کٹّر پنتھی قسم کی تقریروں کا سہارا لینے کے بعد بھی اویسی کی ٹیم کو محض 2اسمبلی حلقوں میں جیت ملی لیکن اُن کی تقریروں کے رد عمل میں شوشل جسٹس میں یقین رکھنے والی مہاراشٹر یوں کی بڑی آبادی بھی بھاجپا کی طرف متحد ہوگئی۔ پورے مہاراشٹر میں مسلم ووٹ کنارہ ہو کر رہ گیا اور سرکار بنانے میں اس کا کوئی رول نہیں رہا۔ مسلم ووٹ کے اسی Devaluationکا اثر ہے کہ مہاراشٹر کی ریاستی اقتدار پر بھاجپا کے بیٹھتے ہی وزیر اعلیٰ نے چند ایسے فیصلے کئے جس نے پورے ملک کے مسلمانوں کے کان کھڑے کر دیئے مثلاً گو کشی کے نام پر ذبیح خانہ بند ،مائنوریٹی کارپوریشن بند ،مدرسوں کا اسکولی درجہ ختم اور پھر آناً فاناً میں یعقوب میمن کو پھانسی وغیرہ ۔ نہ جانے کب سے مہاراشٹر میں اب فرقہ وارانہ دنگوں کی وباء پھیلے۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے اب وہاں کے مسلمان یہ سونچنے پر مجبور ہیں کہ کیوں وہ اویسی برادران کے چکر میں پڑ گئے تھے۔ چناوی جلسوں میں ان کی کٹّر پنتھی تقریروں پر یوتھ مسلم طبقہ تو ’’اویسی….. اویسی ‘‘ کرنے لگا لیکن دوسری طرف رد عمل میں سارے برادران وطن ’’ ہرہر مودی۔ گھرگھرمودی‘‘ زور سے کہنے لگے۔ پیدا شدہ اسی ماحو ل نے بھاجپا کو کاندھے پراُٹھالیا۔ مجلس اتحاد المسلمین کے بانی اویسی صاحب مرحوم بھی اسی طرح کی تحریک آندھرا پردیش میں چلاتے تھے اورحیدرآباد سے لوک سبھا میں آتے رہے لیکن انہوں نے کبھی اپنی ریاست سے باہر قدم نہیں نکالا تھا۔ حالانکہ ان کے دور میں کانگریس پریوارکا جلوہ تھا (جو سیکولر کہلاتی تھی)اور مرحوم اویسی چاہتے تو حکمت سے کام لیتے ہوئے صرف مسلمانان حیدرآباد ہی نہیں بلکہ مسلمانان ہند کو بیدار کر اچھے مستقبل کا راستہ دکھا سکتے تھے لیکن آج ایسااحساس ہوتا ہے کہ وہ بھی صرف اپنی کرسی کے لئے سارا قدم اُٹھایا کرتے تھے۔ اسی طرح سے کیرل کے مسلم لیگ نمائندے بھی سیٹ کی خاطر ہی اپنی ریاست میں اور پارلیمنٹ میں بھی اپنی باتیں اس طرح سے پیش کرتے تھے جو محضReactionaryہوا کر تے تھے۔ اسی طرح‘ یوپی سے بابری مسجد ایشو کی پیدوار ممبران پارلیمنٹ بھی ایوان میں داخل ہونے کے لئے وہی اسٹائل استعمال کیا کرتے تھے۔ حالانکہ یہ ساری حرکتیں کانگریس کے خلاف کیا جاتا تھا لیکن اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہندوووٹوں کی قطب بندی کرانے میں سنگھ پریوار دن بدن کامیاب ہوتا چلا گیا۔ اگریہ سیاسی تنظیمیں یا سربراہاں کانگریس کے خلاف حکمت کا استعمال کرتے ہوئے عام مسلمانوں کے حقوق کی بازیابی کی لڑائی لڑے ہوتے تو شاید مسلم سماج کوکچھ مل بھی گیا ہوتا اور سنگھ پریوار کامیاب بھی نہ ہوتا لیکن کسی تحریک یا احتجاج کے درپردہ حکمت کے بجائے مفاد چھپا ہو تو نتیجہ تو اسی طر ح کے سامنے آئیں گے جو آج مسلمانان ہند جھیل رہا ہے۔ آج اویسی برادرران کے علاوہ اعظم خاں ، مولانا بخاری، مولانا توقیر رضاخاں جیسے سربراہان جس طرح کی کٹرپنتھی سیاست کر رہے ہیں اُس سے مسلمانوں کا مستقبل بالکل سیاہ نظر آتا ہے ۔ لمبے عرصے سے رائج یہ سلسلہ اگر آگے بھی چلتا رہا تو آج جس طرح سے مسلمان سیاسی اعتبار سے کنارے کر دیئے گئے‘ اُسی طرح سے آنے والے وقتوں ( دوسرا مرحلہ) میں کہیں سماجی طور پر بھی کنارے نہ کر دیئے جائیں گے‘ یعنی سماجی ناکہ بند ی کے ذریعہ اس قوم کو اپنے ہی وطن میں اچھوتوں کی سی زندگی گذارنے پر مجبور کر دیا جائے ۔ اس کے بعد بھی اگر سمجھوتہ و حکمت سے کام نہیں لیا گیا تو خدشہ اس بات کا ہے کہ دوسرے مرحلے میں مکمل کامیابی پا لینے کے بعد پھر مذہب پرحملہ کرنے کی تیاری ہوگی۔ اسلام کو بھارت کی سرزمین سے ختم کر دینے کی سنگھ پریوار کی پلاننگ شروع سے ہے۔ ہمارے سربراہوں نے کبھی ان کی اسکیم کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی اور حکمت کے بجائے وہی ٹیپ آج تک بجاتے چلے آرہے ہیں جو ایک سو(100)برس سے بھی زیادہ پرانا ہے اور جس میں 1947کے حادثے کے 67سا ل بعد بھی بد لاؤ کی کوئی چیز نظر نہیں آرہی ہے۔ ایسے سربراہو ں کو اور ان کے حمایتیوں کو جنونی کہا جائے تو زیادہ معقول ہوگا ۔ ان کے روایتی روئیوں سے کبھی کبھی تو ایسا لگتا ہے کہ عام مسلمانوں کو ہندوازم کے غار میں ڈھکیل کر ہی یہ جنونی مسلم طبقہ دم لے گا۔ ایسی صورتحال میں عام مسلمانوں کو ان جنونی عناصروں کی باتوں میں آنے سے پرہیز کرنا ہوگا۔ ویسے بھی سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق مسلمانوں کی حالت تو دلتوں سے بھی زیادہ خراب ہو چکی ہے لیکن سارے مسلمانوں کی تھوڑے ہی ایسی خراب حالت ہے۔ خراب حالت تو ان کثیر مسلم آبادی کی ہے جو 1950میں دفعہ341سے خارج کر دیئے گئے تھے۔ سنگھ پریوار گاج پہلے انہیں پر گرے گا ۔بھارت میں اسلام کا مستقبل تو اسی میں ہے کہ جیسے بھی ہو دفعہ 341میں مسلمانوں کی دوبارہ شمولیت کی جائے۔ اصل ووٹر یہی ہیں جن کی آبادی کوروک کر ملک میں اونچا سے اونچا عہدہ پانے میں جنونی مسلم طبقے کامیاب ہوتے رہے ہیں۔ لیکن آج کی حقیقت تویہی ہے کہ سیاسی عہدہ سے زیادہ مسلمانوں کی ضرورتوں میں روٹی و تعلیم کے ساتھ ایک سادی زندگی گذارنے کی دیگر ضروریات ہے نہ کہ ملک کا اونچا سے اونچا سیاسی عہدہ۔ صدر جمہویہ ہند، ایوان کے چیف و گورنر ہونے کے علاوہ عدالت عظمیٰ کے چیف ، یو پی ایس سی کے چیف ، ریاست کے وزیراعلیٰ بھی ہونے کا شرف تو مسلمانوں کوملتا ہی رہاہے لیکن اس سے کیا‘ عام مسلمانوں کی حالت تو دن بدن بد ترہوتی چلی گئی۔ لہٰذا سیاسی برابری کی تلاش میں ان مسلم تنظیموں و سربراہوں کو اب یہ پیغام دے دینے کی ضرورت ہے کہ پہلے دفعہ 341کے مسئلے کو حل کر لیجئے اس کے بعد یہ سیاسی حصہ داری کی معرکہ آرائی میں عام مسلمانوں کا ساتھ ملے گا ورنہ چلی آرہی صرف سیاسی حصہ داری کی معرکہ آرائی میں ہماری طرف سے ساتھ دینے کی امید نہ رکھا جائے کیونکہ اس میں صرف روایتی سربراہوں کا مفاد چھپا ہوا ہے ۔ ہمیں بہار کو مہاراشٹر بناکرذبیح خانہ ، مدرسہ خانہ بندنہیں کرواناہے جہاں ہماری روزی روٹی، تعلیم کا انتظام ہے۔ ہمیں بہار کو گجرات نہیں بننے دینا ہے جس نے نریندر مودی کو دور حاضر کا سمراٹ بنا دیاہے۔ زمانہ قدیم سے چلی آرہی مسلمانوں کی اس روایتی لیڈر
شپ سے بہتر تو امبیڈکر، لوہیا، منڈ ل یا ان کے حمایتوں کی رہی ہے جنہوں نے کمزور ہندو طبقوں کو برہمنوادی نظام کے شکنجے سے آزاد کراکر ملک کے مین اسٹریم میں لانے کا کام کیا۔ اسی طرح کے تحریک کی اب مسلمانوں کو بھی ضرورت ہے۔ چاہے اس کے لئے مسلمانوں کو صلح حدیبیہ جیسے تاریخی فیصلے کا سہارا ہی کیوں نہ لینا پڑے۔
جواب دیں