مدارس کے تعلق سے مہاراشٹر حکومت آئینِ ہند کے خلاف صف آرا

تاریخ اس مر کی بھی شاہدہے کہ مدارس نے ہمیشہ ہر برے وقت میں ملک کی حمایت میں آگے بڑھ کر حب الوطنی کی مثال قائم کی ہے۔اس کے علاوہ مدارس روزِ اول سے ہی ہندوستان کی سب سے بڑی اقلیت مسلمانوں کے محروم طبقات کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے میں اہم رول ادا کر رہے ہیں۔ 
مدارس ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کے علمبردار ہیں اور ہمیشہ سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی، حب الوطنی اور بھائی چارے کی سب سے بہتر مثال ثابت ہوئے ہیں۔شاید یہی وجہ ہے کہ موجودہ مرکزی حکومت نے مدارس کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اپنے سالانہ بجٹ میں مدارس کی جدید کاری کے لئے خصوصی گرانٹ کا نظم کیا ہے اوروزیرِ اعظم نریندر مودی بھی ملک کی اقلیتوں کے کاروبار،روزگار، صنعتوں اور تعلیم کے ساتھ مدارس کے فروغ میں بھی دلچسپی لے رہے ہیں۔
وزیرِ اعظم مودی چاہتے ہیں کہ مدارس میں جدید مضامین کی تعلیم کو لازمی قرار دیا جائے تاکہ ا قلیتی فرقے کے بچوں کو وقت کے تقاضوں اور بازار کے مطالبات کے مطابق سیکھ کر ملک کے خصوصی دھارے میں شامل ہونے کے مواقع ملیں اور وہ اچھی ملازمتوں میں جائیں تاکہ ان کا مستقبل تابناک ہو۔
ظاہر ہے کہ یہ وزیرِ اعظم کی ایک نیک خواہش ہے جس کو غیر جانبدارانہ طور پر دیکھا جانا چاہئے۔ مدارس کے نصاب میں جدید علوم کی شمولیت کا اس لئے بھی خیر مقدم کیا جانا چاہئے کہ اس کے بعد مدارس کے طلبأ و طالبات کے لئے لامحدود مواقع مہیا ہوسکیں گے جس کو حکمراں جماعت کا ہی ایک طبقہ اچھی نظر سے نہیں دیکھتا۔
دوسری جانب مدارس نے بھی اس پر سنجیدگی کے ساتھ غور کیا ہے اورمتعدد مدارس کے نصاب میں جدید علوم کو شامل بھی کیا گیا ہے اور مزید میں اس کی شمولیت پر غور بھی کیا جا رہا ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز ہر گزیہ نہیں ہے کہ مرکزی حکومت یا کوئی صوبائی حکومت مدارس پر اپنی مرضی تھوپنے اور مدارس کی آزادی پر قد غن لگانے کی کوشش کرے جیسا کہ مہاراشٹر حکومت نے اپنے ایک فیصلے کے مطابق ایسے مدارس جن میں جدید مضامین نہیں پڑھائے جاتے،کی تسلیم شدہ حیثیت ختم کئے جانے کا اعلان کیا ہے جو سیدھے سیدھے ملکی مفاد کے برخلاف ہے ۔
مہاراشٹر حکومت کو چاہئے کہ وہ اپنے اس فیصلے پر از سرِ نوغور کرکے اس کو فوری طور پر واپس لے تاکہ ملک میں امن و آشتی کا ماحول قائم رہے، اقلیتوں کا مرکزی حکومت پر دھیرے دھیرے جو اعتماد بحال ہو رہا ہے اسے زک نہ پہنچے اور آئینِ ہند کی دفعہ30کی خلاف ورزی نہ ہوسکے۔
ہندوستان کا آئین ملک کے تمام طبقات، فرقوں اور مذاہب کے ماننے والے افراد کو اپنی مرضی کے تعلیمی ادارے کھولنے اور انہیں چلانے کے بنیادی حق اور بھر پور آزادی کی ضمانت دیتا ہے۔ اس کے علاوہ سپریم کورٹ آف انڈیا کا کہنا ہے کہ اداروں میں مدارس سے لے کر اسکول تک آتے ہیں۔
مدرسہ عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی اسکول کے ہیں اور کسی بھی حکومت کے حکم سے مدرسے کا مطلب قطعاً نہیں بدلا جا سکتا۔آئینِ ہند کی دفعہ30کی روشنی میں مہاراشٹر حکومت کا یہ فیصلہ کہ جن مدارس میں انگریزی، ریاضی اور سائنس کی تعلیم نہیں دی جاتی ان کی تسلیم شدہ حیثیت ردّ کی جائے گی غیر آئینی ہے اور کسی بھی فرد یا حکومت کا کوئی ایسا فیصلہ جو ملک کے مقدس آئین کو پامال کرتا ہو یا اس کی خلاف ورزی کرتا ہو ملک سے غداری کے ضمن میں آتا ہے۔
ہمیں اس بات سے کوئی انکار نہیں کہ ہندوستانی مسلمانوں کو مذہبی تعلیم کے ساتھ ساتھ پیشہ ورانہ اور جدید تعلیم کی سخت ضرورت ہے اس لئے خود مدارس کو بھی آگے بڑھ کر اپنے نصاب میں تبدیلی کرنی چاہئے۔ مدارس مسلم تہذیب و ثقافت کا ایک اہم حصہ ہیں لیکن برق رفتاری سے فروغ پارہے ملک میں ایک باعزت زندگی بسر کرنے کے لئے جدید مضامین کا علم ضروری ہے تاکہ بہتر روزگار کے مواقع دستیاب ہوسکیں اس لئے مدارس کی جدید کاری وقت کا اہم تقاضہ ہے جس سمت مدارس گامزن بھی ہیں اور وہ دن دور نہیں جب ملک کے ہر مدرسے کے نصاب میں جدید علوم شامل ہوجائیں گے۔ ایسے میں مہاراشٹر حکومت نے اچانک مدارس کے تعلق سے ایسا حکم نامہ جاری کرکے مسلم فرقہ پرست عناصر کو ہتھیار فراہم کرادیا ہے۔ 
ہندوستانی مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ کے علمبردار سرسید نے کہا تھا کہ ’’ میری خواہش ہے کہ مدرسۃ العلوم کے طلبأ کے ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے میں سائنس ہو ‘‘ اور یہی بات وزیرِ اعظم نریندر مودی نے بھی کہی ہے کہ ایک ہاتھ میں قرآن اوردوسرے میں کمپیوٹر ہونا چاہئے۔
ان دونوں عظیم لوگوں کے اقوال کی روشنی میں اگر مہاراشٹر حکومت کے حالیہ فیصلہ کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ مہاراشٹر حکومت سرسید کو تو نظر انداز کر ہی رہی ہے ساتھ ہی ملک کے وزیرِ اعظم اور آئینِ ہندکے بھی خلاف صف آرا ہے اور نہیں چاہتی کہ وزیرِ اعظم کی ملک کے تمام طبقات کو ساتھ لے کرچلنے کی پالیسی کامیاب ہو۔
اگر مدارس کو ہی ا سکول کے ز مرے سے خارج کردیا جائے گا تو مرکزی حکومت کی سبھی بچوں کو خواندہ بنانے کی پالیسی پر منفی اثر پڑے گا۔ مدارس کے بچوں کو ملک کے خصوصی تعلیمی دھارے میں شامل کیا جانا بہت ضروری ہے جس کے لئے حکومت مہاراشٹر کو اپنے فیصلے پر از سرِ نو غور کرنا چاہئے اور مدارس کی جدید کاری کے لئے بجٹ میں خصوصی نظم کرنا چاہئے۔ صرف فرقہ پرستی اور شرپسندی پر مبنی فیصلے کرنے سے نہ تو ملک کا بھلا ہوگا ،نہ کسی ریاست کا اور نہ ملک کی اقلیتوں کا۔ اور جب ان میں سے کسی کا بھلا نہیں ہوگا تو یہ طے بات ہے کہ ملک کی 
ترقی کی رفتار بھی دھیمی ہوجائے گی اور ہم دوسروں سے ہفتوں اور مہینوں نہیں بلکہ برسوں یا خدا نہ کرے صدیوں پیچھے رہ جائیں گے جس کی ذمہ دار ہماری فرقہ پرست ذہنیت ہوگی اور کوئی نہیں۔
ملک کے وزیرِ اعظم نریندر مودی خود مدارس کی جدید کاری کے لئے مصروفِ عمل ہیں لہٰذا مہاراشٹر حکومت ان کی پہل پر منفی اثرات مرتب نہ کرے اور اپنی آنکھوں سے فرقہ پرستی اور شر پسندی کی عینک اتار کر ایسی عینک لگائے جس سے صرف اور صرف ملک کی ترقی،خوش حالی اور کامرانی کے سوا کچھ نظر نہ آئے اور ہندو

«
»

ہائے اللہ ! یہ میں کیا دیکھ رہی ہوں ؟؟

شب قدر ۔ایک رات جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے