لو سنبھالو اپنی دنیا ہم چلے

 

از: عبدالمستعان ابو حسینا

موت ایک تلخ حقیقت ہے، جس سے کسی بھی شئ کو مفر نہیں، ہر ایک کا وقت متعین ہے، نہ مالدار و غریب میں تفریق،نہ چھوٹوں اور بڑوں میں تفریق،نہ مرد و عورت میں تفریق،ہر ایک کو موت کا مزہ چکھنا ہے،اس فانی زندگی سے ابدی زندگی کی طرف کوچ کرنا ہے، مگر حیف انسان دنیا کی رنگرلیوں میں رنگ گیا ہے، اور عقبی بھلا بیٹھا ہے جب اسکا وقت موعود آجاتا ہے تو سب دھرا رہ جاتا ہے،کیا مال و دولت کیا جاہ و منصب سب ہوا ہو جاتا ہے

‌ختم ہوجائیں گے سب تکیے بھروسے ایک دن
‌اک  فقط  حسن  عمل  کا  آسرا  رہ  جائے  گا

اس گھڑی کا خوف لازم ہے کہ انور جس گھڑی
دھر لیے جائیں گے سب اور سب دھرا رہ جائے گا

‌ ماں کا دلارا، والد کی آنکھوں کا تارا،بہنوں کا چہیتا،دوستوں کا غمخوار، بڑوں کا پاسدار،چھوٹوں پر مشفق، اسلام کا داعی مولوی نقیب کی موت کی خبر نے دل دہلا دیا، رونگٹے کھڑے کر دئیے، جی گھبرا رہا ہے،اشک رواں ہیں،دست لرزاں ہیں،، اعضاء جواب دے رہے ہیں، دل اللہ سے مخاطب ہے کہ:ہائے اللہ ایک خوبصورت پھول جو صحیح سے کھل بھی نہ سکا، اس نے گویا ابھی آنکھیں کھولی بھی نہ تھی، چمن ہست و بود میں اسکی مہک ابھی شروع  بھی نہیں ہوئی تھی، اور وہ پژمردہ ہو گیا؟  اس کی مہک کی یہی انتہا تھی؟ اسکا رنگ اتنی جلدی پھیکا پڑ گیا؟ ابھی اسے مہکنا تھا، دنیا کو معطر کرنا تھا۔ ابھی اسے اور اڑان بھرنی تھی، زمانہ کو علم کی روشنی سے منور کرنا تھا، اور اچانک اسکی روشنی ماند پڑگئی؟ جواب نہیں آیا، اور جواب روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ جو اس دنیا میں قدم رکھے گا اس کو خالق کائنات، مالک کل کی طرف لوٹنا ہے، اور اسکا ایک وقت مقرر ہے جس میں تقدیم و تاخیر کی کوئی گنجائش نہیں۔

ساتھیوں کی زبانی:- اب کہاں وہ رونقیں، کہاں وہ ہنسی خوشی کا ماحول،کہاں وہ نور و نکہت، کہاں وہ طنز و مزاح کی مجلسیں جس کے یہ روح رواں تھے۔ دل تڑپ رہے ہیں،آنکھیں اشکبار ہیں،زبانیں لڑکھڑا رہی ہیں، مگر کریں تو کیا؟ صبرکا دامن تھامے ہوئے ہیں اور دعاؤوں کی سوغات لیے کھڑے ہیں اور یہی ہمارے شایان شان ہے۔

ہماری آشفتگی کجا؟ والدین پر کونسا غم کا پہاڑ ٹوٹا ہوگا؟ 
  انکی دنیا اجڑ گئی، کائنات لٹ گئی،انکا انمول ہیرا بک گیا،  چین و سکون غارت ہوگیا،
انکے ارمانوں کا گلا گھٹ گیا، انکی تمنائیں بہہ گئیں،
انھوں نے اپنے جگر گوشے کو دینی تعلیم کے سپرد کیا،کیا خواب سجائے ہونگے، کیا ارمان دل میں پلے ہونگے، میرا لخت جگر تعلیم کے سائے میں دنیا میں ستارے کی مانند چمکے گا، قال اللہ اور قال الرسول کی صدائیں بلند کریگا، لوگوں کو دوزخ سے جنت کی طرف لے آئے گا مگر آہ! خود راہیِ جنت ہوگیا،ہمیں سسکتا چھوڑ جان جاں آفریں کے سپرد کردی۔

        بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
       اک  شخص  سارے  شہر  کو  ویران  کر  گیا

«
»

اللّٰہ کے نزدیک ناپسندیدہ لوگ

مقصد کے تعین کے بغیر اجتماعیت اور اجتماعیت کے بغیر کامیابی کا تصور نہیں کیا جاسکتا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے