کیا وزیراعظم نے بھانپ لی ہے شکست؟

اسمبلی انتخابات کے بعد کتنی بدلے گی ملک کی سیاسی تصویر؟

غوث سیوانی، نئی دہلی

اسمبلی انتخاب والی ریاستوں میں کیا ہوگا؟ کون جیتے گا اور کس کی ہار ہوگی؟ کیا مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اور راجستھان میں بی جے پی اپنا اقتدار کھو بیٹھے گی؟ کیا ان ریاستوں سے کانگریس کی اقتدار میں واپسی کا آغاز ہوگا؟ اسمبلی الیکشن کے بعد ملک کی سیاسی تصویر میں کچھ بدلاؤ آئے گا یا نہیں؟ ان سوالوں کے جوابات کی تلاش کے بیچ بعض ریاستوں کے اسمبلی انتخابات مکمل ہوچکے ہیں اور کچھ ریاستوں کے الیکشن زیرتکمیل ہیں۔جن پانچ صوبوں کے الیکشن ہورہے ہیں، ان کے حالات ایک دوسرے سے مختلف ہیں مگر عام رائے یہی ہے کہ چونکہ 2019کے لوک سبھا الیکشن سے قبل یہ انتخابات ہورہے ہیں لہٰذا انھیں جنرل الیکشن کا پیش خیمہ سمجھنا چاہئے۔ اس میں جیتنے والی پارٹی کو عام انتخابات میں سبقت ملے گی اور ہارنے والی پارٹی کے خلاف ماحول تیار ہوگا۔ یہی سبب ہے کہ دونوں قومی جماعتیں کانگریس اوربی جے پی میدان مارنے کے لئے تمام حربے آزما رہی ہیں۔ 
کیا سوچتے ہیں لوگ؟
پانچ ریاستوں کے اسمبلی الیکشن کے نتائج ملک کے سیاسی منظر نامے کو بدلیں گے؟ کیا اس کا اثر اگلے چند مہینوں کے اندر ہونے والے عام انتخابات پر بھی پڑے گا؟ ان سوالوں پر عوام میں بھی بحث جاری ہے اور ملک کے لوگوں کی الگ الگ سوچ ہے۔ ہم نے اس سلسلے میں سوشل میڈیا پر سوال پوچھ کر لوگوں کی رائے جاننی چاہی تو بیشتر لوگوں نے مانا کہ پانچ ریاستوں کے نتائج ملک میں سیاسی تبدیلی لاسکتے ہیں مگر اسی کے ساتھ ان کا یہ بھی ماننا تھا کہ یہ تبدیلی حقیقی نہیں ہوگی کیونکہ سرکاریں تو بدلتی رہتی ہیں مگر عوام کے حالات نہیں بدلتے۔ممکن ہے تین ریاستوں میں بی جے پی کی جگہ کانگریس آجائے مگر کیا اس سے بے کاری، بے روزگاری، بھکمری، غربت وافلاس، کرپشن کا خاتمہ ہوجائے گا؟ ظاہر ہے کہ مسائل جوں کے توں بنے رہیں گے۔ جو مسائل، کانگریس کے دور حکومت میں تھے ،وہ بی جے پی راج میں بھی ہیں اور اگر کانگریس، واپس لوٹ آئی تب بھی برقرار رہیں گے۔ذکاء اللہ مشتاق کے مطابق کوئی بھی پارٹی جیتے اور کوئی ہارے مگر ملک کے حالات میں زیادہ کچھ تبدیلی نہیں آنے والی کیونکہ ملک کی دونوں بڑی پارٹیوں کا ملک کے کمزور طبقات خاص طور پر دلت، آدیباسی اور مسلمانوں کے ساتھ ایک ہی جیسا رویہ ہے۔مشتاق کے مطابق دونوں پارٹیاں خطرناک ہیں۔ بی جے پی اعلانیہ خطرہ ہے تو کانگریس خفیہ خطرہ ہے۔ کانگریس کے دور اقتدار میں مسلمان زیادہ نقصان اٹھاتے رہے ہیں۔ صحافی محمد شارب ضیاء رحمانی کے مطابق پانچ ریاستوں کے رزلٹ سے کوئی اثر نہیں پڑے گا، اصل مدھیہ پردیش اورراجستھان ہے۔ اگرایک میں بھی بی جے پی کی شکست ہوئی تو مودی لہر کی ہوا2019میں نکل چکی ہوگی۔ دونوں میں ہوئی تو 2019میں بی جے پی کی شکست یقینی ہے اوردونوں میں جیت ہوئی تو 2019میں بی جے پی مضبوط ہوکر ابھرے گی۔ان کا مزید کہنا ہے کہ یوپی میں، گٹھبندھن کے بغیر سیکولر محاذ کے آثارنہیں۔ جب کہ انیس الرحمٰن چشتی کا خیال ہے کہ پانچ ریاستوں کے نتائج سے اس بات کا بخوبی اندازہ کیا جاسکے گا کہ ہندوتوا کی ترقی ہوئی یا تنزلی ۔ساتھ ہی مرکز کی کرسی پر کون قابض رہے گا یا کس کی اجارہ داری ہوگی کچھ اندازہ تو ضرور ہو جائے گا،لیکن مکمل طور سے یہ سوچ لینا کہ بی جے پی اور اس کے حامیوں کی شکست سے مرکز میں حکومت بدل جائے گی اس کے لیے تو وقت درکار ہے۔ راجدھانی دہلی کے جامعہ نگر میں رہنے والے علی رضامانتے ہیں کہ پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کے نتائج اگر بی جے پی کے خلاف جاتے ہیں تو سمجھ لیں کہ دیش بدل رہا ہے اور دیش کی سوچ بدل رہی ہے۔البتہ علی رضا کو خوف ہے کہ EVM میں گڑبڑی کرکے بی جے پی کو جتانے کا کھیل ہوسکتا ہے ۔ محمد دلشادعالم کا خیال ہے کہ پانچ ریاستوں کے اسمبلی الیکشن رزلٹ بی جے پی کا مستقبل طے کرینگے۔جب کہ شرف الدین عبدالرحمٰن تیمی کہتے ہیں کہ پانچ ریاستوں کے اسمبلی الیکشن کے نتائج یہ صاف کردیں گے کہ 2019 میں دہلی کی کرسی پر کون قابض ہوگا؟ 
کون کس مقام پر کھڑا ہے؟
میڈیا کے سروے ماضی میں کتنے درست ثابت ہوئے ہیں اور سروے کرنے والوں کا بی جے پی کی جانب کتنا جھکاؤ رہتا ہے؟ ان سوالوں سے قطع نظر بیشتر انتخابی سروے تین اہم ریاستوں یعنی مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اور راجستھان میں کانگریس کی جیت کی پیشین گوئی کر رہے ہیں۔یہ الگ سوال ہے کہ خیموں میں منقسم کانگریس خودجیت کے لئے کتنی تیار ہے۔ کسان، جوان، عوام میں بی جے پی کی حکومتوں کے خلاف خواہ غصہ نظر آرہا ہو مگر خود کانگریس کے اندر وزیراعلیٰ کی کرسی کے لئے لڑائی جاری ہے۔ یہ جنگ صرف مدھیہ پردیش تک محدود نہیں ہے بلکہ راجستھان میں بھی ہے اور اس طرح، کانگریسی خود ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے میں مصروف ہیں۔حالانکہ کانگریس کے لئے خوش ہونے والی بات یہ ہے کہ بی جے پی کے اندر بھی سب کچھ ٹھیک ٹھاک نہیں چل رہا ہے اور یہاں بھی اندرون خانہ جنگیں چل رہی ہیں۔ خود وزیراعظم نریندر مودی اور بی جے پی صدر امت شاہ نہیں چاہتے کہ وسندھرا راجے سندھیا وزیراعلیٰ کی کرسی پر نظر آئیں۔ ویسے وزیراعظم نے ہوا کا رخ بھی بھانپ لیا ہے اور بہت کم انتخابی ریلیاں ان کی جانب سے کی جارہی ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ان ریاستوں میں انتخابی ریلیوں کو خطاب کرنے کے لئے یوپی کے وزیراعلیٰ یوگی کو بھیجا گیا جو خود یوپی میں بی جے پی کی سیٹیں نہیں بچا پائے ہیں اور اپنی گورکھ پور سیٹ ہار چکے ہیں۔
وزیراعظم نے نوشتۂ دیوار پڑھ لیا؟
بہت سے سیاسی ماہرین اور میڈیا والوں کو اس بات پر حیرت ہے کہ گجرات اور کرناٹک میں دھواں دھار ریلیاں کرنے والے وزیراعظم نریندر مودی پانچ ریاستوں کے اسمبلی الیکشن میں کم ریلیاں کیوں کر رہے ہیں؟ کیا انھوں نے ہوا کے رخ کو سمجھ لیا ہے؟ کیا انھیں یقین ہوچلا ہے کہ بی جے پی کو زبردست شکست کا سامنا ہونے والا ہے؟ آخر کیا سبب ہے کہ جن انتخابات کو2019کا سیمی فائنل قرار دیا جارہا ہے وہاں سے وزیراعظم غائب ہوکر بیرون ملک کے دوروں میں مصروف ہیں؟ جی ہاں! اس بار سیاسی ماحول بدلا بدلاسا نظر آرہا ہے اور مودی لہر کا دور دور تک پتہ نہیں ہے بلکہ اگر یہ کہاجائے کہ مودی مخالف لہر چل رہی ہے تو غلط نہ ہوگا۔اس بار وزیراعظم کی ریلیوں میں بھیڑ کم دیکھی گئی اور جو لوگ آئے، ان میں عام لوگ کم، کرایے کے لوگ زیادہ تھے ۔ پارٹی امیدواروں اور نیتاؤں کو عوامی مخالفت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ کہیں لوگوں نے بینر اور پوسٹر لگاکر بی جے پی نیتاؤں کے گاؤں میں آنے پر پابندی لگا رکھی ہے تو کہیں جوتوں کی مالا پہنائی گئی۔ اعلیٰ ذات کے ووٹروں کی طرف ایس سی ایس ٹی ایکٹ میں ترمیم کے خلاف سوال پوچھے جارہے ہیں تو کسان اپنے مسائل کے تعلق سے آواز اٹھا رہے ہیں ۔ سٹہ بازار بھی بی جے پی کی ہار کی پیشین گوئی کر رہا ہے۔ یہی سبب ہے کہ گجرات، کرناٹک کے انتخابات میں دھواں دھار ریلیاں کرنے والے وزیراعظم مودی اس بار انتخاب والی ریاستوں پر دھیان نہیں دے رہے ہیں۔
راجستھان میں وسندھرا تنہا
راجستھان میں بی جے پی کی حالت سب سے زیادہ خراب ہے اور سبھوں نے وزیراعلیٰ وسندھرا راجے کو تنہا ڈوبنے کے لئے چھوڑ دیا ہے۔ پارٹی ساتھ ہے اور نہ سنگھ،کارکنان ساتھ ہیں اور نہ ہی عوام پھر بھی راجستھان کی وزیراعلیٰ کا دعویٰ ہے کہ وہ جیت رہی ہیں۔ریاست میں وسندھرا راجے سندھیا تنہا نظر آرہی ہیں۔پانچ سال تک انھوں نے نہ مودی کی سنی اور نہ امت شاہ کی۔ ان کے سامنے سنگھ کی چلی اور نہ ہی پارٹی کی، ایسے میں یہ امید تو فضول ہی ہے کہ پارٹی اور سنگھ کے لوگ ان کا ساتھ دیں گے۔ حد تو یہ کہ ٹکٹ کی تقسیم میں بھی وسندھرا راجے سندھیا نے اپنے لوگوں کو ترجیح دینے کی کوشش کی اور اسی کا نتیجہ ہے کہ پارٹی سے سنگھ تک، سب ان سے خفا ہیں اور ان کی قبر کھودنے میں لگے ہیں۔ وشو ہندو پریشد ، بجرنگ دل جیسی سنگھی جماعتیں بھی ان کا ساتھ نہیں دے رہی ہیں۔ وسندھرا کا مقابلہ کانگریس سے ہی نہیں اپنے لوگوں سے بھی ہے۔ایسے میں سمجھا جاسکتا ہے کہ اس وقت وسندھرا کتنی بے دست وپا ہیں۔ دوسری طرف عوام میں بھی حکومت کے خلاف ماحول ہے اور یہاں ہر پانچ سال پر حکومت بننے کی روایت بھی رہی ہے۔ ریاست کی سیاست میں بہت سے سورما آئے اور گئے لیکن راجستھان کے عوام ہر بار 5 سالوں میں حکومت سے حساب لینا بخوبی جانتے ہیں۔فی الحال تمام سروے بھی کانگریس کی جیت کی پیشین گوئی کر رہے ہیں۔
چھتیس گڑھ میں سیدھی ٹکر
چھتیس گڑھ میں اگرچہ میڈیا تین طرفہ مقابلے کی بات کر رہا ہے سچائی یہ ہے کہ یہاں مقابلہ کانگریس اور بی جے پی کے بیچ ہی ہے۔انتخابات مکمل ہوچکے ہیں اور یہاں بھی اقتدار مخالف لہرصاف دکھائی دی۔ ریاست میں بے روزگاری سے نئی نسل پریشان ہے اور اس کا خمیازہ رمن سنگھ سرکار کو بھگتنا پڑسکتا ہے۔ نوجوانوں کو وزیراعظم نریندر مودی سے بہت امید تھی مگر گزشتہ ساڑھے چار برسوں میں یہ امید بھی دم توڑ چکی ہے۔ یہی سبب ہے کہ جب وزیراعظم جگدل پور آئے اور ایک انتخابی جلسے سے خطاب کیا تو اس میں عام نوجوان کم اور کرایے کے لوگوں کی بھیڑ زیادہ دیکھی گئی۔پہلے مرحلے کے الیکشن پرچار کے آخری دودنوں میں کانگریس صدر راہل گاندھی نے بھی اپنی پارٹی کے امیدواروں کے لئے انتخابی مہم چلائی جس میں نوجوان ،خاصی تعداد میں نظر آئے جس سے کانگریس کی ریاست کے اقتدار میں واپسی کی امید بندھی ہے۔

(مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے )
:یکم دسمبر2018(ادارہ فکروخبر)
 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے