عبدالرشیدطلحہ نعمانیؔ
پچھلے تین ساڑھے تین ماہ سے کرونا وائرس کے سبب عام زندگی مفلوج ہوکر رہ گئی ہے۔ لاک ڈاؤن نے پس ماندہ اور غریب طبقے کو ہر طرح سے قلاش و تہی دست کردیا ہے۔تعلیم و تدریس سمیت بہت سے اجتماعی کام یا تو مکمل طور پر بند ہیں یا انہیں محدود و مختصرکردیا گیا ہے۔ان سب کے باوجود بہ حیثیت مومن ہمارا ایمان ہے کہ اچھی بری تقدیر اللہ کی طرف سے ہے نیزاللہ پاک حکیم ہیں اور حکیم کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ہوا کرتا۔قرآن مجید میں متعدد مقامات پر اس حقیقت کو اجاگر کیاگیاہے،ایک موقع پر جہاد وقتال کاذکرکرتے ہوئے ارشاد فرمایا:یہ عین ممکن ہے کہ تم کسی چیز کوناگوار سمجھو اور وہ تمہارے حق میں بہتر ہو۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ کسی چیز کو تم پسند کرو اور وہ تمہارے حق میں بری ہو۔ اور اللہ ہی خوب جانتا ہے، تم نہیں جانتے۔(البقرۃ)اس آیت کریمہ کے عموم سے معلوم ہوا کہ خیر وشر کا حتمی و یقینی علم اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔بندہ کسی چیز کے سلسلے میں قطعیت کے ساتھ کوئی حکم نہیں لگا سکتا؛بل کہ بسااوقات ہم کسی چیز کو اپنے حق میں بہتر گمان کرتے ہیں اور وہ ہمارے لیے مضرثابت ہوتی ہے۔اللہ تعالیٰ ہی ہر کام کی حکمت جانتا ہے اورہم نہیں جانتے۔
جہاں ایک طرف لاک ڈاؤن اور عمومی بندش کے بہت سے منفی پہلوسامنے آئے، وہیں اس کا ایک مثبت پہلو یہ بھی نظر آیا کہ اسراف و فضول خرچی، دکھاوے اورخود نمائی پرمشتمل لمبی چوڑی تقریبات مختصر ہوگئیں،متعدد شادیوں کی رسومات کومحدود کر دیا گیا، سینکڑوں ولیمے خواہی نہ خواہی سادگی کے ساتھ نمٹانے پڑے۔جوں ہی ملکی سطح پرحکومت کا یہ اعلان آیا کہ کسی بھی اہم تقریب میں صرف پچاس افراد ہی شرکت کے مجاز ہوں گے؛جب کہ حکم کی خلاف ورزی پر جرمانہ عائد کیاجائے گا، تو عوام کی اکثریت نے عافیت اسی میں محسوس کی کہ سیدھے سادھے انداز میں نکاح و ولیمے کی تقاریب منعقدکرلی جائیں؛تاکہ حکومتی بازپرس کاسامنا نہ کرنا پڑے۔
خودہمارے قرب وجواراوردوست واحباب کے درمیان نکاح کے ایسے خوشگوارواقعات پیش آئے جن میں دولہے کے ساتھ چند افراد لڑکی والوں کے گھرگئے اور نہایت سادگی کے ساتھ نکاح کی سنت کو تکمیل تک پہونچاآئے۔ دوسری طرف ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں رہی جنہوں نے 4-5 افراد کی موجودگی میں نکاح تو پڑھوا لیا؛مگر لڑکی والوں سے جہیز کے ساتھ ساتھ نقد رقم وصول کرنے میں کوئی شرم وعار محسوس نہیں کی۔
نکاح قانون فطرت ہے:
نکاح آسانی کے ساتھ پوری ہونے والی ایک فطری ضرورت ہے؛جس پربے جا خواہشات کا بوجھ لادھ کرمعاشرے میں مشکل ترین بنادیاگیاہے۔ اللہ نے انسان کوپیدا فرماکر اسے دو جنسوں (مرد عورت) میں تقسیم فرمایا اور دونوں میں ایک دوسرے کے لیے طبعی میلان پیدا کیا،تاکہ یہ میلان دونوں کو ایک دوسرے سے قریب کردے اور یہ قربت نسل انسانی کے فروغ کا ذریعہ بن سکے۔ مرد عورت دونوں ایک دوسرے کے بغیرزندگی نہیں گزار سکتے۔اللہ پاک نے ان میں ایسا فطری جذبہ رکھا ہے جو ان کو ایک ہونے پر مجبور کرتا ہے اور یہ جوڑا آپ ہی آپ خاندان،معاشرے اور آبادی کا ایک حصہ بن جاتا ہے۔پھرخالق ہستی نے یہ فطری میلان کسی مخصوص خطے یا کسی خاص مخلوق میں پیدا نہیں کیا؛بلکہ تمام مخلوقات میں پیدا فرمایا جن میں انبیاء جیسی مقدس ہستیاں،صحابہ، تابعین،ائمہ، صوفیاء، بزرگان دین، علماء، مسلم غیر مسلم، چوپائے، چرند پرند،درندے اور سمندری مخلوقات سب شامل ہیں۔ مرد عورت کا ایک دوسرے کی جانب میلان کوئی اچھنبے کی بات نہیں؛ بلکہ عین فطری عمل ہے،اسلام نے اس معاملے میں یکسر پابندی نہیں لگائی۔اگر ایسا ہوتا تو اسلام اور فطرت کا آپس میں تضادہوجاتا،حالانکہ اسلام مکمل فطری تعلیمات پر مشتمل دین ہے اور ان تمام امور کی تائید کرتا ہے جو فطرت کو مد نظررکھتے ہوں اور اپنے ماننے والوں سے کوئی ایسا مطالبہ نہیں کرتا جس سے فطری ضروریات کو کچلنا لازم آتا ہو۔ یقیناً فطری جذبات کو مسترد کرنا کبھی خیر کا ذریعہ نہیں بن سکتا،جب کبھی ایسی کوشش کی گئی تو اس کا بدترین ردعمل دیکھنے میں آیا۔
ٍ امام غزالیؒ احیاء العلوم میں فرماتے ہیں کہ نکاح ایک متقی پرہیز گار اور مناجات میں مصروف شخص کے لیے بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا کسی اور کے لیے؛کیونکہ فتنے کا شکار ہونے کی حیثیت سے دونوں برابر ہیں۔ شیطان جس کا کام '' یوسوس فی صدور الناس ''ہے،وہ ہمیشہ شیطانی خیالات کے ذریعے بہلاتا رہتا ہے،اور ان خیالات سے نماز جیسی عبادت میں بھی مفر نہیں۔امام احمد بن حنبلؒکے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے اپنی اہلیہ کی وفات کے دوسرے ہی روز نکاح فرمالیا تھا، یقینا امام صاحب پاکیزہ دل دماغ کے حامل نیک سیرت انسان تھے؛ لیکن شیطانی وساوس سے بچاؤ کا سامان کرنا بہرحال ایک سنت ہے، جس کی بناپر عبادات اور معمولات میں یکسوئی آجاتی ہے۔
تقریبات میں اعتدال:
خوشی کے مواقع پر اعتدال کے ساتھ خوشی منانے پر شریعت نے کوئی پابندی نہیں لگائی اور کیونکر لگائے گی؛جب کہ اسلام’’افراط و تفریط سے پاک ایک اعتدال پسند دین ہے؛جو ہر چیز میں میانہ روی کو پسند کرتا ہے، اسلامی نظام کوئی بے نور اورخشک نظام نہیں؛ جس میں تفریحِ طبع کی کوئی گنجائش نہ ہو؛ بلکہ وہ فطرتِ انسانی سے ہم آہنگ اور فطری مقاصد کو رو بہ عمل لانے والاکامل دین ہے۔ اس میں نہ تو خود ساختہ ”رہبانیت وعزلت گزینی“ کی گنجائش ہے، نہ ہی بے کیف و بے ہنگم زندگی بسر کرنے کی اجازت۔
خوشی و مسرت کے موقع پر جائزحدود و قیود میں رہتے ہوئے تقریب منعقدکرنا اسلام میں جائز و مستحسن ہے؛ایسی تقریب جو سنت سے ثابت ہو، اسلاف سے منقول ہو،جس میں کسی کی دل آزاری نہ ہو،کسی کے ساتھ ظلم وناانصانی نہ ہو،بے جاتکلفات نہ ہو، غیرمعمولی اخراجات نہ ہو،مختلف رسوم و رواج نہ ہو؛بل کہ فرائض و واجبات کا التزام،حقوق و آداب کا اہتمام اورایک دوسرے کامکمل احترام ہو۔
نکاح میں سادگی کے نمونے:
ہمارے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شادیاں، آپﷺ کی پیاری بیٹیوں کا نکاح اور صحابہ کرام کا نکاح نمونہ ہے۔ رسول اللہﷺ نے اپنی چار صاحب زادیوں کی شادی کی، ان میں سے ام کلثوم اور حضرت رقیہ کو کسی قسم کا جہیز دینا ثابت نہیں ہے، البتہ حضرت زینب کو حضرت خدیجہ نے اپناایک ہار دیا تھا، جو جنگ بدرمیں حضرت زینب نے اپنے شوہر ابو العاص بن ربیع کو چھڑوانے کے لیے بطور فدیہ بھجوایا تھا، جسے رسول اللہﷺنے صحابہ کرام سے مشورہ کے بعد واپس بھجوایا۔ حضرت فاطمہؓ کو حضرت علیؓ نے مہر میں ایک ڈھال دی تھی، جسے فروخت کرکے رسول ﷺ نے حضرت فاطمہ کو گھر کا ضروری سامان پانی کا مشک، تکیہ اور چادر بنوا کردیا۔
حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا شمار چوٹی کے مالدار صحابہ ؓ میں ہوتا تھا، دولت ان پر برستی تھی، مکے سے خالی ہاتھ آئے تھے؛ لیکن جب ان کے انصاری بھائی حضرت سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ نے اپنا نصف مال ان کو پیش کیا تو انہوں نے ان کی اس پیشکش کو قبول کرنے سے معذرت کر لی اور دعا دیتے ہوئے کہا کہ مجھے بازار کا راستہ بتا دیجئے۔ یوں انہوں نے مدینہ منورہ میں تجارت کا آغاز کیا جو کہ بعد ازاں اتنی وسعت اختیار کر گئی کہ ان کا تجارتی مال سینکڑوں اونٹوں پر لد کر باہر جاتا اور اسی طرح باہر سے آتا۔ تجارت کے علاوہ زراعت بھی وسیع پیمانے پر کیا کرتے تھے۔ حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ دولت کے ساتھ ساتھ دل کے بھی غنی تھے۔ اپنی دولت راہ خدا میں بے دریغ خرچ فرمایا کرتے تھے۔ ابن اثیر کے مطابق حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دو بار چالیس چالیس ہزار دینار راہ خدا میں وقف کئے۔ ایک مرتبہ جہاد کے موقع پر پانچ سو گھوڑے اور پانچ سو اونٹ حاضر کئے۔ سورۃ براء ۃ کے نزول کے موقع پر چار ہزار درہم پیش کئے۔ ایک مرتبہ اپنی ایک زمین چالیس ہزار دینا ر میں فروخت کی اور یہ ساری رقم فقراء، اہل حاجت اور امہات المؤمنین میں تقسیم کر دی۔ ایک مرتبہ شام سے تجارتی قافلہ لوٹنے پر رسول اکرم ﷺ کا یہ قول سنا کہ عبد الرحمٰن ابن عوف ؓ جنت میں گھسٹتے ہوئے داخل ہوں گے تو پورا قافلہ راہ خدا میں وقف کر دیا۔ ابن سعدؒ کے مطابق ایک مرتبہ حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی ایک زمین چالیس ہزار دینار میں فروخت کر کے ساری رقم امہات المؤمنین میں تقسیم کر دی۔ ایک اور موقع پر ایک زمین چالیس ہزار دینار میں حضرت عثمان غنی ؓ کو فروخت کر کے وہ رقم بھی راہ خدا میں وقف کر دی۔ اس کے علاوہ اپنی زندگی میں ہزاروں غلام اور لونڈیوں کوآزاد کیا۔
یہ حضرت عبد الرحمٰن بن عوف ؓ کی دولت کا سرسری جائزہ ہے، جس سے بخوبی ظاہر ہے کہ وہ اپنے وقت کے کروڑ پتی انسان تھے،اتنے بڑے رئیس نے اپنی تمام تر دولت و ثروت کے باوجود نکاح کیا تو اتنی سادگی سے کہ نبی اکرم ﷺ کو بھی اطلاع نہ ہوئی۔
مشہور صحابی اور بارگاہِ رسالت کے خادمِ خاص سَیِّدنا ربیعہ بن کَعب اسلمیؓفرماتے ہیں: میں رسولُ اللہﷺکی خدمت میں رہا کرتا تھا، ایک مرتبہ رسولِ کریمﷺ نے مجھ سے ارشاد فرمایا: تم نکاح کیوں نہیں کرتے؟میں نے عرض کیا: ایک تو یہ کہ میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے، دوسرا یہ کہ مجھے یہ پسند نہیں کہ کوئی چیز آپ کی خدمت گُزاری میں رُکاوٹ کا سبب بنے۔ آپ صَلی اللہ علیہ وسلم نے خاموشی اختیار فرمائی۔ (کچھ عرصہ بعد) پھر وہی سوال کیا۔ میں نے بھی جواب میں وہی بات عرض کردی۔ میں نے سوچا کہ حضورِ اکرم صَلی اللہ علیہ وسلم خوب جانتے ہیں کہ دُنیا و آخرت میں میرے لئے کون سی چیز بہتر ہے؛لہٰذا اگر اب کی بار رسولِ کریم ﷺنے یہی ارشاد فرمایا تو میں ضرور نکاح کر لوں گا۔ چنانچہ، جب تیسری بارآپ نے ارشاد فرمایا: تم نکاح کیوں نہیں کرتے؟تومیں نے عرض کیا: یارسول اللہ! آپ جس سے چاہیں میرا نکاح فرمادیں!آپ ﷺ نے مجھے انصار کے ایک قبیلے کے پاس بھیجا کہ اُن سے جا کر کہنا، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اِس لئے بھیجا ہے کہ تم اپنے خاندان کی فلاں لڑکی سے میرا نکاح کردو۔ چنانچہ میں نے جاکر اُنہیں یہ پیغام سُنایا تو انہوں نے خوش آمدید کہا اور میری بہت عزّت کی اور میری شادی کردی، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ علیہ وسلم نے صحابہئ کرام ؓکے ذریعہ ادائیگیِ مہر کے لیے گٹھلی بھر سونے کا اور ولیمہ کے لیے ایک فربہ مینڈھے کا انتظام بھی فرمادیا۔ (مسند احمد)
نکاح میں سادگی کے حوالے سے عہدنبوی کے یہ زریں واقعات ہمارے لیے بہترین نمونہ ہیں،بہ شرطیکہ ہم سچے ایمان والے اور رسول اللہﷺکی سنتوں کے متبع ہوں۔
خلاصہئ کلام:
مختصریہ کہ ہم ان سیدھی سادھی مختصر تقریبات کو محض چند ماہ کی وقتی مجبوری سمجھنے اور بارخاطر کے ساتھ انہیں انجام دینے کے بجائے نبی پاکﷺکی سنت اور حکم شریعت سمجھ کرخوش دلی کے ساتھ انجام دینے کی کوشش کریں۔بالخصوص آپﷺکے ان دو ارشادات کو پیش نظر رکھیں!
۱)بلاشبہ سب سے بابرکت نکاح وہ ہے؛جس میں مشکلات و مصارف کم سے کم اور آسانیاں زیادہ سے زیادہ ہوں۔(نیل الاوطار)
۲)سب سے بابرکت خاتون وہ ہے؛جس کا مہراداکرنے کے اعتبار سے آسان ہو۔(مستدرک حاکم)
چناں چہ کچھ مدت کے بعد جب وبائی مرض تھم جائے گا توحکومتی پابندیاں بھی ختم ہو جائیں گی؛ مگر ہم تہیا کرلیں کہ چاہے جو ہوجائے شریعت و سنت کے مطابق اپنی تقاریب منعقد کریں گے، بے جا اسراف وفضول خرچی سے اجتناب کریں گے،رسوم و رواج کے بندھنوں سے خود کو آزاد کریں گے اورلڑکی والوں پر کسی بھی قسم کا کوئی بوجھ نہیں ڈالیں گے۔حق تعالی ہمیں توفیق عمل نصیب فرمائے۔آمین
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
02جولائی ۲۰۲۰
جواب دیں