ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی رمضان کا بابرکت مہینہ شروع ہونے جارہا ہے۔ ماہ رمضان میں مساجد میں پنچ وقتہ نمازوں کے علاوہ نمازِ عشاء کے فوراً بعد تراویح کی نماز پڑھنے کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے۔ حضور اکرم ﷺ نمازِ تراویح پڑھنے کی ترغیب تو دیتے تھے لیکن وجوب کا حکم نہیں دیتے […]
رمضان کا بابرکت مہینہ شروع ہونے جارہا ہے۔ ماہ رمضان میں مساجد میں پنچ وقتہ نمازوں کے علاوہ نمازِ عشاء کے فوراً بعد تراویح کی نماز پڑھنے کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے۔ حضور اکرم ﷺ نمازِ تراویح پڑھنے کی ترغیب تو دیتے تھے لیکن وجوب کا حکم نہیں دیتے تھے۔ آپ ﷺ فرماتے کہ جوشخص رمضان کی راتوں میں نماز (تراویح) پڑھے اور وہ ایمان کے دوسرے تقاضوں کو بھی پورا کرے اور ثواب کی نیت سے یہ عمل کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے گزشتہ گناہ معاف فرمادیں گے۔ حضور اکرم ﷺ کی حیاتِ طیبہ میں تراویح کا جماعت کے ساتھ پڑھنے کا اہتمام نہیں تھا۔ چند روز تراویح جماعت کے ساتھ ادا کی گئی جیساکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے (رمضان کی) ایک رات مسجد میں نماز تراویح پڑھی۔ لوگوں نے آپ ﷺکے ساتھ نماز پڑھی۔ پھر دوسری رات کی نماز میں شرکاء زیادہ ہوگئے، تیسری یا چوتھی رات آپ ﷺ نماز تراویح کے لئے مسجد میں تشریف نہ لائے اور صبح کو فرمایا کہ میں نے تمہارا شوق دیکھ لیا اور میں اس ڈر سے نہیں آیا کہ کہیں یہ نماز تم پر رمضان میں فرض نہ کردی جائے۔ (مسلم) رسول اللہ ﷺ کی وفات تک نماز تراویح تنہا تنہا ہی پڑھی جاتی رہی۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت (یعنی دو رمضان) میں بھی نماز تراویح باقاعدہ جماعت کے ساتھ ادا نہیں ہوئی۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے جب اپنے عہد خلافت میں دیکھا کہ صحابہئ کرام تنہا تنہا تراویح کی نماز پڑھ رہے ہیں تو انہوں نے صحابہئ کرام کو حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی امامت میں جمع کیا اور عشاء کے فرائض کے بعد وتروں سے پہلے باجماعت ۰۲ رکعت نماز تراویح میں قرآن کریم مکمل کرنے کا باضابطہ سلسلہ شروع کیا۔ غرضیکہ جس نماز کے پڑھنے کی ترغیب حضور اکرمﷺنے بار بار دی تھی اور چند رات پڑھاکر اس کی بنیاد بھی ڈال دی تھی مگر وجوب کے اندیشے سے رمضان کی ہر رات جماعت کے ساتھ پڑھنے کا اہتمام نہیں فرمایا۔ دوسرے خلیفہ حضرت عمر فاروق کے عہد خلافت میں صحابہئ کرام کے اجماع سے پوری امت مسلمہ آج تک رمضان کے مکمل مہینے نماز عشاء کے فوراً بعد جماعت کے ساتھ تراویح کی نماز پڑھنے کا اہتمام کرتی چلی آرہی ہے۔ اس وقت دنیا کے مختلف ممالک میں کورونا وبائی مرض کے پھیلنے کی وجہ سے لاک ڈاؤن چل رہا ہے۔ مرض کے پھیلاؤ کے پیش نظر بہت ممکن ہے کہ یہ لاک ڈاؤن بعض علاقوں میں پورے رمضان جاری رہے۔ ایسی صورت حال میں جہاں ہمیں لاک ڈاؤن کی پابندیوں پر عمل کرکے اس وبائی مرض سے اپنی وسعت کے مطابق بچنے کی کوشش کرنی ہے وہیں اللہ کے گھروں کو ویران ہونے سے بھی بچانا ہے، لہذا مسجدوں کو آباد رکھنے کے لئے صرف چند حضرات ہی پنچ وقتہ نماز مع تراویح مسجد میں ادا کریں، باقی سبھی حضرات نماز تراویح اور دیگر نمازیں اپنے گھروں ہی میں ادا کریں۔ پورے ماہ نمازِ تراویح پڑھنا سنت ہے اور تراویح میں مکمل قرآن کریم سننا یا سنانا دوسری مستقل سنت ہے۔ اگر حافظ قرآن مل جائے تو بہتر ہے تاکہ دونوں سنتوں پر عمل ہوجائے، ورنہ قرآن کریم کی آخری چھوٹی سورتیں ہی پڑھ کر نماز تراویح گھر پر بجماعت یا تنہا پڑھیں۔ خواتین بھی گھر میں ہونے والی نمازِ تراویح میں شرکت کر سکتی ہیں، اگرچہ خواتین کا تنہا نماز پڑھنا زیادہ بہتر ہے۔ جمہور علماء کی رائے ہے کہ حافظ قرآن نہ ملنے کی صورت میں قرآن کریم دیکھ کر یا موبائل میں دیکھ کر نماز تراویح ادا نہ کریں بلکہ چھوٹی چھوٹی سورتوں کے ساتھ بجماعت یا تنہا نمازِ تراویح ادا کریں کیونکہ حضور اکرمﷺ سے ایک مرتبہ بھی نماز کی حالت میں قرآن کریم ہاتھ میں لے کر پڑھنا ثابت نہیں ہے۔ چاروں خلفاء اور اسی طرح صحابہئ کرام میں کسی سے نماز کی حالت میں قرآن کریم دیکھ کر قرأت کرنا ثابت نہیں ہے۔ ۰۰۴۱ سال سے امت مسلمہ کا معمول بھی یہی ہے کہ نماز میں قرآن کریم ہاتھ میں لے کر دیکھ کر نہ پڑھا جائے۔ اور یہی قول احتیاط پر بھی مبنی ہے کیونکہ بغیر دیکھے چھوٹی چھوٹی سورتیں پڑھنے سے نماز تراویح کے صحیح ہونے پر پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے، جبکہ حضور اکرم ﷺ کی وفات کے صرف ۰۷ سال بعد پیدا ہونے والے مشہور فقیہ حضرت امام ابوحنیفہؒ اور دیگر علماء کرام نے نماز کی حالت میں قرآن کریم دیکھ کر نماز پڑھنے پر نماز کے فاسد ہونے کا فتوی دیا ہے۔ بعض صحابہئ کرام اور مشہور تابعین کے اقوال کتب حدیث وتاریخ میں موجود ہیں جن میں انہوں نے قرآن کریم دیکھ کر نماز پڑھانے سے منع کیا ہے۔ جن بعض علماء نے جواز کا فتوی دیا ہے انہوں نے کبھی زندگی میں ایک مرتبہ بھی نماز کی حالت میں قرآن مجید مصحف میں دیکھ کر نہیں پڑھا اور نہ اس کی کوئی ترغیب دی۔ رہا وہ اثر جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے متعلق ہے کہ ان کے غلام حضرت ذکوان رضی اللہ عنہ ان کو مصحف میں دیکھ کر نماز پڑھاتے تھے، یہ غالباً ان کا اپنا اجتہاد تھا، جس کو بنیاد بناکر کسی دوسرے صحابی یا تابعی یا تبع تابعی نے زندگی میں ایک مرتبہ بھی قرآن کریم میں دیکھ کرنماز نہیں پڑھائی۔ نیز یہ حدیث نہیں بلکہ اثر ہے یعنی ایک صحابی کا عمل ہے، اس کے برخلاف حضور اکرم ﷺ کی پوری زندگی، خلفاء راشدین کا تیس سالہ عہد مبارک اور صحابہئ کرام کی جماعت کا عمل ہے۔ نیز یہ واقعہ امام بخاریؒ نے تعلیقاً ذکر کیا ہے، یعنی ایک حدیث پر بحث کرتے ہوئے ضمناً ذکر کیا ہے۔ لہذا پوری امت کے اجماعی عمل کے مقابلہ میں ایک اثر پر عمل کرنا یا اس کی ترغیب دینا صحیح نہیں ہے، خاص کر جب کہ ہندوپاک کے جمہور علماء کا متفق علیہ فیصلہ ہے کہ قرآن کریم میں دیکھ کر نماز پڑھنے سے نماز فاسد ہوجاتی ہے۔ لہذا لاک ڈاؤن میں بھی نماز تراویح کا اہتمام ضرور کریں۔ اگر حافظ قرآن میسر نہ ہو تو قرآن کریم کی آخری چھوٹی سورتیں پڑھ کر تراویح ادا کریں، قرآن کریم ہاتھ میں لے کر یا موبائل میں دیکھ کر نہ پڑھیں۔ دیگر اوقات میں قرآن کریم کی تلاوت کا خاص اہتمام رکھیں۔
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کامتفق ہونا ضروری نہیں۔ 18 اپریل 2020
فیس بک پر شیئر کریںٹویٹر پر شیئر کریں۔واٹس ایپ پر شیئر کریں۔ٹیلیگرام پر شیئر کریں۔
جواب دیں