ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی
سب سے پہلے میں تمام مسلم بھائیوں کو عیدالفطر کی مبارک باد پیش کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ ماہِ مبارک کی ہماری عبادتوں کو قبول فرماکر ہم سب کے لئے جہنم سے نجات اور جنت الفردوس کا فیصلہ فرمائے۔ آمین۔ کورونا وائرس کے پھیلنے کے باعث دنیا کی نقل وحرکت تھم گئی ہے، یعنی دنیا ترقی کے منازل طے کرنے کے باوجود ایک چھوٹے سے وائرس کے سامنے ڈھیر ہوگئی ہے۔ کورونا وائرس کے سائے میں پوری دنیا کے مسلمانوں نے رمضان کے مبارک مہینہ میں بھی گھروں ہی میں رہ کر عبادت کی۔ سعودی عرب جیسے ملک میں بھی تمام مساجد کو بالکلیہ بند کردیا گیا۔ حرمین شریفین میں بھی صرف محدود افراد نے نماز پنچ گانہ اور تراویح پڑھی۔ عمرہ کی ادائیگی بھی موقوف رہی، حتی کہ ۳۲ مئی کو نمازِ عیدالفطر بھی مساجد میں ادا کرنے کے بجائے عرب ممالک کے مسلمانوں نے اپنے گھروں میں ادا کی، جو اَب تک تاریخ اسلام میں دیکھنے کو نہیں ملا۔ ہندوستان کے مسلمانوں نے بھی حکومت کی جانب سے لاک ڈاؤن کی پابندیوں پر عمل کرتے ہوئے ماہِ رمضان میں بھی جہاں ساری نمازیں مساجد کے بجائے گھروں میں ادا کیں، وہیں مذہب یا ذات یا علاقہ کے تعصب کے بغیر غریب اور مزدور لوگوں کی مدد کے لئے جو خدمات پیش کیں وہ وہ نہ صرف قابل تعریف ہیں بلکہ قابل تقلید بھی ہیں۔ جہاں مسلم بھائیوں نے راہ گیروں کے لئے کھانے اور پینے کا معقول بندوبست کیا، وہیں غیر مسلم ہم وطن کی موت پر اس کے رشتہ داروں کی طرف سے آخری رسومات ادا نہ کرنے پر چند مسلم نوجوانوں نے اس کے لئے بھی اپنی خدمات پیش کیں۔ تبلیغی جماعت کے افراد کو ۴۱ یا ۸۲ دن نہیں بلکہ اس سے کہیں زیادہ مدت کے لئے قرنطیہ میں رکھا گیا جہاں بہتر سہولیات نہ ہونے کے باوجود مسلم بھائیوں نے صبر اور اس کے بعد دوسروں کی جان بچانے کے لئے خون عطیہ دینے کی ایسی مثال قائم کی کہ جو ٹی وی چینل تبلیغی جماعت کو نشانہ بناکر ہندومسلم کے درمیان نفرت اور عداوت پیدا کرنے کی مذموم کوشش کررہے تھے وہ بھی تبلیغی جماعت کے افراد کی تعریف کرنے پر مجبور ہوئے۔ اسلام نے ہمیں صبر وتحمل کی تعلیمات دی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام ”قرآن کریم“ میں جگہ جگہ صبر کرنے کی تعلیم دی ہے۔ چند آیات کا ترجمہ پیش ہے: اے ایمان والو! صبر اور نماز سے مدد حاصل کرو۔ بیشک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ اور جو لوگ اللہ کے راستہ میں قتل ہوں اُن کومردہ نہ کہو۔ دراصل وہ زندہ ہیں۔ مگر تم کو (اُن کی زندگی کا) احساس نہیں ہوتا۔ اور دیکھو ہم تمہیں آزمائیں گے ضرور، (کبھی) خوف سے، اور (کبھی) بھوک سے، اور (کبھی) مال وجان اور پھلوں میں کمی کرکے۔ اور جولوگ (ایسے حالات میں) صبر سے کام لیں اُن کو خوشخبری سنا دو۔ (سورۃ البقرہ ۳۵۱۔ ۵۵۱) صبر کرنے والوں کو بے حساب اجروثواب عطا کیا جائے گا جیساکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: جو لوگ صبر سے کام لیتے ہیں اُن کا ثواب انہیں بے حساب دیا جائے گا۔ (سورۃ الزمر ۰۱) حالات پر صبر کرنے کو اللہ تعالیٰ نے ہمت والا کام قرار دیا چنانچہ فرمان الٰہی ہے: جو شخص صبر سے کام لے اور درگزر کرجائے تو یہ ہمت کے کاموں میں سے ہے۔ قیامت تک آنے والے انس وجن کے آخری نبی حضرت محمد ﷺ نے بھی اپنے قول وعمل سے صبر کرنے کی ترغیب دی۔ چنانچہ نبی بنائے جانے سے لے کر وفات تک آپﷺکو بے شمار تکلیفیں دی گئیں۔ آپﷺ کے اوپر اونٹنی کی اوجھڑی ڈالی گئی۔ آپ ﷺ کے اوپر گھر کا کوڑا ڈالا گیا۔ آپ ﷺ کو کاہن،جادوگر اور مجنوں کہہ کر مذاق اڑایا گیا۔ آپﷺ کی بیٹیوں کو طلاق دی گئی۔ آپﷺ کا تین سال تک بائیکاٹ کیا گیا۔ آپ ﷺ پر پتھر برسائے گئے۔ آپ ﷺ کو اپنا شہر چھوڑنا پڑا۔ آپ ﷺ غزوہئ احد کے موقع پر زخمی کئے گئے۔ آپ ﷺ کوزہر دے کر مارنے کی کوشش کی گئی۔ آپ ﷺ نے کبھی ایک دن میں دونوں وقت پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھایا۔ آپ ﷺ نے بھوک کی شدت کی وجہ سے اپنے پیٹ پر دو پتھر باندھے۔ آپ ﷺ کے گھر میں دو دو مہینے تک چولھا نہیں جلا۔ آپ ﷺ کے اوپر پتھر کی چٹان گراکر مارنے کی کوشش کی گئی۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے سوا آپ ﷺ کی ساری اولاد کی آپﷺ کے سامنے وفات ہوئی۔ غرضیکہ سید الانبیاء وسید البشر کو مختلف طریقوں سے ستایا گیا، مگر آپ ﷺ نے کبھی صبر کا دامن نہیں چھوڑا، آپ ﷺ رسالت کی اہم ذمہ داری کو استقامت کے ساتھ بحسن خوبی انجام دیتے رہے۔ہمیں آپ ﷺ کی زندگی سے یہ سبق لینا چاہئے کہ گھریلو یا ملکی یا عالمی سطح پر جیسے بھی حالات ہمارے اوپر آئیں، ہم ان پر صبر کریں اور اپنے نبی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اللہ سے اپنا تعلق مضبوط کریں۔
ہندوستانی مسلمان نے حکومت کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے ماہ رمضان میں بھی تمام عبادتیں مساجد کے بجائے گھروں میں ادا کیں، حتی کہ رمضان کی خاص نماز تراویح اور جمعہ کی نمازیں بھی عمومی طور پر مسلمان مساجد میں ادا نہ کرسکے جو تاریخ اسلام میں پہلی مرتبہ ہوا۔ بعض ٹی وی چینل کے نمائندے مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لئے اپنے کیمرے لے کر مسلم محلّوں اور گلی کوچوں میں گھومتے رہے کہ کہیں کوئی موقع انہیں مل جائے اور وہ مسلمانوں اور اسلام کو بدنام کرنے کی مذموم کوشش کریں مگر انہیں ناکامی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آیا کیونکہ گنتی کے دو چار واقعات کے علاوہ پچیس کروڑ ہندوستانی مسلمانوں نے لاک ڈاؤن کی مکمل پاسداری کی، حتی کہ عید کی خریداری کے لئے بھی عمومی طور پر مسلمان بازار نہیں گیا۔ دوکانیں کھولی بھی گئیں، مسلم مخالف عناصر اپنے خفیہ کیمروں کے ساتھ بازار بھی گئے، مگر مسلمان بیدار ہوچکا تھا کہ جب اس نے نماز تراویح اور پنچ وقتہ نمازیں مساجد کے بجائے اپنے گھروں میں ادا کیں تو پھر وہ عید الفطر کی خریداری کے لئے بازار کیوں جائے۔ جب اس نے لاک ڈاؤن کی وجہ سے رمضان میں بھی نمازِ جمعہ مساجد میں ادا نہیں کیا جس کے متعلق ایک مسلمان کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا تو پھر ماہ رمضان کی مبارک گھڑیوں میں وہ بازار جاکر کورونا وائرس کے خطرات کیوں مول لے۔ اس وبائی مرض سے بچنے کے لئے جب مقدس مہینے میں بھی اللہ کے گھروں میں تالا لگا یا گیا تو عید الفطر کی خریداری سے رکنے کے لئے وہ اپنی گاڑیوں اور بائکوں پر تالا کیوں نہ لگائے۔ اسے یہ معلوم ہوگیا تھا کہ کورونا وائرس کے خطرات میں وہ بازاروں میں جاکر اپنا پیسہ بھی خرچ کرے اور بعد میں مسلمانوں کو ہی کوررونا وبائی مرض کے پھیلاؤ کا مجرم بھی قرار دیا جائے۔ علماء کرام اور دانشوران قوم نے مسلمانوں سے اپیل بھی کی تھی کہ جو بھی رقم ان کے پاس موجودہ ہے وہ مستقبل کے اخراجات کے لئے بچا کر رکھیں اور حتی الامکان فضول اخراجات سے بچیں۔ امسال عید الفطر سادگی کے ساتھ منائیں اور اس مصیبت کے وقت غریبوں کی حتی الامکان مدد کریں۔ ضروریات زندگی کا سامان خرید کر ان کے گھر تک پہنچانے کا انتظام کریں خواہ ان کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو۔ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: تمہیں اپنے کمزوروں کے طفیل سے رزق دیا جاتا ہے اور تمہاری مدد کی جاتی ہے۔ (بخاری) اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: مسکین اور بیوہ عورت کی مدد کرنے والا اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے۔ (بخاری،مسلم)
تمام مسلم بھائیوں سے آخری درخواست ہے کہ عمل کی قبولیت کی جو علامتیں علماء کرام نے قرآن وحدیث کی روشنی میں تحریر فرمائی ہیں ان میں سے ایک اہم علامت نیک عمل کے بعد دیگر نیک اعمال کی توفیق اور دوسری علامت اطاعت کے بعد نافرمانی کی طرف واپس نہیں ہونا ہے۔ نیز ایک اہم علامت نیک عمل پر قائم رہنا ہے۔ حضور اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ کو محبوب عمل وہ ہے جس میں مداومت یعنی پابندی ہو خواہ مقدار میں کم ہی کیوں نہ ہو۔ (بخاری ومسلم) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے حضور اکرم ﷺ کے عمل کے متعلق سوال کیا گیا کہ کیا آپ ﷺ ایام کو کسی خاص عمل کے لئے مخصوص فرمایا کرتے تھے؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نہیں، بلکہ آپﷺاپنے عمل میں مداومت (پابندی) فرماتے تھے۔ اگر کوئی ایسا کرسکتا ہے تو ضرور کرے۔ (مسلم) حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرمﷺ نے ان سے ارشاد فرمایا: اے عبداللہ! فلاں شخص کی طرح مت بنوجو راتوں کو قیام کرتا تھا لیکن اب چھوڑدیا۔ (بخاری ومسلم) لہذا ماہِ رمضان کے ختم ہونے کے بعد بھی ہمیں برائیوں سے اجتناب اور نیک اعمال کا سلسلہ باقی رکھنا چاہئے کیونکہ اسی میں ہماری دونوں جہاں کی کامیابی وکامرانی مضمر ہے۔
جب ہمارا یہ یقین ہے کہ حالات سب اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے آتے ہیں، اور وہی مشکل کشا، حاجت روا، بگڑی بنانے والا اور صحت دینے والا ہے، لہذا ہم دعاؤں کا خاص اہتمام رکھیں کیونکہ دعا ایک اہم عبادت بھی ہے۔ ہمیں دُعا میں ہرگز کاہلی وسستی نہیں کرنی چاہئے، یہ بڑی محرومی کی بات ہے کہ ہم مصیبتوں اور بیماریوں کے دور ہونے کے لئے بہت سی تدبیریں اختیار کرتے ہیں مگر وہ نہیں کرتے جوہرتدبیر سے آسان اور ہرتدبیر سے بڑھ کر مفید ہے (یعنی دعا)، اس لئے ہمیں چاہئے کہ اپنے خالق ومالک کے سامنے خوب دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ پوری دنیا سے اس بیماری کو دور فرمائے، آمین۔
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
28مئی 2020 (ادارہ فکروخبر)
جواب دیں