مدینہ منورہ میں حجاج کرام کی آمد کا سلسلہ جاری

سہیل انجم

دنیا بھر سے حجاج کرام کے قافلے مدینہ ایئرپورٹ پر اتر رہے ہیں۔ وہاں ضروری کاغذی کارروائیوں کے بعد انھیں ان کے ہوٹلوں میں لے جایا جا رہا ہے۔ ہم بھی سعودی ایئر لائنس کی فلائٹ سے ۱۸ جولائی کی صبح کو مدینہ منورہ پہنچ گئے۔ مگر ضروری کاغذی کارروائیوں کے بعد اپنے ہوٹل طیبہ السلام ظہر کے وقت پہنچے۔ اس فلائٹ میں کل ۴۵۰ عازمین تھے۔ ہر فلائٹ سے تقریباً اتنے ہی حجاج آ رہے ہیں۔ دہلی سے حجاج کی فلائٹ کا آغاز ۱۴ جولائی کو ہوا ہے جو ۲۸ جولائی تک جاری رہے گا۔ اس کے ساتھ ہی دوسرے امبارکیشن پوائنٹس سے بھی حجاج آرہے ہیں۔ ہندوستان سے امسال کل پونے دو لاکھ حجاج حج کرنے والے ہیں۔ حاجیوں کو مسجد نبوی کے قرب واقع ہوٹلوں میں ٹھہرایا جاتا ہے۔ ہوٹل طیبہ السلام مسجد نبوی کے باب السلام کی طرف ہے جو کہ ساتواں گیٹ ہے۔ ہوٹل سے بمشکل پانچ منٹ کے اندر مسجد نبوی میں پہنچا جا سکتا ہے۔ اس ہوٹل میں تین سے لے کر چھ بستروں والے کمرے ہیں۔ کور ہیڈ کے اعتبار سے لوگوں کو کمرے الاٹ کیے جاتے ہیں۔ باب السلام کی جانب مسجد علی، مسجد ابو بکر، مسجد غمامہ اور تھوڑی مسافت پر مسجد بلال واقع ہیں۔ یہیں پاس میں کھجوروں کا بازار یعنی سوق التمر ہے جہاں سے عازمین سستے داموں میں اچھی کھجوریں خریدتے ہیں۔

ہندوستان سے روزانہ متعدد پروازوں سے عازمین مدینہ پہنچ رہے ہیں۔ ہندوستانی حج مشن کے مطابق ۲۰ جولائی تک ۲۳۴۰۷ ہندوستانی عازمین مدینہ پہنچ گئے ہیں۔ حج مشن کی جانب سے یو ٹیوب پر یومیہ حج بلیٹن جاری ہوتا ہے جسے محمد یونس اعظمی پیش کرتے ہیں۔ وہ ہندوستانی حج مشن کی سرگرمیوں کے بارے میں بھی بتاتے ہیں۔ حج مشن کی جانب سے مدینہ اور مکہ میں ۱۴ برانچیں قائم کی گئی ہیں۔ کئی اسپتال بھی ہیں جہاں حاجیوں کا علاج کیا جاتا ہے۔ مدینہ کے ہوٹل میں پہنچتے ہی حجاج کرام کی پہلی خواہش یہی ہوتی ہے کہ وہ جلد از جلد مسجد نبوی میں جا کر نماز ادا کریں اور روضہ مبارک پر جا کر درود و سلام کا نذرانہ پیش کریں۔ ابھی جبکہ زیادہ حجاج مدینہ نہیں پہنچے ہیں پھر بھی عام دنوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ بھیڑ ہو گئی ہے۔ اور یہ بھیڑ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہے۔ جمعہ کے روز لاکھوں فرزندان توحید نے ایمانی جوش و جذبے کے ساتھ نماز جمعہ ادا کی۔ جمعہ کو مسجد نبوی کافی پہلے بھر جاتی ہے۔ تھوڑی تاخیر سے آنے والوں کو یا تو کھلے صحن میں یا پھر چھت پر جگہ ملتی ہے۔ ابھی جو حجاج نظر آرہے ہیں ان میں ہندوستانی، پاکستانی، افغانی، ملیشیائی، انڈونیشیائی، ایرانی اور ترک وغیرہ ہیں۔ ملیشیا اور انڈونیشایا کے حجاج دور سے ہی پہچانے جاتے ہیں۔ وہ مخصوص لباس میں ہوتے ہیں۔ اسی طرح افغانستان کے حجاج ایک جیکٹ پہنے ہوئے ہیں جس کی پشت پر بڑے اسٹیکر پر موٹے موٹے حروف میں اردو اور انگریزی میں افغانستان لکھا ہوا ہے۔ دوسرے ملکوں کے حجاج بھی اپنی شناخت رکھتے ہیں۔ ہندوستانی حجاج کی شناخت ان کے آئیڈنٹٹی کارڈ کی ڈوری سے ہو جاتی ہے جو ترنگے سے بنی ہے۔

ہمیں ایئرپورٹ پر جامعہ اسلامیہ میں پی ایچ ڈی کے ایک ہندوستانی طالب علم عبد الرحمن ملے جو ڈیوٹی پر ہیں اور ہندوستانی حجاج کی خدمت کر رہے ہیں۔ مسجد نبوی میں ہماری ملاقات ایک اور ہندوستانی پی ایچ ڈی اسکالر شعیب محمد اسلم سے ہوتی ہے۔وہ مسجد نبوی میں اردو مترجم بھی ہیں اور مکتب وحدۃ لسان الزائر میں مترجم کی خدمات انجام دیتے ہیں۔ انھوں نے ہماری ملاقات اپنے شعبے کے منیجر ابو منصور فارس الجربا سے کروائی۔ یہاں سے جمعہ کا خطبہ سات زبانوں اردو، انگریزی، فرانسیسی، ملاوی، ترکی، ہوسا اور فارسی میں لائیو نشر ہوتا ہے۔ اس کا آغاز ملک عبد اللہ نے کیا تھا۔ ان زبانوں کے علاوہ تین مزید زبانوں روسی، بنگلہ اور چینی کی بھی منظوری آچکی ہے اور جلد ہی ان زبانوں میں بھی خطبے کا ترجمہ شروع ہو جائے گا۔ یہ شعبہ حج اور عمرہ سیزن میں دس سے زائد زبانوں میں عازمین و معتمرین کا استقبال کرتا ہے۔ ابو منصور بڑی محبت سے پیش آئے۔ انھوں نے عربی میں بات کی۔ شعیب نے مترجم کی خدمت انجام دی۔ جب ان کو یہ معلوم ہوا کہ یہ شخص ایک صحافی ہے تو ان کی دلچسپی بڑھ گئی۔ انھوں نے ہندوستان کے بارے میں بہت سی باتیں کیں۔ یہاں کے مسلمانوں کے بارے میں پوچھا اور یہ بھی جاننا چاہا کہ مسلمانوں کے کیا حالات ہیں۔ ہم نے انھیں بتایا کہ اللہ کا شکر ہے کہ ہندوستانی مسلمان دنیا کے بہت سے مسلمانوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ خوش و خرم اور بعافیت ہیں۔ انھوں نے ہندوستان اور سعودی عرب کے تاریخی رشتوں پر اظہار خیال کیا اور کہا کہ یہاں کی حکومت ہندوستانی مسلمانوں سے بہت محبت سے پیش آتی ہے۔ انھوں نے ہندوستانی مسلمانوں کی دینی خدمات کا اعتراف بھی کیا۔ اس حوالے سے انھوں نے کئی تاریخی واقعات بھی بتائے۔ عصر کی نماز کے بعد انھوں نے مسجد نبوی کی سیر کرائی۔ اس کے ساتھ ہی وہ مسجد نبوی کے بارے میں ضروری باتیں بھی بتاتے رہے۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ کہاں کہاں کس کس صحابی کے گھر ہوا کرتے تھے۔ مدینہ کی پوری قدیم اور گنجان آبادی اب مسجد نبوی میں شامل ہو گئی ہے۔ ہم آخر میں ان کی کوششوں سے باب السلام کی جانب سے ریاض الجنہ میں داخل ہوئے اور محراب نبوی کے سامنے تقریباً ایک گھنٹہ بیٹھے۔ پھر ہم نے قبر مبارک پر جا کر ایک بار پھر درود وسلام کا نذرانہ پیش کیا۔ ابو منصور فارس الجربا نے کچھ کتابوں کا تحفہ بھی دیا۔ یہیں ایک اور اردو مترجم پاکستان کے ثناء اللہ سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے اپنی گفتگو میں ہندوستان و پاکستان میں دوستانہ تعلقات کے قیام کی دلی خواہش ظاہر کی۔

اب کچھ باتیں اپنے ساتھی عازمین کے بارے میں۔ ہمارے ساتھ دہلی کے محض پچاس ساٹھ حاجی تھے ورنہ اکثریت مغربی یو پی کے حاجیوں پر مشتمل تھی۔ ایسا لگا کہ انھوں نے ٹریننگ نہیں لی تھی۔ ورنہ ان کا رویہ قدرے مختلف ہوتا۔ اس پر بعد میں تفصیل سے گفتگو ہوگی۔ حج کمیٹی آف انڈیا کی جانب سے بہتر سہولتیں فراہم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ لیکن انسان غلطیوں کا پتلہ ہے کہیں نہ کہیں خامی رہ جاتی ہے۔ دہلی کے حجاج کے لیے اندرا گاندھی انٹرنیشنل ایئر پورٹ کے حج ٹرمنل ٹو سے چار کلو میٹر قبل ہی روز گارڈن میں ٹرانزٹ کیمپ بنایا گیا ہے۔ حاجی وہیں جائیں براہ راست ٹرمنل ٹو پر نہ جائیں۔ ہم نے غلطی کی اور ٹرمنل ٹو پر براہ راست چلے گئے۔ وہاں سیکورٹی والوں نے ہمیں روک دیا اور ہدایت دی کہ ٹرانزٹ کیمپ جائیں او رحج کمیٹی کی بس سے آئیں۔ وہاں ڈیوٹی پر موجود محمد احمد نے کہا کہ براہ راست جانے کی بھی اجازت ہے۔ مگر سیکورٹی اہلکار نے ایک نہیں سنی۔ انھوں نے حج کمیٹی کے چیف ایکزیکیٹیو آفیسر جناب اشفاق عارفی سے رابطہ قائم کیا۔ انھوں نے سیکورٹی افسر سے بات کی اور پھر ہمیں ایئر پورٹ کے اندر داخل ہونے کی اجازت ملی۔ لہٰذا ایسی پریشانی سے بچنے کے لیے بہتر ہے کہ حاجی ٹرانزٹ کیمپ ہی جائیں۔ ایک روز قبل ایک حاجی صاحب بڑی مقدار میں یعنی تین اٹیچیوں میں پان مسالہ لے کر آ رہے تھے، سب نکلوایا گیا۔ حاجی صاحب کی بڑی سبکی ہوئی۔ لہٰذا ممنوعہ اشیا لے کر کوئی نہ آئے۔ سامان کی حفاظت بھی ضروری ہے۔ ایک حاجی صاحب اپنے ۲۱۰۰ ریال دہلی ایئرپورٹ پر بھول آئے۔ اگر حجاج حج کمیٹی کے ذمہ داروں کی ہدایات پر عمل کریں تو دشواریوں سے بچ سکتے ہیں۔ مدینہ شریف میں ایک ہفتہ کے قیام کے بعد ہمارا قافلہ مکہ مکرمہ کے لیے روانہ ہوگا۔ اللہ کرے کہ سفر میں آسانی ہو اور تمام حجاج کا حج قبول ہو۔ (آمین)۔

«
»

پاکستان میں فوج کے تعاون سے عمران خاں کے اقتدار کی راہ ہموار

مسلمانوں کو ساتھ لے کر چلنے کی بات ہی تو سیکولرزم ہے!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے