قصر سفید کے مکیں جارج بش نے آئندہ کے ا مریکی صدر اوباماکو عراق اور افغانستان کی بجائے پاکستان کو سب سے بڑا چیلنج قرار دیکر آنے والے حالات کی منظر کشی کی تھی ،اس کے تناظرمیں کم ازکم یہ توصاف پتہ چل گیاکہ امریکی ادارے اپنی دیرپاپالیسیوں کوہرحکومت میں جاری رکھتے ہیں اوریہی وجہ ہے کہ آج کل لندن پلان اوراس کے کرداراسکرپٹ کے مطابق اپنے کام کوجاری رکھے ہوئے ہیں۔
امریکہ کی رفو گیری بھی عجیب ہے ،پہلے دا من میں خوب جی بھر کر چھید کرتا ہے پھر یہ چاک سینے کیلئے اپنی رفو گیری کے جوہر دکھاتا ہے۔عراق اور افغانستان دو ایسے ہی ملک ہیں جنہیں قصر سفید کے فر عو ن جارج بش نے بری طرح بھنبھوڑ کر ر کھ دیالیکن اوبامانے آتے ہی رفو گیری اور مسیحائی کے جو ہر دکھا نے کے جھوٹے دعووں سے اقوام عالم کوجوتاثردیا تھاوہ ایک دفعہ پھرتیزی سے زائل ہورہاہے اوریہ مطالبہ بھی دن بدن زورپکڑتاجارہاہے کہ ان ملکوں کو امریکی جارحیت کی بناء پر جان،مال،عزت،آبرو اورا قتدار اعلیٰ کی جو قیمت چکانی پڑرہی ہے اس کا تاوان کس سے طلب کریں گے؟
جس پاکستان کا ،قصر سفید کے فر عو ن جارج بش نے تشویش ا نگیز انداز میں تذکرہ کیا تھا، امریکاکی جنگ کا ٹوکہ ا ٹھانے سے پہلے وہ بھی اتنی خراب حالت میں نہیں تھا بلکہ فر عو ن جارج بش کی صدارت سے پہلے تو یہ کرۂ ارض بھی خوف،دہشت گرد ی اور و سائل کی لوٹ مار کا شکار نہیں تھا۔دہشت گرد ی کب اور کہاں نہیں ہوتی؟ہردور میں ہر جگہ اس کا دھڑکا لگا رہتا تھااور ہر جگہ اس سے بچنے کے انتظامات بھی کئے جاتے تھے لیکن اس عا لمی مہم جوئی نے جس طرح قوموں اور ملکوں کو خوفزدہ کرکے نفسیاتی مریض بنا کر رکھ دیا ہے اس کی مثال ما ضی میں کہیں نہیں ملتی۔تسخیر عالم کی مہم سے پہلے اور اس کے بعد یورپ اور امریکہ کا سفر کر نے والوں کو حالات کا یہ فرق بآسا نی د کھائی دیتا ہے۔ائر پورٹس پر ٹٹولنے کے انداز ’’تلاشی‘‘ کے طریقوں اور پوچھ گچھ کے نام پرذ ہنی اذیت سے ان آزاد معاشروں میں اکثر انسا نیت شرم سے پانی پانی ہو جا تی ہے۔تب خود کش حملے بارش کے قطروں کی ما نند کہیں کہیں کمزوروں کا توانا ہتھیار تھے لیکن اب تو گویا سیلاب ہی آگیا ہے۔لوگ اپنے وجود کو دھماکوں اور دھوئیں میں اڑا کر لطف لینے لگے ہیں۔
اس سے پہلے مغرب بہت سے اخلاقی حوالوں سے بر تر نظر آتا تھاجن میں انسا نی حقوق ،مساوات اور کچھ دوسری اقدار نمایاں تھیں لیکن تند خو اور جنگجو قصر سفید کے مکین فر عو نوں کی پالیسیوں کی بناء پرتو د نیا کا منظر ہی بدل گیا۔اس کے بعد تو دنیا کے امن کو نظر سی لگ گئی۔معقو لیت،اعتدال اورامن عالمی سیاست کے با زار میں متروک سکوں کا روپ اختیار کر گئے ہیں۔اس کی جگہ تند خوئی، تکبر، طاقت ، کچلنے،مسلنے،دبانے،گرانے،جلانے کی زبان کا دستور ا مریکی سیاست کا اسلوب بن کر رہ گیا ہے۔سرد جنگ ختم ہو چکی تھی،کیمونزم لینن گراڈمیں زمیں بوس ہو چکا تھا،خیال تھا کہ دنیا کے نقشے سے سویت یونین نام کا ملک ختم ہو جا نے کے بعد شیر اور بکری ایک ہی گھاٹ پر پا نی پینے لگیں گے۔ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور اسلحہ کے ا نبار لگا نے کی سوچ قصہ پا ر ینہ بنے گی۔اب قوموں کے وسا ئل ایک دوسرے کے خلاف پروپیگنڈہ مواد اور تشہیری مہمات کی بجائے تعلیم،صحت اور ترقی پر خرچ ہونگے۔یوں دنیا جنت نہ سہی مگر جنت نما ضرور بنے گی لیکن بڑے بش کی جارحیت کے آغازکے بعدآج تک چند دن بھی دنیا کو آئیڈیل نہیں ر ہنے دیااوراس کے منظورکردہ ’’نیوورلڈآرڈر‘‘میں توکچھ اوربھی تحریرتھاجس پراب بھی سختی سے عمل ہورہاہے۔امریکانے کویت اور سعودی عرب کی خود مختاری کی منہ مانگی قیمت سینکڑوں ارب ڈالر بھی وصول کی جو کہ امریکی بینکوں میں ہی پڑی تھی اوراب اس خلیجی مہمان نے مستقل طورپرانہی کے علاقے میں سکونت اختیارکرلی ہے۔
اپنی موجودگی کامضبوط جوازپیداکرنے کیلئے اسامہ بن لادن جیساکردارتشکیل دیاتاکہ اس کی آڑمیں آزاد تجارت اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کا دور شروع کر نے کے نام پر خلیج کے تیل کو ہتھیانے کا پر وگرام جوپہلے سے طے تھا ملٹی نیشنل کمپنیوں کے حوالے کردیاگیاجس کے فوری بعد قصر سفید کے فر عون کے دست راست ڈک چینی کی کمپنی عراق کے تیل کو شیر مادر سمجھ کر غٹا غٹ نوش فر ما نے لگی اوراب بھی کئی استعماری کاروباری کمپنیاں مشرقِ وسطٰی کی دولت کودونوں ہاتھوں سے لوٹ رہی ہیں۔اب تو کھیل کو سمجھنا اور بھی آسان ہو گیا ہے، کا رو با ر ی مفادات کو امن عالم کے قیام کا جا مہ پہنا کر دنیا کو فساد سے بھر دیا گیا ہے اور اسی کی آڑمیں پا کستان بھی اس کی لپیٹ میں آچکاہے۔ اس کمزور وفا قی ڈھا نچے ،نیم جمہو ری اور لا تعداد سیا سی تنا زعات کے حامل ملک کے زخم تیزی سے کھلتے چلے جارہے ہیں۔پاکستان کی ایٹمی صلاحیت نے اسے عا لمی نظر التفات کا مر کز بنا دیاہے۔ان عالمی طاقتوں نے فیصلہ کرلیاہے کہ ا فغانستان سے جزوی انخلاء سے قبل ایٹمی صلاحیت کے حامل پاکستان کواندرونی سیاسی انتشارسے اس قدرکمزورکردیاجائے کہ کل اس کا موازنہ روانڈا جیسے قحط زدہ خانہ جنگی کا شکار ،معیشت کے د یوالیہ پن کے قریب تر ا فریقی ملک سے ہو نے لگے تو پھراگلی کاروائی کیلئے اقوام متحدہ کے کندھے کواستعمال کیاجائے۔
قصر سفید کے فر عون نے تسخیر عالمی مہم سے پہلے بھی پا کستان کو خاردار تاروں،خوفناک خاصہ داروں،بلند و بالا حصاروں کی صورت میں خوف اور جامہ تلاشی کے نام پر تذلیل کے سوا دیا ہی کیا ہے کہ اب افغانستان اور عراق میں دو ناکام تجربات کر نے والی یہ ذات شریف اپنے تئیں ایک نئی تجربہ گاہ ورثے میں چھوڑے جا رہی ہے۔ اسی لئے قصر سفید کے فر عون نے اپنا اگلا پروگرام شروع کرنے کا حکم دے دیا ہے جس کااظہارسابقہ آرمی چیف اسلم بیگ نے اپنے حالیہ انٹرویومیں بھی کیاہے۔افغانستان کی مٹی میں نجانے کیا زہر جیسی تا ثیرآ گئی ہے کہ وہاں بیٹھا ننگ دیں اور ننگ ملت میر جعفرکی اولاد کرزئی قصر سفید کے فر عون کی شہہ پر اپنے محسنوں کو بار بار ڈنک مارنے سے کبھی بازنہیں آیابلکہ اپنے آخری خطاب میں بھی پاکستان پرالزمات دھرتاہوارخصت ہواحالانکہ پاکستان اپنے ہاں قحط جیسی صورت حال کے باوجود آٹا،گھی اور دیگر تمام غذائی اجناس کے سا تھ سا تھ نمک کی ترسیل یومیہ بنیادوں پرکر رہا ہے لیکن یہ مسلسل ا پنے بیر و نی آقا ؤں کے ایماء پر اسی قدر نمک حرامی پراترا رہا۔جن طالبان کے خوف سے یہ و سطیٰ کابل کے چھوٹے سے علاقہ میں چھپا بیٹھا رہا اور سینکڑوں محا فظوں کے ا نتہا ئی سخت پہرہ میں کابل کی حدود سے با ہر نکلنابھی دشوار ہے ،رخصت ہوتے ہوئے بھی ہمیں گیدڑ بھبھکیوں سے ڈرانے کی کوشش کر تارہا۔ادھر قصر سفید کا فر عون ایک نئی ا ختراع ’’لندن پلان‘‘کے سا تھ ہم پر غرا رہاہے لیکن آج کے پاکستان کے حالات کی خرابی میں جہاں ان دھرنوں کے مکینوں اوران کی پشت پناہی کرنے والے سیاسی شکست خوردہ سیاستدانون کاعمل دخل شامل ہے وہاں موجودہ حکومت کوبھی بری الذمہ قرارنہیں دیاجاسکتا ۔
وَالسّمَاِ ذَاتِ الْبُرُوْجِِ وَالْیَوْمِ الْمَوعُودِ وَشَاہِدِِِ وَمَشْہُودِِِِِِ قُتِلَ اَٗصْحَابُ اَلْاُٗخْدُوْدِاَلنّارِ ذَاْتِ الْوُقُوْدِ اِِذْ ہُمْ عَلَیْہَاقُعُوْدُ وَہُمْ عَلَیٰ مَا یَفْعَلُونَ بِاْلْمُوْمِنِینَ شُہُوْدْوَمَانَقَمُوْاِ مِنْہُمْ اِلّا اَٗنْ یُوْمِنُوْا بِاللّٰہِ اَلْعَزِیْزِاَلْحَمِیدِاَلَّذِیْ لَہُ مُلْکُ اَلْسْمَاوَاتِ وَاْلاَرْضِ وَاْللَّہُ عَلَیٰ کُلِّ شَیْ ءِِ شَہِیْدُُاِِنَّ اَلَّذِیْنَ فَتَنُوْ ا اَلْمُوْمِنِینَ وَاَلْموْمِنَاتِ ثُمَّ لَمْ یَتُوْبُوْافَلَہُمْ عَذَابُ جَہَنَّمَ وَلَہُمْ عَذَابُ اَلْحَرِیق
’’قسم ہے مضبوط قلعوں وا لے آسمان کی اور اس دن کی جس کا وعدہ کیا گیا ہے (یعنی قیا مت) اور دیکھنے وا لے کی اور دیکھی جا نے والی چیز کی کہ ما رے گئے گڑھے وا لے (اس گڑھے وا لے) جس میں خوب بھڑکتے ا یندھن کی آگ تھی جبکہ وہ اس گڑھے کے کنا رے بیٹھے ہوئے تھے اور جو کچھ وہ ایمان لا نے والوں کے سا تھ کر رہے تھے اسے دیکھ رہے تھے اور ان اہل ایمان سے ان کی دشمنی اس کے سوا کسی وجہ سے نہ تھی کہ وہ اس خدا پر ایمان لے آئے تھے جو زبر دست اور اپنی ذات میں آپ محمود ہے۔جو آسمانوں اور زمیں کی سلطنت کا ما لک ہے اور وہ خدا سب کچھ دیکھ رہا ہے۔ جن لو گوں نے مومن مردوں اور مومن عورتوں پر ستم توڑا اور پھر اس سے تائب نہ ہوئے ‘یقیناًان کیلئے جہنم کا عذاب ہے اور ان کے جلائے جانے کی سزا ہے۔(سورۃ البروج ۱۔۱۰)
دوستو! بس نام رہے گا میرے رب کا جو روز محشر کا مالک ہے
جواب دیں