مدھیہ پردیش کی تاریخ کا ایک پوشیدہ ورق

یہاں اسلام کی کرنیں اس دور میں پہنچ گئی تھیں جب نہ تو حضرت خواجہ معین الدین چشتی کا اجمیر مقدس میں ورود مسعود ہوا تھا اور نہ ہی شہاب الدین محمدغوری نے ہندوستان پر حملہ کیا تھا۔ یہاں کی اسلامی تاریخ بے حد دلچسپ ہے مگر اس پر رفتار زمانہ نے گرد کی موٹی تہیں جمادی ہیں، جس کے سبب دنیا ’’مسلم بھوج ‘‘کی تاریخ سے بے خبر ہے۔ آئندہ سطور میں ہم تاریخ کے اسی پوشیدہ صفحے کو بے نقاب کرنے جارہے ہیں۔
دھارکا اسلامی پسِ منظر:
محمد بن قاسم نے ۹۳ھ ؁ مطابق ۶۱۲ء ؁ میں سندھ پر حملہ کیا تھا۔ اس کے بعد والئ سندھ جنید بن عبدالرحمٰن نے حبیب بن مرہ کی قیادت میں ایک دستہ مالوہ کی طرف بھیجا جو مشہور تاریخی شہر اجین پہنچا اور صلح وفتح کے بعد واپس گیا۔ (فتوح البلدان) اسے پہلا اسلامی لشکر کہا جاسکتا ہے جس نے اس خطے پر حملہ کیا تھا۔ اسی حملے نے اس علاقے کو پہلی بار اسلام اور مسلمانوں سے واقف کرایا۔قیاس ہے کہ اسی دور میں مسلمانوں کا یہاں بسنا شروع ہوگیا تھا اور ان کے اثر میں آکر مقامی لوگ بھی مسلمان ہونے لگے تھے کیونکہ جب مشہور سیاح ومورخ علامہ مسعودی کی ۳۰۶ ؁ھ مطابق ۹۱۷ ؁ء میں مالوہ آمد ہوئی تو یہاں مسلمانوں کی آبادی موجود تھی اور انھیں نہ صرف عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتاتھا بلکہ ان کے وجود کو باعثِ برکت بھی جانا جاتا تھا۔اس کا ذکر مسعودی نے اپنی کتاب ’مروج الذہب‘ میں کیا ہے۔ 
مسعودی کی سیاحت کے کچھ عرصہ بعد چالیس مردانِ حق کا قافلہ مالوہ کے علاقے میں رات کے وقت فروکش ہوااور جب صبح کی نماز کے لئے موذن نے اذان کہی تو چاروں طرف سے مقامی لوگ ٹوٹ پڑے اور انھیں شہید کردیا۔
اس کے بعد ۴۴۱ھ ؁ میں مشہورصوفی حضرت عبداللہ چنگال رحمۃ اللہ علیہ دھارانگر میں تشریف لائے اور اس خطے میں اسلام کی اشاعت کا کام کیا۔
سلطان سید سمابوم مصری نے اس کے کچھ سال بعد مالوہ پر حملہ کیا اور راجہ رام دیو کو شکست دے کر اس علاقے پر قبضہ کرلیا۔ اس نے تقریباً ستّر سال تک یہاں حکومت کی، پھر چوہان خاندان کی حکمرانی ہوئی جو سلطان غزنوی کے حملے تک قائم رہی۔ غزنوی کی فتح کے بعد کئی مسلمان بادشاہوں نے یکے بعد دیگرے یہاں حکومت کی۔ آخرکار راجہ جیت مل چوہان نے حکومت حاصل کی اور اس کے خاندان میں حکومت چلتی رہی یہاں تک کہ ایک افغان مسلمان نے راجہ بیر سین کو قتل کرکے تخت حاصل کیا اورجلال الدین کا لقب اختیار کرکے حکومت کرنے لگا۔ راجہ بیر سین کے خاندان کے ایک فرد نے حملہ کرکے یہاں کے بادشاہ، سلطان اعظم شاہ کو قتل کیا اور یہاں کا راجہ بن گیا۔ پھر راجہ سکت سنگھ کے عہد میں ایک دکنی شخص نے حملہ آور ہوکر یہاں کے تخت پر قبضہ جما لیا یہاں تک کہ سلطان شہاب الدین غوری کا حملہ ہوا اور حکومت اس کے قبضے میں چلی گئی۔ (تاریخ مالوہ ،سیرالمتاخرین، ہندوستان اسلام کے سائے میں)
راجہ بھوج اور اس کے درباریوں کا قبول اسلام:
برصغیر میں اسلام کی اشاعت کے جس کام کی ابتدا صحابہ اور تابعین نے کی تھی اسے آگے بڑھانے کا کام صوفیہ نے کیا۔ بادشاہوں نے ملک فتح کئے مگر صوفیہ نے دلوں کی مملکت پر فتح کے پرچم لہرائے۔ مالوہ کے خطے میں بھی اسلام کی اشاعت کا کام انھیں بااخلاص صوفیہ کے ذریعے ہوا۔ا س بات کا عتراف ہر دور کے اہلِ علم نے کیا ہے۔ یہاں سب سے پہلے جس صوفی کی آمد کا ذکر ملتا ہے وہ حضرت عبداللہ چنگال ہیں،جن کے ہاتھ پر مالوہ کے راجہ بھوج (دوم) اور اس کے درباریوں نے اسلام قبول کیا تھا۔حالانکہ ان کی آمد سے قبل یہاں چالیس داعیان اسلام کی آمد کا ذکر بھی ملتا ہے جنھیں یہاں کے لوگوں نے انتہائی سفاکی سے قتل کردیا تھا۔
خطہ دھار،مالوہ (موجودہ مدھیہ پردیش)کے راجہ بھوج کے قبول اسلام کاتذکرہ تاریخی کتابوں ہے۔اس نے اپنے عہد کے ایک صوفی حضرت عبداللہ چنگال رحمۃ اللہ علیہ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا تھا۔ اس خطے کی یہ خصوصیت رہی کہ یہاں حضرت عبداللہ چنگال کے قدم بہت پہلے آگئے تھے۔حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کااجمیرمیں ورود مسعود اس کے لگ بھگ سواسوسال بعد ہوا۔یعنی جب مسلم حملہ آوروں کے قدم یہاں نہ پہنچے تھے تب صوفیہ پہنچ چکے تھے اور پیغام توحید کی اشاعت کا کام شروع کردیا تھا۔ آپ کی تبلیغ کے سبب راجہ بھوج (دوئم) نے اسلام کے دامن میں پناہ لی اور اس کی بیوی رانی لیلاوتی ووزیراعظم بدھی ساگر نے اسلام قبول کیا، ساتھ ہی راجہ کے درباریوں نے بھی اس کی تقلید کی اور حلقہ بگوش اسلام ہوگئے۔ یہاں شاہ عبداللہ چنگال رحمۃ اللہ علیہ کی قبر کے پاس ہی راجہ بھوج اور اس کی رانی نیز وزیراعظم کی قبریں آج بھی موجود ہیں۔ یہاں ان چالیس شہداء اسلام کی قبریں بھی ہیں جو اس شرکستان میں توحید کا اجالا پھیلانے کی کوشش میں شہید ہوئے تھے۔ راجہ بھوج نے اسلام قبول کرنے کے بعد اپنا نام عبداللہ رکھا تھا اور اسلامی علوم حاصل کئے نیز حضرت عبداللہ چنگال سے تصوف وطریقت کے رموز سیکھ کر خود بھی روحانیت میں اعلیٰ مقام حاصل کیا۔’’تاریخ مالوہ‘‘ کے مطابق راجہ بھوج کا عہد حکومت ۱۰۱۸ء تا ۱۰۶۰ء رہا۔
تاریخی تعمیرات:
دلی کے سلطان علاء الدین خلجی کے سپہ سالار ملک کافور نے ۱۳۰۵ء میں مالوہ کے اس علاقے کو فتح کیا۔ اس نے فتح کی یادگار کے طور پر دو تعمیرات کرائی تھیں،جن میں ایک جامع مسجد مولانا کمال الدین تھی اور دوسری یادگار شاہ عبداللہ چنگال کا مقبرہ تھا۔ بعد میں جب یہ علاقہ خود مختار ہوگیا تو سلطان ناصرالدین محمود خلجی یہاں کا بادشاہ ہوا اور اس نے ۱۴۵۵ء ؁ میں ان عمارتوں کو ازسرنو تعمیر کرایااور دروازے پر بیالیس اشعار پر مشتمل کتبہ لگوایا۔ ان اشعار کو نظم کرنے والے شاعر کانام محمودناظم ہے۔یہ کتبہ تاریخ کے کئی سربستہ رازوں سے پردہ اٹھاتاہے۔ان اشعار میں ذکر ہے کہ بادشاہ مالوہ محمود خلجی نے قبر کے پاس کے کھلے میدان کومقبرے کی عمارت میں شامل کرکے یہاں ایک وسیع گنبدبنوادیا۔ احاطے کے شمالی رخ پر چند گنبد اورحجرے بنوادیئے اور ساتھ ہی لنگر خانہ بھی تعمیر کرایاتاکہ یہاں آنے والے یکسوئی کے ساتھ عبادت وریاضت کرسکیں اور مسافر آرام کرسکیں۔مزار پرکندہ اشعار’’ہندوستان اسلام کے سائے میں‘‘ کے مصنف نے ’’تاج الاقبال‘‘ اور ’’جمال کمال‘‘ کے حوالے سے نقل کئے ہیں۔ 
راجہ بھوج(دوم) کے قبول اسلام کی روایت کو تمام مورخین تسلیم کرتے ہیں ۔ اسے آخری دور کے ہندو مورخین بھی صحیح مانتے ہیں۔ دھار راج کا اتہاس‘‘اور ’’راجستھان کھنڈائے‘‘ میں بھی راجہ کے قبول اسلام کی بات کو درست مانا گیا ہے۔ ’’تاریخِ مالوہ ‘‘کے مطابق حضرت عبداللہ چنگال رحمۃ اللہ علیہ مہاراجہ بھوج کے دور میں دھار نگر آئے اور قلعہ کے دروازے پر آکر اترے۔ راجہ نے قبول اسلام کے بعد آپ کا مکان اپنے قلعہ کے روبرو بنوایا اور انتقال کے بعد آپ وہیں دفن کئے گئے۔ گویا آپ کی قبر جس مقام پر ہے وہاں کبھی راجہ کا قلعہ ہوا کرتا تھا مگر علاء الدین خلجی کے دور حکومت تک اس قلعے کا نام ونشان مٹ چکا تھا اس کے بعد یہاں آپ کی درگاہ تعمیر کی گئی۔
مسجد کمال مولانا کا تنازعہ:
آج کل مسجد بھوج شالہ کا تنازعہ کھڑا کیا جارہا ہے اور کہا جارہا ہے کہ جامع مسجد کمال مولانا اصل میں سرسوتی مندر ہے ،یہ بات تاریخی شواہد سے ثابت نہیں ہوتی۔ یہ وہی مسجد ہے جسے علاء الدین خلجی کے سپہ سالار ملک کافور نے تعمیر کرایا تھا۔ جہاں تک مسجد کی دیوار میں بعض مورتیوں کے ہونے کی بات ہے تو تاریخ کا ایک معمولی طالبعلم بھی جانتا ہے کہ عہد قدیم میں پرانے مکانات کے ملبوں اور باقیات سے عمارتیں تعمیر کی جاتی تھیں۔ ظاہر ہے کہ اس مسجد کی تعمیر میں بھی اسی قسم کے ملبوں اور تعمیراتی سازوسامان کا استعمال کیا گیا ہے۔ ممکن ہے کسی محل کا ملبہ اس میں استعمال ہوا ہوکیونکہ محلوں کی دیواروں میں مورتیوں کی شبیہیں عام طور پر ہوتی تھیں۔ یہاں مندر ہونے کی بات سب سے پہلے انگریزی عہدحکومت میں شروع کی گئی جو آج ایک مسئلہ بنتی جارہی ہے۔ خدانخواستہ پھر کوئی بابری مسجد جیسا مسئلہ کھڑا ہو، اس سے پہلے ہی تاریخی غلط فہمیوں کو دور کردینا چاہئے۔(یو این این)(مضمون نگار ٹی وی پروڈیوسر اور راسکرپٹ ائٹر ہیں) 

«
»

اب کیا کہا جائے گا داعش کے بارے میں؟

تھکن دور کرنے والی غذائیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے