کیاعلمائے کرام بھارت کے انمول رتن نہیں ہیں؟؟؟

یہ اعزاززندگی میں بھی دیاجاتاہے اوربعدازمرگ بھی جیساکہ ہندوستان کے پہلے وزیرتعلیم اورمشہورمجاہدآزادی حضرت مولانا ابوالکلام آزادرحمۃ اللہ علیہ کوبعدازمرگ ۱۹۹۲ء میں اس اعزازسے نوازاگیا۔دراصل جب مولاناآزادرحمۃ اللہ علیہ باحیات تھے اسی وقت اس اعزازکے لیے ان کانام پیش کیا گیا تھالیکن انہوں نے یہ کہہ کرلینے سے انکارکردیاکہ میں خوداس کمیٹی کاایک رکن ہوں جواس اعزازکے انتخاب کے لیے بنائی گئی ہے لہٰذامیرے لیے اس اعزازکولینااخلاقی طور پر درست نہیں ہوگا۔اسی طرح نیتاجی سبھاش چندربوس کے لیے بھی اعلان کیاگیالیکن ان کی موت پہ تنازع ہونے کی وجہ سے ان کانام واپس لے لیاگیا۔یہ اعزاز غیر ہندوستانیوں کوبھی ان کے نمایاں خدمات کے لیے دیاجاتاہے اوراب تک اس اعزازسے دوغیرہندوستانی نوازے جاچکے ہیں،جن میں ایک سرحدی گاندھی خان عبدالغفارخان ہیں اوردوسرے جنوبی افریقہ کے سابق صدرنیلسن منڈیلاکانام قابل ذکرہے۔
بھارت رتن اعزازیافتہ افراد کے لیے کوئی مستقل عہدہ یامنصب تونہیں ہے لیکن پروٹوکول کے اعتبارسے اس کوصدرجمہوریہ کے بعدساتواں مقام حاصل ہوتاہے،اوراس مقام پر اس کے ساتھ کابینہ درجہ کے وزیر،ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ،اپوزیشن رہنمااورپلاننگ کمیشن کے چیرمین ہوتے ہیں۔دراصل یہ ہندستانی نظام کاایک پروٹوکول ہے جس میں بہ اعتبارعہدہ ۲۵؍درجے ہیں ان میں سب سے پہلادرجہ صدرجمہوریہ،دوسرانائب صدر،تیسراوزیراعظم،چوتھاریاستوں کے گورنرس،پانچواں سابق صدورجمہوریہ،چھٹاچیف جسٹس اورلوک سبھااسپیکراورساتواں درجہ کابینہ وزیر،ریاستوں کے وزراے اعلیٰ وغیرہ کے ساتھ بھارت رتن اعزازیافتہ کو حاصل ہوتاہے،اس کامطلب یہ ہے کہ جو پروٹو کول ان حضرات کوملے گاوہی پروٹوکول بھارت رتن پانے والے کوبھی ملے گا۔جوکہ ایک بڑااعزازہے جبکہ پروٹوکول کے اعتبارسے ممبرپارلیمنٹ کادرجہ ۲۱؍ویں نمبر پر آتا ہے۔
بھارت رتن دینے میں کسی مذہب یاذات پات کابھیدبھاؤنہیں ہے،بلکہ یہ اعزازبغیرکسی مذہب وملت اورذات پات کی تفریق کے ہراس ہندستانی شہری کودیاجاتاہے جس نے انسانوں کونفع پہونچانے والے کسی میدان میں کارہائے نمایاں خدمات انجام دیے ہوں،اس کے اس کارنامہ پروزیراعظم صدرجمہوریہ سے یہ سفارش کرتا ہے کہ فلاں شخص کواس کی فلاں نمایاں خدمات کے لیے یہ اعزازدیاجائے اورپھرحکومت کی جانب سے منعقدہ ایک پروقارتقریب میں اس شخص کویہ اعزازدیاجاتاہے،یہ اعزازمیں ایک میڈل کی شکل میں ہوتاہے۔آزادی کے بعد۱۹۵۴ء میں اس اعزازکوشروع کیاگیااوراب تک تقریبا۴۱؍لوگوں کواس اعزازسے نوازاجاچکاہے جس میں سائنس داں،ادیب،فن تہذیب و ثقافت سے جڑے نمایاں افرادشامل ہیں لیکن حیرت وافسوس کی بات یہ ہے کہ اس میں آج تک کسی عالم دین کانام شامل نہیں ہوسکاہے یایہ کہ حکومت نے انہیں اپنے بھارت کا انمول رتن سمجھاہی نہیں جبکہ آزادی سے قبل اورآزادی کے بعدسیکڑوں ایسے علماء دین نے جنم لیاہے جنہوں نے اپنے نمایاں کارناموں سے پوری انسانیت کوفائدہ پہونچایا ہے، اتناہی نہیں ان کے کارناموں کی شہرت سن کردیگرممالک نے انہیں اعزازات سے نوازاہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ جس ملک میں انہوں نے جنم لیاجس کی مٹی سے وہ تیار ہوئے ،اپنے نمایاں کارناموں سے جس ملک کے نام کوپوری دنیامیں روشناس کرایاوہی اپناملک اس کی قدرنہیں کرسکا،آج بھی دنیاکے بہت سارے ممالک ایسے ہیں جوہندستان کوکسی نہ کسی مشہورعالم دین کی وجہ سے زیادہ جانتی ہیں۔لیکن ہندستان نے اپنے ان سپوتوں کونوازنے کے بارے میںیاان کی قدرومنزلت کے بارے میں کبھی نہیں سوچا، آخر کیوں؟کیایہ علمائے دین جوپوری انسانیت کے لیے انمول رتن ہیں بھارت رتن کے لائق نہیں ہیں،یہ الگ بات ہے کہ علمائے دین نے کبھی بھی ان دنیاوی اعزازات کی پرواہ نہیں کی اوراس طرح کی سیکڑوں نہیں ہزاروں مثالیں مل جائیں گی کہ جب کبھی ان علماء کرام کوکسی شاہی دربارسے کسی لقب یاخطاب یاکسی اعزازکی پیش کش کی گئی ہے توانہوں نے اسے ٹھکرادیا ہے،انہوں نے اسے قبول کرنااپنے علم دین کی تحقیرسمجھاہے،لیکن آج کے حالات الگ ہیں،آج ہم جس ملک میں سانسیں لے رہے ہیں اس ملک کوآزادکرانے میں ہمارے انہیں انمول رتنوں کاخون پسینہ ہے جنہیںآج کی موجودہ حکومت بھارت رتن کے لائق نہیں سمجھ رہی ہے،آج یہ لوگ جس ملک پراپنی جاگیرسمجھ کرحکمرانی کررہے ہیں اس ملک کوان کے آباواجدادنے نہیں بلکہ ہمارے آباواجدادنے میدان جنگ میں اپناخون بہاکرآزادکرایاہے اسی لیے بھارت رتن پران سے زیادہ ہمارے ان علماء کرام کابنتاہے جنہوں نے صرف ایک میدان یاایک ملک نہیں بلکہ مختلف میدانوں میں نمایاں کردارانجام دیتے ہوئے ہندوستان کوعالمی سطح پرسراٹھاکرجینے کاحق دیا۔
ذراغورکریں!ہندوستان کی شاندارماضی کامطالعہ کریں،اوردیکھیں کہ کیایہ اکابرجنہوں نے اپنے خون کے ایک ایک قطرہ سے ہندستان کوتعمیرکرنے میں اہم کرداراداکیا،کیاہماری حکومت کایہ حق نہیں بنتاکہ انہیں بعدازمرگ ہی سہی ان کی خدمات کااعتراف کرتے ہوئے ان کے لیے ہندستان کاسب سے بڑااعزاز’’بھارت رتن‘‘دیاجائے،ہندوستان کی مشہوراوربین الاقوامی حیثیت کی مرکزی اسلامی یونیورسٹی کے بانی حضرت مولانامحمدقاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ اس لائق نہیں ہیں کہ انہیں بھارت رتن سے نوازاجائے؟آج دارالعلوم دیوبندکی عالم میں جوحیثیت ہے اس سے یہ حکومت بھی واقف ہے اورپوری دنیاواقف ہے،یہی وہ مرکزی ادارہ ہے جن کے جیالوں نے ہندوستان کی آزادی اورآزادی کے بعداس کی تعمیرمیں نمایاں کارنامہ انجام دیاہے،کیاندوۃ العلماء کے بانی حضرت مولانامحمدعلی مونگیری رحمۃ اللہ علیہ اس اعزازکے لائق نہیں ہیں کہ انہیںیہ اعزازدیاجائے کہ جن کا لگایا ہواپوداآج شجرسایہ دارکی حیثیت اختیارکرگیاہے،اورجس کے کارناموں کی گونج پوری دنیامیں سنی جارہی ہے،کیاہندوستان میں مسلمانوں کی شان کہے جانے والے ادارہ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے بانی اورمفکرملت حضرت سرسیداحمدخاں رحمۃ اللہ علیہ اس لائق نہیں کہ انہیں بھارت اپنا انمول رتن سمجھ کربھارت رتن اعزازسے نوازے؟جن کاقائم کردہ ادارہ ہندوستان کونہ جانے کتنے آئی اے ایس،آئی پی ایس،انجئینروغیرہ دے چکاہے،آج ہندوستان کانائب صدرجمہوریہ بھی علیگ ہے اوروہ وائس چانسلربھی رہ چکے ہیں،کیاان اداروں کاہندوستان کی تعمیروترقی میں کوئی عمل دخل نہیں ہے؟کیاان اداروں کے سپوتوں نے پوری دنیامیں اپنے ملک کانام روشن نہیں کیاہے؟یقیناکیاہے،آج یہ اعزازناچنے گانے اورکھیل جیسے لایعنی فن میں مہارت پیداکرنے والوں کودیاجاتاہے جوکہ صرف اورصرف پیسہ کمانے کے لیے کھیلتے ہیں،اگرسرکارانہیں پیسہ دینابندکردے اور ان سے یہ کہا جائے کہ تین مہینہ تک آپ کوصرف یہ کھیل ملک کے لیے کھیلناہے،کیاوہ کھیلیں گے ؟ نہیں ہرگز نہیں!لیکن عجیب وغریب معاملہ ہے کہ اعزازات بھی انہیں ہی دیا جاتا ہے، لیکن وہ لوگ جوصرف اورصرف انسانیت کی خدمت کے لیے دن رات محنت کرتے ہیں،انسانیت کو فائدہ پہونچانے کے لیے اپناسب کچھ لٹادیتے ہیں اورساتھ ہی پوری دنیا میں ملک کا نام روشن کرتے ہیں،حکومت ان کے بارے میں سوچتی تک نہیں!آخرکیوں؟کیااس میں ہماری حکومت کی لاپرواہی کے ساتھ ہماری غفلت شامل نہیں ہے؟ کہ آج تک ہم نے حکومت کی توجہ اس جانب نہیں دلائی،حکومت سے زیادہ ہم خودقصوروارہیں کہ اپنے ہی گھرمیں ہمارے ساتھ بیگانوں ساسلوک ہوتاہے اورہم خاموش رہتے ہیں،آخرکب تک؟
آزادی کے بعدبھی ایسی سیکڑوں مثالیں ہیں جنہوں نے اپنی نمایاں خدمات سے ملک وملت کانام روشن کیاہے اورجوکہ اس اعزازکے بجاطورپرحق دارہیں لیکن انہیں بھی محروم رکھا گیا،ان ہستیوں کامکمل احاطہ تویہاں مشکل ہے،لیکن چندناموں کاتذکرہ ضروری سمجھتاہوں جن میں:شیخ الہندمولانامحمودالحسن دیوبندی،ابوالمحاسن مولاناسجادبہاریؒ ، مولانا اشرف علی تھانویؒ ،علامہ شبلی نعمانی،علامہ سیدسلیمان ندویؒ ،مولانامحمدعلی جوہرؒ ،حضرت شیخ الاسلام مولاناحسین احمدمدنیؒ ،حکیم الاسلام حضرت قاری طیب صاحبؒ ،امیرشریعت حضرت مولامنت اللہ رحمانیؒ اورحضرت مولاناسیداسعدمدنیؒ وغیرہم کی نابغۂ روزگارشخصیات اس قابل ہیں کہ انہیں ہرحال میں اس اعزازسے نوازاجاناچاہیے،کیوں کہ ان حضرات نے اپنے اپنے میدان میں کارہائے نمایاں انجام دیتے ہوئے ملک وملت کانام پوری دنیامیں روشن کیاہے،اسی طرح ماضی قریب کی دواہم شخصیتوں کاذکرکیے بغیریہ تذکرہ ادھورارہ جائے گااوروہ دونوں شخصیات ہی بین الاقوامی ہیں اوردونوں شخصیتوں نے اپنے اپنے میدان میں اتنابڑاکام کیاہے کہ آنے والی نسل ان کے ان کارناموں سے استفادہ کرتی رہے گی،ان میں مفکراسلام حضرت مولاناابوالحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ ہیں جنہوں نے صرف اورصرف برصغیرایشیاء اورعرب ممالک میں ہی نہیں بلکہ یورپ،افریقہ امریکہ اور کناڈا جیسے دوردرازعلاقوں میں بھی اپنی علم کی روشنی پہونچائی اورآج تک وہاں ان کے کارناموں کی گونج ہے،اوروہ بجاطورپراس اعلیٰ اعزازکے مستحق ہیں،اسی طرح دوسری شخصیت فقیہ الامت داعی اسلام اورقاضی القضاۃ حضرت مولاناقاضی مجاہدالاسلام قاسمی رحمۃ اللہ علیہ کی ہے جنہوں نے اپنے مخصوص میدان فقہ اورقضاء میں صرف ہندوستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیاکوفائدہ پہونچایاہے اورساتھ ہی ملک وملت کی قیادت کافریضہ بھی بحسن وخوبی انجام دیاہے،اورآج ایک بڑی دنیاان کے علم وتفقہ کے ساتھ ساتھ ان کی قیادت وسیادت کی قائل ہے اوروہ اس اعزازکے حقیقی حقدارہیں۔یہ حقیقت ہے کہ ان روحانی شخصیات کی عظمت کے لیے بھارت رتن کی کوئی اہمیت نہیں ہے لیکن موجودہ دورمیںآنے والی نسل کوان کی خدمات سے روشناس کرانے کے لیے اوران لوگوں تک ان کی خدمات جلیلہ پہونچانے کے لیے جوانہیں اس حوالہ سے دیکھنے کے زیادہ متمنی ہیں اس بات کی ضرورت ہے کہ ملک گیرسطح پراپنی تقریرکے ذریعہ،تحریرکے ذریعہ حکومت تک اپنی بات پہونچائی جائے اوران اکابرملت کے لیے بھارت رتن کاپرزورمطالبہ کیاجائے،میں نے تواپنافریضہ سمجھتے ہوئے ایک بحث کاآغازکردیاہے اب آپ کاکام ہے اسے حکومت کے کانوں تک پہونچانااورصحیح حقدارتک اس کاحق پہونچانا۔

«
»

کم عمر نظر آنے والی خواتین کا بلڈ پریشر کم ہوتا ہے:تحقیق

یورپ میں لوگ زندگی سے کس قدر مطمئن ؟ جائزہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے