کیا ہم اپنے دعوئے توحید میں سچے ہیں

 ہم زبان سے اللہ اکبر کہتے ہیں ،ہمارے عمل سے اس کی کبریائی کا اظہار نہیں ہوتا

  عبدالغفارصدیقی

ہر انسان کسی نہ کسی دین اور مذہب کو مانتا ہے ۔ہر دین اورہر مذہب میں ایک خدا کا تصور موجود ہے ۔اسلام کے علاوہ بعض دیگر مذاہب بھی توحید کو دعویٰ کرتے ہیں ،لیکن مسلمان ان کے اس دعوے کی نفی کرتے ہیں اور انھیں مشرک کہتے ہیں ۔سوال یہ ہے کہ مسلمان بھی ایک اللہ پر ایمان رکھتے ہیں ۔وہ بھی توحید کے علم بردار ہیں ۔اسلام کے بنیادی عقائد میں توحید کو سب سے پہلا مقام حاصل ہے۔توحید کی تعریف مولانا محمد علی جوہر نے ان الفاظ میں کی ہے۔
توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے 
یہ بندہ زمانے سے خفا میرے لیے تھا 
ٰؑیعنی بروز حشر اللہ تعالیٰ فخر سے یہ فرمائے کہ میرا یہ بندہ سب سے زیادہ مجھ سے محبت کرتا ہے۔میری محبت میں اور مجھ سے وفاداری میں اس نے سارے زمانے کو اپنا مخالف بنالیا تھا۔اس نے اپنی خواہشوں کو میری رضا کے سامنے سرنگوں کردیا تھا۔اس نے اپنے اہل و عیال اور اعزہ و احباب کے مقابلے مجھے ترجیح دی تھی۔اس نے اپنی برادری اور سماج کے اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر میرے بنائے ہوئے قوانین پر عمل کیا تھا۔اس نے میری اطاعت میں دنیا کے تمام جھوٹے خداؤں کا انکار کردیا تھا۔میری محبت میں اس کو ستایا گیا،تپتی ریت پر لٹایا گیا،سولی پر لٹکایا گیا،قید و بند میں ڈالا گیا،میدان جنگ میں للکارا گیا لیکن میرے بندے نے تمام مصائب صرف میری محبت میں برداشت کیے۔میرے بندے نے میرے جھنڈے کو بلند کرنے کے لیے سردھڑ کی بازی لگادی تھی۔اس نے میری محبت میں حرام لقمہ سے،فراڈ اور کرپشن سے اجتناب کیا تھا۔اس نے میرے دشمنوں سے کبھی الفت کا اظہار تک نہیں کیا،کبھی ان لوگوں کی حمایت نہیں کی جو میرے دین کو ختم کرنے کے درپے تھے۔
آج جب میں اپنا اور اپنے گردو پیش کا جائزہ لیتا ہوں تو عقیدہ توحید کی یہ کیفیت کہیں نظر نہیں آتی۔صبح کی نیند ہمیں آرام گاہوں سے نکل کر اپنے محسن خدا کے حضور سجدہ ریز ہونے سے  روکتی ہے۔جس کو علامہ اقبالؒ نے کہا تھا۔
کس قدر تم پہ گراں صبح کی بیداری ہے
ہم سے کب پیار ہے ہاں نیند تمہیں پیاری ہے
ہم نے خدا کی محبت میں کیا چھوڑا بلکہ کیا گنوایا۔کچھ بھی تو نہیں۔ہماری ساری زندگی اسی میں گزرگئی کہ ہم سے کوئی ناراض نہ ہو جائے اور سب کو راضی رکھنے کے لالچ میں ہم نے خدا کو ہمیشہ ناراض رکھا۔ذرا بتائیے ہم نے بیوی کی محبت میں والدین سے کنارہ کشی کی یا نہیں،ہم نے اولاد کی محبت میں اس کے بے جامطالبات پورے کیے یا نہیں،اس کے جرائم کی پردہ پوشی کی یا نہیں،ہم نے سماج اور برادری کے مقابلے خدا کے قوانین کو فراموش کیا یا نہیں۔کبھی ہم نے خوشی کے مواقع پر خدا کو خوش کرنے کے بارے سوچا ہے؟بچہ پیدا ہوا تو نہ معلوم کون کون سی واہیات رسمیں انجام دیں،عقیقہ کی سنت ادا کرنے کی اول تو سعادت نہیں ملی اور جن کو ملی تو ان میں سے بیشتر نے اس کا بھی تماشہ بنادیا۔بچہ بڑا ہوا تو اس کی تعلیم میں خدا اور رسول کا ذکر تک نہیں۔اس کو معلوم ہی نہیں کہ وہ دنیا میں کیوں آیا ہے،اللہ نے نکاح کی سعادت بخشی تو اس موقع پر نوے فیصد وہ اعمال انجام دیے جن کو دیکھ کر شیطان خوشی سے جھوم اٹھا۔
آخر خدا کی محبت میں ہم نے کس کو ناراض کیا۔روئے زمین پر ایک آدمی بھی ایسا ہے جو ہم سے اس لیے ناراض ہو کہ ہم خدا کی بندگی کا دم بھرتے ہیں۔میرا خیال ہے کہ شاید ایک کروڑ میں کوئی ایک فرد ایسا ہو جس نے اللہ کو راضی کرنے کی فکر میں کسی ایک انسان کو ناراض ہونے کی سعادت دی ہو۔ پھر سوچیے کہ ہماے عقیدہ توحید کا معیار کا ہے؟
ہمیں خدا پر دل سے یقین ہی نہیں ہے،زبان سے بھلے ہی اس کو تسلیم کرتے ہوں ۔اس لیے کہ جس کو دیکھیے،جس سے ملیے اور جس سے احوال معلوم کیجیے وہ ٹینشن میں ہے۔سب سے زیادہ ٹینشن اس بات کی کہ وہ حصول دنیا میں پیچھے ہے۔اس کا بھائی اس سے زیادہ اہل مال ہے،اس کے پڑوسی کا مکان اس سے اچھا ہے،اس کے دوستوں کے پاس اسباب تعیش اس سے زیادہ ہیں۔لوگوں کو سب سے زیادہ ٹینشن رزق کی ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ ایک انسان کو اپنے ذرائع آمدنی میں اضافے کے لیے تگ و دو کرنا چاہیے لیکن کیا اس کے لیے حرام راستے اختیار کیے جائیں گے؟کیا راتوں کی نیند غائب ہونے کی وجہ یہ ہونی چاہیے؟ منصوبہ بندی کیجیے،جستجو کیجیے،مگر خدا کی رزاقیت پر ایمان کا تقاضا ہے کہ آپ کے چہرے پر اطمینان کا نور جھلک رہا ہواور رات میں سکون کی نیند سے آپ لطف اندوز ہورہے ہوں۔
ہمارے بیمار اگر چند دن زیادہ بیمار رہ جائیں تو پوچھتے ہیں کہ ہم پر اللہ نے یہ مصیبت کیوں ڈال دی ہے؟ موازنہ کرنے لگتے ہیں کہ فلاں فلاں تو بڑے بڑے گناہ کر رہا ہے اس کے باوجود وہ ٹھیک ہے اور ہم نماز بھی پڑھتے ہیں اس کا نام بھی لیتے ہیں اس کے باوجود ہم پریشان ہیں۔چند روز تک کہتا ہے اللہ شفا دینے والا ہے،پھر جیسے جیسے دن گزرتے ہیں جھاڑ پھونک اور تعویذ گنڈوں پر اتر آتے ہیں،مزارات پر سجدہ ریز ہوتے ہیںاور توحید ان کا منہ دیکھتی رہ جاتی  ہے۔ہمارے نوجوانوں کے ہاتھ میں لال دھاگا اسی طرح نظر آتا ہے جس طرح غیر مسلم نوجوانوں کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔
روزانہ درجنوں بار اللہ اکبر کہنے کے بعد بھی ہم اللہ کو بڑا نہیں سمجھتے ۔بڑا وہ ہوتا ہے جس کی بات بڑی ہوتی ہے ۔جس کی بات مانی جاتی ہے ،جس کی اطاعت کی جاتی ہے ،صرف کسی کو آداب بجالانے سے کوئی بڑا نہیں ہوجاتا۔اس پہلو سے اپنی زندگیوں کا جائزہ لیں تو ہماری زندگی میں خدا کا نمبر بہت بعد میں آتا ہے ۔اس وقت سے تو بڑا روپیہ ہے ۔جس کو دیکھو پیسے کی طرف بھاگ رہا ہے ،پیسے کے لیے سب کچھ دائوں پر لگارہا ہے ۔الیکشن میں جس طرح کوئی دبنگ اپنے گائوں کے ووٹوں کا سودا کرلیتا ہے اسی طرح ہمارے رہنما پوری قوم کا سودا کررہے ہیں ۔ہر جگہ گھوٹالا ہے ۔کافر تو کافر ٹھہرے ہم مسلمان بھی گھوٹالے باز ہیں ۔مساجد اور مدارس کے فنڈز تک میں ،اداروں اور جماعتوں کی مالیات میں ،گھوٹالے کی خبریں عام ہیں ۔ہوسکتا ہے دوچار اس سے مستثنیٰ ہوں۔
اللہ تعالیٰ کو خالق ،مالک ،کارساز،داتاماننے کے باوجود ہم نے کسی کو غوث ،کسی کو مشکل کشا ،کسی کو حاجت روا ،کسی کو اولاد دینے والا مان رکھا ہے ۔ہمارے جن بزرگوں نے اللہ کی محبت میں اپنی زندگی اللہ کے حکم کے مطابق گزاری ،ان کی نسبت ہم نے ایسی ایسی کرامتیں اور معجزے منسوب کردیے کہ کفر و اسلام کی تمیز ہی ختم ہوگیا ۔عالیشان مقبروں پر ہمارے عقیدت مندوں کے ہجوم نے غیر مسلموں اور مسلمانوں میں فرق کو ختم کردیا ہے ۔اس کے باوجود بھی ہم نعرہ تکبیر بلند کرتے اور ایک خدا کو ماننے کا دعویٰ کرتے ہیں ۔میں اپنے بزرگوں کی نیکی ،ان کے تقویٰ ،ان کی خدمات دین کو تسلیم کرتا ہوں ،مجھے فخر ہے کہ میرے ملک میں معین الدین چشتی ؒ ،نظام الدین دہلویؒ،فریدالدین گنج شکر ،صابر کلیری ؒ جیسے بزرگ تشریف لائے ،جنھوں نے یہاں اشاعت دین اور تبلیغ دین کا فریضہ انجام دیا ۔لیکن میں انھیں خدائی صفات میں کس طرح شریک کرسکتا ہوں ۔کیا ان میں سے کسی کو بھی خداکی کسی ایک صفت میں شریک مان لینا توحید کے منافی نہیں ہے ۔ 
جب قرآن میں فرمایا گیا کہ کوئی مصیبت اللہ کے حکم کے بغیر نہیں آتی،اور اللہ انسان پر اس کی طاقت سے بڑھ کر بوجھ نہیں ڈالتا،نیز ساری دنیا بھی کسی کو نفع پہنچانا چاہے تو اللہ کے حکم کے بغیر نفع نہیں پہنچا سکتی اور ساری دنیا نقصان پہنچانا چاہے تو اس کے حکم کے بغیر نقصان نہیں پہنچا سکتی نیزایک مومن اعلان کرتا ہے کہ میں تقدیر پر ایمان رکھتا ہوں تو پھر بوکھلاہٹ اور حواس باختگی کیسی؟ 
اس صورت حال میں معلوم ہوا کہ ہماری زندگی میں خدا کا مقام توہین آمیز ہے ۔ہم اپنی اولاد ،اپنی بیوی اور اپنے کسی ملازم کی اس بات سے ناراض ہوجاتے ہیں کہ وہ ہماری بات نہیں مان رہا ہے یا ہمارے احکام کی بجاآوری میں کوتاہی کررہا ہے ،بعض اوقات ہم اس کی اس حرکت کو اپنی اہانت سمجھتے ہیں ،ہم اس کو اپنی کرم فرمائیاں اور احسنات یاد دلاتے ہیں ۔ذرا سوچئے کہ اللہ تعالیٰ جس کو ہم اپنا رب ،خالق ،معبود اور حاکم تسلیم کرتے ہیں ،اس پر اس کی جملہ صفات کے ساتھ ایمان رکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں ،اس کے بے شمار احسانات اور اس کی لاتعداد نعمتوں سے مستفید ہوتے ہیں تو وہ اپنی نافرمانی پر کس قدر ناراض ہوتا ہوگا ۔کیا اسے اپنی توہین محسوس نہ ہوتی ہوگی ،حالانکہ وہ اپنی ذات میں آپ محمود ہے ۔اس پر کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہم اس کو تسلیم کریں یا اس کی تحسین کریں یا نہ کریں ۔لیکن جب ہم اس کا کلمہ پڑھ کر اس کی حاکمیت کا اقرار کرلیا ہو اور ساری دنیا کو بتادیا ہو ہم ایک اللہ پر ایمان رکھتے ہیں پھر اس کے احکام کو پس پشت ڈالنا اس کی توہین ہے یا نہیں ،اور اس کے باغیوں کے ساتھ ہاتھ ملانا خود اس سے بغاوت ہوئی یا نہیں ۔اب یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم خدا کی توہین کریں اور وہ ہمیں عزت و غلبہ عطا فرمائے ،ہم اس سے بغاوت کریں اور وہ ہمیں اقتدار و حکومت عطا فرمائے ۔معلوم ہوا کہ اس وقت بحیثیت مجموعی جو ہم ساری دنیا میں بالعموم اور بھارت میں بالخصوص رسوا ہورہے ہیں اور ہم پر کفر مسلط ہورہا ہے

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے ۔

«
»

اب انھیں ڈھونڈ چراغ ِرخِ زیبا لے کر

نماز کے احکام کو قرآنی آ یات کی روشنی میں سمجھئے اور ان کا حق ادا کیجئے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے