مدارس اسلامیہ نشانے پر یا مسلم بچوں کیلئے سنجیدہ فکرمندی؟

مدارس نے ہرنازک موڑپرملک وقوم کی بے لوث خدمت کی ہے اورملک کے سرمایہ افتخارمیں اضافہ کیاہے۔ہندوستان کو اولمپک میں پہلی بارگولڈ میڈل دلانے والے سردارملکھا سنگھ ،یاپھرماہراقتصادیات سابق وزیراعظم ڈاکٹرمنموہن سنگھ یا پھرمعروف صحافی کلدیپ نیر ؛یہ سب مدارس کے ہی پروردہ ہیں ؛ ان کی بنیادی تعلیم مدارس میں ہوئی ہے۔
مہاراشٹرحکومت نے ان مدارس کوتعلیمی ادارہ تسلیم کرنے سے انکارکردیاہیجہاں جدیدتعلیم کا اہتمام نہیں ہے۔ وزیراعلیٰ دیوندر فرنویس حکومت نے ایک فیصلہ میں مہاراشٹربھرکے ان مدارس کے وجودپرہی سوالیہ نشان لگادیاہے جن میں انگریزی ،ریاضی اورکمپیوٹرسمیت دیگرعصری تعلیم نہیں دی جاتی ہے۔ مہاراشٹر حکومت نیکہا ہے کہ جن مدارس میں انگلش، ریاضی اور سائنس کی پڑھائی نہیں ہوتی ہے ان کا شمار اسکول میں نہیں ہو گا یہی نہیں ان مدرسوں میں جو بچے پڑھ رہے ہیں ان کے اسکول کی تعلیم کوبھی تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ مہاراشٹرکیمحکمہ اقلیتی فلاح کیوزیر اییناتھ کھڑسے کاکہناہے کہ مدرسے بچوں کو مذہبی تعلیم دے رہے ہیں۔ یہاں بچوں کو عصری تعلیم نہیں مل رہی ہے۔ ہمارا آئین کہتا ہے کہ سب کو رسمی تعلیم لینے کا حق ہے اورمدرسوں میں ایسی تعلیم نہیں دی جا رہی ہے۔انہوں نے کہاکہ اگر ایک ہندو یا عیسائی بچہ مدرسے میں پڑھنا چاہتا ہے تو اسے وہاں پڑھنے کی اجازت نہیں ملے گی کیوں کہ مدرسہ اسکول نہیں ہے بلکہ مذہبی تعلیمی مرکز ہیاس لئے ان مدرسوں کاشمار اب غیر اسکول کیزمرے میں ہوگا۔ مسٹر?ھڑسے نے اس کے ساتھ ہی کہا کہ اقلیتی امور کے پرنسپل سریٹر جیشرمکھرجی نے اسکول ایجوکیشن اینڈ ا سپورٹس ڈپارٹ منٹ کے پرنسپل س?ریٹر? نند?مار کو اس سلسلے میں ایک خط لکھا ہے۔ ?ھڑسے نے کہا کہ اسکول ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ نے۴ جولائی کو ایک سروے کرانے کا منصوبہ بنایاہے تاکہ یہ پتہ لگایا جائیکہ کن بچوں کو رسمی تعلیم نہیں مل رہی ہے۔ ?ھڑسے کایہ بھی کہناہے کہ جو بچیمدرسے میں پڑھ رہے ہیں انہیں رسمی تعلیم نہیں مل رہی ہے۔ میرا ایک ہی مقصد ہے کہ اقلیتی برادری کے تمام بچوں کو مرکزی دھارے میں شامل کیاجائے کیونکہ روزگار کے لئے ایسی تعلیم انتہائی ضروری ہے۔ ریاست میں کل۰۹۸۱? مدرسے رجسٹرڈ ہیں۔ ان میں سے۵۵۰ مدرسے ریاضی، سائنس اور انگلش پڑھانے پر راضی ہو گئے ہیں۔ ?ھڑسے نے کہا کہ ہم لوگوں نے بنیادی تعلیم کے لئے مدارس میں اساتذہ مہیا کرانے اور انہیں تنخواہ ادا کرنے کی بھی تجویز پیش کی ہے۔
پہلی نظرمیں مہاراشٹراقلیتی امورکے وزیرکی باتوں سے ایسا لگ رہاہیکہ وہ واقعی مسلم بچوں کی تعلیم کے تئیں بہت سنجیدہ ہیں اسی لئیانہیں مرکزی اسٹریم سے جوڑنے کیلئے عصری تعلیم سے آراساتہ کرنے کی عملی وکالت کررہے ہیں لہٰذان کی نیت پر ہرگزنہیں شک کیاجاناچاہئے۔خیال رہے کہ اس سے قبل وزیراعظم نریندرمودی نے بھی اپنی انتخابی مہم کے دوران مدارس اسلامیہ میں زیرتعلیم بچوں کے روشن مستقبل کیلئے اپنی فکرمندی کا اظہارکرتیہوئے کہاتھاکہ ’میں چاہتاہوں کہ مدارس میں پڑھنے والے بچوں کے ایک ہاتھ میں قرا?ن ہو اوردوسری ہاتھ میں سائنس‘۔اگروزیراعظم کے بیان اورپھرمہاراشٹرحکومت کے فیصلہ کا جائزہ لیاجائے تویہ سچائی سامنے ا?ئے گی کہ مہاراشٹرحکومت کا فیصلہ وزیراعظم کے اعلان کوزمینی سطح پر اتارنے کی عملی کوشش ہے لیکن سوال یہ ہے کہ حکومت کی فکرمندی صرف مدارس میں پڑھ رہے بچوں کیلئے ہی کیوں؟مسلمانوں کی تعلیم کے لئے سرکارکو صرف مدارس ہی کیوں دکھائی دے رہے ہیں ؟جب کہ مدارس میں پڑھنے والوں بچوں کی تعدادمحض چار فیصد ہے ،باقی۶۹?فیصد بچے یا تو اسکولوں میں پڑھتے ہیں یا پڑھتے ہی نہیں۔اگرحکومت کومسلمانوں کی علمی پسماندہ گی اورمسلم بچوں کے تعلیمی مستقبل کی فکراتنی ہی بے چین کررہی ہے تو وہ پھر۴فیصدبچوں کی تعلیم پرپورازورصرف کرنے کے بجائے۶۹? فیصدبچوں کی تعلیم پراپنی توجہ مرکوزکیوں نہیں کرتی ؟انہیں زیورتعلیم سے کیوں کرآراستہ کیاجائے اس کیلئیٹھوس منصوبے کیوں نہیں تیارکئے جارہے ہیں۔
سچی بات تویہ ہیکہ مسلم اداروں کے تئیں حکومت کی نیت میں ہی کھوٹ ہے، ابتداسے مدارس اسلامیہ آرایس ایس اوراس کی ہمنوا تنظیموں کی ا?نکھوں میں کانٹے کی طرح چبھتے رہیہیں۔اگرحکومت کے ارادے نیک ہوتے تو مسلم اکثریتی آبادیوں میں معیاری اسکول بناتی جومسلم اسکول یا تعلیمی ادارے چل رہے ہیں ان کی ترقی کیلئیبھرپور مدد کرتی ، ان میں نئے نئے کورسز کی منظوری کو ا?سان بناتی مگر جب نیت ہی خراب ہوتوپھراس طرح کے معیاری سوالات بے معنی ہوجاتیہیں۔ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے اوریہاں مختلف مذاہب کے پیروکاررہتے ہیں ،متنوع تہذیب وثقافت کی رنگینی ہی ا س کے وقارکوچارچاندلگاتی ہے اس لئے آئین ہندمیں تمام مذاہب کے ماننے والوں کو اس کی اجازت دی گئی ہے وہ اپنے مذہب کی تعلیم وتبلیغ کیلئے ادارے بنائیں ،کمیٹی تشکیل کریں اوراپنی مذہبی تہذیب وشناخت کیلئیلائحہ عمل تیارکریں۔اس کے باوجوداگرمدارس اسلامیہ کو تعلیمی ادارہ ماننے سے انکارکیاجاتا ہے تو کیا اسے ا?ئین ہندکی خلاف ورزی نہیں کہی جائے گی؟
قطع نظراس سے کہ مدارس اسلامیہ کے نصاب میں عصری علوم کو کس حدتک جگہ دی جاسکتی ہے ہمیں پہلے اس بات پر غورکرنا ہوگاکہ مدارس میں مسلمانوں کے صرف ۴ فیصدہی بچے پڑھتے ہیں ،ان ۴فیصدبچوں کی مالی واقتصادی پوزیشن پر نظری ڈالی جائے تو حقیقت سامنے آئے گی کہ ان میں زیادہ تر کی معاشی حالت اس لائق نہیں کہ وہ معیاری اسکول وکالج میں پڑھ سکیں۔مدارس اسلامیہ میں پڑھنے والے بچوں کی تعلیمی کفالت کے ساتھ ان کے قیام وطعام کی بھی ذمہ داری ارباب مدارس اٹھاتیہیں یعنی مدارس ایک طرح کا یتیم خانہ ہے جہاں سماج کے کمزوروناداربچوں کی پرورش وپرداخت کی جاتی ہے۔ایسے میں توحکومت کوارباب مدارس کاشکرگزارہونا چاہئے تھاکہ وہ اپنی حیثیت کے مطابق کم ازکم ۴فیصدبچوں کوتعلیم سے آشنا توکررہاہے؟ لیکن حکومت کو یہ سب کچھ نظرنہیں آرہاہے اورآبھی نہیں سکتا،وجہ ارباب حل وعقدپر ظاہرہے۔
ایساپہلی بارنہیں ہواہے کہ جب مدارس اسلامیہ کوکٹہرے میں لانے کی کوشش کی گئی ہے بلکہ اس سے قبل بھی کبھی اس کے قدیم نصاب تعلیم کوفرسودہ قراردے کر اس میں ترمیم کرنے کے مطالبہ کے ساتھ اسے بے روزگارافرادکوپیداکرنے والی فیکٹری قراردیاگیا ہے تو کبھی رائٹ ٹوایجوکیشن کے بہانے مدارس کے روح کو گھائل کرنے کی سازش رچی گئی اورکبھی مدارس کا رشتہ دہشت گردی سے جوڑکراس کے وجود کوملک کی سلامتی کیلئے خطرہ قراردینے کی پرزورمہم چلائی گئی لیکن ہربار یہ سازشیں ناکام رہی ہیں کیوں کہ مدارس اسلامیہ میں نہ صرف شخص اورشخصیت کی کردارسازی کی جاتی ہے بلکہ وہاں کی خاک سے انسانیت کی تعمیرکی جاتی ہے
یہ مدرسہ ہے میکدہ نہیں ساقی 
یہاں کی خاک سے انسا ں بنائے جاتے ہیں
اس سے قبل آرایس ایس کے سابق سربراہ کے سدرشن نے تو ’مدارس اسلامیہ بے نقاب ‘ نامی کتاب لکھوا کرمنہ بھرگالیاں دی تھیں۔ مدارس اسلامیہ کے اساتذہ اورطلباکی کردارکشی کا کوئی شمہ نہیں چھوڑاتھا۔(یو این این)
حکومت کو یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ ہندوستان کے گلے سے غلامی کا پٹہ نکالنے کیلئے مدارس اسلامیہ نے تاریخی کرداراداکئے ہیں جبکہ یہ تاریخی طورپرثابت ہوچکاہیکہ ا?رایس ایس اوردیگرہندتواتنظیموں اوران کے پاٹھ شالاؤں کاا?زادی کی جنگ میں کوئی حصہ نہیں رہاہے۔دہلی سے لے کر لاہورتک سڑک کے دونوں کنارے ہزاروں درختوں پر ا?زادی کے جن متوالوں کی لاشیں لٹکی رہی تھیں وہ مدارس اسلامیہ کے ہی سپوت تھے۔مدارس نے ہرنازک موڑپرملک وقوم کی بے لوث خدمت کی ہے اورملک کے سرمایہ افتخارمیں اضافہ کیاہے۔ہندوستان کو اولمپک میں پہلی بارگولڈ میڈل دلانے والے سردارملکھا سنگھ ،یاپھرماہراقتصادیات سابق وزیراعظم ڈاکٹرمنموہن سنگھ یا پھرمعروف صحافی کلدیپ نیر ؛یہ سب مدارس کے ہی پروردہ ہیں ؛ ان کی بنیادی تعلیم مدارس میں ہوئی ہے۔

«
»

جہیز کے خلاف ذہنی بیداری مہم نہایت ضروری

معتبرصحافی عارف عزیز سے ’’اُردوہلچل ‘‘ کے لئے جاوید یزدانی کی بات چیت

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے