جب اللہ کا قہر نازل ہوتاہے توکوئی طاقت پوری دنیا کی نہیں روک سکتی ہے اورایسا قہر کبھی کبھی نازل ہوتاہے اس کی وجہ ہے کہ بندہ امربالمعروف چھوڑتاہے اورنہی عن المنکرکواختیارکرتاہے اورجب انسان حدسے تجاوزکرتاہے تواللہ جل جلالہ اس پر قہر برپاکردیتاہے۔کشمیر میں سیلاب کی صورتحال پر بے حد تشویش ہے سیلاب نے کشمیر میں زبردست جانی مالی نقصان ہوا ہے۔ مرکزی حکومت کے اعداد وشمار کے مطابق تقریباً 4 لاکھ لوگ سیلاب میں پھنسے ہوئے ہیں،جن سے سبھی قسم کے رابطہ منقطع ہوچکے ہیں اور جموں وکشمیر میں خطرناک صورتحال پیدا ہوچکی ہے ،وہاں اس وقت پانی ،بجلی،دوائیں،رہائشی ٹینٹ ،غذائی اشیاء خاص طور پر بچوں کی غذائی ضروریات کی سخت ضرورت ہے۔ وہاں ضروریات زندگی کا سامان کسی جگہ دستیاب نہیں ہے اور اس وقت وہاں جنگی پیمانہ پر امداد کی ضرورت ہے ۔مزیدمرکزی حکومت کوچاہئے کہ وہ ہندوستان کی پرائیویٹ ائر لائنس کے مالکان کو سیلاب زدہ علاقوں میں امدادی سامان لے جانے کے لئے احکامات دیں ،کیونکہ سڑک کے ذریعہ وہاں تک پہنچنا ممکن نہیں ہے۔ واضح ہوکہ ذرائع ابلاغ او ر و سائل نقل وحمل کے منقطع ہو جانے کی وجہ سے جانی و مالی اتلاف کا صحیح اندازہ نہیں ہو رہا ہے۔ اگر حکومتیں قبل از وقت خود حفاظتی کے انتظامات کرتیں تو اس قدرجانی و مالی نقصانات سے باشندوں کو بچایا جاسکتا تھا۔ اس گھڑی میں تباہ حال لوگ ہماری ہر طرح کی امداد کے مستحق و محتاج ہیں ۔
دوستو اللہ کے قہرکا مثال اورتذکرہ ہزاروں کڑوروں سے زائدہیں مگرراقم الحروف حال ہی کے دو،تین کا مثال دیکر قلم بندکررہاہوں،سال 2008میں بہارکے ضلع سپول میں سیلاب نے گھنٹوں کاکام منٹوں میں سیکڑوں ہزاروں گھروں کوتباہ ہوبربادکردیا،یعنی وہاں کے لوگوں کوگھرسے بے گھرکردیا،پتہ نہیں وہ لوگ کہاں کہاں جاکربسے ،سیکڑوں ہزاروں لوگ پانی میں غرق ہوئے اورہزاروں افرادہلاک وبربادہوئے یہاں تک کہ کتنے لوگوں کی نعشیں بھی نہیں مل پائے اورکچے گھروں کی بات تودور،پکے مکانیں دودومنزلہ سہ منزل کوبھی سیلاب کی موجیں لہڑیں کاغذاورپتے کی طرح بہا لے گیا ،جس کا ابھی تک کوئی سراغ نہیں لگ پائے ہیں ۔
ایسا ہی2010میں جموں وکشمیرکے لداخ علاقے کے شہرلیہہ میں زبردست بارش وسیلاب سے ہونے والے جانی ومالی نقصان بہارکے ضلع سپول سے کم نہیں تھا یہاں بادل پھٹنے کے بعداچانک آئے سیلاب میں 120افرادسے زائدکی موت ہوگی اورتقریباً 500سے زائدافراد زخمی ہوگئے اورلیہہ سے تقریباً 13کلومیٹرکے فاصلے پرواقع چگلاسر میں تقریباً 200افرادبھی لاپتہ ہوگئے تھے،اسی وجہ سے ہندوستان کے تمام افراد غم زدہ تھے یہ نہایت ہی تکلیف دہ بات ہے۔
اب 2014 میں بہارکے ضلع سپول سیلاب کی طرح جموں وکشمیرمیں گھنٹوں کاکام منٹوں میں سیکڑوں ہزاروں گھروں کوتباہ ہوبربادکردیا۔یعنی تقریباً ساٹھ سال بعد آنے والے قیامت صغریٰ خیز سیلاب نے ریاست جموں وکشمیر کو ہلاکر رکھ دیا ہے اوراس وقت ہندوستان کے علاوہ پوری دنیا کی نگاہیں ریاست جموں وکشمیر پر لگی ہوئی ہے ، تعاون کرنے والے اپنے اپنے اعتبار سے تعاون بھی کررہی ہیں اور جو کچھ نہیں کرسکتے وہ خدا سے دعاؤں کے ذریعہ اس کا رحم طلب کررہے ہیں۔ ہندوستان کی ریاست جموں وکشمیر میں بھیانک بارش اور اس کے نتیجے میں آئے تباہ کن سیلاب، بھیانک طغیانی اور جان و مال کی ہلاکت وبربادی ملک کی سب سے بڑی آفت کہیں توغلط نہیں ہوگا یوں تو ملک کے مختلف حصوں میں سیلاب کی تباہ کاریوں کا درد باشندگان وطن سہہ رہے ہیں لیکن بھارت کا وہ خطہ ارض کشمیر جسے جنت کہاجاتاہے۔ سیلاب کی ہولناکیوں اور تباہ کاریوں سے پورے طور پرسسک رہا ہے اور آہو ں و بکاء سے دو چار ہیں۔حالات کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے مرکزی وزیرِ داخلہ نے ایک طرح سے اپنا ہاتھ کھڑاکرتے ہوئے ریاستی سرکاروں،غیر سرکاری تنظیموں اور عوام الناس سے اپیل کی ہے کہ جس سے جیسے اور جو ہوسکے ان آفت زدہ متاثرین کی مدد کریں۔
بہرکیف خبروں کے مطابق وزیر اعظم نریندر مودی نے جموں و کشمیر میں آئے سیلاب سے متاثر لوگوں کی راحت اور بچاؤ اور بازآبادکاری کے لئے ریاستی حکومت کو ایک ہزار کروڑ روپے کی اضافی امداد دینے کا اعلان کیا ہے۔وزیر اعظم نریندر مودی نے جموں و کشمیر میں سیلاب سے پیدا شدہ صورت حال کا جائزہ لینے کے لئے جموں و کشمیر کادورہ کیااور انہوں نے متاثرہ افراد کا درد بانٹا ۔وزیر اعظم کو جموں میں اور سری نگر میں وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ اور ریاستی حکومت کے سینئر افسران نے سیلاب سے ہوئے نقصان سے واقف کرایا ۔ وزیر اعظم کو جموں و کشمیر میں سیلاب سے ہوئے نقصان کے بارے میں وزیر داخلہ نے آگاہ کیا تھا ۔ صورت حال کی شدت کے پیش نظر وزیر اعظم نے کابینہ سیکریٹری اور دیگر سینئر افسران کے ساتھ ایک میٹنگ کی ۔وزیر اعظم نے کہا ہے کہ یہ ایک قومی آفت ہے اورکہا کہ مرکزی حکومت ریاستی حکومت اور ریاست کے عوام کے ساتھ دکھ کی اس گھڑی میں شانہ بہ شانہ کھڑی ہے ۔وزیر اعظم نے محسوس کیا کہ ریاستی آفات ریلیف فنڈ کے ذریعہ مہیا کرائی گئی 1100 کروڑ روپئے کی رقم ناکافی ہوگی ، اس کے پیش نظر امداد اور بازآبادکاری کے لئے مرکزی حکومت کی جانب سے مزید ایک ہزار کروڑ روپئے کی رقم مہیا کرائی جائے گی ۔صورت حال کا معقول جائزہ لینے کے بعد ضرورت پڑنے پر مزید رقم جاری کرنے کے لئے وزیر اعظم نے یقین دلایا۔
الکٹرانک وپرنٹ میڈیا کے مطابق ہندوستانی فوج کے مسلح دستوں نے جموں کشمیر کے سیلاب متاثرہ علاقوں سے اب تک 66000لوگوں کو محفوظ مقامات پر پہنچانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ جبکہ راحت کاری اور بچاؤ مہم اب بھی جنگی پیمانے پر جاری ہے۔مسلح دستوں اور نیشنل ڈیزاسٹر رسپانس فورس(این ڈی ا ر ایف) نے وسیع پیمانے پر امدادی اور راحت رسانی مہم چلائی ہے ۔ اس کے ساتھ ہی مزید کچھ ہیلی کاپٹر اور کشتیاں اس مہم میں لگائی گئی ہیں۔ جموں کشمیر میں اب تک کے سب سے بڑی راحت کاری اور بچاؤ مہم میں بری فوج کی 215ٹکڑیاں،ڈاکٹروں کی 80 ٹیمیں اور 15 انجینئرٹاسک ٹیموں کو کام پر لگایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ہوائی فوج کے 31 طیارے اور 30 ہیلی کاپٹر راحت اور بچاؤ کے کاموں میں مصروف ہیں جبکہ بحریہ کی 110 نیز این ڈی ا ر ایف کی 148کشتیاں اس مہم میں لگائی گئی ہیں۔سری نگر کے سیلاب متاثرہ علاقوں میں پھنسے لوگوں کو نکالنے کا کام بدستور جاری ہے ۔ سیلاب متاثرہ علاقوں میں تقریباً 50ہزار لیٹر پینے کا پانی ،600 ٹن بسکٹ، سات ٹن بچوں کا کھانہ اور کھانے کے 1000پیکٹ تقسیم کیے گئے ہیں۔ ساتھ ہی 7200کمبل اور 210 ٹینٹ سیلاب متاثرین کو بانٹے گئے ہیں۔ہندوستانی فضائیہ کے طیاروں اور ہیلی کاپٹروں نے اب تک 354پروازیں کی ہیں اور 459 ٹن خوراک کے سامان گرائے ہیں۔ فوج کی ہوابازی یونٹ نے ا ج 120اڑانیں بھری ہیں اور نازک طور سے زخمی 71لوگوں کو نکالا ہے۔دریں اثنا فوج کی شمالی کمان کے سربراہ نے سیلاب متاثرین سے ایک اپیل میں کہا ہے کہ فوج سیلاب میں پھنسے ہر شخص کو بحفاظت نکالنے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔ انھوں نے لوگوں سے صبروتحمل کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ اولیت کے اعتبار سے لوگوں کو نکالا جارہا ہے۔ بچوں، خواتین اور بزرگوں کو پہلے نکالا جارہا ہے لیکن فوج سیلاب میں پھنسے ہر شخص کو بحفاظت نکالنے کے لیے پرعزم ہے۔قابل ذکر ہے کہ بھارت سنچار نگم لمیٹیڈ (بی ایس این ایل) مسلح دستوں کے تعاون سے ریاست میں موبائل خدمات اور سیٹیلائٹ نیٹورک کو بحال کرنے میں مصروف ہے۔
جموں و کشمیر میں سیلاب کا قہر جاری ہے اور حالات میں کوئی بہتری نہیں ہے،اب تک 200سے زائدلوگوں کی موت ہو چکی ہے۔حالات کو دیکھتے ہوئے 12ستمبر تک تمام اسکولوں کی چھٹی کر دی گئی ہے اور بڑے پیمانے پر فوج پولیس اور این ڈی آر ایف راحتی مہم چلائے ہوئے ہے،راحت رسانی مہم میں فوج کے 10ہزار سے زیادہ جوان لگے ہوئے ہیں۔فضائیہ کے 29طیارے اور ہیلی کاپٹرس لوگوں کو محفوظ مقامات پر پہنچا رہے ہیں، ساتھ ہی امدادی سامان بھی پہنچا رہے ہیں،وزیر اعلی عمر عبد اللہ نے لوگوں سے اپیل کی ہے کہ وہ گھبرائیں نہیں، خراب موسم کی وجہ سے لوگوں تک مدد پہنچنے میں دقت ہو رہی ہے، لیکن فوج، این ڈی آر ایف اور انتظامیہ پوری قوت سے اس میں مصروف عمل ہے۔جموں کشمیر کے کئی علاقے پانی سے مکمل طور پر بھرے ہوئے ہیں،جنوبی کشمیر اور سرینگر میں بھی حالات خراب ہیں،لال چوک سیکرٹریٹ اور ہائی کورٹ میں 6-6فٹ تک پانی بھرا ہوا ہے۔دہلی سے این ڈی آر ایف کی مزید کئی ٹیمیں اور 100کشتیاں بھیجی گئیں ہیں،جس سے امدادی مہم میں تیزی لائی جا سکے۔
لہذا ملک کے تمام باشندوں کو اپنے تباہ حال بھائیوں کی بھر پور امداد کرنی چاہئے اور ان کی راحت رسانی کے لیے حتی الوسع کوشش کرنی چاہئے ۔ یہ ہمارا دینی، ملی ، قومی اور انسانی فریضہ ہے۔ اس طرح کے افراداورتنظیموں کومصائب کے ان موقعوں پرآگے آناچاہئے اورمخلوق خداکی خدمت کے لئے کچھ نہ کچھ کرنا چاہئے۔اسلئے تمام برادران کوچاہیے کہ اللہ کے احکام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق حکم بجالاوے اسی میں خیرہے اوراللہ ان بلاؤمصیبت سے حفاظت فرمائے آمین۔
جواب دیں