لہو تو لہو ہی ہے ۰۰۰امریکی صحافی ہو یا ۰۰۰

اگر کوئی صحافی امریکی فوجی طیاروں کی بمباری میں ہلاک ہوتا ہے تو اس پر افسوس ضروری نہیں کیونکہ یہ روزمرہ کے معمولات میں شامل ہے۔
صحافیوں کے لئے کوئی بھی ملک محفوظ نہیں ہے۔ قتل، اغواء ، اذیت رسانی، ارکان خاندان کو ہراساں کئے جانے کے واقعات عام ہیں۔ خود امریکہ جیسے انسانی حقوق کے علمبردار ملک میں گذشتہ دو دہائیوں کے دوران کم از کم 39ایسے صحافی ہلاک ہوئے ہیں جو مختلف واقعات، اسکنڈلس کی تحقیقات میں مصروف تھے۔ 16؍ جون 2013کو ہفنگٹن پوسٹ کے مائکل ہاسٹنگس پراسرار طریقہ سے موت کی گھاٹ اتار دےئے گئے تھے، وہ امریکہ کی جانب سے جاسوسی کے الزامات کی تحقیقات کررہے تھے۔ 2007میں چاسنی بیل جو ادک لینڈ پوسٹ سے وابستہ تھے قتل کردےئے گئے، وہ کرپشن اسکام کی تحقیقات کو منظرعام پر لانے والے تھے۔
انٹرنیشنل پریس انسٹی ٹیوٹ کے اعداد و شمار کے مطابق 2013میں 70صحافی ہلاک کئے گئے، جن میں سے 29شام میں 13ہندوستان میں، 11پاکستان میں 10عراق میں اور 6مصر میں ہلاک ہوئے۔
شام میں 2014کے ابتدائی چھ ماہ تک ہلاک ہونے والے صحافیوں کی تعداد 63ہوچکی ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار داد 1738صحافیوں کی سلامتی کے تحفظ سے متعلق ہے۔ Reporters without borders (RWB)تنظیم چاہتی ہے کہ انٹرنیشنل کرمنل کورٹ کے آرٹیکل 8میں ترمیم کرتے ہوئے صحافیوں پر جان لیوا حملوں کو جنگی جرائم میں شامل کیا جائے۔
صحافیوں پر حملے کیوں ہوتے ہیں، انہیں قتل کیوں کیا جاتا ہے، ان کے اغواء کے پس پردہ کیا محرکات ہوتے ہیں۔ کبھی اس کا بھی جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
کہتے ہیں کہ صحافت ایک مقدس ترین پیشہ ہے (یہ پرانے وقتوں کی بات ہے)۔ یہ اور بات ہے کہ بیشتر جرائم پیشہ عناصر بھی اپنے سیاہ کرتوتوں کی پردہ پوشی ، کالے دھن کی حفاظت کی خاطر اس پیشہ کو اختیار کرنے لگے ہیں۔ اس کے باوجود صحافیوں کی اکثریت اپنے پیشہ کے تقدس کی محافظ ہوتی ہے، البتہ بین الاقوامی سطح پر صحافت اور صحافیوں کو مختلف ممالک جاسوسی کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ بیشتر بین الاقوامی اخبارات اور جرائد کے صحافی سیکرٹ سرویس کے ایجنٹ کا رول بھی ادا کرتے ہیں۔ عراق کے خلاف امریکہ نے ایسا ہی کیا تھا۔ سی این این اور دیگر اہم ٹیلی ویژن چیانلس اور سرکردہ اخبارات کے نامہ نگاروں کی رپورٹ اور نشاندہی پر امریکہ اور اس کے اتحادی بمبار طیارے اہم مقامات پر بمباری کرتے گئے، عمارتیں تباہ ہوئیں، عوام اور اہم عراقی عہدیدار ہلاک ہوئے۔ مثال کے طور پر امریکی ٹیلی ویژن چیانل کی نامہ نگار نے بغداد سے لائیو رپورٹنگ کرتے ہوئے امریکہ میں اپنے نیوز روم کو اطلاع دی کہ فلاں ہوٹل میں فلاں شخص فلاں وقت پر پریس کانفرنس سے خطاب کرنے والا ہے۔ عراق کے لئے تویہ بین الاقوامی سطح پر نشر ہونے والی خبر تھی، مگر امریکی فوجی طیاروں کے لئے اس ہوٹل کی نشاندہی تھی، جو وقت بیان کیا گیا تھا اسی وقت پر بمباری کی گئی۔ سی این این نے باقاعدہ اعلان کیا تھا کہ ہمارے رپورٹرس ہمارے لئے معلومات فراہم کریں گے اور ہم دنیا کے لئے جنگ کا میدان فراہم کریں گے۔ غیر ملکی رپورٹرس ، اتحادی افواج کی حفاظت میں ڈبل ایجنٹس کا رول ادا کرتے رہے۔
امریکہ ہو یا برطانیہ یا روس، صحافیوں کے ذریعہ جاسوسی کا سلسلہ قدیم ہے۔ 1970میں ویتنام کی جنگ کے بعد سی آئی اے نے فل ٹائم رپورٹرس ، فری لانسرس، اور اسٹرنگرس کی خدمات حاصل کیں، جو رپورٹر کی حیثیت سے معلومات اکھٹا کرنے، افواہیں پھیلانے، نت نئی کہانیاں گھڑنے، فارن میڈیا کے ذریعہ انہیں نشر کرتے۔
برطانیہ نے اسی طرح KIm philbyکو لندن کے تین سرکردہ اخبارات ، اکنامسٹ ، آبزرور، اور ٹائمس کے نمائندہ کے طور پر بیروت میں تعینات کیا، وہ ڈبل ایجنٹ کے طور پر کام کرتا رہا، جب پکڑا جانے والا تھا ، اپنے امریکی دوست کی بیوی کے ساتھ ماسکو فرار ہوگیا۔
صحافیوں کے ذریعہ جاسوسی کے لئے سابق سوویت یونین کی شہرت تھی، سوویت سیکرٹ سرویس KGBکے انٹرنیشنل جرنلزم میں ڈگری یافتہ نوجوانوں کی خدمات حاصل کرتے ہوئے ان سے جاسوسی کروائی گئی۔ الکزینڈر روا سلیف اسی کی ایک مثال ہے، جس نے ایک صحافی کے طور پر شہرت حاصل کی مگر وہ KGBکا مسلمہ ایجنٹ تھا۔ سوویت یونین کے زوال کے بعد بھی اسے امریکہ میں سراغرسانی کے لئے استعمال کیا جاتا رہا۔
چند برس پہلے ایک امریکی خاتون صحافی خفیہ طریقہ سے افغانستان کی سرحد پار کرنے میں کامیاب ہوئی، پکڑی گئی، بین الاقوامی برادری کی مداخلت پر اسے رہا کیا گیا تو اس نے طالبان کے اخلاق، کردار کی ستائش کرتے ہوئے مشرف بہ اسلام ہونے کا اعلان کیا، اس پر عربوں نے ریال ، ڈالرس، درہم اور دیناروں کی بارش کردی، یہ خاتون صحافی واقعی مشرف بہ اسلام ہوئی ہے یا مسلمان ہونے کا ڈھونگ رچاتے ہوئے مسلمانوں کی صفوں میں آسانی سے داخل ہوگئی یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔
داعش نے دو امریکی صحافیوں کو قتل کیا، دہشت پھیلانے کی غرض سے یا مسلمانوں اور اسلام کو بدنام کرنے کی غرض سے اُس کی ویڈیو کلپنگ بھی جاری کی۔ اگر داعش سے تعلق رکھنے والے ’’قاتل‘‘ واقعی مسلمان ہوتے تو وہ ایسی بزدلانہ ، بے رحمانہ حرکت نہیں کرتے۔ انہیں تو اپنے حسن سلوک، اخلاق اور کردار سے امریکی صحافیوں کو متاثر کرنے کا بہترین موقع ملا تھا۔یہی صحافی داعش کی تعریف میں قصیدے لکھتے، اسلام کی تبلیغ کرتے، افسوس کے خلافت اسلامیہ کے احیاء کا دعویٰ کرنے والے نام نہاد محافظین اسلام نے اپنے آپ کو ابو جہل کا پیرو ثابت کیا۔ اگر وہ مسلمان ہوتے، تو ان میں مومنانہ فراست ہوتی، وہ دنیا کا دل جیت لیتے، دشمن بنانے کی کوشش نہیں کرتے، ان کے اس اقدام کی نہ صرف انہیں بلکہ دوسرے مسلمانوں کو بھی آج نہیں تو کل قیمت چکانی پڑے گی۔
غیر ملکی صحافی ہوں یا فنکار، وہ اپنے ملک کے تہذیبی سفیر ہوتے ہیں ان کی جان و مال کی حفاظت کی ذمہ داری ان ممالک پر عائد ہوتی ہے جہاں وہ اپنی خدمات انجام دیتے ہیں۔
صحافی چاہے وہ امریکہ کا ہو یا فلسطین کا، پاکستان کا ہو برطانیہ ، دہلی کا ہو یا کشمیر کا اس کو یکساں اہمیت دی جانی چاہیے۔ کسی سوپر پاور ملک سے تعلق رکھنے سے اس کی ہلاکت پر زیادہ افسوس اور کسی مظلوم ملک سے تعلق رکھنے والے کی ہلاکت پر مجرمانہ خاموشی غیر منصفانہ ہے۔
جولائی 2014میں غزہ میں دو فلسطینی صحافی سماع الریان اور رمی ریان اسرائیلی بمباری میں ہلاک ہوئے، دنیا خاموش رہی، کیا فلسطینی صحافیوں کا خون ، خون نہیں۰۰۰ پانی ہے۔؛
صرف ہلاکتیں ہی نہیں امریکہ کے بشمول مختلف ممالک کی جیلوں میں ان گنت صحافی برسوں سے سڑرہے ہیں۔ امریکی جیلوں میں افریقی صحافی قید ہیں ایتھوپیائی جیلوں میں چھ بلاگرس ہیں، ایران نے تین امریکی صحافیوں کو قید میں رکھا ہے، انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس جو 80سالہ قدیم تنظیم ہے، جس کے 134ممالک سے تعلق رکھنے والے چھ لاکھ ارکان ہیں، صحافیوں کے حقوق، ان کے تحفظ کے لئے آواز بلند کرتی رہی ہے۔ اس کے سروے کے مطابق صحافیوں کے ساتھ ساتھ ان کے ارکان خاندان کی زندگی کو بھی خطرات لاحق رہتے ہیں۔ 1992سے اب تک 22سال کے عرصہ میں جو صحافی ہلاک یا قتل کئے گئے ان میں سیاسی اسکامس کو بے نقاب کرنے والے 44%، کرپشن کے خلاف آواز اٹھانے والے 20%، اور انسانی حقوق کے تحفظ کی تحریک کا ساتھ دینے والے 18%ہیں۔ 
انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس کے مطابق ہر سات دن میں ایک صحافی ہلاک یا قتل ہوتا ہے۔ یونیسکو نے عراق، نیپال، پاکستان، جنوبی سوڈان، تیونس میں صحافیوں کی سلامتی کا منصوبہ بنایا۔ پاکستان اور افغانستان کو غیر ملکی صحافیوں کے لئے خطرناک ملک تسلیم کیا جاچکا ہے۔ افغانستان میں 1992ء سے 68غیر ملکی صحافی ہلاک کئے گئے ہیں۔ پاکستان میں گذشتہ پندرہ برس میں 57صحافی ہلاک ہوئے۔ ان میں مقامی اور بیرونی کتنے ہیں اس کے اعداد و شمار نہیں ہیں۔
امریکہ کے دو صحافیوں کے سفاکانہ قتل کی ہم بھی مذمت کرتے ہیں، بارک اوباما نے بھی مذمت کی، کاش عراق، شام اور فلسطین میں اپنی زیر سرپرستی ہونے والے حملوں میں ہلاک ہونے والے معصوم عوام ، خواتین اور بچوں کے لئے بھی ان کے اسی قسم کے احساسات ہوں۔ امریکی صحافی بھی انسان ہیں، دنیا کے دوسرے گوشوں میں بسنے والے بھی انسان ہیں۔ بشارالاسد کے سپاہیوں کے ہاتھوں جاں بحق ہونے والے بھی انسان ہیں۰۰۰ جو تڑپ اور کرب اپنے ہم وطن صحافیوں کے لئے پیدا ہوا ۰۰۰ وہ اگر دوسرے انسانوں کے بہتے خون پر بھی ہو تو ۰۰۰۰

«
»

ہندوستانی مسلمانوں کے خلاف سازش

ہم کریں تو لو جہاد اور وہ کریں تو قومی یکجہتی۔۔۔۔۔!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے