حفیظ نعمانی
ہم نہیں جانتے کہ حکومت اور عدالت کی چہیتی ایس آئی ٹی کیا چاہتی ہے؟ اس نے اس طالبہ کو بھی جیل بھیج دیا جس نے سوامی چمنیانند کی عیاشی، بدکرداری اور بڑھاپے کی گندی ہوس کے اوپر سے پردہ اُٹھاکر پورے ملک اور ہندو دھرم کو گندے دھبوں سے واقف کرایا تھا۔ اس طالبہ نے دھرم کو بدنام کرنے والے عیاش سوامی پر صرف الزام نہیں لگائے بلکہ سوامی سے ایس آئی ٹی کے سامنے ان کو قبول کرایا یہ ایس آئی ٹی کی اپنی حکومت سے اور عدالت سے غداری ہے کہ اس نے مسلسل 24 دن تک یہی کوشش کی کہ وہ سوامی کو ہر جال سے نکال لے لیکن آج کے زمانہ میں سائنس نے اتنی ترقی کرلی ہے کہ وہ ہر اس حرکت کو قید کرلیتی ہے جسے صرف کرانے والا اور کرانے والی ہی جانتے ہیں۔
سوامی کو معلوم تھا کہ طالبہ کے پاس اس کے ہر طرح کے ثبوت ہیں وہ عمر کی اس منزل میں ہیں جس میں کانگریس کے کبھی کے بہت بڑے لیڈر نرائن دت تیواری تھے۔ وہ برسوں اترپردیش کے وزیراعلیٰ رہے لیکن ان کا بھی وہ شوق جو سوامی کا ہے وہاں ہر جگہ ساتھ رہا اور جب پارٹی کے ہر سطح کے لیڈر نے وزیراعظم سے شکوہ کیا تو انہوں نے وفاداری کا یہ صلہ دیا کہ چھوٹے سے اُتراکھنڈ کا وزیراعلیٰ بنا دیا۔ تیواری جی خود پہاڑ کے رہنے والے تھے انہوں نے وہاں کے پھل بھی چکھنا شروع کردیئے تو اُن کو راجستھان کا گورنر بنا دیا اور وہاں سے جب ایسا فوٹو آیا جیسا سوامی نے تسلیم کیا کہ انہوں نے برہنہ ہوکر لڑکیوں سے جسم کا مساج کرایا تو کانگریس نے انہیں آزاد کردیا اور انہیں اپنی عیاشی کے ثبوت کے ساتھ بڑھاپے میں شادی کرنا پڑی اور 30 سال کے چلتے پھرتے ثبوت کو بیٹا ماننا پڑا۔
ایس آئی ٹی کے کسی افسر کو کیا حق تھا کہ جب سوامی نے کہا کہ اب میں کچھ اور نہیں بتاؤں گا بس میں شرمندہ ہوں تو انہوں نے قلم کیوں رکھا؟ انہیں کہنا چاہئے تھا کہ ہم آپ کے چیلے یا پارٹی کے صدر نہیں ہیں ہم ہر وہ بات آپ کے منھ سے سن کر اپنے ریکارڈ میں لکھیں گے جو ہوئی اور وہ لڑکی جو بتارہی ہے۔ سوامی نے جب کہا کہ میں نے آبروریزی نہیں کی تو اس کا میڈیکل چیک اپ کیوں نہیں کرایا گیا؟ اور یہ کیوں نہیں معلوم کیا کہ وہ آبروریزی کے اب قابل نہیں ہیں یا پہلے بھی نہیں تھے۔ ان میں سے کوئی سوال نہ کرنا اور اس عیاش بڈھے کو ایسے احترام کے ساتھ عدالت اور وہاں سے جیل لے جانا جیسے دھرم گرو کو ان کے دولت خانہ سے دوسرے محل لے جارہے ہیں۔
میڈیا میں یہ بات ہر طرف گشت کرتی رہی کہ ایس آئی ٹی جانبداری کررہی ہے اس نے صرف یہ کہنے پر کہ میں نے آبروریزی نہیں کی ان کی بات مان لی ایس آئی ٹی نے ملک سے غداری کی ہے اور اس لڑکی کے ساتھ جو کچھ کیا ہے اس نے ہر اس لڑکی کی زبان پر تالا ڈال دیا جو کل کو کسی نیتا یا مکار دھرم گرو کی شکایت کرنا چاہے گی۔ وہ لڑکی جو ہر وقت ایس آئی ٹی کے ساتھ رہی، جہاں بلایا وہاں گئی اب ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس نے سوامی کے قتل کا منصوبہ بنایا تھا اور وہ پکڑی گئی اور اس کے اس منصوبہ میں تین اور لڑکے بھی شریک تھے۔ لڑکی کے والد کا کہنا ہے کہ صبح 9 بجے ایس آئی ٹی کے لوگ گھر آئے اور انہوں نے بیٹی کو اپنے ساتھ لے جانا چاہا اس نے واش روم جانا چاہا تو نہیں جانے دیا اور اسے ننگے پاؤں گھسیٹتے ہوئے لے گئے اس کا میڈیکل کالج میں بھی معائنہ کرایا اور ایس آئی ٹی نے اسے سی جے ایم کے کورٹ میں پیش کیا اور مجسٹریٹ نے ایس آئی ٹی سے یہ بھی معلوم نہیں کیا کہ جس نے دھرم کے اوپر سے انتہائی گندی چادر ہٹائی ہے اسے کیوں جیل بھیج رہے ہو؟ لیکن ہندوستان میں عدالت پولیس کا حکم ماننے کی شاید پابند کردی گئی ہے کہ وہ جسے چاہے جس دفعہ میں جیل بھجوادے۔ اور اس طالبہ کو جیل بھیج دیا اور جو دھرم کے نام پر اور دھرم گرو کا ڈھونگ رچاکر خود بھی ننگا ہوتا تھا اور لڑکی کو بھی ننگا کرتا تھا وہ پی جی آئی کے ایئرکنڈیشن کمرے میں نرسوں اور ڈاکٹروں سے دیدے لڑا رہا ہے۔
ہم حیران ہیں کہ طالبہ کو گرفتار کرکے اسے میڈیکل کالج لے جانے کی کیا ضرورت پیش آگئی۔ اس نے تسلیم کیا ہے کہ اس نے اور اس کے ساتھیوں نے سوامی سے پانچ کروڑ روپئے لینے کا منصوبہ بنایا تھا۔ اور اس کے سلسلہ میں جو آپس میں گفتگو ہوئی وہ موبائل سے مل گئی۔ لیکن اس سے اس عیاش بڈھے کو کیا تکلیف پہنچی۔ ایس آئی ٹی ایک ٹوٹے ہوئے موبائل کے پرزوں کی تلاش میں راجستھان جارہی ہے جیسے وہ پرزے نہ ہوں آلہئ قتل ہو۔ اس کے علاوہ بھی جو برتاؤ سوامی کی گرفتاری کے بعد اس لڑکی کے ساتھ ہورہا ہے اس کی ہر بات حیران کرنے والی ہے اور صاف معلوم ہوتا ہے کہ یوپی حکومت کے مکھیا جس رنگ کی پوشاک پہنتے ہیں اس پر اتنے گندے دھبے برداشت نہیں کرپارہے ہیں۔ لیکن اب تک جو کچھ ہوچکا ہے کیا اس کو خطرناک ہتھیار ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
بزرگ سیاست داں خاتون سبھاشنی علی اور سی پی ایم کی معروف لیڈر برندا کرات دونوں اس سے جیل میں جاکر ملی ہیں اور ہر طبقہ کی عورتوں میں بیٹی پڑھاؤ بیٹی بڑھاؤ کا وہ نصاب زیربحث ہے جو یوگی اور مودی یونیورسٹی میں پڑھایا جائے گا کہ بھگوا لباس پہن کر اگر تمہیں ننگا کرنے والا اگر کچھ مانگے تو انکار نہ کرنا۔ ڈیرہ سچا سودا کے بابا کے پاس جب کوئی پامال کی ہوئی عورت نئی لڑکی کو بابا کے عشرت کدہ میں لے جاتی تھی تو اسے مبارکباد دیتی تھی کہ تمہاری قسمت کھل گئی اب بابا تم سے شریر مانگیں یا آتما تم چپ چاپ دے دینا کیونکہ وہ بھگوان ہیں اور یہاں آنے والیوں کی ہر چیز ان کی ہے۔ اب تو ایسا محسوس ہورہا ہے کہ شاہجہاں پور میں جو کالج سوامی چلاتے ہیں وہاں یہی نصاب پڑھایا جاتا ہوگا جو ڈیرہ سچا سودا میں پڑھایا جاتا ہے۔ اور حکومت اس عیاش کو جیسے بڑے اسپتالوں میں عیش کرا رہی ہے کیا ہر عیاش زانی کو علاج کے بہانے اسی طرح عیاشی کراتی ہے۔ ہم خود 9 مہینے وہاں رہ کر دیکھ آئے ہیں کہ بیماروں کے ساتھ کیا ہوتا ہے؟ اس معاملہ میں حکومت نے اتنا شرمناک رویہ اپنایا ہے کہ ہر عورت تھو تھو کررہی ہے جیل میں کوئی زیادہ بیمار ہوجائے تو اسپتال کی سستی گولیاں دی جاتی ہیں اور طبیعت بگڑنے پر اگر کوئی بڑا ڈاکٹر کہہ دے تو اسپتال بھیجا جاتا ہے لیکن یہ نہیں دیکھا جاتا کہ کون کیا ہے۔ اس بابا کے لئے دفعہ 376 کو بھی لگاکر ہلکا کردیا مگر گھٹیا درجہ کا مجرم ہے اس کے ساتھ رعایت اس کے پاپ سے بڑا جرم ہے۔
مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے
30ستمبر2019(فکروخبر)
جواب دیں