میرا جواب تھا ’اس بات پر غورتونہیں کیا‘فرمانے لگے ’یہ مسلم حکمرانوں کے آثارہیں،وہ ہندوستان کو عظیم الشان عمارتیں،قلعے اور فنِ تعمیر کی شاہکار عمارتیں دے کر مالامال کرگئے ہیں،آج مودی ایک مسلم حکمراں کے بنائے گئے قلعے سے تقریر کرکے اپنی شان وشوکت بھی بڑھا رہے ہیں اور اپنی حکومت کی شان وشوکت بھی اورسامنے نظرآتے جامع مسجدکے مینارے اورگنبدساری دنیا کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ ہندوستان میں تمام ہی مذاہب کے لوگوں کے لیے یکساں جگہ ہے،پھر بھلاکیوں مودی سرکار میں مسلم دشمنی کی باتیں ہو رہی ہیں؟‘
میرے پاس اس سوال کا جواب نہیں تھا اس لیے میں خاموش رہا۔اس سوال کا جواب شاید مودی کے پاس بھی نہیں تھا اسی لیے انہوں نے اپنی پوری تقریر میں کہیں ایک جگہ بھی نہ لفظ’مسلم‘استعمال کیا اور نہ ہی اُن افرادکے تعلق سے کوئی بات اپنی زبان سے نکالی جو اِدھر ایک عرصے سے مسلم دشمنی میں تمام حدیں پار کرتے نظر آرہے ہیں۔
ٹہرئیے !مودی کی تقریر کاجائزہ اور تجزیہ کچھ دیر بعد ‘پہلے بات لال قلعے کی کرلی جائے۔
خبر تھی کہ مودی یومِ آزادی پرلال قلعے کی فصیل سے خطاب نہیں کریں گے۔اخبارات شور مچا رہے تھے۔کہا جا رہا تھا کہ مودی صرف نہروگاندھی خاندان ہی نہیں مغلیہ دور کی روایات سے بھی چھٹکارہ حاصل کرنے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔لیکن مذکورہ خبر نصف ہی سچ ثابت ہوئی،مودی نے نہروگاندھی خاندان کی روایات سے توچھٹکارہ پالیامگر خطاب لال قلعے کی فصیل سے ہی کیا۔لال قلعے سے مودی کی دلچسپی قدیم ہے۔ٹھیک ایک سال قبل گجرات کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے انہوں نے بھج شہرمیں ایک مصنوعی لال قلعہ بنوا کر اس کی فصیل سے خطاب کیا تھا۔ان کامقصدیہ پیغام دینا تھا کہ وہ جلد ہی اصلی لال قلعے کی فصیل سے بھی خطاب کریں گے۔ٹھیک ایک سال بعد مودی کا خواب پورا ہوا ‘انہوں نے لال قلعے کی فصیل سے خطاب کیا۔لال قلعے سے خطاب کرنا مودی کی مجبوری نہیں تھی بلکہ یہ ایک ایسی روایت کی تجدید تھی جس کے سواان کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا۔دہلی کی چاہے جس عمارت سے وہ یومِ آزادی کی تقریر کرلیتے وہ شان وشوکت جولال قلعے کی فصیل سے تقریرکرنے کی ہے نہ انہیں حاصل ہو پاتی اور نہ ہی ان کی حکومت کو۔لال قلعہ مغل فرمانرواشاہ جہاں کاہندو ستان کو دیا ہوا ایک ایسا تحفہ ہے جو یومِ آزادی کے حوالے سے ملک کی شناخت بن چکا ہے۔ویسے اس ملک میں جو بھی مسلم آثار ہیں وہ ملک کے لیے ایک شناخت کی ہی حیثیت رکھتے ہیں۔تاج محل،ہمایوں کامقبرہ،آگرہ کا قلعہ،لکھنؤ کی بھول بھلیاں اورامام باڑے،حیدرآباد کی شاہی مسجدیں اورملک بھر میں پھیلے ہوئے صوفیائے کرام کی زیارت گاہیں ۔یہ وہ عمارتیں ہیں جوملک کی گنگا جمنی تہذیب کی نمائندہ ہیں‘ان کے دروازے سب کے لیے کھلے ہوئے ہیں۔بیرون ملکوں میں ان آثار کے حوالے سے ہندوستان کا نام لیاجاتاہے۔مسلمانوں نے اگر ہندوستان پر حکومت کی ہے توہندوستان کو بہت کچھ دیا بھی ہے۔تعمیراتی،تہذیبی،ثقافتی اورسماجی ہرطور پر اسے مالامال کیاہے۔ان آثار سے چھٹکارانہ آسان ہے اور نہ ہی ممکن ہے۔وزیراعظم مودی کو یقیناًان آثار کی اہمیت کا احساس ہوگا جب ہی توانہوں نے لال قلعے کی فصیل سے تقریر نہ کرنے والی خبروں کو وہیں سے تقریر کر کے رد کردیا۔مگر شاید انہیں یہ احساس نہیں ہے کہ یہ آثار اس ملک کومسلمانوں کی دین ہیں اورشاید اسی لیے انہوں نے اپنی تقریر میں لفظ’مسلم‘کا ایک بار بھی استعمال نہیں کیا۔
یومِ آزادی کی وزیر اعظم کی تقریر ’خراب ‘نہیں تھی
مودی نے ملک کو ترقی کی دوڑمیںآگے لے جانے کی بات کی‘انہوں نے Nation Buildingکی بات کی‘انہوں نے جنسی تفریق کے خلاف جم کر بات کی‘انہوں نے ’پلاننگ کمیشن‘کوتحلیل کرکے اس کی جگہ ایسے ادارے کے قیام کا ذکر کیا جو بنائے گئے منصوبوں کی تکمیل کے لیے واقعی سرگرم ہوگا،انہوں نے بے روزگاری اور غربت سے لڑنے کا نعرہ لگایا،انہوں نے اپنی تقریر میں شاستری،پٹیل اور جئے پرکاش نارائن کے نام لے کر اورنہرو گاندھی خاندان کے کسی بھی فرد کا نام نہ لے کر یہ واضح پیغام دیا کہ وہ گذشتہ حکومتوں کی پالیسیوں کو رد کر رہے ہیں ،انہوں نے ماؤوادیوں کوہل اٹھانے اور تشددچھوڑنے کی تبلیغ کی،انہوں نے یہ بھی کہاکہ وہ ’پردھان منتری‘نہیں’پردھان سیوک‘ہیں،انہوں نے ’بہومت(اکثریت)سے نہیں سہمتی(اتفاقِ رائے)سے حکومت کرنے کی بات کی‘انہوں نے ذات پات،علاقائیت اور فرقہ واریت کی بنیادوں پرمار کاٹ کو روکنے کی اپیل بھی کی،ان کے جملے ہیں’’دس برسوں کے لیے یہ سب بھول جائیں‘‘لیکن انہوں نے اقلیتوں بشمول مسلم اقلیت کو بھروسہ نہیں دلایاکہ ’آپ سب ہندوستان میں محفوظ رہیں گے‘نہ ہی انہوں نے یہ بھروسہ دلایا’آپ کے آثار،آپ کی عبادت گاہیں اورآپ کی جان،مال ،جائیداد،املاک اور عزت وآبروکومیری حکومت میں کسی سے بھی کوئی خطرہ نہیں رہے گا۔‘
نیشن بلڈنگ یعنی قوم سازی میں تمام اقلیتوں کاحصہ ہے۔مسلمانوں کا بھی حصہ ہے۔مسلمانوں نے صرف عالیشان عمارتیں ہی نہیں بنوائی ہیں انگریزوں سے آزادی کی جنگ لڑکر اور اپنی جانوں کی قربانیاں دے کر اس ملک کی زمین کو اپنے لہوسے سیراب بھی کیاہے۔محنت کر کے اپنے علاقے،شہر اورملک کی تعمیر اورترقی میں بھرپورحصہ بھی لیاہے۔لیکن آج صورتحال یہ ہے کہ اسے’ہم دیکھ لیں گے‘کی دھمکی دی جا رہی ہے!
یومِ آزادی کے ایک روزبعد جب صبح کے اخبارات وزیر اعظم مودی کے خطاب کے جملوں کی شہ سرخیوں سے اورخطاب پر ماہرین کی آراء اور تبصروں وتجزیے سے بھرے ہوئے تھے تب ایک خبر اور شائع ہوئی تھی جو مودی کے اس جمہوری ملک میں جمہوری نظام کے بے اثرہونے کو پوری شدت سے اجاگر کر رہی تھی۔خبر وزیر اعظم کے صوبے گجرات کی تھی۔خبر کیا تھی آپ سرخی پڑھ کر اندازہ لگا لیں:’سہراب الدین فرضی انکاؤنٹر معاملہ۔۔۔ملزم پولس افسر بحال‘۔جس ملزم کی بات مذکورہ سرخی میں کی جا رہی ہے وہ آئی پی ایس افسر ابھئے چڈاسماہے،سہراب الدین فرضی انکاؤنٹر معاملے کا کلیدی ملزم۔۔۔گذشتہ چار برسوں سے وہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے تھا مگر اسے بحال کرکے آزادی کا تحفہ دیاگیا۔اس سے قبل عشرت جہاں فرضی انکاؤنٹرمعاملے کے ایک ملزم پولس افسر جی ایل سنگھل کی بحالی عمل میں آچکی ہے۔گجرات کے 2002کے مسلم کش فسادا ت کی ایک خاتون مجرم مایا کوڈنانی کو ضمانت مل چکی ہے۔ایک دوسرے مجرم بابوبجرنگی کو بھی عارضی ضمانت حاصل ہو چکی ہے۔مودی نے اپنی تقریر میں نہ فرضی انکاؤنٹروں کا معاملہ اٹھایا اور نہ ہی انہوں نے اقلیتوں کو یہ بھروسہ اوریقین دہانی دلائی کہ اب آئندہ کوئی پولس افسرانکاؤنٹر کے نام پر انہیں قتل نہیں کر سکے گا۔نہ ہی مودی نے یہ یقین دہانی کرائی کہ ملزم پولس افسران کو سخت سزائیں دے کرمظلومین کے ساتھ انصاف کیا جائے گا۔
مودی نے عام لوگوں سے تشدد چھوڑنے کی درخواست کی،انہوں نے عام ہندوستانیوں سے علاقائیت اور فرقہ واریت کواٹھا کر طاق پررکھنے کی اپیل کی مگر جن سے یہ درخواست اور اپیل کرنا تھی ان سے نہیں کی۔وشوہندو پریشد کے صدر اور جنرل سکریٹری اشوک سنگھل اور پروین توگڑیا مسلم اقلیت کو’دیکھ لینے‘ کی دھمکی دے رہے ہیں۔کہا جا رہاہے کہ ایودھیا‘کاشی اورمتھرا کی مسجدوں سے مسلمان دستبردار ہو جائیں’ورنہ اچھا نہیں ہوگا۔‘بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ یوگی آدتیہ ناتھ پارلیمنٹ کے اندرکہہ رہے ہیں ’’اگرہندو توکو جوقوم پرستی کی علامت ہے یہ لوگ بدنام کرنے کی کوشش کریں گے توانہیں قیمت چکانا پڑے گی۔‘‘گوا کے وزیر اعلیٰ پاریکر کہہ رہے ہیں کہ’عرب ملکوں میں مسلمانوں کوبھی ہندو بولاجاتاہے‘مطلب یہ کہ یہاں کے مسلمان خود کو ہندوکہلائیں(وہ یہ نہیں جانتے کہ عرب’ہندو ‘نہیں ہندوستانیوں کو’ہندی‘کہتے ہیں) یکساں سول کوڈکے نفاذ کا چرچا ہے،کشمیر سے ہر طرح کی مراعات چھین لینے کی بات کی جا رہی ہے،دھمکی دی جا رہی ہے کہ گجرات کو بھولنے والے مظفرنگر کو یاد رکھیں ۔مودی کی زبان پر ان باتوں کاکوئی تذکرہ نہیں تھا!
اپنی حکومت کی شان وشوکت میں اضافہ کے لیے لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کرنے والے مودی کو یہ احساس کرنا ہوگا کہ مسلمان اس ملک کا جزولاینفک ہیں اور نہ آزاد ہندوستان میں ان کی آزادی چھیننااور نہ ہی ان پر قدغن لگانا ممکن ہے او رنہ ہی انہیں یہاں سے نکالنا ممکن ہے اور نہ ہی انہیں کھدیڑنا !ہاں انہیں ساتھ لے کر اس ملک کی تعمیر کے لیے ان کی خدمات کا حصول آسان بلکہ بے حدآسان ہے۔بس مودی کو یہ کرنا ہوگا کہ وہ اپنے وزراء اور بھاجپائی ویرقانی تنظیموں کے لیڈروں کے منہ پر لگام لگائیں،ان ایجنڈوں کو جو کسی بھی مذہب کے ماننے والے کے خلاف ہوں ہمیشہ کے لیے بھلا دیں اورجہاں جہاں بھی فرقہ پرست سرگرم ہوں وہاں وہاں دوستی،امن او ربھائی چارے کا پیغام دیں۔مسلمانوں سمیت تمام اقلیت کویہ احساس دلائیں کہ وہ واقعی ’آزاد‘ہیں پھرمودی دیکھیں گے کہ اس ملک میں محبت اور امن کے بے شمار لال قلعے کھڑے ہوجائیں گے،ایسے لال قلعے جن سے مودی اوران کے بعدکی آنے والی نسلیں بھی یومِ آزادی پر فخر سے خطاب کرسکیں گی۔
داعش: اگر یہ سچ ہے تو قابلِ مذمت ہے!
*شکیل رشید
پرتیش نندی ملک کے ایک مانے جانے اور سلجھے ہوئے صحافی ہیں۔حالانکہ سرگرم صحافت سے وہ عرصہ ہوا کنارہ کش ہو چکے ہیں مگر کالم نویسی کرتے ہیں اوران کے کالم مقبول بھی ہیں۔گذشتہ روز ان کا ایک کالم’خلافت‘سے متعلق تھا۔وہ بات ’داعش‘یا دوسرے لفظوں میں ’دولتِ اسلامیہ‘کی کر رہے تھے۔امریکی صدر بارک حسین اوبامہ کے ایک انٹرویو کے اس جملے کاکہ’امریکہ‘آئی ایس آئی ایس کے جنگجوؤں کو کسی بھی صورت میں خلافت قائم کرنے نہیں دے گا‘ وہ تجزیہ کر رہے تھے۔پرتیش نندی نے اپنے تجزیے میں کچھ باتیں تو درست کہیں مگراکثرباتیں درست نہیں تھیں۔مثلاً انہوں نے یہ درست بات کہی کہ’’دراصل صدراوبامہ یہ کہناچاہتے تھے کہ وہ آئی ایس آئی ایس کو خلافت کے قیام سے روکنے کے لیے ہر قدم اٹھائیں گے۔‘‘مگر ان کی یہ بات کہ ’خلافت قیام کے اس عظیم خواب کی حقیقت انتہا پسند ہندوؤں کے ’رام راجیہ‘کے نعرے سے زیادہ نہیں ہے جو صرف ماضی میں الجھے احمقوں کو متاثر کرتاہے ‘یا یہ بات کہ ’بدقسمت انسان جو سنگین مسائل سے دوچار ہے انہیں وہ آج بھی مذہب کی بنیاد پرکھڑی ماضی کی داستانوں کے ذریعے حل کرناچاہتا ہے‘صرف نصف درست ہے۔افلاطون اور سرتھامس مورکے تصورِ جمہوریت کو پرتیش نندی نے جو خلافت کے تصور سے اعلیٰ اور برتر بتلایا ہے اور جو یہ بات کہی ہے کہ خلافت کا تصور’سراب ‘ہے وہ بھی بس نصف ہی درست ہے۔ اوبامہ ہی کیوں سارا یوروپ اور امریکہ ’ خلافت‘ کے قیام کے تصور سے خوفزدہ ہے ۔ یہ صلیبی ایجنڈے کے عین خلاف ہے اور فی الحال سارا یوروپ وامریکہ ’صلیبی ایجنڈے‘ کی تکمیل ہی میں لگا ہوا ہے ۔ کسی کا یہ کہنا کہ ’خلافت‘ کے قیام کا تصور ’سراب‘ ہے مکمل طور پر درست نہیں ہے اور نہ ہی یہ بات درست ہے کہ جمہوریت کا تصور خلافت سے برتر تصور ہے ۔۔۔
اس دنیا نے خلافتیں دیکھی ہیں ، خلفائے راشدین کی خلافتیں جو خالص عوامی مفادات کے لئے وجود میں آئی تھیں ۔ امویوں ، عباسیوں اور خاطمیوں کی خلافتیں جن میں ’ ملوکیت‘درآئی تھی لیکن ’ملوکیت ‘ کے باوجود وہ ’غیر مسلموں‘ کے لئے نہ انتہا پسند تھیں اور نہ ہی ضررساں ۔ خلافتوں میں لوگوں نے فرہمی انصاف کی ایسی مثالیں دیکھی ہیں جن کا آج تصور نہیں کیا جاسکتا ۔ انصاف ،سب کو ان کے حقوق کی فراہمی ، سب کے لئے روزی روٹی کمانے کے مواقع اور سب کی جان ومال کی سلامتی ، خلافتوں کا عظیم الشان کارنامہ رہی ہیں ۔ جمہوریت میں چاہے وہ امریکہ کی ہو ، برطانیہ کی یا ہندوستان کی سب کیلئے انصاف کی فراہمی کا پیمانہ ہمیشہ غیر متوازن رہا ہے ۔۔۔ لیکن اگر آج دنیا ’ خلافت‘ کوشک وشبہے کی نظر سے دیکھ رہی ہے تو اس کی وجہ خود مسلمان ہیں ۔ ’داعش‘ کے جہادیوں کے ذریعے جس طرح یزدیوں ، عیسائیوں اور مجوسیوں کے قتل عام کی خبریں آرہی ہیں ان کا کسی خلافت میں تصور تک نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اللہ کے رسول حضرت محمدﷺ کی ہدایتوں پر خلفائے راشدینؓ اور بعد کے خلفاء نے پوری طرح عمل کیا کہ جنگ کے دوران بچوں ، عورتوں ، ضعیفوں اور نہتوں کو قتل نہ کیا جائے ، کسی دوسرے کی عبادت گاہ ، باغ اور ہرے کھیت تباہ نہ کئے جائیں ، غیروں کو مارا پیٹا نہ جائے نہ لوٹ پاٹ کی جائے ۔ اگر یہ خبریں کہ ’داعش‘ کے جنگجو یہ سب کررہے ہیں تو یہ سب حرکتیں غیر شرعی ہیں اور یہ بات قابل مذمت ہے اور ایسی ’خلافت‘ کی کسی کو کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ ۔۔۔ لیکن کیا ایسا واقعی ’داعش‘ کے ہاتھوں ہورہا ہے یا نہیں ، اس سوال کا سہی جواب ہمارے پاس نہیں ہے ۔ ممکن ہے کہ یہ امریکہ اور یورپ کا پروپگنڈہ ہوجیسا کہ اس کا عراق کے خلاف پروپگنڈہ تھا کہ اس کے پاس تباہی کے مہلک ہتھیار ہیں ۔ رہی یہ بات کہ امریکہ اور یورپ کو عراق کے یزدی ، مجوسی اور عیسائی اقلیت کی جانوں اور مالوں کے زیاں ہونے کی تشویش ہے تو یہ صرف دکھاوا ہے ۔۔۔ یہ ممالک ایسی شرپسند قوتیں ہیں جنہیں صرف اپنے مفادات عزیز ہیں اور فی الحال یہ مفادات ’ مسلم دشمنی‘ سے پورے ہورہے ہیں ۔۔۔ اگر انہیں انسانیت کی ایسی ہی فکر ہے تو یہ غزہ کے مظلومین کی طرف سے کیوں آنکھیں بند کئے ہوئے ہیں؟
مسلمان گائے کی قربانی نہیں کرتا
پھر بھی پورے ملک میں گؤ کشی کی تحریک ۔۔۔۔؟
*فاروق انصاری
عید الا ضحی کا تہوار آنے والا ہے اس موقع پر مسلمان حضرت ابراہیم علیہم ا لسلام کی سنت پر عمل کرتے ہوئے اللہ کی خوشنودی و رضا کے لئے قربانی کرتا ہے جس میں بکرا ،بیل مینڈھا شامل ہیں دنیا کے بہت سے ممالک میں گائے اور اونٹ کی بھی قربانی کی جاتی ہے مگر ہمارے ملک میں چونکہ ایک مذہب گائے کی پوجا کرتا ہے اسلئے ملک میں گائے کے ذبیحہ پر مذہب کے احترام کی غرض سے پابندی ہے اسلئے مسلمان اس احترام کا لحاظ کرتے ہوئے قربانی کے موقع پر گائے کے ذبیحہ سے اجتناب کرتے ہوئے بیل کی قربانی کرتا ہے ۔دنیا کو معلوم ہے کہ اسلام میں دیگر مذاہب کا احترام کرنا سکھایا گیا ہے اسلئے مسلمان اس پر عمل کرکے احتیاطاً گائے کی قربانی نہیں کرتا۔تاکہ ملک میں یکجہتی کا ماحول برقرار رہے۔مگر ایک عرصے سے نام نہاد ہندو تنظیمیں عین قربانی کے موقع پر گؤ کشی کے عنوان پر زبردست ہنگامہ کرتی ہیں اور پورے امن پسند ی کے ماحول کو فرقہ وارانہ تناؤ میں تبدیل کر دیتے ہیں۔وشوا ہندو پریشد،بجرنگ دل ،آر ایس ایس سناتن سنستھا،ہندو مہا سبھااور اہنسا سنگھ نامی تنظیمیں پورے مہاراشٹر میں اسکے خلاف تحریک چلا رہی ہیں حالانکہ ابھی بکر عید کو پونے دو مہینے کاعرصہ باقی ہے مگر مذکورہ بالا تنظیمیں ابھی سے ہی ماحول کو گرم کرنے کی کوشش کر رہی ہیں اہنسا سنگھ نے پورے مہاراشٹر میں زبردست تحریک چھیڑے ہوئے ہے گاؤں گاؤں یہ سرگرم رہ کر ماحول کو بھی گرما کر رکھتے ہیں مہاراشٹر میں تو اس مسئلے کو لیکر زبردست تناؤ ہو جاتا ہے مسلمان گائے کا ذبیحہ نہیں کرتا بلکہ بیل کی قربانی کرتا ہے مگر بجرنگ دل اور گؤ رکھشا سمیتی کے لوگ اسے بھی مسئلہ بنا کر زبردست تحریک چلا رہی ہیں نتیجے کے طور پر عین قربانی کے موقعے پر مسلمانوں میں زبردست ہیجان انگیزی کا ماحول ہو جاتا ہے کیونکہ جانوروں کی گاڑیاں ضبط کروائی جاتی ہیں مسلم علاقوں میں قربانی کے لئے بندھے جانور کا فوٹو لیجا کر پولس میں شکایت کر کے ان جانوروں کو ضبط کروایا جاتا ہے ہر سال کسمپرسی کے عالم میں مسلمان قربانی کرتا ہے کسی سال اس معاملے کو لیکر کوئی راحت نہیں ملتی۔قربانی کے موقع پر ہی مسلم تنظیمیں سرگرم ہو جاتی ہیں وزیر اعلی اور دیگر متعلقہ وزراء سے ملاقات کر کے انہیں میمورنڈم بھی دیا جاتا ہے جس سے عارضی طور پر کچھ راحت مل جاتی ہے ہر سال اسی طرح عید الا ضحی کا تہوار مہاراشٹر میں ہوتا ہے نہ مسلمان گائے کی قربانی کرتا ہے اور نہ ہی گائے خرید کر لاتا ہے اس کے باوجود ملک بھر میں سب سے زیادہ تحریک اسی صوبے میں چلائی جاتی ہے۔اور بیل کی قربانی بھی روکنے کی ہر ممکن و نا ممکن کوشش کی جاتی ہے گذشتہ سال سے ممبئی میں ایک نیا معاملہ سر اُٹھا چکا ہے کہ قربانی صرف دیونار سلاٹر ہاؤس میں ہی کی جائے ۔حالانکہ وہاں ناکافی انتظامات کی بناء پر مسلمان کثیر اکثریتی علاقوں میں بڑے جانور کی قربانی کر لیا کرتا تھا مگر اب اس پر بھی پابندی لگا دی گئی ہے اسکے لئے کچھ لوگوں نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے کہ مسلم علاقوں میں تین دنوں کے لئے عارضی سلاٹر ہاؤس بنا کر دیا جائے مگر عدالت میں ابھی تک یہ معاملہ زیر سماعت ہی ہے اسلئے کہ ممبئی میں مسلم علاقوں میں قربانی کے لئے تین دنوں تک عارضی سلاٹر ہاؤس بنا کر دینا تقریباً نا ممکن ہے جبکہ بھیونڈی، مالیگاؤں اور دیگر شہروں میں قربانی کے لئے عارضی سلاٹر ہاؤس بناکر دیا جاتا ہے۔مگر ممبئی شہر کی نوعیت کچھ اور ہے اسلئے شہر کے مسلمانوں کو بڑے جانور کی قربانی کے لئے دیونار جانا لازمی ہو گیا ہے مسلمان گائے کی قربانی ہرگز نہیں کرتا مگر نام نہاد ہندو تنظیمیں گائے کے ذبیحہ کا الزام لگا کر ماحول کو مبینہ طور پر خراب کرنے کی مذموم کوشش کرتی ہیں اس پر افسوس یہ بھی ہے کہ پولس اور سرکار بھی انہیں تنظیموں کا ساتھ دیکر مسلمانوں کو ہی انکے پابند کرنا چاہتی ہیں دراصل مہاراشٹر ملک کا واحد ایسا صوبہ ہے جہاں بیل کے ذبیحہ پر بھی پابندی ہے کیونکہ جب یہاں شیوسینا بی جے پی کی سرکار تھی تب انہوں نے ایک قانون پاس کیا تھا جس کے تحت ایسے جانور جو کھیتی باڑی کے لائق ہیں انکے ذبیحہ پر پابندی لگا دی گئی تھی یعنی تندرست اور فربہ جانوروں کی قربانی ممنوع ہے اور جو جانور کھیتی باڑی کے لائق نہیں ہوتے انہیں ہی کاٹنے کی اجازت ہے۔اس قانون کے سہارے ہی بجرنگ دل اور دیگر ہندو تنظیمیں عید الاضحی کے موقع پر تحریک چلانے لگ جاتی ہیں ہر سال سینکڑوں قربانی کے جانور پولس کے ذریعہ ضبط کئے جاتے ہیں اور مسلمان ہیجان انگیزی کے ماحول میں ڈر اور خوف کے ساتھ قربانی کر لیتا ہے۔یہ حالات پیدا ہونے میں کچھ ہماری بھی غلطی ہے ہم اس تہوار کو ضرورت سے زیادہ نمائش کے طور پر منانے لگے ہیں مثلاً بڑے بڑے جانور خرید کر لانا اسے ٹہلانا،دوڑانا وغیرہ۔اس سے یقیناً برادران وطن کے جذبات مجروح ہوتے ہیں اور وہ کاروائی پر آمادہ ہوجاتے ہیں ہمارے مشاہدے میں تو یہ بھی افسوس ناک بات ہے کہ جو لوگ رمضان میں زکات نہیں نکالتے وہ قربانی کے لئے ۰۵ ہزار ،۰۸ ہزار اور لاکھ لاکھ روپیئے تک کے جانور خریدتے ہیں اس سے انکی نمائش اور نفس پرستی کا اندازہ ہو تا ہے اگر اللہ کا حکم ہوتا کہ قربانی کرو مگر اس کا گوشت خود مت کھاؤ بلکہ اسے غریبوں میں تقسیم کر دو تو بہت سارے مسلمان قربانی نہیں کرتے۔خیر مسئلہ قربانی میں جانوروں کے ذبیحہ کا ہے اگر مسلمان مصلحت پسندی اور مکمل احتیاظ کے ساتھ قربانی کرے تو شائد رکاوٹ نہ آئے کیونکہ وہ ایک مذہبی فریضہ انجام دے رہا ہے اور اسکی ادائیگی کی ملک کا قانون و آئین پوری آزادی دیتا ہے مگر افسوس کہ ہم ضرورت سے زیادہ آزاد ہوجاتے ہیں اسلئے پریشانی اُٹھاتے ہیں۔اور نام نہاد ہندو تنظیمیں اسکا فائدہ اٹھاکر پریشان کرتی ہیں ایک ہوا کھڑا کر دیا جاتا ہے کہ مسلمان گائے کا ٹ رہا ہے جبکہ یہ سراسر غلط اور بے بنیاد بات ہے مسلمان کہیں بھی گائے نہیں کاٹتا۔پھر بھی گؤ رکشہ سمیتی کے کارکنان یہ الزام لگا کر مبینہ طور پر تناؤ کا ماحول بنا دیتی ہیں۔سرکار کو اس معاملے میں کوئی اہم پیش رفت کرنی چاہیئے کیونکہ ملک کے آئین پر عمل آوری کی سرکار بھی پابند ہے اور یہ مسلمانوں کا آئینی حق بھی ہے مگر مسلمان خود اپنا حق حاصل کرنے کی جستجو نہیں کرتا۔ اسلئے کہ مسلم لیڈر شپ میں مصلحت پسندی کے بجائے جذبات ہے جس سے مسئلہ مزید بگڑ جاتا ہے۔ان حالات میں مسلمانوں کو بہت ہی احتیاط کے ساتھ اپنا مذہبی فریضہ ادا کرنا چاہیئے۔
مسلم محلوں میں نشہ آور چیزوں کی خرید و فروخت افسوس ناک۔۔۔!
*فاروق انصاری
یوں تو مسلم محلوں میں منشیات کی خرید و فروخت کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ یہ کام گذشتہ تین دہائیوں سے بڑے ہی زور و شور سے چل رہا ہے کوکین ، حشیش، براؤن شوگر،چرس گانجہ،اور اب نئے طرز کی منشیات کی خرید و فروخت ہو رہی ہے جس سے مسلمانوں کی نوجوان نسل تباہ ہو رہی ہے بہت ممکن ہے کہ جان بوجھ کر مسلم محلوں میں اس کاروبار کو پولس کے ذریعہ تقویت بھی دی جا رہی ہو تاکہ مسلمانوں کی نئی نسل مبینہ طور پر تباہ ہوجائے ہم یہ اس لئے کہہ رہے ہیں کہ پولس کو سب کچھ معلوم رہتا ہے کہ کون بیچ رہا ہے کون خرید رہا ہے اس کے سرغنہ کون کون ہیں مگر چونکہ اس کاروبار میں پولس کو بطور ہفتہ بڑی رقم ملتی ہے اسلئے وہ بھی برائے نام کاروائی کرکے خاموش ہو جاتے ہیں حالانکہ ممبئی پولس میں اسکے خلاف کاروائی کرنے کے لئے کوئی سخت قانون نہیں ہے نیز یہ پورا معاملہ چونکہ مرکز کے نارکوٹیک کنٹرول بیورو کے ماتحت ہے اسلئے ممبئی پولس کے منشیات مخالف سیل کو اس ضمن میں کوئی خاص اختیارات نہیں دیئے گئے ہیں اسلئے بھی ملزم پکڑے جانے کے بعد چھوٹ جاتے ہیں۔اسی طرح منشیات مخالف قانون کے تحت کاروائی کرنے میں بھی محدود اختیارات ہیں اسلئے بھی پولس مجبور ہے ایسا پولس کے افسران کا کہنا ہے مگر یہ صحیح بات نہیں ہے پولس کو بہت اختیارات ہیں مگر وہ شائد کرنا نہیں چاہتے۔ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پورے شہر میں ۹۱ مقامات ایسے ہیں جہاں بے خوف ہوکر لوگ نشہ آور اشیاء کو فروخت کرتے ہیں ان ۹۱ میں سے ۷۱ مقامات مسلم علاقوں میں ہے یعنی منشیات کی خرید و فروخت مسلم علاقوں میں ہی بڑے پیمانے پر ہو رہی ہے اور مسلمانوں کی نوجوان نسل تباہ ہو رہی ہے المیہ یہ بھی ہے کہ اگر والدین سے شکایت کی جائے کہ ان کا لڑکا نشہ کرتا ہے تو وہ الٹا یہ کہہ کر لڑنے پر آمادہ ہو جائنگے کہ انکے لڑکے پر جھوٹا الزام لگایا جا رہا ہے اور جب تک ماں باپ یقین کرتے ہیں تب تک وہ ہاتھ سے چلا جاتا ہے مسلم نوجوانوں کو نشہ کی لعنت سے چھٹکارا دلانے کے لئے پیر طریقت حضرت مولانا معین الدین اشرف اشرفی جیلانی نے دلیری کے ساتھ ایک قدم اُٹھایا ہے اس قدم میں قدم ملا کر منشیات کے خلاف لڑنے کے لئے سیوا نامی تنظیم بھی میدان میں آگئی ہے۔یہ انتہائی سنگین مسئلہ ہے اس سے مسلمانوں کی ایک نسل تباہ ہو رہی ہے کہا جاتا ہے کہ غزہ میں مارے جانے والے مسلمانوں کے لئے ہم تڑپ رہے ہیں مگر خود ہمارے یہاں ہر روز نشہ کی لعنت کا شکار ہو کر نوجوان مر رہا ہے اسکہ فکر کسی کو نہیں ہے۔یہ با لکل درست بات ہے آج افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کالج کے مسلم نوجوانوں کے ساتھ ساتھ اب کچھ لڑکیاں بھی اسی طرح کے نشے کی عادی بنتی جا رہی ہیں وہ کالج آکر نشہ کی گولی کھاتی ہیں گھر جاکر سو جاتی ہیں والدین یہی سمجھتے ہونگے کہ کالج سے تھک کر آئی ہے اسلئے سو رہی ہوگی مگر اسکا معاملہ ہی کچھ اور ہوتا ہے اگر نشہ کے خلاف مہم چلاکر اسے مکمل طور سے بند نہ کروایا گیا تو یقیناً ہماری ایک نسل تباہ ہو جائیگی ۔پولس کی رپورٹ کے مطابق بھی کالج کے آس پاس اس طرح کی نشہ آور چیزیں بیچی اور خریدی جاتی ہیں حالانکہ پولس اپنے طور پر کاروائی بھی کرتی ہے مگر اسکے لئے عوام کا ساتھ بھی ضروری ہے اس معاملے میں ہم بھی قصوروار ہیں کہ ہمارے محلے میں کون منشیات فروخت کرتا ہے یہ معلوم ہوتے ہوئے بھی ہم کچھ نہیں کرتے۔ایک زمزنہ وہ بھی تھا کہ جب مسلم محلوں کے بڑے بڑے بھائی کا کاروبار یہی تھا جو آج سفید پوش ہو گئے ہیں انہی لوگوں نے مسلم محلوں میں یہ لعنت لائی ہے اور اگر وہ پوری طرح سے اسے ختم کرنے پر آمادہ ہو جائیں تو بڑی آسانی سے مسلم محلوں سے یہ لعنت ختم ہو سکتی ہے اگر شہر کے ۹۱ علاقوں میں سے ۷۱ علاقے مسلم ہوں جہاں منشیات بے خوف بیچی اور خریدی جاتی ہے تو یہ بہت ہی تشویشناک بات ہے ۔آج مسلم تنظیموں کو سبھی کام چھوڑ کر اس لعنت کو ختم کرنے کے لئے جی جان سے کام کرنا چاہیئے تاکہ قوم کے نوجوانوں کو بچایا جا سکے اسلئے کہ کسی بھی قوم کی ترقی کا سرمایہ اس قوم کے نوجوان ہوتے ہیں اگر نوجوانوں کی بڑی تعداد نشہ کی لعنت کا شکار رہے گی تو وہ قوم یقیناً زوال آمادہ قوم بن جائیگی۔اسلام میں نشہ کے خلاف بہت سخت تاکید کی گئی ہے آخر وہ کیسے مسلمان ہونگے جو نشہ کر رہے ہیں انکی اصلاح کرنے کی سخت ضرورت ہے ۔اور اصلاح بھی سختی کے ساتھ نہیں بلکہ سمجھا بجھا کر انکی کونسلنگ کر کے ہی ممکن ہے اگر سختی کی گئی تو وہ لڑکا اس معاملے میں باغی ہو جائیگا۔آج باپ کو بیٹا مار رہا ہے بلکہ ایسے بھی معاملے آئے ہیں کہ اگر لڑکے کو نشہ کے لئے پیسے نہیں دیئے گئے تو تو گھر میں ہی چوری کرتا ہے مار پیٹ کرتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ وہ مجرمانہ سرگرمیوں میں پوری طرح ملوث ہو کر عادی مجرم بن جاتا ہے۔آج بہت سے ایسے نوجوان بھی جیلوں میں بند ہیں جو نشہ کی لعنت کا شکار ہو کر عادی مجرم بن گئے ہیں۔دراصل ایک کڑوی سچائی یہ بھی ہے کہ چند نام نہاد مولانا یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ غلط کام کرتا ہے نشہ آور اشیاء فروخت کرتا ہے اسکے باوجود بجائے اسکی مخالفت کرنے کے نذرانے میں ملنے والی موٹی رقم کے عوض وہ خاموش رہتے ہیں گویا وہی چند مولانا ان لوگوں کا حوصلہ بڑھاتے ہیں اسلئے وہی اولین ذمہ دار بھی ہوئے اس جانب بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے جب تک ہم سختی کے ساتھ حرام و حلال میں تمیز نہیں کرینگے اس وقت تک ہم اپنے معاشرے سے نشہ کی لعنت کو ختم نہیں کر سکیں گے۔اسی طرح آج ہماری قبرستانوں اور درگاہوں کو بھی بچانے کی ضرورت ہے جہاں بڑے پیمانے پر نشہ خوری ہوتی ہے جب تک اس سچائی کو قبول کرکے سچے دل سے نشہ کے خلاف اُٹھ کھڑے نہیں ہونگے اس وقت تک اس لعنت کا خاتمہ ممکن نہیں ہے۔اسلئے کہ آج یہ مسلم محلوں میں جڑ پکڑ چکا ہیاسکے خلاف اُٹھنے والی آواز کو طاقت کے زور سے دبایا بھی جا سکتا ہے۔
جواب دیں