اس طرح کہ ہر سانس ہو مصروفِ عبادت،دیکھوں میں درِ دولت سلطان مدینہ

مکہ ہو یا مدینہ محبوب خدا کی یادگاریں ہر قدم پر حاجی کو اپنی سمت کھینچتی ہیں 

ڈاکٹر سراج الدین ندوی
چیرمین ملت اکیڈمی۔بجنور

انسانوں پر سب سے بڑا احسان اگر کسی کاہے تو وہ خدا کا ہے۔ لیکن خدا کے بعد محسن انسانیت انبیاء و رسل ہیں اور محسن اعظم رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ ان کے اس احسان کے تقاضے کے تحت ہم ان سے محبت کرتے ہیں اور یہ محبت جز و ایمان ہے۔یعنی اگر ان سے محبت نہیں تو ایمان نہیں اور یہ محبت بھی اعلیٰ و کمال درجے کی کہ انسانوں میں سب سے زیادہ محبت انھیں سے ہونا چاہیے۔ کیوں کہ خود رسول اکرم ؐ کا فرمان ہے کہ تمھارا ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتاجب تک تم مجھ سے اپنے والدین اور اپنی اولاد سے بڑھ کر محبت نہ کرنے لگو(متفق علیہ)۔ ظاہر ہے اس محبت اور ان کے احسانات کا تقاضا ہے کہ ان کے شہر، ان کے کوچہ، ان کی مسجدوں اور ان کے روضہ کی زیارت کی جائے۔ ایک مومن کا دل ہر وقت یہی چاہتا ہے کہ وہ اڑ کر مدینہ پہنچ جائے۔ اسے موت بھی مدینہ کی گلی میں آئے۔ اس کی قبر بھی مدینہ کے حصار میں بن جائے، وہ جب حشر میں اٹھے تو مدینہ سے اٹھے۔ اگر چہ مدینہ جانا حج کا کوئی حصہ نہیں ہے لیکن بڑی بدقسمتی کی بات ہے کہ مکہ جاکر خالی واپس آجائے اور مدینہ نہ جائے۔ 
مکہ ہو یا مدینہ دونوں مقامات پر محبوب خدا کی یادگاریں ہر قدم پر حاجی کو اپنی سمت راغب کرتی ہیں۔مکہ میں اگر سیدنا حضرت ابراہیم ؑ کے نشانات تاریخ ہیں تو وہیں،وہ گلی کوچے بھی ہیں جہاں پیارے نبی ﷺ نے اپنی زندگی کے بیش قمیت 53سال گزارے تھے۔ایک حاجی چشم تصور سے وہ سارے مناظر دیکھتا ہے،جنھیں وہ اپنی ماتھے کی آنکھوں سے نہیں دیکھ پایا تھا۔آپ کی مبارک پیدائش،عبدالمطلب کا آپ کو لے کر کعبہ میں آنا،حلیمہ سعدیہ کی کمزور اونٹنی پر آپ کا سوار ہونا اور پھر حلیمہ کی قسمتوں کے دروازے کھلنا،بکریوں کا چرانا،کعبہ کی تعمیر میں اینٹوں کا سر پر رکھ کر ڈھونا،حلف الفضول کا معاہدہ ہونا،حضرت خدیجہ الکبریٰ کا مال لے کر مختلف ممالک کا سفر کرنا،تعمیر کعبہ میں حجر اسود کا فیصلہ کرنا،غار حراء میں وحی کا نازل ہونا،اہل مکہ کا دشمن ہوجانا،گردن پر اونٹ کی اوجھ ڈالنا،راستوں میں ام جمیل کا کانٹے بچھانا،راہ چلتے سر پر کوڑا ڈالنا،شعب ابی طالب میں قید ہونا،ابو جہل،ابو لہب کا حد درجہ ستانا،ہجرت پر مجبور کردینا،وغیرہ وہ حادثات و واقعات ہیں جوہر قدم پر ہمیں آپ ؐ کی یاد دلاتے ہیں۔اسی طرح جب حاجی مدینہ کا سفر کرتا ہے تو راستہ میں غار ثورکی زیارت کا شرف حاصل کرتا ہے۔مدینہ میں آپ کے دس سال اسلام کے لیے نشیب و فراز کے ایام ہیں۔آپ ؐ کا ہر لمحہ قابل اتباع ہے،ہر نقش پا چومنے کو دل چاہتا ہے۔وہ مسجد جسے آپ نے اپنے ہاتھوں سے تعمیر کیا تھا،جنت کی وہ کیاری جو آپ ؐ کو بہت محبوب تھی،وہ جنت البقیع جہاں آپ ؐ کے پیارے مدفون ہیں،بدر و احد کی وہ وادیاں جو اسلام کی اشاعت میں سنگ میل ثابت ہوئیں،آپ کا مدفن جو دنیا کی ہر جگہ سے زیادہ قیمتی ہے۔غرض کیا کیا یاد کیا جائے۔لیکن یہ واقعات صرف انھیں کو یاد آتے ہیں،انھیں حاجیوں کو یہ نشانات نظر آ تے ہیں جنھوں نے آپؐ کی سیرت اور اسلام کی تاریخ کا مطالعہ کیا ہو۔رہے وہ لوگ جنھیں صحیح سے کلمہ بھی یاد نہیں،جنھیں تلبیہ بھی معلم کہلواتا ہے،جو گھر سے نکلتے وقت کسی علمی تیاری کے بغیر نکل گئے ہیں،جو محض ایک رسم کی ادائیگی کے لیے چلے گئے ہیں،انھیں تسبیح و مصلے اور کھجور و زمزم کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔
آپ جب مدینہ کے لیے رخت سفر باندھیں تو زبان پر کثرت سے درود کا وظیفہ ہو،یہ درود کا عمل کوئی معمولی عمل نہیں ہے۔یہ وہ عمل ہے جسے خود اللہ تعالیٰ اور فرشتے انجام دیتے ہیں۔جملہ اسلامی احکامات میں کہیں یہ اسلوب نہیں آتا کہ اللہ تعالیٰ یہ فرمائے کہ میں نماز پڑھتا ہوں،تم بھی پڑھو،میں روزے رکھتا ہوں تم بھی رکھا کرو،لیکن درود کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے:
اِنَّ اللّٰہَ وَ مَلٰٓءِکَتَہٗ یُصَلُّونَ عَلَی النَّبِیِّ  یٰاَیُّہَا الَّذِینَ اٰمَنُوا صَلُّوا عَلَیہِ وَ سَلِّمُوا تَسلِیمًا (سورۃ الأحزاب۔۵۶)
”اللہ تعالٰی اور اس کے فرشتے نبی پر رحمت بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم (بھی) ان پر درود و سلام بھیجو۔“
مدینہ پہنچ کر سب سے پہلے مسجد نبوی کی زیارت کیجیے۔مسجد نبویؐ میں داخل ہوتے وقت یہ دعا پڑھیے: 
بِسْمِ اللّٰہِ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلاَمُ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ اَعُوْذُ بِاللّٰہِ الْعَظِیْمِ وَ بِوَجْہِہِ الْکَرِیْمِ وَ سُلْطَانِہِ الْقَدِیْمِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ اَللّٰہُمَّ افْتَحْ لِیْ اَبْوَابَ رَحْمَتِکَ.
”اللہ کے نام سے اور دورد و سلام ہو اللہ کے رسول پر، اللہ عظمت والے کی پناہ چاہتا ہوں اور اس کی بزرگ ذات اور قدیم سلطنت کی پناہ چاہتا ہوں شیطان مردود سے۔ اے اللہ میرے لیے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے۔“
اس کے بعد دو رکعت نماز تحیۃ المسجد ادا کرے۔مسجد نبوی میں نماز کا ثواب بہت زیادہ ہے۔اللہ کے رسول ؐ نے ارشاد فرمایا: 
”میر ی اس مسجد میں ایک وقت کی نماز مسجد الحرام کے علاوہ دوسری مسجدوں کی ایک ہزار نماز سے بہتر ہے۔“ (متفق علیہ)بعض روایات میں پچاس ہزار نمازوں کے ثواب کا تذکرہ ہے۔ 
افضل یہ ہے کہ باب جبریل ؑ سے داخل ہو اور پھر ”ریاض الجنہ“ میں دو رکعت نماز ادا کی جائے۔ اللہ کے رسولؐ نے ارشاد فرمایا: 
”میرے گھر اور منبر کے درمیان جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے۔“(بخاری)
اگر ریاض الجنہ میں جگہ نہ ہو تو مسجد میں کہیں بھی دو رکعت نماز ادا کی جاسکتی ہے۔ نماز کے بعد اللہ سے دنیا و آخرت کی تمام بھلائیاں مانگئے۔ نمازا ور دعا سے فراغت کے بعد روضہئ اقدس پر حاضری دیجیے۔ زبان پر صلٰوۃ و سلام کا ورد جاری رکھئے۔ روضہئ اطہر کے پاس آکر موزوں آواز میں سلام پیش کیجیے۔ اللہ سے، رسول اکرم ؐ کی شفاعت کی دعائیں کیجیے۔ جنھوں نے سلام کہلوایا ان کاسلام پہنچائیے۔رسول خدا کی شان میں سلام کے لیے کوئی مخصوص الفاظ ضرور ی نہیں ہیں، بلکہ آپ کو جن لفظوں میں آسانی ہو اور جو زبان آپ جانتے ہوں اس زبان میں سلام کہہ سکتے ہیں۔البتہ شرک سے بچئے اور کوئی ایسا لفظ منہ سے نہ نکالیے جس سے شرک کی بو آتی ہو۔ اس کے بعدحضرت ابو بکرؓ وحضرت عمر ؓ کی قبروں کی زیارت کیجیے اور ان پر بھی سلام پیش کیجیے۔حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں پر سلام بھیجتے تھے تو اس سے زیادہ نہیں کہتے تھے:
”اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا اَبَا بَکْرٍ، اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا اَبَتَاہُ.“(التحقیق والایضاح صفحہ 62)
(اے اللہ کے رسول ؐ آپ پر سلام ہو۔اے ابو بکر ؓ  آپ پر سلام ہو۔اے ابا جان آپ پر سلام ہو)چونکہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ خلیفہ دوم حضرت عمر ؓ کے بیٹے تھے اس لیے ابا جان کہتے تھے،آپ’یاابتاہ‘ کی جگہ ’ یا عمر ؓ  ‘ کہئے۔
اس کے بعد ”جنت البقیع“ کی زیارت کیجیے۔ کیوں کہ یہاں صحابہئ کرام ؓ اور ازواج مطہرات ؓ مدفون ہیں۔ یہاں پہنچ کر کہیے: 
”اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا اَہْلَ الْقُبُوْرِ وَیَغْفِرُ اللّٰہُ لَنَا وَلَکُمْ اَنْتُمْ سَلَفْنَا وَنَحْنُ بِالْاَثْرِ.“
اے قبر والو! تم پر سلامتی ہو، اللہ ہم کو اور تم کو بخش دے۔ تم ہم سے پہلے آگئے اور ہم تمھارے بعد آنے والے ہیں۔
اس کے علاوہ مسجد قبا،مسجد قبلتین،میدان بدر و احد وغیرہ کی زیارت کا شرف حاصل کیجیے ۔مسجد قبا تاریخ اسلام کی پہلی مسجد ہے یہ مدینہ منورہ سے تین کیلو میٹر کے فاصلہ پر ایک قدیمی گاوں ”قبا“ میں واقع ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کرکے جب تشریف لائے تو یہاں پر چودہ دنوں تک قیام فرمایا اور مسجد کی تعمیر فرمائی۔ مسجد نبوی کی تعمیر کے بعد بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہاں تشریف لایا کرتے تھے، اس مسجد میں دو رکعت نماز پڑھنے کا ثواب ایک عمرہ کے برابر ہے۔مسجد قبلتین وہ مسجد جہاں آپ کو تحویل قبلہ کا حکم ملا۔یہاں دو منبر اور محرابیں ہیں۔البتہ جب تک مدینہ میں رہنے کی سعادت ملے تو پنج وقتہ نماز مسجد نبوی میں ادا کیجیے۔ ذکر و تسبیح، تلاوت وغیر ہ کا اہتمام کیجیے۔ وقت کو ضائع نہ کیجیے، رات کو بھی جاگئے۔ حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں زیادہ سے زیادہ سلام پیش کیجیے۔ وقت کو غنیمت جانئے اور جتنا ثواب سمیٹ سکتے ہوں اور جس قدر گناہ معاف کراسکتے ہوں کرالیجیے۔ نہ معلوم دوبارہ ان آنکھوں کو یہ مناظر دیکھنے کو ملیں یا نہ ملیں۔ اپنے ساتھی، اپنے اعزہ اور اہل خانہ کے لیے بھی خوب دعائیں کیجیے۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ آپ کے سفر حج کو قبول فرمائے اور ان فیوض و برکات سے مستفید فرمائے جس کا اس نے آپ سے وعدہ کیا ہے۔آمین

مضمون نگار کی رائےسے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

«
»

عید الاضحےٰ اورقربانی کے احکام قرآن و سنت کی روشنی میں

ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات __

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے