مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ
آج جبکہ پوری دنیا میں تعلیم نے صنعت و تجارت کی حیثیت حاصل کرلی ہے، مدارس اسلامیہ متوسط اور غریب خاندانوں کی تعلیم کا واحد ذریعہ ہیں،یہاں لیا نہیں؛بلکہ سب کچھ دیا جاتا ہے، تعلیم بھی، تربیت بھی، کتابیں بھی، خوراک بھی، رہائش بھی، کپڑے بھی، سب کچھ مفت۔ مدرسوں میں کوئی مستقل آمدنی کا ذریعہ نہیں ہوتا، یہاں کا بجٹ آمدنی کے بعد نہیں بنتا؛ بلکہ اللہ کے فضل اور اہل خیر کے ذریعہ دی جانے والی رقم کی موہوم امید اور توقعات پر بنا کرتا ہے، یہاں کے اساتذہ معمولی تنخواہوں پر کام کرتے ہیں اور صرف یہی وہ لوگ ہیں جو اپنی صلاحیتیں فروخت نہیں کرتے،دنیاوی اجرت کا تصور نہیں رکھتے ؛ بلکہ اجر خداوندی کی امید پر کام کرتے ہیں،ان کی امیدیں اللہ سے لگی ہوتی ہیں، ان کے مقاصد جلیل اور آرزوئیں قلیل ہوتی ہیں، رمضان المبارک اور دوسرے موقع سے یہ اہل خیر سے رابطہ کرتے ہیں، چھوٹی بڑی رقمیں وصول کرلاتے ہیں،جس سے مدارس اسلامیہ کا یہ سارا نظام چلا کرتا ہے، امیر شریعت سادس حضرت مولانا سید نظام الدین صاحب ؒ فرمایاکرتے تھے کہ اپنے تعلیمی نظام کو خیرات زکوٰۃ پر منحصر نہیں کرنا چاہئیے، اپنی اصل آمدنی میں سے بھی کچھ اس کام کے لئے نکالنا چاہیے؛لیکن واقعہ یہی ہے کہ عطیات کی مختصر رقم کو چھوڑ کر اب تک مدارس اسلامیہ کا ساراتعلیمی نظام مسلمانوں کے خیرات زکوٰۃ پر ہی منحصر ہے۔
امسال کورونا وائرس کے دوسرے دور کی دہشت،متوقع لاک ڈاؤن کی وحشت، آمدورفت کے وسائل کے ممکنہ طور پر مسدوداور گھر وں سے نکلنے پر خطرات کی وجہ سے مدارس اسلامیہ کے ذمہ داروں اور محصلین کا رابطہ اہل خیر حضرات سے نہیں ہوپا رہا ہے،مدارس اسلامیہ کے ذمہ داران نے آن لائن رقومات بھیجنے کی اپیل کی ہے، اخبارات میں اشتہارات دئیے ہیں؛ لیکن کتنے لوگ اس اپیل کا نوٹس لیتے ہیں، ہر آدمی جانتا اور سمجھتا ہے،جو لوگ اپنے سارے کام’’کیش لیس سسٹم‘‘ سے کیا کرتے ہیں،ان کے لئے تو یہ دشوار بھی نہیں ہے،پے ٹی ام، اور کریڈٹ کارڈ سے بجلی بل اور دوسرے سرکاری ٹیکس ادا کئے جاتے رہے ہیں؛لیکن اللہ کی مقرر کردہ زکوٰۃ کے بارے میں لوگوں کی حساسیت کم ہوا کرتی ہے،بڑے اداروں کی طرف کچھ توجہ ہوبھی جاتی ہے؛لیکن گاؤں اوردیہات میں واقع چھوٹے چھوٹے مدارس کی طرف توجہ بالکل نہیں ہوتی، جس کی وجہ سے اساتذہ کی کئی کئی ماہ کی تنخواہیں باقی ہیں اور وصولی صفر ہے،ایسے میں یہ ادارے انتہائی پریشان کن دور سے گذر رہے ہیں،چھوٹے مدارس کی اہمیت کم نہیں ہے، یہ مسلم سماج میں اسلامی تعلیم و تربیت اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کے فروغ کے لئے ’’لائف لائن‘‘ کی حیثیت رکھتے ہیں، مسلم سماج کے جسم و جان میں اسلامی حمیت و غیرت اور دینی تعلیم و تربیت کا جو خون گردش کرتا ہے،وہ سب انہیں مدارس اسلامیہ کی دین ہے، بنیادی دینی تعلیم جس کا حصول ہر مسلمان پر فرض ہے، اس کی تکمیل ان اداروں کے ذریعہ ہی ہوتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ہر دور میں اکابر علماء نے اس کی ضرورت و اہمیت بیان کرکے لوگوں کی توجہ اس طرف مبذول کر ائی ہے۔ حکیم الامت حضرت مولانااشرف علی تھانوی ؒ فرماتے ہیں:اس میں ذرا شبہ نہیں کہ اس وقت مدارس علوم دینیہ کا وجود مسلمانوں کے لئے ایسی بڑی نعمت ہے کہ اس سے فوق(بڑھ کر)متصور نہیں، دنیا میں اگر اسلام کے بقاء کی کوئی صورت ہے تو یہ مدارس ہیں‘‘(حقوق العلم: ۱۵) حضرت مولانا مناظر احسن گیلانیؒ کی رائے ہے کہ ’’یہی کہفی مدارس تھے،جنہوں نے مسلمانوں کے ایک طبقہ کو خواہ ان کی تعداد جتنی بھی کم ہے، اعتقادی اور اخلاقی گندگیوں سے پاک رکھنے کی کامیاب کوشش کی ہے،‘‘ (الفرقان،افادات گیلانی)
علامہ سید سلیمان ندویؒ فرماتے ہیں: ’’یہ مدارس جہاں بھی ہوں جیسے بھی ہوں،ان کا سنبھالنا اور چلانا مسلمانوں کا سب سے بڑا فریضہ ہے اگر ان عربی مدرسوں کا کوئی فائدہ نہیں تو یہی کیا کم ہے کہ یہ غریب طبقوں میں مفت تعلیم کا ذریعہ ہیں اور ان سے فائدہ اٹھا کر ہمارا غریب طبقہ کچھ اور اونچا ہوتا اور اس کی اگلی نسل کچھ اور اونچی ہوتی ہے اور یہی سلسلہ جاری رہتا ہے، غور کی نظر اس نکتہ کو پوری طرح کھول دے گی‘‘
حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی ؒ نے فرمایا: ’’مدرسہ سب سے بڑی کار گاہ ہے، جہاں آدم گری اور مردم سازی کا کام ہوتا ہے، جہاں دین کے داعی اور اسلام کے سپاہی تیار ہوتے ہیں،مدرسہ عالم اسلام کا وہ بجلی گھر(پاورہاؤس)ہے جہاں سے اسلامی آبادی؛بلکہ انسانی آبادی میں بجلی تقسیم ہوتی ہے، مدرسہ وہ کارخانہ ہے، جہاں قلب و نگاہ اور ذہن و دماغ ڈھلتے ہیں،مدرسہ وہ مقام ہے جہاں سے پوری کائنات کا احتساب ہوتا ہے اور پوری انسانی زندگی کی نگرانی کی جاتی ہے ‘‘(پاجا سراغ زندگی: ۰۹)
ساتویں امیر شریعت مفکر اسلام مولانا محمد ولی رحمانی ؒ کا ارشاد ہے:’’مدرسہ آپ کے دین و ایمان کی جگہ ہے،یہ آپ کی دنیا و آخرت ہے، مدارس اسلامیہ کو تقویت پہونچائی جائے،دین اسلام کی بقاء انہیں مدارس اسلامیہ کے استحکام سے ہے، علماء اور مدرسوں پر غلط تبصرہ کرنے سے گریز کریں،(مدرسہ رحمانیہ سپول کے اجلاس سے خطاب) آپ نے مدارس اسلامیہ کے سلسلے میں اکابر کے ارشادات و افادات کا مطالعہ کرلیا ایسے میں ہماری ذمہ داری ہے کہ ان اداروں کی فکر کریں اور موجودہ پریشان کن حالات سے نکالنے میں ان کی مدد کریں۔
اہل خیر حضرات کو عطیات کی رقم سے اپنے اپنے علاقوں میں علماء، ائمہ مساجد،مؤذنین اور مدارس کے اساتذہ کے لئے بھی دست تعاون دراز کرنا چاہیے، ان کی عزت نفس کو ٹھیس نہ پہونچے، اس کے لئے یہ بھی کرسکتے ہیں کہ یہ رقومات مدارس اورمساجد کے ذمہ داروں کو بمد تنخواہ دے دی جائیں،اور ذمہ داران، اساتذہ، ائمہ اور مؤذنین کی تنخواہیں ادا کریں، اس طرح ان کا بھی کام چل جائے گا اور ادارے اساتذہ کے مقروض نہیں رہیں گے۔
اس موقع سے یہ بدگمانی بالکل نہ پھیلائی جائے کہ مہتمم صاحبان رکھ لیں گے،سوشل میڈیا پر اس قسم کے بیانات لوگ دیتے رہتے ہیں، یقینا کچھ مہتمم اور متولی صاحبان ایسا کرتے ہوں گے؛لیکن عمومی احوال ایسے نہیں ہیں، ہماری کمزوری یہ ہے کہ ہم اکادکا واقعات کو کلیہ بنا کر پیش کرتے ہیں،علمی اصطلاح میں کہیں تو کہا جاسکتا ہے کہ قیاس استثنایئ کو قیاس استقرائی کا درجہ دینا ہماری فطرت بن گئی ہے، یہ ٹھیک ہے کہ پوری دیگ کے چاول کے پکنے کا اندازہ دوچار دانوں کو مسل کر لگایا جاسکتا ہے ؛لیکن روٹی میں یہ فارمولہ نہیں چلے گا،تمام روٹی کے کچی اور پکی ہونے کی بات ایک روٹی کو دیکھ کر نہیں کہی جاسکتی۔
دوسرا بڑا مسئلہ دارالاقامہ میں مقیم طلبہ کے نان و نفقہ اور کھانے پینے کا ہے، امراء اور صاحب استطاعت لوگوں کی خیرات زکوٰ ۃ کی رقم سے یہ اخراجات پورے کئے جاتے رہے ہیں؛لیکن اس بارکورونا کی وحشت کی وجہ سے یہ کام نہیں ہو رہا ہے اہل خیر حضرات مدارس کی ضرورتوں کو سمجھیں ہمارا احساس ہے کہ یہ امت ابھی بانجھ نہیں ہوئی ہے،اس لئے بدگمانی چھوڑیئے،مدارس کو ان پریشان کن حالات؛ بلکہ’’عالم نزع‘‘ سے نکالنے کے لئے آگے آیئے، اس لئے کہ اگر یہ مدارس نہیں رہے تو کیا ہوگا،وہ علامہ اقبال سے سنئے، فرماتے ہیں:
’’اگر ہندوستان کے مسلمان ان مکتبوں کے اثر سے محروم ہوگئے تو بالکل اسی طرح جس طرح ہسپانیہ میں مسلمانوں کی آٹھ سو برس کی حکومت کے باوجود آج غرناطہ اور قرطبہ کے کھنڈرات اور الحمراء اور باب الاخوتین کے سوا اسلام کے پیروؤں اور اسلامی تہذیب کے آثار کا کوئی نقش ہی نہیں ملتا، ہندوستان میں بھی آگرہ کے تاج محل اور دلی کے لال قلعہ کے سوا مسلمانوں کی آٹھ سو برس کی حکومت اور ان کی تہذیب کا کوئی نشان نہیں ملے گا‘‘ (اوراق گم گشتہ از رحیم بخش شاہین)
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
جواب دیں