ڈاکٹر محمدنجیب قاسمی سنبھلی مدارس کے قیام کی ابتدا چوتھی صدی ہجری کے آخر سے منسوب کی جاتی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں میں دینی تعلیم کے اہتمام کا سلسلہ عہد نبوی ہی میں شروع ہوچکا تھا۔ دارارقم، درس گاہ مسجد قبا، مسجد نبوی اور اصحابِ صفہ کے چبوترہ میں تعلیم وتربیت کی […]
مدارس اسلامیہ میں بھی آن لائن کلاسیں شروع کی جائیں
ڈاکٹر محمدنجیب قاسمی سنبھلی
مدارس کے قیام کی ابتدا چوتھی صدی ہجری کے آخر سے منسوب کی جاتی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں میں دینی تعلیم کے اہتمام کا سلسلہ عہد نبوی ہی میں شروع ہوچکا تھا۔ دارارقم، درس گاہ مسجد قبا، مسجد نبوی اور اصحابِ صفہ کے چبوترہ میں تعلیم وتربیت کی مصروفیات اس کے واضح ثبوت ہیں۔ چوتھی وپانچویں صدی ہجری کی معروف دینی درس گاہوں میں مصر کا جامعہ ازہر، اصفہان کا مدرسہ ابوبکر الاصفہانی، نیشاپور کا مدرسہ ابو الاسحاق الاسفرائینی اور بغداد کا مدرسہ نظامیہ شامل ہیں۔ غرضیکہ مدارس کی تاریخ وتاسیس کی کڑی عہد رسالت سے جاکر ملتی ہے اور مدارس میں پڑھائی جانے والی کتب حدیث کی سند کا سلسلہ حضور اکرم ﷺ تک پہنچتا ہے۔ جنوبی ہند کے ساحلی علاقوں (مالابار) میں عرب تاجروں کی نوآبادیات میں مساجد کا قیام ودینی تعلیم کے اہتمام کا سلسلہ ساتویں صدی عیسوی میں شروع ہوچکا تھا، لیکن برصغیر میں مدارس کا قیام دوسری صدی ہجری یعنی آٹھویں صدی عیسوی میں ہوا۔ جہاں تک شمالی ہند میں مدارس کے داغ بیل پڑنے کا تعلق ہے تو اس کی ابتدا ترکوں کی فتوحات کے زمانہ میں ہوگئی تھی، مگر ۶۰۲۱ عیسوی میں جب دہلی میں مسلم حکومت قائم ہوئی تو دہلی کے علاوہ دوسرے شہروں وقصبوں ودیہاتوں میں کثیر تعداد میں مکاتب ومدارس قائم ہوئے۔ ۷۵۸۱ ء کے خونی انقلاب کے بعد علماء کرام نے محسوس کیا کہ اب بر صغیر میں دین اسلام کی بقا کے لیے محافظ قلعوں کی ضرورت ہے، چنانچہ1866ء کو دیوبند کی سرزمین میں دارالعلوم دیوبند اور پھر مظاہر العلوم سہارن پور کی بنیاد رکھی، اس کے بعد مدارس ومکاتب اسلامیہ کا پورے بر صغیر میں ایسا جال پھیلا دیا گیا کہ آج کوئی بستی یا دیہات ایسا نہیں ہے جہاں دینی مدارس یا مکاتب اسلامیہ موجود نہ ہوں۔ مدارس کے قیام کا بنیادی مقصد کتاب وسنت اور ان سے ماخوذ علوم وفنون کی تعلیم وتعلم، توضیح وتشریح، تعمیل واتباع، تبلیغ ودعوت کے ساتھ ایسے رجال کار پیدا کرنا ہے جو اس تسلسل کو قائم وجاری رکھ سکیں، نیز انسانوں کی دنیاوی زندگی کی رہنمائی کے ساتھ ایسی کوشش کرنا ہے کہ ہر ہر انسان جہنم سے بچ کر جنت میں جانے والا بن جائے۔ علماء کرام نے مساجد ومدارس ومکاتب کے ذریعہ بچہ کی ولادت کے وقت کان میں اذان دینے سے لے کر نماز جنازہ پڑھانے تک امت مسلمہ کی دینی وتعلیمی وسماجی رہنمائی کے لئے ایسی خدمات پیش کی ہیں کہ ایک مسلمان بھی ایسا نہیں مل سکتا جو ان خدمات سے مستفیض نہ ہوا ہو۔ کورونا وبائی مرض کے پھیلاؤ کے باعث دنیامیں جگہ جگہ خاص طور پر ہمارے ملک میں دو ماہ سے زیادہ عرصہ سے لاک ڈاؤن جاری ہے، جس کی وجہ سے تعلیمی سرگرمیاں بہت زیادہ متاثر ہوئی ہیں۔ یونیورسٹیوں، کالجوں اور اسکولوں میں زیر تعلیم طلبہ وطالبات اپنے گھر بیٹھنے پر مجبور ہیں۔ آن لائن کلاسوں سے کسی حد تک ان کے تعلیمی نقصانات کی تلافی کی جارہی ہے، لیکن تجربات سے معلوم ہوا کہ آن لائن کلاسیں پروفیشنل کورسوں کے لئے تو مفید ہیں، مگر اسکولوں کے چھوٹے چھوٹے بچے ان آن لائن کلاسوں سے بہت زیادہ فائدہ نہیں اٹھا پاتے ہیں۔ لیکن Something is better than nothing کو سامنے رکھ کر تعلیمی سلسلہ کو بند کرنے کے مقابلہ میں آن لائن کلاسوں کو جاری رکھنا ضروری ہے کیونکہ ان کے ذریعہ بچے کم از کچھ نہ کچھ پڑھ لیتے ہیں۔ تعلیمی سلسلہ منقطع ہونے پر ان کی موجودہ صلاحتیں بھی ختم ہوجائیں گی۔ نیز لاک ڈاؤن میں اس کے علاوہ کوئی دوسرا حل بھی نہیں ہے۔ غرضیکہ یونیورسٹیوں، کالجوں اور اسکولوں میں آن لائن کلاسوں کے ذریعہ سال کو زیرو ہونے سے بچانے کی کوشش جاری ہے، مگر مدارس اسلامیہ میں آن لائن کلاسوں کا نہ تو ابھی تک کوئی انتظام کیا گیا ہے اور نہ ہی مدارس کے ذمہ داروں واساتذہ نے اس طرف توجہ دی ہے۔ لاک ڈاؤن میں مدارس کے اساتذہ کی تنخواہ جاری رکھنے کے متعلق سوشل میڈیا پر برابر پیغامات پڑھنے کو ملتے رہے۔ یہ قابل تحسین قدم ہے ورنہ مدارس کے اساتذہ کو کافی دشواری کا سامنا کرنا پڑتا کیونکہ ان کی تنخواہیں اتنی کم ہوتی ہیں کہ کفایت شعاری سے ہی پورے مہینے کے اخراجات بمشکل پورے ہوپاتے ہیں۔ مگر طلبہ کے تعلیمی نقصان کی تلافی کیسے کی جائے؟ اس موضوع پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ دنیا کے طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ قدیم زمانہ سے اس بیماری کے ہونے کے باوجود اس بیماری کا اب تک کوئی علاج دستیاب نہیں ہے اور اس بیماری سے بچنے کے لئے کسی دوا یا ویکسین کی ایجاد کے لئے کافی وقت درکار ہے۔ اور یہ مرض ایک دو بار لوٹ کر بھی آسکتا ہے۔ ہندوستان کے سب سے بڑے ہسپتال (AIIMS) کے ڈائرکٹر نے ایک انٹرویو کے دوران کہا تھا کہ ہندوستان میں اصل مرض جون اور جولائی میں پھیلے گا۔ اس وجہ سے یہ بھی امکان ہے کہ یہ پورا سال ہی مرض کے چپیٹ میں آجائے۔ یقینا ہمارا یہ ایمان وعقیدہ ہے کہ یہ وبائی مرض اللہ کی مرضی کے بغیر دنیا سے ختم نہیں ہوسکتا ہے۔ ہم گھبرائے نہیں اور نہ ہی نا امید ہوں، اس سے زیادہ خطرناک وبائی مرض اس دنیا میں پھیلے ہیں، آخر کار ایک دن اس سے بھی نجات ملی، ان شاء اللہ یہ وبائی مرض بھی ایک دن ختم ہوجائے گا۔ مگر دنیا کے دار الاسباب ہونے کی وجہ سے ہمیں زمینی حقائق پر بھی غور وخوض کرنا چاہئے۔ اس لئے میں ہندوستان کے تمام بڑے بڑے اداروں اور مدرسوں کی مجلس شوری اور ذمہ داروں سے درخواست کرتا ہوں کہ نئی ٹکنالوجی کا استعمال کرکے یونیورسٹیوں، کالجوں اور اسکولوں کی طرح بلکہ ان سے بھی زیادہ منظم طریقہ سے مدارس اسلامیہ میں آن لائن کلاسوں کو شروع کیا جائے۔ یقینا کچھ دشواریاں آسکتی ہیں مگر مسلمان دشواریوں سے گھبراتا نہیں ہے بلکہ وہ انہیں میں آسانیوں کو تلاش کرلیتا ہے۔ برصغیر کے مدارس میں ماہ شوال کی ابتدا میں نئے بچوں کے داخلے اور اس کے فوراً بعد تعلیمی سال شروع ہوجاتا ہے۔ اب اگر وقت کی قلت کی وجہ سے نئے طلبہ کے داخلہ امتحان کا انتظام کرنا آسان نہیں ہے تو کم از کم فوری طور پر اساتذہئ کرام کو نئی ٹکنالوجی کی تربیت دے کر قدیم طلبہ کی آن لائن کلاسوں کو شروع کیا جائے۔ یہ وقت کی عین ضرورت ہے۔ آن لائن کلاسوں کے لئے انٹرنیٹ پر دستیاب مفت پروگراموں کا بھی سہارا لیا جاسکتا ہے، مگر سیکیورٹی کے لئے آن لائن کلاسوں کے لئے بعض پروگراموں کو خرید بھی سکتے ہیں۔ اگر فی الحال باقاعدہ آن لائن کلاسوں کو شروع کرنا مشکل ہے تو کم از کم ہر کلاس کا واٹس اپ گروپ بنایا جائے اور روزانہ ویڈیو بناکر واٹس اپ گروپ پر اپلوڈ کردی جائے تاکہ طلبہ اپنے اپنے مقام پر اپنی سہولت کے اعتبار سے اس سے فائدہ حاصل کریں۔ الحمد للہ تمام درسی کتابیں مختلف ویب سائٹوں پر مفت ڈاؤن لوڈ کرنے کے لئے دستیاب بھی ہیں۔ مزید مدارس کی ویب سائٹ پر ان درسی کتابوں کو اپلوڈ بھی کردیا جائے تاکہ طلبہ گھر پر رہ کر ہی استفادہ کرسکیں۔ جو علماء حضرات اپنی ویڈیو نہیں بنانا چاہتے ہیں تو وہ کیمرے کا رخ کتاب کی طرف کرکے پڑھائیں، اس طرح طلبہ استاذ محترم کی آواز سے کتاب کے سبق کو آسانی سے سمجھ سکتے ہیں۔ میں نے بھی شہر سنبھل میں واقع اپنے اسکول ”النور پبلک اسکول“ میں اسی طرح آن لائن کلاسوں کا سلسلہ شروع کررکھا ہے۔ الحمد للہ بچوں کی اکثریت ان آن لائن کلاسوں سے استفادہ کررہی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ آن لائن کلاسیں حقیقی درسگاہوں کا بدیل نہیں ہوسکتی ہیں کیونکہ اس میں بچوں کی تربیت نہیں ہوپاتی ہے اور طلبہ واساتذہ کا خاص تعلق قائم نہیں ہوتا ہے، مگر اس وقت ہمارے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ اس لئے میں علماء کرام سے درخواست کرتا ہوں کہ جس طرح چند سالوں سے علماء کرام نے وعظ ونصیحت کے لئے سوشل میڈیا کا سہارا لینا شروع کردیا ہے، اسی طرح لاک ڈاؤن جیسے حالات میں آن لائن کلاسوں کوشروع کیا جائے تاکہ طلبہ کسی حد تک کتابوں سے منسلک رہیں۔ جس طرح تقریباً تیس سال میں تعلیمی وسائل میں بڑی تبدیلی رونما ہوئی ہے کہ تختی، بانس کے قلم (ٹاٹل) اور دوات کی جگہ اب کاپی اور بال پین نے لے لی ہے۔اسی طرح قوی امید ہے کہ اگلے تیس سال میں وزنی بیگوں اور کتابوں کے بجائے لیپ ٹاپ، ٹیب، موبائل، انٹرنیٹ اور موڈرن کلاس روم کا رواج عام ہوجائے گا۔
مضمون نگارکی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
31 مئی 2020 (ادارہ فکروخبر بھٹکل)
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں