ان غیر مسلم رعایا(ذمیوں) کے بارے میں اسلامی تصوریہ ہے کہ وہ اللہ اور رسول کی پناہ میں ہیں۔ا س بناء4 پر اسلامی قانون ہے کہ جو غیر مسلم، مسلمانوں کی ذمہ داری میں ہیں ان پر کوئی ظلم ہوتو اس کی مدافعت مسلمانوں پر ایسی ہی لازم ہے جیسی خود مسلمانوں پر ظلم ہوتو اس کا دفع کرنا ضروری ہے۔(مبسوط سرخسی:۱/۵۸)
امت مسلمہ نے ان اخلاقی اور قانونی ہدایات اور عہد رسالت کے علمی نمونوں کو ہر دور میں پوری اہمیت دی اور روئے زمین پر ایک پرامن قوم کی حیثیت سے اپنی پہچان قائم کی۔ مسلمانوں نے اس مقصد کے لئے غیرمسلموں کے ساتھ بھی فراخدلانہ رویہ اختیار کیا، ان کے حقوق و جذبات کی رعایت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور ہر ممکن کوشش کی کہ کسی طرح قیام امن کا عمل متاثر نہ ہو خواہ اس کے لئے ان کو بڑی سے بڑی قربانی ہی کیوں نہ دینی پڑے۔ مسلمانوں کی انہی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ مسلمانوں کی صدیوں پرانی تاریخ میں فرقہ وارنہ فسادات اور خونریز ہنگاموں کا دور دور تک کوئی نشان نہیں ملتا۔ مسلمانوں کے امن پسند ہونے کی اس سے بڑی شہادت کیا ہوسکتی ہے؟ اسلامی عہد حکومت کے مختلف ادوار سے بعض نمونے پیش کئے جاتے ہیں: عہد رسالت کے بعد تاریخ اسلامی کا سب سے قیمتی عہد؛ عہد صدیقی ہے۔ اس عہد کا ابتدائی حصہ اگر چہ ہنگامی حالات سے لبریز ہے مگر اس کا زیادہ تر تعلق خارجی ہے۔ داخلی طور پر ملک میں کوئی بدامنی نہیں تھی اور بالخصوص غیرمسلموں کے ساتھ پوری رواداری اور فراخدلی کا ماحول قائم تھا۔ چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق کے عہد میں جو ممالک فتح ہوئے؛ وہاں غیرمسلم آبادی کے حقوق کا مکمل لحاظ رکھا گیا۔ حیرہ فتح ہوا تو وہاں کے عیسائیوں سے یہ معاہدہ ہوا کہ ان کی خانقاہیں اور گرجا گھر منہدم نہ کئے جائیں گے، ان کا وہ قصر نہیں گرایا جائے گا جس میں وہ ضرورت کے وقت دشمنوں کے مقابلہ میں قلعہ بند ہوتے ہیں، ان کے ناقوس اور گھنٹے بجانے پر پابندی نہ ہوگی، تہوار کے موقع پر صلیب نکالنے پر ممانعت نہ ہوگی، اسی معاہدہ میں یہ بھی تھا کہ یہاں کے ذمیوں کو فوجی لباس کے علاوہ ہر طرح کی پوشاک پہننے کی اجازت ہوگی بشرطیکہ وہ مسلمانوں سے مشابہت پیداکرنے کی کوشش نہ کریں حضرت فاروق اعظم کا عہد پوری دنیائے حکمرانی کی تاریخ میں ایک امتیازی حیثیت کا حامل ہے۔ ملک کی ترقی و خوشحالی، امن وامان کی بحالی، داخلی سلامتی، خارجی سیاست، پیداوار میں اضافہ، ایجادات واکتشافات اور علمی تحقیقات کے لحاظ سے یہ عہد اپنی مثال آپ ہے۔
آپ کے عہد میں بیت المقدس فتح ہوا تو خود حضرت عمر فاروق کی موجودگی میں وہاں کے لوگوں سے یہ معاہدہ ہوا کہ: یہ وہ فرمان ہے جو خدا کے غلام امیرالمومنین نے ایلیاء4 کے لوگوں کو دیا؛ کہ ان کا مال، گرجا، صلیب، تندرست بیمار اور ان کے تمام مذہب والوں کیلئے ہیں۔ اس طرح کہ ان کے گرجاؤں میں نہ سکونت کی جائے گی اور نہ وہ ڈھائے جائیں گے، نہ ان کو اور نہ ان کے احاطے کو نقصان پہنچایا جائے گا، اور نہ ہی ان کے صلیبوں اور ان کے مال میں کچھ کمی کی جائے گی، مذہب کے بارے میں ان پر جبر نہ کیا جائے گا،۔‘‘ (الفاروق، شبلی ۲/۷۳۱)
حضرت عثمان غنی کاعہد بھی امن وامان کی بحالی، مختلف قوموں کے ساتھ رواداری، داخلی سلامتی اور ترقی و خوشحالی کے لحاظ سے مثالی تھا۔ آپ کے دور میں نجران کے عیسائیوں کو بعض مسلمانوں سے کچھ شکایات پیداہوئیں تو آپ نے فوراً ان کی طرف توجہ کی۔ حاکم نجران ولید بن عتبہ کے نام خصوصی مکتوب تحریر فرمایا اور امن وامان کی صورت حال بگڑنے نہ دی۔ (کتاب الخراج لابی یوسف،ص:۶۷۲) حضرت علی کا عہد بظاہر سخت انتشار وخلفشار سے پر ہے اور سخت ہنگاموں سے حضرت علی کو فرصت نہ مل سکی مگراس کے باوجود غیرمسلم اقلیتوں، اسی طرح غیرجانبدار طبقات کی سلامتی کے باب میں کسی جزء4 پر انگلی رکھنے کی گنجائش نہیں ہے۔ غیرمسلموں کی آب پاشی کی ایک نہر پٹ گئی تھی حضرت علی نے وہاں کے گورنر طرفہ بن کعب کو لکھا کہ: اس نہر کو آباد کرنا مسلمانوں کا فرض ہے۔ میری عمر کی قسم! مجھے اس کا آباد رہنا زیادہ پسند ہے۔ (تاریخ اسلام،ج:۱، ص:۸۶۳ شاہ معین الدین) یہ تو خیر خلفائے راشدین کا عہد تھا جس سے بہتر اسلامی حکمرانی کا نمونہ ملنا مشکل ہے؛ لیکن بعد کے ادوار میں بھی مسلم حکمرانوں نے غیرمسلموں کے ساتھ رواداری اور مروت کی اس روایت اور نظام امن کے اس سلسلے کو باقی رکھا اور تاریخ حکمرانی میں اس کی زریں مثالیں قائم کیں۔
خود ہمارے ہندوستان میں مسلم حکمرانی کا دور ۲۱۷/ میں شروع ہوا محمد بن قاسم ۲۱۷/ میں پہلی بار سند آئے ان کی عمر اس وقت سولہ(۶۱) برس تھی۔ انھوں نے سندھ آکراپنی پالیسی کا اعلان اس طرح کیا: ’’ہماری حکومت میں ہر شخص مذہب میں آزاد ہوگا، جو شخص چاہے اسلام قبول کرلے جو چاہے اپنے مذہب پر رہے، ہماری طرف سے کوئی تعرض نہ ہوگا۔‘‘ محمد بن قاسم صرف ساڑھے تین سال ہندوستان میں ٹھہرے، بہت سے مندر بنوائے بہت سوں کی مرمت کرائی، مندروں کو جاگیریں دیں اور برہمنوں اور پجاریوں کے وظائف بحال رکھے، ان کے دور حکومت میں بڑے بڑے عہدے غیرمسلموں کے پاس تھے۔ (ہندوستان میں اسلام، جناب عبدالباری ایم، اے)
تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ محمد بن قاسم کی عدل پروری اور محاسن کا رعایا پر اتنا اثر پڑا کہ جب وہ سند سے رخصت ہوئے تو ان کی یاد میں ایک دھرشالہ تعمیر کیاگیا کچھ ہندوؤں اور بودھوں نے محمد بن قاسم کا اسٹیچو بناکر ان کی پرستش شروع کردی۔ (آئینہ? حقیقت۱/۱۰۱ بحوالہ اسلام امن وآشتی کا علمبردار ص:۳۷) اسی طرح متحدہ عرب امارات کی حکومت نے غیرمقیم ہندوستانی شہریوں کے طویل عرصے سے کئے جانے والے مطالبے کو پورا کرتے ہوئے ایک مندر بنانے کے لیے زمین دینے کا اعلان کیا ہے۔
وزارت خارجہ کے ترجمان وکاس سوروپ نے آج یہاں بتایا کہ متحدہ عرب امارات میں وزیر اعظم نریندر مودی کے دورے کے دوران سب سے اہم فیصلوں میں سے ایک فیصلہ کل رات کیا گیا اور یہ فیصلہ بھی صرف 26 لاکھ غیر مسلموں کے مطالبے پر کیا گیا ہے تو کیا ہمارے وزیر اعظم جو سب کا ساتھ سب کا وکاس کا نعرہ لگا کر ملکوں ملکوں کا سفر کرتے ہیں اور اپنا امیج سیکولر بنانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں کیا وہ ہندوستان میں مسلمان جو دوسری سب سے بڑی قوم ہیں۔ جن کی تعداد تقریبا 30 کروڑ ہے ان کی آج سے 23 سال پہلے 6 دسمبر 1992ء4 کو ایودھیا میں واقع تقریبا 500 سال پرانی تاریخی بابری مسجد کو انتہا پسند ہندؤں نے شھید کیا۔ شہد ہونے کیبعد جسٹس لبراہن کمیشن کا قیام عمل میں آیا اور اسے تین ماہ کے اندر یعنی 16 مارچ 1993 تک اس بات کا پتہ لگا کر اپنی رپورٹ دینی تھی کہ کن حالات کے نتیجے میں بابری مسجد مسمار کی گئی۔ لیکن یہ ہندوستان کی تاریخ کا سب سے طویل انکوائری کمیشن ثابت ہوا اور اس کی مدت کار میں ریکارڈ 48 مرتبہ توسیع کی گئی اورکمیشن میں متعدد مرتبہ توسیع دیے جانے کے باعث لیبرہان کمیشن کافی عرصے سے تنازعات کا شکار رہا اور بالاخر17 سال بعد جسٹس لیبرہان نے 30 جون 2009 کو رپورٹ ہندوستانی وزیراعظم کو پیش کردی اور یہ رپورٹ نومبر2009 کو ہندوستانی پارلیمنٹ میں پیش کی گئی۔ تاہم اس دوران بابری مسجد کی عدالتی کارروائی بھی جاری رہی اور دونوں فریقوں کی جانب سے15 ہزار صفحات پر مشتمل دستاویزات بھی پیش کی گئیں آج دنیا کا ہر باشعور انسان ہندوستان کے وزر اعظم سے یہ توقع رکھتا ہے کہ وہ ایک جمہوری اور سیکولر ملک کا دعویدار ہونے کے ناطے اس اہم مقدمہ میں ملوث افراد کو کیفر کردار تک پہنچایں گیں؟ اور ہندوستان کی سب سے بڑی اقلیت یعنی مسلم آبادی کے مطالبات کو پورا کریں گیں؟ اور اس لئے بھی کہ آج سے کئی سال قبل ہندوستانی قوم سے خطاب کرتے ہوئے اس وقت کیوزیراعظم نرسمہاراؤ نے مسلمانوں سے وعدہ کیا تھا کہ بابری مسجد اسی مقام پر تعمیر ہوگی لیکن آج تک اس وعدے پرعمل نہ ہوسکا۔
جواب دیں