مدارس کے طلبہ آن لائن کلاسوں سے محروم کیوں؟
ڈاکٹر محمدنجیب قاسمی سنبھلی
مرکزی حکومت کی جانب سے اَن لاک ۴ کے لئے ہدایات جاری کردی گئی ہیں،جس کے مطابق ملک کے تمام تعلیمی ادارے ۰۳ ستمبر تک بند ہی رہیں گے۔ صرف آن لائن کلاسوں کا سلسلہ جاری رہے گا۔ اکتوبر میں بھی کھل سکیں گے یا نہیں اس کا فیصلہ ستمبر کے آخر میں کیا جائے گا۔ کورونا وبائی مرض کے پھیلاؤ کے باعث دنیا میں جگہ جگہ خاص طور پر ہمارے ملک میں مارچ ۰۲۰۲ سے لاک ڈاؤن (یا اَن لاک) جاری ہے، جس کی وجہ سے تعلیمی سرگرمیاں بہت زیادہ متاثر ہوئی ہیں۔ یونیورسٹیوں، کالجوں اور اسکولوں میں زیر تعلیم طلبہ وطالبات اپنے گھر بیٹھنے پر مجبور ہیں۔ آن لائن کلاسوں سے کسی حد تک ان کے تعلیمی نقصانات کی تلافی کی جارہی ہے، لیکن تجربات سے معلوم ہوا کہ آن لائن کلاسیں پروفیشنل کورسوں کے لئے تو مفید ہیں، مگر اسکولوں کے چھوٹے چھوٹے بچے ان آن لائن کلاسوں سے بہت زیادہ فائدہ نہیں اٹھا پاتے ہیں۔ لیکن ”کچھ حاصل کرنا بالکل ہی کچھ حاصل نہ کرنے سے بہتر ہے“ کو سامنے رکھ کر تعلیمی سلسلہ کو بند کرنے کے مقابلہ میں آن لائن کلاسوں کو جاری رکھنا ضروری ہے کیونکہ ان کے ذریعہ بچے کچھ نہ کچھ پڑھ لیتے ہیں اور ان کا تعلیمی سال ضائع ہونے سے بچ جائے گا۔ تعلیمی سلسلہ منقطع ہونے پر ان کی موجودہ صلاحتیں بھی ختم ہوجائیں گی۔ نیز موجودہ صورت حال میں اس کے علاوہ کوئی دوسرا حل بھی نہیں ہے۔ غرضیکہ یونیورسٹیوں، کالجوں اور اسکولوں میں آن لائن کلاسوں کے ذریعہ سال کو زیرو ہونے سے بچانے کی کوشش جاری ہے، مگر مدارس اسلامیہ میں آن لائن کلاسوں کا نہ تو ابھی تک کوئی انتظام کیا گیا ہے اور نہ ہی مدارس کے ذمہ داروں واساتذہ نے اس طرف توجہ دی ہے، حالانکہ مدارس اسلامیہ کے ذمہ داروں کو حالات کے پیش نظر نئی ٹکنالوجی سے فائدہ اٹھاکر اس میدان میں بھی گھوڑے دوڑانے چاہئے تھے۔
لاک ڈاؤن کے ابتدائی مرحلہ میں ہی صورتِ حال کا اندازہ لگاکر میں نے مدارس اسلامیہ کے ذمہ داروں سے آن لائن کلاسوں کو شروع کرنے کی درخواست کی تھی تاکہ بچے تعلیم سے جڑے رہیں۔ مگر دیر سے ہی صحیح مگر ندوۃ العلماء لکھنؤ اور بعض دیگر مدارس اسلامیہ میں آن لائن کلاسوں کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔دارالعلوم دیوبند (وقف) میں بھی آن لائن کلاسوں کے انعقاد کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔ دیگر مدارس کے ذمہ داروں کو بھی اس طرف خاص توجہ کی ضرورت ہے تاکہ بچوں کا تعلیمی سال خراب نہ ہو۔
مدارس کے ذمہ داروں کی طرف سے عموماً کہا گیا کہ اکثر بچوں کے پاس سمارٹ فون دستیاب نہیں ہے، حالانکہ دنیا کی آبادی سے زیادہ اس وقت موبائل نمبر استعمال میں ہیں کیونکہ اس وقت دنیا میں ۸ ارب سے زیادہ موبائل نمبر رجسٹر ہیں جبکہ دنیا کی آبادی ابھی ۸ ارب سے کم ہے۔ غرضیکہ آبادی اور موبائل کے تناسب سے معلوم ہوتا ہے کہ بچہ کی پیدائش سے قبل ہی اس کا نمبر صادر ہوجاتاہے۔ دنیا میں اس وقت تقریباً ۴ ارب سمارٹ فون ہیں جو پوری دنیا کی آبادی کا ۰۵ فیصد سے زائد ہے۔ ۰۳۱ کروڑ آبادی والے ملک ”ہندوستان“ میں تقریباً ۰۶ کروڑ اسمارٹ فون ہیں۔ غرضیکہ بہت کم گھرانے ایسے ہیں جن میں ایک بھی سمارٹ فون موجود نہ ہو۔ روز بروز سمارٹ فون کا استعمال بڑھ رہا ہے اور بظاہر بڑھتا ہی رہے گی۔ مزید معلومات کے لئے گوگل (Google) کا سہارا لیا جاسکتا ہے۔ لہٰذا یہ کہنا کہ اکثر طلبہ کے پاس اسمارٹ فون کی سہولیات موجود نہیں ہے، زمینی حقائق سے انکار ہے۔ اور اگر یہ تسلیم کر بھی لیا جائے تو کم از کم جن بچوں کے پاس سہولیات موجود ہیں اُن کو کیوں محروم رکھا جائے۔ دوسری بات کہی جاتی ہے کہ سمارٹ فون سے معاشرہ میں بگاڑ پھیلتا ہے، مگر سوال یہ ہے کہ مدارس میں آن لائن کلاسوں کو شروع نہ کرنے سے کیا سمارٹ فون کے غلط استعمال کو روکا جاسکتا ہے؟ تجریہ یہ ہے کہ اب ہم نئی نسل کو سمارٹ فون کے استعمال سے نہیں روک سکتے ہیں، ضرورت ہے کہ ان کو آن لائن کلاسوں میں مصروف کرکے موبائل کے غلط استعمالوں سے روکا جائے۔
دنیا کے طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ قدیم زمانہ سے اس بیماری کے ہونے کے باوجود اس بیماری کا اب تک کوئی علاج دستیاب نہیں ہے اور اس بیماری سے بچنے کے لئے کسی دوا یا ویکسین کی ایجاد کے لئے کافی وقت درکار ہے۔ اور یہ مرض ایک دو بار لوٹ کر بھی آسکتا ہے۔ اس وجہ سے یہ بھی امکان ہے کہ یہ پورا سال ہی مرض کے چپیٹ میں آجائے۔ یقینا ہمارا یہ ایمان وعقیدہ ہے کہ یہ وبائی مرض اللہ کی مرضی کے بغیر دنیا سے ختم نہیں ہوسکتا ہے۔ ہم گھبرائے نہیں اور نہ ہی نا امید ہوں، اس سے زیادہ خطرناک وبائی مرض اس دنیا میں پھیلے ہیں، آخر کار ایک دن اس سے بھی نجات ملی، ان شاء اللہ یہ وبائی مرض بھی ایک دن ختم ہوجائے گا۔ مگر دنیا کے دار الاسباب ہونے کی وجہ سے ہمیں زمینی حقائق پر بھی غور وخوض کرنا چاہئے۔ اس لئے میں ہندوستان کے تمام بڑے بڑے اداروں اور مدرسوں کے ذمہ داروں سے درخواست کرتا ہوں کہ نئی ٹکنالوجی کا استعمال کرکے یونیورسٹیوں، کالجوں اور اسکولوں کی طرح بلکہ ان سے بھی زیادہ منظم طریقہ سے مدارس اسلامیہ میں آن لائن کلاسوں کو شروع کیا جائے۔ یقینا کچھ دشواریاں آسکتی ہیں مگر مسلمان دشواریوں سے گھبراتا نہیں ہے بلکہ وہ انہیں میں آسانیوں کو تلاش کرلیتا ہے۔ برصغیر کے مدارس میں ماہ شوال کی ابتدا میں نئے بچوں کے داخلے اور اس کے فوراً بعد تعلیمی سال شروع ہوجاتا ہے۔ اب اگر وقت کی قلت کی وجہ سے نئے طلبہ کے داخلہ امتحان کا انتظام کرنا آسان نہیں ہے تو کم از کم فوری طور پر اساتذہئ کرام کو نئی ٹکنالوجی کی تربیت دے کر قدیم طلبہ کی آن لائن کلاسوں کو شروع کیا جائے۔ یہ وقت کی عین ضرورت ہے۔ آن لائن کلاسوں کے لئے انٹرنیٹ پر دستیاب مفت پروگراموں کا بھی سہارا لیا جاسکتا ہے، مگر سیکیورٹی کے لئے آن لائن کلاسوں کے لئے بعض پروگراموں کو خرید بھی سکتے ہیں، جس کا ایک اہم فائدہ یہ ہے کہ کلاسیں Advertisements یعنی اشتہارات سے دور رہیں گی۔ اگر فی الحال باقاعدہ آن لائن کلاسوں کو شروع کرنا مشکل ہے تو کم از کم ہر کلاس کا واٹس اپ گروپ بنایا جائے اور روزانہ ویڈیو بناکر واٹس اپ گروپ پر اپلوڈ کردی جائے تاکہ طلبہ اپنے اپنے مقام پر اپنی سہولت کے اعتبار سے اس سے فائدہ حاصل کریں۔ الحمد للہ تمام درسی کتابیں مختلف ویب سائٹوں پر مفت ڈاؤن لوڈ کرنے کے لئے دستیاب بھی ہیں۔ مزید مدارس کی ویب سائٹ پر ان درسی کتابوں کو اپلوڈ بھی کردیا جائے تاکہ طلبہ گھر پر رہ کر ہی استفادہ کرسکیں۔ جو علماء حضرات اپنی ویڈیو نہیں بنانا چاہتے ہیں تو وہ کیمرے کا رخ کتاب کی طرف کرکے پڑھائیں، اس طرح طلبہ استاذ محترم کی آواز سے کتاب کے سبق کو آسانی سے سمجھ سکتے ہیں۔ میں نے بھی شہر سنبھل میں واقع اپنے اسکول ”النور پبلک اسکول“ میں اسی طرح آن لائن کلاسوں کا سلسلہ شروع کررکھا ہے۔ الحمد للہ بچوں کی اکثریت ان آن لائن کلاسوں سے استفادہ کررہی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ آن لائن کلاسیں حقیقی درسگاہوں کا بدیل نہیں ہوسکتی ہیں کیونکہ اس میں بچوں کی تربیت نہیں ہوپاتی ہے اور طلبہ واساتذہ کا خاص تعلق قائم نہیں ہوتا ہے، مگر اس وقت ہمارے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ اس لئے میں علماء کرام سے درخواست کرتا ہوں کہ جس طرح چند سالوں سے علماء کرام نے وعظ ونصیحت کے لئے سوشل میڈیا کا سہارا لینا شروع کردیا ہے، اسی طرح لاک ڈاؤن جیسے حالات میں آن لائن کلاسوں کوشروع کیا جائے تاکہ طلبہ کسی حد تک کتابوں سے منسلک رہیں۔ جس طرح تقریباً تیس سال میں تعلیمی وسائل میں بڑی تبدیلی رونما ہوئی ہے کہ تختی، بانس کے قلم (ٹاٹل) اور دوات کی جگہ اب کاپی اور بال پین نے لے لی ہے۔اسی طرح قوی امید ہے کہ اگلے تیس سال میں وزنی بیگوں اور کتابوں کے بجائے لیپ ٹاپ، ٹیب، موبائل، انٹرنیٹ اور موڈرن کلاس روم کا رواج عام ہوجائے گا۔
جواب دیں