افتخار گیلانی ہندوستان میں 1998کے عام انتخابات کے موقع پر جب بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی) کی قیادت میں قومی جمہوری اتحاد کا انتخابی منشور تیار ہو رہا تھا، تو اس کی ابتدائی ڈرافٹنگ کا کام ماہر اقتصادیات موہن گوروسوامی کو دیا گیا تھا۔ منشور کی ڈرافٹنگ کمیٹی میں اٹل بہاری واجپائی، لال کرشن […]
ہندوستان میں 1998کے عام انتخابات کے موقع پر جب بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی) کی قیادت میں قومی جمہوری اتحاد کا انتخابی منشور تیار ہو رہا تھا، تو اس کی ابتدائی ڈرافٹنگ کا کام ماہر اقتصادیات موہن گوروسوامی کو دیا گیا تھا۔ منشور کی ڈرافٹنگ کمیٹی میں اٹل بہاری واجپائی، لال کرشن اڈوانی، جارج فرنانڈیز، موجودہ نائب صدر وینکیا نائیڈو، پرمود مہاجن، شرد یادو اور چند دیگر لیڈران شامل تھے۔
گوروسوامی کی طرف رخ کرکے واجپائی نے زور دیا کہ ملک کو جوہری طاقت بنانا اور تبدیلی مذہب کو روکنے کے سلسلے میں قانون سازی کرنے کے وعدے منشور میں شامل ہونے چاہیے۔ جوہری دھماکہ کرنے کے معاملے پر کمیٹی میں کچھ زیادہ بحث نہیں ہوئی، بس یہ اتفاق ہوا کہ اس کو مبہم انداز میں لکھا جائےگا۔
تبدیلی مذہب کو لےکر میٹنگ کے شرکاتذبذب میں تھے۔ کیونکہ تبدیلی مذہب پر پابندی لگانا، ہندوستانی آئین کے بنیادی ڈھانچہ اور اس کی روح یعنی مذہبی شخصی آزادی کے منافی تھا۔ جو لوگ غلط فہمی کا شکار ہوکر واجپائی کو سیکولر اور رواداری کا منبع سمجھتے ہیں، ان کو جان لینا چاہیے کہ آنجہانی وزیر اعظم دھوتی کے نیچے راشٹریہ سیوم سیوک سنگھ یعنی آر ایس ایس کی نیکر پہنتے تھے۔ واجپائی کا اصرار تھا کہ اگر تبدیلی مذہب پر مکمل طور پرپابندی عائد نہیں کی جاتی ہے، پھر بھی اس کو ڈسٹرکٹ کلکٹر یا مجسٹریٹ کی اجازت کے ساتھ نتھی کردینا چاہیے۔
گورو سوامی نے پاس میں بیٹھے لال کرشن اڈوانی کو کان میں بتایا کہ یہ وعدہ اس وقت تنازعہ کا باعث ہوگا، جب بی جے پی اقتدار کے بالکل قریب ہے۔ اڈوانی، جنہوں نے بابری مسجد کو مسمار کرنے کے لیے رتھ یاترا کی قیادت کرکے، بی جے پی کو اقتدار کی دہلیز تک پہنچایا تھا، اب اپنی امیج کو درست کروانے میں لگے ہوئے تھے۔
اپنی انتہاپسند امیج کی وجہ سے اتحادیوں کے لیے وہ وزارت اعظمیٰ کے امیدوار کی حیثیت سے منظور نہیں تھے، جس کی وجہ سے پارٹی کو واجپائی کو آگے کرنا پڑا۔ گوروسوامی کے بقول 1998میں اڈوانی ہندو قوم پرستی کا جامہ اتار کر اپنے آپ کو سماجی اور اقتصادی قدامت پسند لیڈر کے بطور متعارف کروانا چاہتے تھے۔
مجھے یاد ہے کہ جس دن یہ منشور جاری ہو رہا تھا، دہلی کے ہماچل پردیش بھون میں تقریب کے بعد لنچ کا اہتمام تھا۔ میں جس کھانے کی میز پر بیٹھا، اس پر اڈوانی، معروف صحافی راج دیپ سر ڈیسائی اور چند دیگر صحافی بھی برا جمان تھے۔ چونکہ تب تک بی جے پی کے لیڈران کو حکومت کی ہوا نہیں لگی تھی، اس لیے ان تک رسائی آسان تھی۔ ڈیسائی نے کسی غیر ملکی مصنف کا حوالہ دےکر بتایا کہ دنیا بی جے پی کے اقتدار میں آنے سے خائف ہے، تو اڈوانی نے سوال کیا کہ جرمنی میں کرسچن ڈیموکرٹیک پارٹی، امریکہ میں ری پبلکن اور برطانیہ میں ٹوری پارٹی کام کر رہی ہے تو بطور کنزویٹو پارٹی کے بی جے پی سے خائف ہونے کی کیا ضرورت ہے؟
خیر میٹنگ میں جب گوروسوامی نے آئین کے بنیادی ڈھانچہ کا حوالہ دےکر تبدیلی مذہب کے خلاف قانون بنانے کے وعدے کو منشور میں شامل کرنے سے انکار کردیا، تو واجپائی نے غصے سے لال پیلا ہوکر کہا کہ ہاروڑ اور آکسفورڈ کے فارغ التحصیل افراد تبدیلی مذہب کی شدت اور ہندو سماج کے تحفظ کے معاملات کو نہیں سمجھ سکتے ہیں۔
اڈوانی نے مداخلت کرکے واجپائی کے غصہ کو ٹھنڈا کرکے کہا کہ اقتدار میں آنے کے بعد اس پر سوچا جاسکتا ہے۔ وزیر اعظم بننے کے بعد واجپائی نے ایک عوامی جلسے میں اس ایشو کو اٹھایا اور کہا کہ اس پر کھل کر بحث ہونی چاہیے۔ ان کی اس تقریر کے فوراً بعد مشرقی صوبہ اڑیسہ میں ایک آسٹریلین پادری گراہم اسٹین اور اس کے دو بچوں کو زندہ جلادیا گیا۔
اس واقعہ میں ملوث ایک ملزم پرتاپ سارنگی فی الوقت مرکزی حکومت میں وزیر ہیں۔ گوروسوامی تب تک حکومت کے اقتصادی مشیر مقرر ہو چکے تھے۔ واجپائی کی تقریر اور پادری کی ہلاکت کے سانحہ کے بعد انہوں نے انڈین ایکسپریس میں ایک مضمون لکھ کر وزیرا عظم کا نام لئے بغیر تبدیلی مذہب کی مخالفت کرنے والوں کی خوب خبر لی۔ چند روز بعد ہی واجپائی کی ایما پر ان کی حکومت سے چھٹی کر دی گئی۔
اس واقعہ کے تذکرہ کرنے کا مقصد یہ تھا کہ تبدیلی مذہب کو سخت بنانے کے ساتھ ساتھ اب ہندو قوم پرست بی جے پی کی قیادت والے صوبہ یکے بعد دیگر ے بین مذہبی شادیوں کو روکنے کےلیےقانون سازی کر رہے ہیں، خاص طور پر اگر لڑکا مسلمان اور لڑکی ہندو ہو۔ اتر پردیش کی حکومت نے گزشتہ ہفتے ہی ایک آرڈیننس منظور کیا اور پھر 48گھنٹوں کے اندر ہی اس کا اطلاق کرکے لکھنؤ میں ایک ایسی شادی کو رکوا کر ایک مسلم نوجوان کو جیل بھیج دیا۔ بین مذہبی شادیوں کو ”لو جہاد“ کا نام دےکر معطون کردیا گیا ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ مسلمان لڑکے ہندوؤں کے بھیس میں دیہاتوں اور قصبوں میں گھومتے رہتے ہیں اور ہندولڑکیوں کو محبت کے جا ل میں پھنساتے ہیں۔ شادی کے بعد جب پتہ چلتا ہے کہ لڑکا مسلمان ہے،تب تک بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے اور پھر لڑکی کا زبردستی مذہب تبدیل کیا جاتا ہے۔
ایک تنظیم کا دعویٰ ہے کہ ان کے ہاتھ توایک ریٹ لسٹ بھی لگی ہے‘ جس کے تحت ایک برہمن لڑکی کو بھگانے اورنکاح کرنے پر مسلم نوجوانوں کو سعودی عرب اور دیگر خلیجی ملکوں سے دس سے پندرہ لاکھ رروپے دلائے جاتے ہیں، جبکہ دیگر ذاتوں کی لڑکیوں کے لیے سات سے دس لاکھ اور نچلی ذات یعنی دلت لڑکیوں کے لیے یہ ریٹ پانچ لاکھ ہے۔شکر ہے کہ اس میں ابھی تک پاکستان یا اس کی کسی ایجنسی کا نام شامل نہیں ہوا۔ ان کے مطابق ایک سازش کے تحت ہندو اکثریتی آبادی کے تناسب کو بگاڑنے کی کوشش ہو رہی ہے۔
اب ان کو کون بتائے کہ اگرہندوستان میں رہنے والے تمام 172ملین مسلمان بھی صرف ہندو لڑکیوں سے ہی شادیا ں کرتے ہیں، تو بھی 966ملین ہندوؤں کو اقلیت میں تبدیل نہیں کرسکتے ہیں۔ اس نئے ‘لو جہاد’کے نعرہ کے نام پر ہندو تنظیموں نیز کئی جگہوں پر مقامی انتظامیہ نے اتر پردیش، راجستھان، کرناٹک میں مسلم نوجوانوں کی زندگیاں اجیرن کرکے رکھ دی ہیں۔
اگر ان کو دہشت گردانہ واقعات کے ساتھ جوڑنے کے لیے تار نہ مل رہے ہوں، تو لوجہاد کے نام پر یا کسی ہندو لڑکی کے ساتھ آنکھیں لڑانے کی پاداش میں ہی انہیں نشانِ عبرت بنادیا جاتا ہے۔ 2013میں دہلی سے صرف 100کلومیٹر دور مظفر نگرکے خونی فسادات اسی طرح کی افواہ سے شروع ہوئے تھے۔ ان میں تقریبا 60 افراد اپنی جانیں گنوا بیٹھے۔
مغربی اتر پردیش اور ہریانہ میں ہندو جاٹوں کا سماجی تانا بانا خاصا پیچیدہ ہے۔ ایک تو ان علاقوں میں جنسی تناسب سب سے کم ہے، دوسری طرف یہ ایک گوت اور ایک ہی گاؤں میں شادی نہیں کرتے۔ چچا زاد، ماموں زاد نیز گاؤں کی تمام لڑکیوں کو بہن کا درجہ دیا جاتا ہے، اور اس روایت کو اس حد تک سختی کے ساتھ نبھایا جاتا ہے کہ خلاف ورزی کرنے والوں کو کئی موقعوں پر گاؤں کی جاتی پنچایت یا ان کے اعزا و اقارب ہی موت کے گھاٹ اتارتے ہیں۔
ان علاقوں میں کئی موقعوں پر لڑکیاں گاؤں کے مسلم یا نچلی ذات کے ہندو دلت نوجوانوں کو دل دے بیٹھتی ہیں۔ کیوں کہ صرف یہی دو گروہ بھائیوں کے زمرہ میں نہیں آتے ہیں۔ مگر اس علاقے میں بھی ابھی تک کوئی ایسا کیس سامنے نہیں آیا ہے، جہاں کسی ہندو لڑکی نے باضابطہ کسی مسلم لڑکے کے ساتھ شادی کی ہو یا مذہب تبدیل کیا ہو۔
چند برس قبل تک اسرائیل میں بھی اسرائیلی عربوں (یہ اصطلاح ان فلسطینیوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے، جن کے پاس اسرائیلی شہریت ہے اور مغربی کنارہ اور غزہ میں رہنے والے فلسطینیوں کے برعکس اسرائیل کو اپنا وطن تسلیم کرتے ہیں) کو بھی یہودی لڑکیوں کو بہلا پھسلا کر اپنے آپ کو یہودی جتلا کر ان کے ساتھ شادیا ں کروانے کے الزام لگائے جاتے تھے۔
اس پورے پروپیگنڈے کا ماخذ2010 میں عدالت میں ایک یہودی لڑکی کی طرف سے دائر کیا گیا مقدمہ تھا، جس میں اس نے اپنی شادی منسوخ کرنے کی درخواست دی تھی کیونکہ اس کے شوہر نے اپنی شناخت چھپا کر اور اپنے آپ کو یہودی جتلا کر اس کے ساتھ شادی کی تھی۔بعد میں اس کو پتہ چلا تھا کہ وہ ایک عرب نوجوان تھا۔اس واقعہ کے نتیجے میں تل ابیب، عسقلان، بحرلوط اور دیگر تفریحی ساحلی مقامات پر اسرائیلی عرب نوجوانوں کا داخلہ بند کردیاگیا تھاتاکہ غسل آفتابی کرتے ہوئے نیم برہنہ یہودی خواتین ان کی التفات کا شکار نہ ہوجائیں۔
دوسری عالمی جنگ سے پہلے کچھ اسی طرح کے حربے نازی جرمنی نے یہودیوں کے خلاف اپنائے تاکہ ملک گیر سطح پر ان کے خلاف نفرت کا ایک طوفان کھڑا کیا جائے۔تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ ہٹلر نے اس پروپیگنڈہ کو عام کرنے میں خاصی دلچسپی دکھائی کہ یہودی نوجوان ایک پلاننگ کے تحت جرمن خواتین کی آبرو کے درپے ہیں، تاکہ بقول ہٹلر اعلیٰ جرمن آرین نسل کو آلودہ کیا جائے۔ ایڈولف ہٹلر اپنی خود نوشت سوانح حیات مین کامپ (Mein Kampf (میں رقم طراز ہیں: ”چہرے پر شیطانی مسکراہٹ سجائے کالے بالوں والے یہودی نوجوان، جرمن لڑکیوں کے لیے گھات لگائے بیٹھے ہیں، تاکہ ان کے خون کو گندہ کریں اور ان سے ان کی نسل چھین لیں۔“بالکل اسی طرح کا کھیل اب ہندوستان میں کھیلا جا رہا ہے۔
حیر ت یہ ہے کہ ”لو جہاد“ کا یہ مفروضہ2006 میں تعلیمی اور سماجی لحاظ سے ترقی یافتہ صوبہ کیرالا سے شروع ہوا، اور بعد میں یہ وبا پڑوسی صوبہ کرناٹک تک پہنچی۔حتیٰ کہ 2009 میں کرناٹک کی عدالت عالیہ نے دونوں صوبوں کی پولیس سے رپورٹ طلب کی۔ پولیس نے بتایا کہ محبت کا جھانسہ دے کر مسلمان بنانے کا کو ئی واقعہ ان کی جانکاری میں نہیں؛ تاہم 25 جون2014 کو وزیراعلیٰ اومن چاندی نے اسمبلی میں انکشاف کیا کہ ان کے صوبہ میں 2006 اور 2014کے درمیان 2667 ہندو خواتین نے اسلام قبول کیا ہے، مگر ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ پولیس تفتیش سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ان خواتین کو کسی نے زبردستی یا لالچ دے کر تبدیلی مذہب پر مجبور نہیں کیا۔
ان میں سے اکثر خواتین نے یہ بتایا کہ وہ ہندو مذہب کے ذات پات کے بندھنوں سے چھٹکارا پانا چاہتی تھیں‘یا پھر شادی کے لیے ان کی اپنی ذات یا معاشی سطح کے ہندو لڑکوں نے انکار کردیا تھا۔
چونکہ رام مندر کی تعمیر، کشمیر کی خصوصی آئینی پوزیشن جیسے متنازعہ امور پر عمل درآمد ہوچکا ہے، ہندو انتہا پسند تنظیمیں جو اعلیٰ ذاتوں کی نمائندہ ہیں کو مسلمانوں کو ہدف بنانے کے لیے ایک اور ایشو کی ضرورت ہے، جس سے اکثریتی آبادی کی توجہ بنیادی ایشوز سے ہٹایا جائے اور منافرانہ ماحول گرم رکھ کر ملک بھر میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز ماحول قائم رکھا جائے۔
مظلوم اور کمزور طبقات میں بڑھتی ہوئی سماجی بیداری نے ان کی فکر مندی کو دو چند کردیا ہے جو اپنے سیاسی اور سماجی حقوق کے لیے منظم ہو رہے ہیں۔ لہٰذا وہ اپنے پس پردہ اہداف کے حصول کے لیے پسماندہ طبقات اور دلتوں کو نشانہ بنانے کی جرات نہیں کر سکتے ہیں۔تاہم انتہاپسند ہندو تنظیمیں مسلمانوں کو نرم چارہ تصور کرتی ہیں۔ ان تنظیموں کے لیے بہتر تھا کہ ہندو معاشرہ کی معاشرتی خرابیوں کی طرف توجہ د یتیں، جن کے سبب ہندو خاندانوں کی عائلی زندگیاں عذاب بن جاتی ہیں۔
ایسے ایسے سماجی بندھن اور قانونی شقیں ہیں کہ نہ آسانی سے طلاق لے سکتے ہیں نہ کسی مجبوری کی وجہ سے دوسری شادی کر سکتے ہیں۔ لیکن ان کے نزدیک یہ مسائل کوئی اہمیت نہیں رکھتے کیونکہ اس کی بنیاد پر سیاسی مفادات پورا کرنا ممکن نہیں ہے۔ لوجہاد کا یہ نعرہ مودی اور بی جے پی کے لیے جگ ہنسائی کا موضوع بھی بن گیا۔ بی جے پی کے چوٹی کے مسلم رہنماؤں شاہنواز حسین، مختار عباس نقوی کی بیویاں ہندو ہیں، ایک اور لیڈر مرحوم سکندر بخت کی بیوی بھی ہندو تھی۔
پارٹی کے ایک اور سخت گیر لیڈر سبرامنیم سوامی کی صاحبزادی نامور صحافی سہاسنی حیدر نے سابق سکریٹری خارجہ سلمان حیدر کے بیٹے کے ساتھ شادی کی ہے۔ کشمیر کے وزیراعلیٰ عمرعبداللہ کی اہلیہ سکھ تھی ان کی ہمشیرہ سارہ، کانگریسی لیڈر سچن پائلٹ سے بیاہی ہے۔ ہندوستان کے ممتاز فلمی اداکاروں شاہ رخ خان اور عامر خان نے ہندو خاندانوں میں شادیاں کی ہیں۔کیا یہ سبھی لوجہاد کے مرتکب ہوئے ہیں؟ بہر حال ضرورت اس بات کی ہے کہ ہندوستان میں مسلمان خود کو اس شر و فساد کی سیاست سے محفوظ رکھیں۔
جو نوجوان غیر اخلاقی حرکتوں میں ملوث ہوتے ہیں، غیر مذہب کی خواتین کے ساتھ راہ و رسم بڑھاتے ہیں، ان کی اصلاح کی کوشش کریں اور ان کی حوصلہ شکنی کریں۔ کہیں ان کی حرکتوں کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا نہ پڑے۔ کیوں کہ آثار و قرائن بتا رہے ہیں، کہ ہندو انتہا پسندوں کا سازشی ٹولہ اس بہانے سے مسلمانوں کے سماجی بائیکاٹ کی سازش کر رہا ہے۔
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں