لالو خاندان کی آہیں برباد نہیں جائیں گی

حفیظ نعمانی

ہمارا کالم پڑھنے والوں کو یاد ہوگا کہ ہم نے بار بار لکھا ہے کہ اس وقت سیاسی سماج میں عظیم یادو لیڈر لالو یادو سے زیادہ سیکولر کوئی نہیں ہے اور وہ اس وقت جیل میں صرف اس لئے ہیں کہ وہ سب سے بڑے سیکولر لیڈر اور انصاف پسند ہیں۔ وزیراعظم نریندر مودی جیسے ہیں اس کی وضاحت کی ضرورت نہیں، انہیں اس کا خطرہ نہیں تھا کہ کسی موقع پر لالو یادو انہیں مقابلہ میں ہرا دیں گے بلکہ وہ یہ بھی برداشت نہیں کرپاتے تھے جو 2015 ء کے الیکشن میں کچھ نہ ہوتے ہوئے بھی انہوں نے مودی جی کے ساتھ کیا۔ یہ صرف ان کی شخصیت تھی کہ جو کانگریس بہار میں صاف ہوچکی تھی اسے 25 سیٹوں پر کامیاب کراکے اس میں جان ڈال دی۔
یہ بات کسے یاد نہیں ہوگی کہ 2014 ء کے الیکشن میں نریندر مودی جگہ جگہ تقریروں میں کہتے تھے کہ میں بھارت کو کانگریس مکت بناؤں گا اور ان کی تقریر کو مدلل بنانے کے لئے اس زمانہ کے آڈیٹر جنرل ونود رائے نے حکومت کے من مانے اور بے ضرورت اخراجات کی رپورٹوں کے بنڈل ٹرکوں میں بھر بھرکر دور سے دکھائے تھے اور دور بیٹھے ہم جیسے بے تعلق حیران تھے کہ حکومت کو اے سی اے جی نے ننگا کردیا۔ یہ تو حکومت بدلنے کے بعد معلوم ہوا کہ ونود رائے بی جے پی کی شطرنج کا مہرہ تھے جو منموہن حکومت کو بدنام کرنے کے لئے ایکٹنگ کررہے تھے۔ اس کی عریاں تصویر تو اس وقت سامنے آئی جب وزیراعظم نے سی بی آئی سے ایسے تمام اخراجات کی پاداش میں سونیا گاندھی، راہل گاندھی اور ڈاکٹر منموہن سنگھ کو گھیرنا چاہا تو سی بی آئی اور اس کے خصوصی جج نے اعتراف کیا کہ ؂ ’خواب تھا جو کچھ بھی دیکھا جو سنا افسانہ تھا‘ اور یہ ہے جج اور سی بی آئی کا وہ اعتراف جس نے مودی جی کے 56 اِنچ کے سینے کو 46 اِنچ کا بنا دیا اور راہل گاندھی کی رگوں میں چار بوتل خون چڑھا دیا۔
اندرا گاندھی اپنے مخالف کے بارے میں اتنی سخت تھیں کہ جب چودھری چرن سنگھ کے اصرار پر بہوگنا جی، راج نرائن کو راجیہ سبھا کی رُکنیت کا الیکشن لڑنے کے لئے کھلی ووٹنگ کی اجازت دے دی تو بہوگنا جی کو وزیراعلیٰ کی کرسی سے اتار دیا۔ انہوں نے راج نرائن کو لالو یادو کی طرح جیل میں نہیں ڈالا۔ لیکن نریندر مودی ان کی مخالفت برداشت نہیں کرپائے اور اس چارہ گھوٹالے میں جس کا انکشاف خود لالو یادو نے کیا تھا ان کو ہی اپنے سی بی آئی والوں سے مجرم بنوا دیا۔ یہ بات لالو کے لئے فخر کی ہے اور وزیراعظم کے لئے شرم سے معافی مانگنے کی کہ پورا بہار یہ سمجھ رہا تھا کہ وزیراعظم نے بدلہ لیا ہے۔ اگر یہ بھانڈا اس وقت پھوٹتا جب مودی وزیراعظم نہ رہتے تو اس کی کوئی حیثیت نہ ہوتی لیکن پروردگار کو ہر اس مجرم کو ذلیل کرنا تھا جس نے اس پھول کی طرح خوشبودار لیڈر کو بدنام کرنے کا جرم کیا ہے اور یہ اس کا ہی نتیجہ ہے کہ سی بی آئی ڈائرکٹر آلوک ورما نے صاف صاف کہا ہے کہ لالو یادو کے خلاف کیس بنانے میں وزیراعظم آفس کا ایک بڑا افسر اور سی بی آئی افسر راکیش استھانہ بہار کے سوشیل مودی اور نتیش کمار برابر کے مجرم ہیں۔ ایک وزیراعظم کے لئے یہ کتنی چھوٹی بات ہے اسے کون نہیں جانتا۔
ہم گونگے نہیں ہیں جب صحت اس قابل تھی تو دن میں دس دس تقریریں بھی کی ہیں۔ اور یاد نہیں کہ جو بات ایک تقریر میں کہی ہو اُسے دوسری تقریر میں بھی دہرایا ہو۔ 2017 ء سے آج تک مودی جی ایک ہی تقریر کررہے ہیں کہ کانگریس نے 50 سال میں کیا کیا۔ یہ تمام باتیں حکومت سے پہلے وہ کہتے رہے ہیں اور حکومت بنتے ہی کہنا شروع کیا کہ جو 50 سال میں نہیں ہوا وہ ہم نے دو سال میں کردیا۔ 2018 ء میں لوک سبھا الیکشن تک انہیں صرف یہ بتانا چاہئے تھا کہ انہوں نے حکومت بنانے سے پہلے کیا کیا کہا تھا ان میں سے کیا کیا کردیا؟ جن کی وجہ سے ہر ہندوستانی کا چہرہ پھول کی طرح کھلا ہے۔ مثال کے طور پر اگر پیٹرول ڈیزل 50 روپئے لیٹر گیس سلنڈر 500/- روپئے اور ڈالر 60 روپئے میں مل رہا ہوتا الیکشن میں جلوس نکالنے اور کرسیاں بچھانے کے لئے نوجوان اس لئے نہ ملتے کہ سب یا نوکری پر گئے ہوتے یا کاروبار کررہے ہوتے اور یا پڑھ رہے ہوتے اور وہ سارے وعدے جو نریندر مودی نے کئے تھے ان میں سے چوتھائی بھی پورے کردیئے ہوتے تو ان کی تقریر کا موضوع ہی دوسرا ہوتا آج ساڑھے چار سال مسلسل حکومت کرکے پھر وہی کہہ رہے ہیں کہ اگر کانگریس نے اپنے 50 سال کی حکومت میں کسانوں کو پانی پہونچایا ہوتا تو ان کی آنکھوں میں آنسو نہ آتے۔ اب ان سے کون کہے کہ آپ نے اگر ساڑھے چار سال میں تالاب بنائے یا کنوئیں کھود دیئے ہوتے۔ اور اپنے کہنے کے مطابق گجرات ماڈل ہر صوبہ کو بنایا ہوتا جس کے بارے میں آپ کہتے تھے کہ گھر گھر بجلی اور کھیت کھیت پانی تو ہر کسان ہنس رہا ہوتا اور ووٹ مانگنے کہیں نہ جانا ہوتا اور نہ الیکشن کمیشن کو مجبور کرنا پڑتا کہ پانچ صوبوں کا الیکشن ایک مہینہ میں کرائے تاکہ وزیراعظم کو ہر محلہ اور ہر گاؤں میں کانگریس کو گالیاں دینے کا موقع مل جائے۔
جب ٹی وی کھولئے وزیراعظم تقریر کرتے نظر آتے ہیں اور ہر اخبار میں کسی نہ کسی صفحہ پر ان کی گالیاں پڑھنی پڑتی ہیں۔ سارا ملک کہہ رہا ہے کہ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی نے دوسروں کی 71 سال کی محنت برباد کردی خود مودی جی بھی دیکھ اور سمجھ رہے ہیں کہ تاریخ میں انہیں ناکام وزیراعظم لکھا جائے گا۔ اب اگر اسے چوری اور سینہ زوری نہ کہیں تو کیا کہیں کہ کہہ رہے ہیں کہ نوٹ بندی سے صرف سونیا اور راہل کو تکلیف ہوئی ہے باقی سب خوش ہیں۔ وزیراعظم نے تو نوجوانوں کو پکوڑے بناکر بیچنے کا مشورہ دیا تھا اور وہ جو پارٹی کے صدر ہیں انہوں نے کہا کہ ہم نے نوکری نہیں جاب کہا تھا۔ اور جاب دے دیا یہ الگ بات ہے کہ نہ کسی نے ان سے نوکری مانگی تھی نہ ان کی پارٹی سے باہر کوئی حیثیت ہے۔
جو لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ سیمی فائنل ہے ہمارے نزدیک وہ غلط اندازہ کررہے ہیں ہم سمجھتے ہیں کہ ان ریاستوں کے بعد لوگ یہ فیصلہ کریں گے کہ کیسی حکومت بنوائی جائے؟ اور یہ فیصلہ اس وقت ہوگا جب حکومت رام مندر کے مسئلہ میں کسی نتیجہ پر پہونچ جائے گی۔ اسے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ سپریم کورٹ سب سے اوپر ہے یا حکومت، مودی جی اگر سپریم کورٹ کو نظرانداز کردیں گے تو دنیا میں ان کی کیا حیثیت رہے گی؟ اور اگر اس کا احترام کرکے اپنے سماج کو منانے میں کامیاب ہوجائیں گے تو ملک میں کیا حیثیت رہے گی۔ یعنی گیند مودی کے پالے میں ہے اور وہ مراقبہ میں ہیں

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے )
21نومبر2018(ادارہ فکروخبر)

«
»

تیرے حسن خلق کی ایک رمق میری زندگی میں نہ مل سکی

ملک کی تقسیم کا ذمہ دار کون

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے