکارنے اپنیذمہ داری سے بری کرکے پرائیویٹ اداروں کو سونپنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ایسا کرتے وقت ان کی نگرانی کیلئے بے حد ناقص انتظام کیا گیا۔یہ سمجھنا بڑامشکل امر ہے کہ اس طرح کا ناقص انتظام جان بوجھ کر کیا تھا ، یا حکومت کی غفلت کا نتیجہ تھا۔مگر اتنا طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود حکومت نے اس میں بہتری لانے کی بھی کوشش نہیں کی۔اس بات تسلیم کرنا حکومت کے لئے زیادہ فائدہ بخش ثابت ہوسکتا ہے۔جب پروفیشنل کورسیس کا سیلاب اُمڈ نے کے بعد لاٹری لگنے پر ہونے والی خوشی کی طرح لوگ اس میں شامل ہونے لگے۔ سب سے پہلے شامل ہونے والے سیاست داں تھے۔سرکار میں رہ کرکئی قسم کی سہولیات اور مشنری یا دیگر تعلیمی سہولیات پہلے ہی سے موجود تھیں ، اس کا فائد ہ اُٹھاتے ہوئے ، سرکار میں بر سر اقتدار سیاست دانوں نے میڈیکل، انجینئرنگ اور ایم بی اے نصاب کالجوں میں شروع کیا۔سرکار کی خالی تجوری اور پروفیشنل کورسیس کے ڈگری یافتہ نوجوانوں کی کاروبار اور صنعت میں بڑھتی مانگ کی وجہ سے ان سیاست دانوں کے پانچوں انگلیا ں گھی میں اور سر کڑھائی میں والا معاملہ ہوگیا۔ عام آدمی ہکا بکا ہوجائے ، اتنی کثیر رقم لیکر ان کورسیس میں داخلہ شروع ہوا۔اس وجہ سے لوگ یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ اب صرف امیروں کیلئے تعلیم ۔ جن کے ہاتھوں میں تعلیمی ادارے ان کے ہاتھوں میں سرکا ر کی نکیل، ایسے حالات کی وجہ سے ’’قانون کی خلاف ورزی‘‘ کے معنی بدل کر ’’قانون کے مطابق‘‘ ایسا ہوگیا۔ کئی مرتبہ تحریری اور زبانی تاکید یا وارننگ دینے کے باوجود پرائیویٹ اداروں کا کوئی بال بیکا نہیں کرسکا۔اس عرصہ میں وہ لاکھوں کروڑوں روپئے کے مالک ہوگئے ، اسلئے ان کے سر پر ’تعلیم کے تاجدار‘ ہونے کے لقب سے انھیں نوازا جانے لگا۔ودھان سبھا میں ان اداروں کی منافع خوری اور فیس میں ہونے والی دھاندلی روکنے کیلئے ایک بل پاس کیا گیا۔اس بل کا استقبال کرتے وقت اس کو عملی جامہ پہنانے کے تعلق سے شک و شبہات پیدا کرنا یہ ہمار فرض ہے ، ایسا سمجھا جانے لگا ۔ اس کی وجہ یہ کہ اس سے قبل بھی کئی کمیشن اور کمیٹیاں وجود میں آچکی تھیں مگر انھوں نے کبھی بھی کوئی پختہ کام انجام نہیں دیا تھا۔اگر اسی طرح کے کمیشن یا کمیٹیوں کو اگردوبارہ قانونی درجہ دینا ہو، پھر بھی حالات بدل جائے گے ایسا کہنا واقعی غلط ہوگا۔ انجینئرنگ اور ایم بی اے نصاب کی حالت ریاست بھر میں کافی تشویش ناک ہے۔ بلڈنگ سے لے کر تجربہ گاہ تک بیشمار سہولیات فراہم کرنے کا دعویٰ اور اس کورسیس میں داخلہ لینے والوں کی تعداددن بہ دن کم ہوتی جارہی ہے۔ امسال انجینئرنگ اور ایم بی اے موجودہ سیٹوں میں 70%بھی داخلے ہوئے ہوں گے ایسا نہیں لگتا، ان پرائیویٹ کالجوں کا قیام جو کافی منصوبہ بند طریقے سے کیاگیا تھا وہ اب کسمپرسی کی حالت میں آگیا ہے۔ طلباء نہیں ہیں یا پھر ہم نے سرکاری گرانٹ کا انتظارکرناایسی کشمکش میں پرائیویٹ کالج کے مالکان مبتلا ہیں۔کچھ تعلیمی اداروں کو اپنے ملازمین کی تنخواہ دینے کے لالے پڑے ہیں۔آخر بینکوں سے ملازمین کیلئے قرض لیکر اس کی قسطادا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔اب حالت یہ ہے کہ یہ ادارے اس قرض کی قسطیں ادا کرنے کے بھی قابل نہیں ہیں۔ایم بی اے کورسیس کی حالت تو کافی خراب ہے ۔ یہ کورس پورا کرنے والے امیدواروں کی بازار میں مانگ نہیں ہے۔ اس کی وجہ کے اس کورس کا معیار اتنا گر چکا ہے کہ ایم بی اے ڈگری کی کوئی اہمیت ہی نہیں رہی ہے۔روزگار کے متلاشی امیدواروں کو ان ایم بی اے کی ڈگری سے کوئی فائدہ نہیں ہورہا ہے۔ان کالجوں میں اب غیرمنظورشدہ نصابیتعلیم سکھائی جارہی ہے ۔ان اداروں پر جرمانہ عائد کیا جائے یا پھر ان اداروں کی سرکاری منظوری کو منسوخ کیا جائے ایسا ایک مسۂ سرکار کو درپیش ہے۔ پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کرنے سے تعلیم سے وابستہ مسائل کا حل نکلے گا ؟
مرکزی حکومت نے ہر بچے کو تعلیم حاصل کرنے کا حق دیا ہے ، اب تک حکومت مہاراشٹر اس پالیسی کو صحیح طریقے سے نافذ کرنے میں پوری طرح ناکام نظر آرہی ہے ۔معاشی طور پر کمزور وں کیلئے ریزرو رکھے ہوئے 25%طلباء کیجو فیس سرکار کو ادا کرنی ہے ، اس پر جاری اختلاف ختم ہونے کا نام نہیں لیتا۔ یہ ریزرویشن کس سال سے نافذ کرنا ، اس تعلق سے بھی حکومت مہاراشٹر کشمکش میں مبتلا ہے۔نرسری سے اگر ریزرویشن رکھا جائے تب ہی جاکر جماعت اول میں داخلہ ہوسکتا ہے۔ ان تمام باتوں کا علم ہونے کے باوجود حکومت مہاراشٹر پس و پیش میں مبتلا ہے ، انھیں پیسہ اداکرنے پڑے گا ، اسلئے حکومت مہاراشٹرغیر ذمہ دارانہ مظاہرہ کررہی ہے۔کانگریس نے جو نرسری کی شروعات کی تھی، اس میں تعاون دینا موجودہ سرکار کو گوارہ نہیں۔جس کی وجہ سے اسکول داخلے میں کافی سست روی نظر آرہی ہے۔ایک طرف تو حق تعلیم کا اعلان کرنا اور دوسری طرف مہاراشٹر کے ۱۳ہزار اسکولوں کو بند کرنے کا فیصلہ لینا۔اساتذہ کی تعدا د اسکول میں موجود طلباء پر منحصر نہ کرتے ہوئے ، ہر ڈیوژن سے وابستہ کرنا،اس طرح کے تعلیمی مطالبات سے چشم پوشی کرنا۔ ان حالات کے باوجود موجودہ سرکار کو پرائیویٹ کلاسیس پر قابو رکھنے کا پختہ ارادہ کرلیا ہے۔بدن پر موجود قمیض اگردس جگہ پھٹی ہو تو نئی پھٹی ہوئی قمیض لینا کہا ں کی دانشمندی ہے۔اس سوال کا صرف یہی جواب ہوسکتا ہے کہ یہ ہمارے موجودہ سرکار کا یا تو شوق ہے یا پھر جنون۔کالج کے بچے کلاس سے کیوں غیر حاضر رہتے ہیں اور پیسہ بھر کر پرائیویٹ کلاسیس میں پابندی کے ساتھ کیوں جاتے ہیں۔اس بات کو سمجھنے کی ضرورت اب تک ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کو کبھی محسوس نہیں ہوئی۔پرائیویٹ کلاسیس والے یکساں تعلیمی نظام چلاتے ہیں، ایسا سرکار کو محسوس ہوتا ہے اور یہ بات سچ بھی ہے۔ مگر ان پرائیویٹ کلاسیس پر اپنی پکڑ رکھنا کیا واقعی سرکار کیلئے ممکن ہے؟اپنے روز مرہ کے کاموں کو سرکار صحیح طریقے سے انجام دینے میں ناکام ہے، پھر پرائیویٹ کلاسیس پر اپنی پکڑ رکھنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہے، کون کس کے پاس جاکر تعلیم حاصل کریں اس کا فیصلہ حکومت نہیں کرسکتی۔ایسا سوال اس تعلق سے پیدا ہونے والا ہے۔اگر کسی طالب علم کو کالج کی تعلیم کے ساتھ ساتھ مزید تعلیم حاصل کرنے کی خواہش ہو تو پھر وہ یہ تعلیم کہاسے حاصل کریں اس تعلق سے حکومت کہاں سے اور کیسے قوانین بنا سکتی ہے۔پرائیویٹ ٹیوشن کے گمراہ کن اشتہارات پر بھی اب حکومت نظررکھنے والی ہے۔اس طرح کے اشتہارات کی وجہ سے طلباء کو گمراہ کرکے ان سے پیسے لوٹنے کا کام کیا جاتا ہے۔ایسا وزیر تعلیم کا بیان ہے۔ اس تعلق سے جاگو گاہک جاگو جیسے اداروں کو مظبوط کرنا زیادہ کار آمد ثابت ہوگا۔مگر ریاست مہاراشٹر میں معیاری تعلیم کی ضمانت دینے کے نام پرپرائیویٹ کلاسیس پر نظررکھنے والے حکومت مہاراشٹر کے ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کو اپنا بنیادی کام سنجیدگی کے ساتھ انجام دینے کیلئے وزیر تعلیم کو آمادہ کرنے کی ضرورت ہے۔
اپنے بچے کو صحت مند بنانے کیلئے مناسب غذا دینے کے بجائے پڑوس کے بچے کی پلیٹ پر نظر رکھنا کہاں کی عقلمندی ہے؟اس کیلئے مزید سنجیدگی سے اور مسلسل جد وجہد جاری رکھتے ہوئے تعلیم کے مسۂ کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔ریاست مہاراشٹر میں چاروں طرف یکساں معیار کی تعلیم دینے کی ذمہ داری لینے کے بجائے غیر ضروری سمت میں اپنی توجہ اور توانائی برباد کرنے سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا۔
(نوٹ: مصنف یو این این کے جرنلسٹ ہیں)
جواب دیں