مدارس اسلامیہ کے لیے لمحہ فکریہ اور اس کی سب سے بڑی ضرورت

 

از: محمد الیاس بھٹکلی ندوی

 

گذشتہ دوتین ماہ کے دوران ملک کے متعدد صوبوں میں جانے اور مختلف دعوتی پروگراموں میں شرکت کا موقع ملا، ان اسفار میں کئی ایسے واقعات پیش آئے جس سے ایک مدرسہ کے طالب علم اور خادم ہونے کی حیثیت سے دل بیٹھ گیا۔ ایک سیمنار میں شرکت کے دوران قریب کے ایک بڑے مدرسہ میں جاناہوا، وقت کم تھا، مدرسہ کے تفصیلی معائنہ کی گنجائش نہیں تھی، اس لیے ہم نے معذرت کردی، لیکن بعض بڑے اساتذہ کا اصرار تھا کہ ہم کم از کم ان کے ایک اہم شعبہ کو ضرور دیکھیں، یہ کہہ کر وہ ہمیں کمپیوٹر کے شعبہ میں لے گئے ، وہ اس شعبہ کا اس طرح تعارف کرا رہے تھے جیسے وہ اس مدرسہ کا سب سے بڑا اور اہم شعبہ ہو، وہ فخریہ انداز میں کہہ رہے تھے کہ ہمارے اس کورس کو حکومت بھی تسلیم کرتی ہے اور اس پر سرکاری ملازمت بھی ملتی ہے، ان اللہ کے بندوں کو ہمیں نہ شعبہ حفظ یا دارالحدیث یا دار الافتاء لے جانے کی ضرورت محسوس ہوئی، نہ کسی دعوتی شعبہ کی زیارت کرانے کی، نہ کتب خانہ دکھانے کی ،جب کہ دکھانے والے بھی مدرسہ کے اساتذہ تھے اور دیکھنے والے بھی۔

ایک مدرسہ کے ناظم نے اسی سفر میں بتایا کہ ہمارے مدرسہ میں طلباء کے لیے کراٹے کھیل کا نظم ہے اور اس میں مہارت حاصل کرکے فارغ ہونے والے ہمارے ایک طالب علم کو جزوقتی ملازمت مل گئ ہے اور ان کی تنخواہ پچیس ہزار روپئے ہے، وہ اس کو اس طرح فخریہ انداز سے سنارہے تھے کہ معلوم ہوتا تھا کہ عالمی سطح پر ان کے طالب علم کو قرآن مجید یا حدیث شریف کی کسی تحقیقی خدمت پر بڑا دینی وعلمی اعزاز مل گیا ہے۔

مدارس کے کچھ فارغین سے ایک بڑے شہر میں ایک سیمنار کے دوران ملاقات ہوئی جوایک یونیورسٹی میں بی ،اے میں زیر تعلیم تھے ،ہم نے ان سے پوچھا کہ اپنے مدارس سے فراغت کے بعد بھی یہاں آپ لوگوں نے داخلے کی ضرورت کیوں محسوس کی؟ اور وہ بھی عربی کے لیے، کہنے لگے ہمارے مدارس کی سند کا اس وقت سرکاری نوکریوں اور پرائیویٹ کمپنیوں میں کوئی اعتبار ہی نہیں، یہاں سے جب ہم فارغ ہوں گے تو ہماری ملازمتوں کا آغاز ہی دس بارہ ہزار روپے سے کم میں نہیں ہوگا ، بات اس حد تک ہوتی تو مجھے حیرت نہیں ہوتی لیکن اس دوران مین نے ان میں سے اکثر طلباء کو جس ناگفتہ بہ شکل وصورت اور ظاہری حالت میں دیکھا اس سے سرشرم سے جھک گیا ، اکثرفارغین کے چہرے صاف تھے ، داڑھی کا نام و نشان تک نہیں تھا ، ان شرٹ اور ٹی شرٹ کے ساتھ ٹخنوں سے نیچے ان کے پینٹ تھے ،ٹوپی کا تو خیر کوئی سوال ہی نہیں تھا، پندرہ سال تک مسلسل مدرسہ میں قیام کے بعد یونیورسٹی میں داخل ہوتے ہی ایک ماہ میں ان کی تربیت و تعلیم پر پانی پھر گیا تھا، مزید وہ فخریہ کہہ رہے تھے کہ ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمیں اس یونیورسٹی میں داخلہ مل گیا ورنہ دو تہائی سے زیادہ فارغین ہر سال اس یونیورسٹی کے اس شعبہ میں داخلہ سے محروم ہوتے ہیں ۔ ان تینوں واقعات کے مرکزی کردار پر نظر دوڑائیے ،پہلے میں اساتذہ مدارس دوسرے میں ذمہ دار انِ مدارس اور تیسرے میں طلباء مدارس، ان سب کی حالتوں اورگفتگو کا تجزیہ کیجیے تو صرف دولفظوں میں اس کو یوں ادا کیا جاسکتا ہے ’’مرعوبیت ‘‘ اور خود اپنی تعلیم پر عدم اعتماد ، دوسرے الفاظ میں خود اعتمادی کا فقدان۔

آج ہمارے مدارس کے خلاف ہونے والی عالمی سازشوں کا ہر جگہ چرچہ ہے کہ یہ دینی مدارس کے خلاف عالمی منصوبہ بندی ہے ، حکومت کے مدرسہ بورڈ کے خلاف ہم چوکنا ہیں کہ اس سے مدارس کا وجود خطرے میں ہے ،مدارس میں عصری علوم کی شمولیت کی تحریک پر ہم چیں بجبیں ہو جاتے ہیں کہ یہ ہمارے مدارس کی روح کے خلاف ہے، ہمارے یہ خدشات اور ہمارے یہ اندیشے بر حق ہیں ، لیکن اگر دوسری طرف نگاہِ بصیرت سے ان کی ان منصوبہ بندیوں کا جائزہ لیا جائے تو ان سب کے پس پردہ ان سازشوں کامشترک محرک یہی ہے کہ ان سب ہمارے بد خواہوں کو نظر آرہا ہے کہ عالمی سطح پر پیداہونے والی اسلامی بیداری کے پیچھے ان ہی مدارس کا اہم رول ہے ،اسی لیے ان کو اسلام کے حوالہ سے ہمارے ان مدارس سے خوف ہے اور وہ اس کوکسی طرح ختم کرنا چاہتے ہیں لیکن ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ ان اسلام دشمن طاقتوں کو ڈر اور خوف ہمارے مدارس کی پرشکوہ عمارتوں اور اس کے عظیم الشان کتب خانوں اور اس میں ہونے والے سیمنارو ں اور وہاں بڑھتی ہوئی طلباء کی تعداد اور عوامی رجحان سے نہیں بلکہ ان کوخوف وخطرہ اور دشمنی وعداوت اس اسلامی روح اور دینی اسپرٹ سے ہے جو ان مدارس کی امتیازی شان اور اس کا طرہ امتیاز ہے۔ ماضی میں بارہا ایسا ہوا کہ اسلام دشمن طاقتوں نے مسلمانوں کو ختم کرنے کے لیے ناکام کوششیں کیں، لیکن جب انھیں احساس ہوا کہ مسلمانوں کو کسی بھی حال میں ختم نہیں کیاجاسکتا تو پھر یہ منصوبہ بنایا گیا کہ ان کو بظاہر مسلمان رکھتے ہوئے ان کے اندر سے اسلام کی روح کو ختم کر دیا جائے ، اس طرح کہ غیر شعوری طور پر وہ اسلام سے نکل جائیں اور فکری و تہذیبی ارتداد میں مبتلا ہوکر اسلام پر سے ان کا اعتماد ختم ہوجائے ، اس میں وہ آج ہمیں کامیاب نظر آ رہے ہیں ،اس طور پر کہ وہ عالمی سطح پر اسلام سے دور فکری ارتداد میں مبتلا ایک بڑی مسلم نسل کو تیار کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں جو بظاہر مسلمان ہے لیکن عملاً اسلام سے نکل چکی ہے ، اب وہ یہی تجربہ مدارس اسلامیہ کے سلسلہ میں کرنا چاہتے ہیں ، جب انھیں احساس ہو گیا ہے کہ ان دینی مدارس کا وجود کسی بھی حال میں ختم نہیں ہوسکتا تو یہ منصوبہ بنایا گیا ہے کہ پچھلے کامیاب تجربہ کی روشنی میں ان مدارس کو اسی حال میں رہنے دیا جائے البتہ اس کی روح کو ختم کر دیا جائے ،جس کے نتیجہ میں وہاں سے فارغ ہونے والے علماء کے اندر احساس کمتری پیدا کی جائے اور دینی تعلیم کے سلسلہ میں خود اعتمادی کی دولت سے ان کو غیر محسوس طریقہ سے محروم کر دیا جائے ، بظاہر ان مذکورہ واقعات کی روشنی میں ہمیں محسوس ہو رہا ہے کہ اسلام دشمن طاقتیں ہمارے ان مدارس کے سلسلے میں اپنے منصوبوں میں بتدریج ہی سہی کامیاب ہو رہی ہیں، جس کا احساس ہمیں گذشتہ چند سالوں سے مجموعی طور پر ہمارے مدارس سے فارغ ہونے والے اکثر طلباء کے رویوں ، گفتگواور ان کے طرز زندگی سے ہو رہا ہے، ورنہ کیا وجہ ہے ہمارے ذمہ داران مدارس کو اپنے مدارس کی سند کو سرکاری سندوں کے مساوی قرار دینے، اپنے یہاں اوپن یونیورسٹیوں اور اردو ، عربی سرکاری کونسلوں کے سینٹر اور فارغین کے لیے انگریزی میں مہارت پیدا کرنے کے لیے کوچنگ کلاسس کھولنے کی فکرتو ہے، لیکن ہمارے ان فارغین میں خود ان کی دینی تعلیم پر ان کے اعتماد کو بحال کرنے، اخلاقی اعتبار سے ان کو علماء ربانیین کی سی زندگی گذارنے کی ترغیب دلانے اور دعوتی اعتبار سے ان کو تیار کرنے کے لیے کسی شعبہ کے قیام کے متعلق کوئی خبر سننے میں نہیں آرہی ہے ؟ ہمیں تدریس کے لیے اچھے محدثین اور مفسرین کے فقدان کا شکوہ تو ہے لیکن فراغت کے بعد اس سلسلہ میں ان کی خصوصی تربیت کے لیے کسی مدرسہ کی طرف سے اس سلسلہ میں کسی نئی پیش رفت کی اطلاع نہیں مل رہی ہیں؟ جب ہمارے علماء و فارغین کو خود اپنی دینی تعلیم پر اعتماد نہیں ہوگا تو اگلی زندگی میں ان سے کسی بڑے کارنامے کی امید کیوں کی جاسکتی ہے؟ کچھ مدارس سے انگلیوں پر گنے جا سکنے والے علمی و دعوتی اعتبارسے ممتاز کچھ اچھے فضلاء کی مثال دے کر ہمارے اس تجزیہ کو جھٹلایا نہیں جا سکتا ، اس لیے کہ مدارس سے فارغ ہونے والے سو طلبہ میں سے ایک دو اچھے طلبہ نکلتے ہیں تو اس کو اس مدرسہ کی خصوصیت نہیں کہا جا سکتا بلکہ وہ استثنائی صورت ہے ، اگر یہ مدرسہ کی تعلیم و تربیت کا اثر ہوتا تو آدھے سے زیادہ طلباء کا اس طرح ممتاز ہو کر نکلنا ضروری تھا،یہ وہ طلبہ تھے جو کسی بھی مدرسہ میں ہوتے تو اسی امتیازی شان سے فارغ ہوتے ، لیکن ہمارا حال یہ ہے اتفاقی طور پر دو چار اچھے نکلنے والے اپنے فضلاء کے کارناموں سے ہماری رپوٹیں بھری رہتی ہیں ، اس طرح کی تشہیر سے مدارس کی افادیت کے سلسلہ میں ہم اپنے مخالفین کا منھ تو بند کر سکتے ہیں ،لیکن اللہ کے دربار میں اپنی جواب دہی سے بچ نہیں سکتے ۔ یہ تجزیہ ہندوستان کے عمومی مدارس کے متعلق ہے ، بعض مدارس کا اس میں یقیناًاستثناء کیا جاسکتا ہے بالخصوص قدیم اور بڑے مدارس کا ، لیکن مجموعی صورت حال اطمینان بخش نہیں ہے ،اس پورے پس منظر میں ہمارے مدارس کی سب سے بڑی ضرورت یہی ہے کہ دینی تعلیم کے سلسلہ میں ہم اپنے طلباء و فارغین میں خود اعتمادی کو بحال کرنے پر اولین فرصت میں توجہ دیں ، ان میں اس وقت احساس کمتری کو ختم کرنے کے لیے ان کی اس طرح تربیت کریں کہ ان کے قدم دنیاوی زندگی میں ڈگمگا نہ سکیں اور باد صرصرکی مخالف ہوائیں ان کے قبلہ کی سمت میں رخنہ نہ ڈال سکیں ، ان کی اخلاقی و دینی تربیت اور تزکیہ نفس کے لیے فراغت کے بعد ایک سالہ اور دو سالہ ایسے کورس ترتیب دیے جائیں جس طرح ہم افتاء ، ادب اور عصری علوم کے لیے ترتیب دیے گئے ہیں ، اگر اس پر فی الفور توجہ نہ دی گئی تو خطرہ ہے کہ چند ہی سالوں میں ہمارے مدارس تو اپنی جگہ باقی رہیں گے لیکن وہ اسلامی روح اور دینی جذبہ سے خالی ہو جائیں گے، نام تو مدارس کا ہوگا، تعلیم بھی عربی کی ہوگی اور اس کو چلانے والے بھی علماء ہوں گے، لیکن وہ نتیجتاً و عملاً دنیاوی میدان میں اپنے فارغین کو روزگار فراہم کرنے کے مراکز ہوں گے۔

رکھیو غالب مجھے اس تلخ نوائی میں معاف

آج کچھ درد میرے دل میں سوا ہوتا ہے

«
»

مدارس اسلامیہ……غورو فکر کے چند گوشے

آہ!ملت نے ایک عظیم "رہبر”” کھودیا”

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے