مہاراشٹر میں مودی کے خاتمہ کا نقارہ بج اٹھا…

ظفر آغا

 

اللہ جس کو چاہے عزت دے اور جس کو چاہے ذلت دے۔ جی ہاں، مہاراشٹر اسمبلی کے دوران کسی کو یہ سان و گمان بھی نہ تھا کہ وہاں بی جے پی پھر حکومت نہیں بنا پائے گی۔ لیکن صاحب مہاراشٹر میں آخر انہونی ہونی تھی اور ہو گئی، اور وہ بھی کیسے! مہاراشٹر میں جب چناوی نتائج آئے تو اس وقت تک اپنے حلیف شیوسینا کے ساتھ بی جے پی کو اکثریت مل گئی۔ لیکن نتائج آنے کے فوراً بعد بی جے پی اور شیوسینا میں ایسی ٹھنی کہ سینا نے بی جے پی سے دامن چھڑا کر این سی پی اور کانگریس کے ساتھ مل کر حکومت بنا لی۔ اور بی جے پی منھ دیکھتی رہ گئی۔ کیا یہ ایک سیاسی معجزہ تھا! بات یہ ہے کہ سیاست میں اکثر معجزے تو ہوتے ہیں لیکن ان کی سیاسی وجوہات بھی ہوتی ہیں۔ آخر مہاراشٹر مین ایسے کیا سیاسی اسباب تھے کہ شیوسینا اپنے ہندوتوا حلیف بی جے پی کا دامن چھور کر سیکولر خیمے میں آ گئی اور اب وہ این سی پی اور کانگریس کے ساتھ مل کر مہاراشٹر میں حکومت کر رہی ہے!

مہاراشٹر میں پچھلے ہفتے ہونے والی سیاسی اتھل پتھل کا اولین سبب تو نریندر مودی اور امت شاہ کا گھمنڈ تھا جس کی وجہ سے بی جے پی کا دامن چھوڑ شیوسینا الگ ہو گئی۔ مودی اور شاہ اقتدار میں ایسے مدمست ہو چکے ہیں کہ وہ اب اپنے آگے کسی کی کوئی حیثیت ہی نہیں سمجھتے۔ ہوا یوں کہ جب چناوی نتائج آ گئے تو شیوسینا نے اقتدار میں برابر کا حصہ مانگا۔ سینا کا کہنا تھا کہ مہاراشٹر مین اگلا وزیر اعلیٰ دونوں پارٹیوں کی جانب سے ڈھائی ڈھائی سال حکومت کرے گا۔ لیکن صاحب دہلی کے شاہوں کو یہ کہاں برداشت کہ کوئی صوبہ دار ان کی برابری کرے۔ بس اسی ناک کی لڑائی میں بات بگڑ گئی اور شیوسینا اور بی جے پی میں دوریاں بڑھتی چلی گئیں۔

ادھر مہاراشٹر سیاست کے منجھے کھلاڑی شرد پوار بیٹھے یہ تماشہ دیکھ رہے تھے۔۔ پوار تو چناؤ کے شروعاتی دور سے اس انتظار میں تھے کہ موقع ملے اور وہ بی جے پی کو سبق سکھائیں۔ اصل میں امت شاہ نے پوار کی انا کو ٹھیس پہنچا دی تھی۔ چناؤ کے اعلان کے ساتھ ای ڈی کی جانب سے پوار کو نوٹس چلا گیا۔ بس پوار نے اسی وقت ٹھان لیا کہ اب بی جے پی سے کھل کر لڑائی کا وقت آ گیا ہے۔ شرد پوار نے فوراً اعلان کر دیا کہ وہ خود دوسرے ہی روز ای ڈی دفتر خود جائیں گے۔ شرد پوار مہاراشٹر سیاست کا کوئی معمولی نام نہیں ہے۔ وہاں کی سیاسی بساط کا سب سے منجھا سیاسی کھلاڑی پوار اپنی عمر کے آخری دور میں محض اپنی پارٹی ہی نہیں بلکہ پورے مراٹھیوں کی ناک ہیں۔ چنانچہ شرد پوار نے چناؤ کی بساط سمجھتے ہی لڑائی کو دہلی اور مراٹھوں کی ناک کی لڑائی بنا دیا۔ ادھر جیسے ہی بی جے پی نے ادھو ٹھاکرے کو وزیر اعلیٰ کا عہدہ دینے سے انکار کیا، شرد پوار نے فوراً ادھو کو پانچ سال کے لیے مہاراشٹر کا تخت و تاج آفر کر دیا۔ اس چال میں دو باتیں پنہاں تھیں۔ اول یہ کہ بی جے پی اور سینا کی دوریاں بڑھ جائیں، دوئم یہ کہ دہلی یعنی مرکز نے مراٹھوں کی بے حرمتی کی ہے تو وہ مراٹھوں کی ناک بچانے کو شیوسینا کو پورے پانچ سال اقتدار کی باگ ڈور دینے کو تیار ہیں۔

ادھر دہلی میں سونیا گاندھی پہلے تو شیوسینا کے ساتھ ہاتھ ملانے کو تیار نہیں تھیں۔ بات سہی بھی تھی۔ شیوسینا کے دامن پر ممبئی فساد کا داغ تھا۔ سینکڑوں مسلمان سنہ 1993 میں ان فسادات میں مارے گئے تھے۔ پھر بال ٹھاکرے کی مسلم دشمنی مشہور تھی۔ لیکن شرد پوار نے دہلی آ کر سونیا کو سمجھایا بجھایا۔ کانگریس کو یہ یاد دلایا کہ اس وقت سیکولرزم کا اولین دشمن نریندر مودی ہے اور اس کو شکست دینے کو اس وقت بی جے پی کے سب سے پرانے حلیف شیوسینا کو توڑنا ضروری ہے۔ پھر مہاراشٹر ہندوستان کا بہت اہم صوبہ ہے۔ اگر وہاں اپوزیشن کی سرکار بنتی ہے تو بی جے پی کو بڑا جھٹکا لگے گا۔ سونیا گاندھی راضی تو ہو گئیں لیکن ان کی شرط یہ تھی کہ تینوں پارٹیوں کا ایک کامن منیمم پروگرام ہو جس میں شیوسینا سیکولرزم کو تسلیم کرے۔ شرد پوار نے کہا کہ وہ یہ کام کروا لیں گے۔ اور یہی ہوا بھی۔ جب شیوسینا، این سی پی اور کانگریس کی جانب سے کامن منیمم پروگرام کا اعلان ہوا تو اس میں سیکولرزم لفظ شامل تھا۔ اور اس طرح کانگریس کی بھی ناک بچ گئی۔ اور مہاراشٹر میں کم و بیش ایک معجزاتی شیوسینا-این سی پی-کانگریس کی ملی جلی سرکار بن گئی۔ ادھر نریندر مودی، امت شاہ اور موہن بھاگوت ہاتھ ملتے رہ گئے۔

لیکن مہاراشٹر میں جو حکومت بنی ہے اس کے سیاسی اثرات محض مہاراشٹر تک محدود نہیں رہیں گے، بلکہ اس کا اثر پورے ملک کی سیاست پر پڑے گا۔ اصل میں مہاراشٹر میں مودی اور ادھو-پوار کے درمیان جو لڑائی ہوئی، وہ دہلی اور صوبہ داروں کے بیچ اقتدار کے حصے کی لڑائی تھی۔ نریندر مودی بھلے ہی جمہوری نظام میں چناؤ جیت کر برسراقتدار آئے ہوں، لیکن ان کا طرز حکومت شاہی ہے۔ یعنی اقتدار پر محض دہلی کا حق ہوگا۔ وہ بھی مودی-شاہ اور بھاگوت کے علاوہ کسی کو کسی بھی اہم فیصلے کا کوئی حق نہیں ہوگا۔ صوبہ اور صوبہ داروں کا اقتدار پر کوئی حق نہیں ہوگا۔ وہ محض سپہ سالار کی حیثیت میں دہلی یعنی مرکز کے محافظ ہوں گے۔ یہ ہے مودی اور سنگھ کا طرز حکومت۔

ہندوستان جیسے ایک جمہوری اور بڑے ملک میں اقتدار کا محض دو-تین فرد تک سمٹ جانا نہ تو ملک کے حق میں ہے اور نہ ہی اس طرح ملک چلایا جا سکتا ہے۔ مہاراشٹر میں بی جے پی کے خلاف بغاوت دراصل مرکز کے خلاف صوبہ داروں کی بغاوت کا اعلان ہے۔ جیسے کبھی مغل شاہی کے خلاف صوبہ داروں نے بغاوت کی تھی، ویسے ہی مودی-شاہی کے خلاف ادھو نے بغاوت کا اعلان کیا ہے۔ اور یہ بغاوت اب دبنے والی نہیں ہے۔ آپ جلد ہی دیکھیں گے کہ کم و بیش ہندوستان کے ہر صوبہ سے ایک نیا ادھو-پوار کھڑا ہوگا جو اگلے چناؤ تک مودی شاہی کو ڈبا سکتا ہے۔

مہاراشٹر ایک سیاسی شروعات ہے جس کا اختتام دہلی پر آ کر ہوگا۔ کیونکہ اب صوبہ دار اقتدار میں اپنا حصہ مانگ رہے ہیں۔ ادھر مودی کا طرز حکومت اور سنگھ کا ہندوتوا نظریہ دونوں ہی اقتدار میں کسی کی شرکت کی اجازت نہیں دیتے ہیں۔ اس لیے اب مودی اور صوبہ داروں کے درمیان رَن پڑے گا جس میں مودی ایسا الجھیں گے کہ ان کا خود کو بچانا مشکل ہو جائے گا۔ پھر ملک کی معیشت کی کمر پوری طرح ٹوٹ چکی ہے۔ اس صوبہ داروں کی بغاوت میں عوام بھی اب کھل کر شرکت کریں گے۔ اس لیے اب مسلم منافرت کی سیاست بھی زیادہ کامیاب ہونا مشکل ہے۔ لب و لباب یہ کہ مہاراشٹر سے مودی کے خاتمے کا نقارہ بج گیا ہے۔

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

 

«
»

بے باک صحافی حفیظ نعمانی

کیا دِنوں کا سردار ’’جمعہ‘‘ بلیک ڈے ہو سکتا ہے؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے