مدینہ منورہ کے تاریخی مقامات

مسجد نبوی:جب حضور اکر م ﷺ مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لائے توآپ ﷺ نے ۱ ہجری میں مسجد قبا کی تعمیر کے بعد صحابہئ کرام کے ساتھ مسجد نبوی کی تعمیر فرمائی، اس وقت مسجد نبوی ۵۰۱ فٹ لمبی اور ۰۹ فٹ چوڑی تھی۔ہجرت کے ساتویں سال فتح خیبر کے بعد نبی اکرم ﷺ نے مسجد نبوی کی توسیع فرمائی۔ اس توسیع کے بعد مسجد نبوی کی لمبائی اور چوڑائی ۰۵۱ فٹ ہوگئی۔حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں مسلمانوں کی تعداد میں جب غیر معمولی اضافہ ہوگیا اور مسجد ناکافی ثابت ہوئی تو ۷۱ ھ میں مسجد نبوی کی توسیع کی گئی۔ ۹۲ ھ میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے زمانے میں مسجد نبوی کی توسیع کی گئی۔اموی خلیفہ ولید بن عبد الملک نے ۸۸ ھ تا ۱۹ھ میں مسجد نبوی کی غیر معمولی توسیع کی۔ حضرت عمر بن عبد العزیز ؒ اس وقت مدینہ منورہ کے گورنر تھے۔ اموی اور عباسی دور میں مسجد نبوی کی متعدد توسیعات ہوئیں۔ ترکوں نے مسجد نبوی کی نئے سرے سے تعمیر کی، اس میں سرخ پتھر کا استعمال کیا گیا، مضبوطی اور خوبصورتی کے اعتبار سے ترکوں کی عقیدت مندی کی ناقابل فراموش یادگار آج بھی برقرار ہے۔حج اور عمرہ کرنے والوں اور زائرین کی کثرت کی وجہ سے جب یہ توسیعات بھی ناکافی رہیں تو موجودہ سعودی حکومت نے قرب وجوار کی عمارتوں کو خریدکر اور انھیں منہدم کرکے عظیم الشان توسیع کی جو اب تک کی سب بڑی توسیع مانی جاتی ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: تین مساجد کے علاوہ کسی دوسری مسجد کا سفر اختیار نہ کیا جائے مسجد نبوی، مسجد حرام اور مسجد اقصیٰ۔ حضور اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا: میری اس مسجد میں نماز کا ثواب دیگر مساجد کے مقابلے میں ہزار گنا زیادہ ہے سوا ئے مسجد حرام کے۔ دوسری روایت میں پچاس ہزار نمازوں کے ثواب کا ذکر ہے۔جس خلوص کے ساتھ وہاں نماز پڑھی جائے گی اسی کے مطابق اجروثواب ملے گا ان شاء اللہ۔
حجرہ مبارکہ:حضور اکرم ﷺ نے اپنی زندگی کے آخری دس گیارہ سال مدینہ منورہ میں گزارے۔ ۸ ہجری میں فتح مکہ مکرمہ کے بعد بھی آپ ﷺ نے اسی مبارک شہر کو اپنا مسکن بنایا۔ آپ ﷺ کے انتقال کے بعد حضور اکرم ﷺ کی تعلیمات کے مطابق حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ میں ہی آپ ﷺ کو دفن کردیا گیا،اسی حجرہ میں آپ ﷺ کا انتقال بھی ہوا تھا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ بھی اسی حجرہ میں مدفون ہیں۔ اسی حجرہ مبارکہ کے پاس کھڑے ہوکر سلام پڑھا جاتا ہے۔ حجرہ مبارکہ کے قبلہ رخ تین جالیاں ہیں جس میں دوسری جالی میں تین سوراخ ہیں، پہلے اور بڑے گولائی والے سوراخ کے سامنے آنے کا مطلب ہے کہ حضور اکرم ﷺ کی قبر اطہر سامنے ہے۔ دوسرے سوراخ کے سامنے آنے کا مطلب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی قبر سامنے ہے اور تیسرے سوراخ کے سامنے آنے کا مطلب حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی قبر سامنے ہے۔
ریاض الجنۃ:قدیم مسجد نبوی میں منبراور روضہئ اقدس کے درمیان جو جگہ ہے وہ ریاض الجنۃ کہلاتی ہے۔ حضور اکرم ﷺ کا ارشاد ہے: مَا بَےْنَ بَےْتِی وَمِنْبَرِی رَوْضَۃٌ مِّنْ رِےَاضِ الْجَنَّۃِ منبراور روضہئ اقدس کے درمیان کی جگہ جنت کی کیاریوں میں سے ایک کیاری ہے۔ ریاض الجنۃ کی شناخت کے لئے یہاں سفید سنگ مرمر کے ستون ہیں۔ ان ستونوں کو اسطوانہ کہتے ہیں،ان ستونوں پر ان کے نام بھی لکھے ہوئے ہیں۔ریاض الجنۃ کے پورے حصہ میں جہاں سفید اور ہری قالینوں کا فرش ہے نمازیں ادا کرنا زیادہ ثواب کا باعث ہے، نیز قبولیت دعا کے لئے بھی خاص مقام ہے۔ 
اصحابِ صفہ کا چبوترہ:مسجد نبوی میں حجرہئ شریفہ کے پیچھے ایک چبوترہ بنا ہوا ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں وہ مسکین وغریب صحابہ کرام قیام فرماتے تھے جن کا نہ گھر تھا نہ در، اور جو دن ورات ذکر وتلاوت کرتے اور حضور اکرم ﷺ کی صحبت سے مستفیض ہوتے تھے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اسی درسگاہ کے ممتاز شاگردوں میں سے ہیں۔ اصحاب صفہ کی تعداد کم اور زیادہ ہوتی رہتی تھی،کبھی کبھی ان کی تعداد ۰۸ تک پہونچ جاتی تھی۔ سورۃ الکہف کی آیت نمبر (۸۲) انہیں اصحاب صفہ کے حق میں نازل ہوئی، جس میں اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم ﷺکو ان کے ساتھ بیٹھنے کاحکم دیا۔ 
جنت البقیع  (بقیع الغرقد):یہ مدینہ منورہ کا قبرستان ہے جو مسجد نبوی سے بہت تھوڑے فاصلہ پر واقع ہے، اس میں بے شمار صحابہ (تقریباً ۰۱ ہزار) اور اولیاء اللہ مدفون ہیں۔ تیسرے خلیفہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ، حضور اکرم ﷺ کی چاروں صاحبزادیاں، حضور اکرم ﷺکی ازواج مطہرات، آپ کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ بھی اسی قبرستان میں مدفون ہیں۔
جبل اُحد (اُحد کا پہاڑ):مسجد نبوی سے تقریباً ۴ یا ۵ کیلو میٹر کے فاصلہ پر یہ مقدس پہاڑ واقع ہے۔جس کے متعلق حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ھذَا جَبَلٌ ےُحِبُّنَا وَنُحِبّہُ(اُحد کا پہاڑ ہم سے محبت رکھتا ہے او رہم اُحد سے محبت رکھتے ہیں)۔اسی پہاڑ کے دامن میں  ۳ ھ ؁ میں جنگ احد ہوئی جس میں آنحضرت ﷺ سخت زخمی ہوئے اور تقریباً ۰۷ صحابہئ کرام شہید ہوئے تھے۔ یہ سب شہداء اسی جگہ مدفون ہیں جس کا احاطہ کردیا گیا ہے۔ اسی احاطہ کے بیچ میں حضور اکرم ﷺ کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ مدفون ہیں، آپ کی قبر کے برابر میں حضرت عبد اللہ بن جحش رضی اللہ عنہ اور حضرت مُصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ مدفون ہیں۔حضور اکرم ﷺ خاص اہتمام سے یہاں تشریف لاتے تھے اور شہداء کو سلام ودعا سے نوازتے تھے۔ 
مَسْجدِ قبَا:مسجد قُبا مسجد نبوی سے تقریباً چار کیلو میٹر کے فاصلہ پر ہے۔ مسلمانوں کی یہ سب سے پہلی مسجد ہے، حضور اکرم ﷺ مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو قبیلہ بن عوف کے پاس قیام فرمایا اور آپ ﷺ نے صحابہئ کرام کے ساتھ خود اپنے دست مبارک سے اس مسجد کی بنیاد رکھی۔ اس مسجد کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَمَسْجِدٌ اُسِّسَ عَلَی التَّقْوَی یعنی وہ مسجد جس کی بنیاد اخلاص وتقوی پر رکھی گئی ہے۔ مسجد حرام، مسجد نبوی اور مسجد اقصی کے بعد مسجد قبا دنیا بھر کی تمام مساجد میں  سب سے افضل ہے۔حضور اکرم ﷺ کبھی سوار ہوکر کبھی پیدل چل کر مسجد قبا تشریف لایا کرتے تھے۔ آپ ﷺ کا ارشاد ہے: جو شخص (اپنے گھر سے) نکلے اور اس مسجد یعنی مسجد قبا  میں آکر (دو رکعت) نماز پڑھے تو اسے عمرہ کے برابر ثواب ملے گا۔
مَسْجدِ جُمُعہ:  حضور اکرم ﷺ نے سب سے پہلے اسی مسجد میں جمعہ ادا فرمایا تھا، یہ مسجد قبا کے قریب ہی واقع ہے۔
مَسْجدِ فَتَح (مسجد احْزَاب): یہ مسجد جبل سلع کے غربی کنارے پر اونچائی پر واقع تھی۔ غزوہئ خندق (احزاب) میں جب تمام کفار مدینہ منورہ پر مجتمع ہوکر چڑھ آئے تھے اور خندقیں کھودی گئیں تھیں، رسول اکرم ﷺ نے اس جگہ دعا فرمائی تھی، چنانچہ آپ کی دعا قبول ہوئی اور مسلمانوں کو فتح ہوئی۔ اس مسجد کے قریب کئی چھوٹی چھوٹی مسجدیں بنی ہوئی تھیں جو مسجد  سلمان فارسی، مسجد ابو بکر، مسجد عمر اور مسجد علی کے نام سے مشہور ہیں۔ دراصل غزوہئ خندق کے موقع پر یہ ان حضرات کے پڑاؤ تھے جن کو محفوظ اور متعین کرنے کے لئے غالباً سب سے پہلے حضرت عمر بن عبد العزیز ؒ نے مساجد کی شکل دی۔ یہ مقام مساجد خمسہ کے نام سے مشہور ہے۔ اب سعودی حکومت نے اس جگہ پر ایک بڑی عالیشان مسجد (مسجد خندق) کے نام سے تعمیر کی ہے۔
مسجدِ قِبْلَتَیں: تحویل قبلہ کا حکم عصر کی نماز میں ہوا، ایک صحابی نے عصرکی نماز نبی اکرم ﷺ کے ساتھ پڑھی، پھر انصار کی جماعت پر ان کا گزر ہوا، وہ انصار صحابہ (مسجد قبلتین) میں بیت المقدس کی جانب نماز ادا کررہے تھے، ان صحابی نے انصار صحابہ کو خبر دی کہ اللہ تعالیٰ نے بیت اللہ کو دوبارہ قبلہ بنادیاہے، اس خبر کو سنتے ہی صحابہئ کرام نے نماز ہی کی حالت میں خانہ کعبہ کی طرف رخ کرلیا۔ کیونکہ اس مسجد (قبلتین) میں ایک نماز دو قبلوں کی طرف ادا کی گئی اس لئے اسے مسجد قبلتین کہتے ہیں۔ بعض روایات میں ہے کہ تحویل قبلہ کی آیت اسی مسجد میں نماز پڑھتے وقت نازل ہوئی تھی۔
مَسْجدِ ابَیْ بن کعب: یہ مسجد جنت البقیع کے متصل ہے، اس جگہ زمانہ نبوی کے مشہور قاری حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ کا مکان تھا۔ رسول اللہ ﷺ یہاں اکثر تشریف لاتے اور نماز پڑھتے تھے، نیز حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے قرآن سنتے اور سناتے تھے۔    
                             ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی  (www.najeebqasmi.com)

«
»

انسانی ترقیاتی میں اخلاق وروحانیت کا کردار

کانگریس خاتمے کے قریب مگر متبادل کیا ہے؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے