لیکن سنہ۱۹۹۰ آتے آتے سوویت یونین اپنے داخلی تضادات وفلسفے اور عمل کے تضاد کے باعث بکھرگیا اور مارکسی فلسفہ مشرقی یوروپ اور روس سے اپنے نظام کے ساتھ ختم ہوگیا۔اب یوروپ اور امریکہ کو اپنی برتری کے لئے ایک مشترکہ دشمن کی ضرورت تھی، کیونکہ عیسائی دنیا کی روایتی دشمنی اسلام اور اسلامی دنیا سے رہی ہے، اس لئے انہوں نے اپنارخ مسلمانوں اورسلامی دنیا کی طرف کیا۔ اس کیلئے مغربی مفکروں نے عوام کے ذہن کو تیار کرنے کیلئے ایک نیا فلسفہ تہذیبوں کاتصادم کے نام سے پوری دنیا میں پھیلایا۔ اس کے مفکر امریکہ کے یہودی دانشور اور امریکی فکر کے روح رواں سمیول ہٹنگٹن تھے۔
انہوں نے اپنی کتاب ’’تہذیبوں کے تصادم‘‘ میں اس نظریہ کو پیش کیا کی آئندہ دنیا میں مغربی تہذیب کا تصادم اسلا می دنیا اور اسلامی تہذیب سے ہونے والا ہے۔ اور اسلامی تہذیب پورے عالم انسانیت کے لئے خطرہ ہے، کیونکہ یہ تہذیب جہاد کے ذریعہ پوری دنیا کے مسلموں کو اپنا شکار بنائے گی اسی لئے مغربی مفکروں نے اسلامی دہشت گردی لفظ کو ایجاد کیا۔اور پوری دنیا کو یہ بتانے کی کوشش کی کہ اسلام بھی کمیونسٹ نظام کی طرح انسانیت کے لئے خطرناک نظریہ ہے اس لئے اس کو ختم کرنا ضروری ہے۔
تہذیبوں کے تصادم میں ایک طرف امریکہ کی رہنمائی میں پورا پوروپ ایک ساتھ ہوگا اور دوسری طرف اسلامی دنیا اور اس کے کٹرمذہبی ڈکٹیٹر۔
ہٹنگٹن نے اس تصادم میں منگول نسل اور ان کے ملک چین جاپان اور کوریا وغیرہ کو جانبدار بتایا۔ لیکن ہٹنگٹن کا یہ نظریہ دو دہائی سے بھی کم وقت میں غلط ثابت ہونا شروع ہوگیا ہے۔ اسکا ثبوت امریکہ اور پوروپ میں معاشی بدحالی اور مندی ہے، جس کے باعث ۱۹۱۷ء کے بعد امریکہ کی معاشی ریٹنگ تھری پلس سے گرکر ٹوپلس ہوگئی ہے، اور امریکہ کے بعد فرانس بھی مالی اور معاشی بحران کا شکار ہورہاہے۔ اور اس کی ریٹنگ بھی گرنے والی ہے، اسی طرح امریکہ کے اتحادی اسپین اورپرگال دیوالیہ ہونے کے دہانے پرہیں، جب کہ چین لگاتار ترقی کرتاجارہا ہے۔ اور عالمی سیاسی اور معاشی اثرات کو بھی بڑھادیا ہے۔ اور عالمی سیاست کے جانکار چین کو مستقبل کا سیاسی اورمعاشی سپرپاور مانتے ہیں۔
آخر جو ملک دنیا کے سپرپاور ہوگا وہ مستقبل میں ہونے والے تہذیبوں کے تصادم میں غیرجانبدار کیلئے رہے گا۔ جب کہ دونوں طرف کی طاقتوں کے پاس ایٹمی اسلحے اور دور تک مارکرنے والی میزائل بھی ہیں۔ اورجو ملک دنیا کا سپرپاور ہوگا اس کے مفادات دنیا کے دیگر ملکوں سے وابستہ ہوتے ہیں۔ اور وہ ملک اپنے اہم مفادات کی حفاظت اور اپنے دوستوں کی مدد کیلئے آگے آتے ہیں، اور مداخلت کرتے ہیں جیسے آج کا سپرپاور امریکہ پوری دنیا میں مداخلت کرتا ہے۔ کہیں پر جمہوریت کے نام پرکہیں پر انسانیت کے نام پر۔
امریکہ اورمغربی ممالک جس معاشی بحران میں گذشتہ تین چار سالوں سے متبلا ہیں اوروہ لگاتار اس سے نکلنے کی کوشش کررہے ہیں، اور اس میں اپنی پوری صلاحیت اور ذہانت لگادے رہے ہیں، لیکن وقتی طور پر کچھ سکون حاصل کرنے کے بعد وہ اس میں پھر متبلا ہوجاتے ہیں۔
اب تویہ ڈر لگتا ہے کہ بحران ان ملکوں کی تباہی کے ساتھ ہی نہ ختم ہو، کیونکہ روس بھی تمام ترقی اور فوجی طاقت کے ہوتے ہوئے بھی اپنے مالی بحران سے نجات نہیں پاسکا اور بکھرگیا، روس بھی اپنی معیشت کو تب تباہ کر بیٹھا جب وہ افغانستان میں ایک غیر ضروری جنگ دس سال ٹک لڑرہا تھا۔ اور بالکل تباہی اس کا مقدر بنی۔
امریکہ بھی معاشی بحران میں افغان اور عراق کی مسلسل ۲۰ سالہ جنگ کے باعث گرفتار ہوا ہے۔ کیوکہ امریکن کانگریس کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکا نے سنہ۱۱۔۱۰۱۰۔ کے دوران افغانستان میں اپنی فوج پر ۱۵۳ ارب ڈالر خرچ کئے ہیں جب کہ ہندوستان جیسا ملک جس کی فوج دنیا میں تیسرے چوتھے نمبر کی ہے پچھلے سال اپنی فوج پر ۳۲ ارب امریکی ڈالر خرچ کیا۔ اس سے اس بات کا عندیہ ملتا ہے کہ امریکہ نے اگر تہذیبوں کی جنگ کے نظریے پر عمل کیا اور اس نظریے سے متاثر مفکر کی رائے مانی تو امریکہ کا زوال یقینی ہے۔
ویسے بھی ایشیائی ممالک جس تیز رفتاری سے ترقی کررہے ہیں اس سے لگتا ہے کہ یہ صدی ایشیاء کے ممالک کی برتری کی صدی ہوگی اور دنیا امریکہ کے دوہرے انصاف کے معیار اور پوروپ سے مصلحت آمیز خلوس سے آزاد ہوجائے گی۔
جواب دیں