مہاراشٹر کے مسلمانوں نے مجلس کو ووٹ کیوں دیا؟

کیا اب انھوں نے بی ے پی شیو سینا سے خوف کھانا بندکردیا ہے یا سب کو آزمانے کے بعد اب ایک الگ طرح کی سیاست کو آزمانا چاہتے ہیں؟ کیا اب مسلمان کا الگ راستے پر چلنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور یہ سلسلہ مزید آگے بڑھے گا؟ یا اس سیاست کے پیچھے بی جے پی کا ہاتھ ہے جو ایم آئی ایم کو زینہ بناکر ہندووں کو متحد کرنا چاہتی ہے؟ مہاراشٹر اسمبلی الیکشن کے نتائج میں اگر بی جے پی کو بیشتر سیٹیں حاصل ہوئیں تو اس میں زیادہ حیرت نہیں تھی بلکہ اصل حیرت تھی ایم آئی ایم کی مقبولیت پرجس نے نہ صرف دو سیٹوں پر جیت حاصل کی تھی بلکہ کئی سیٹوں پر دوسرے نمبر پر تھی اور بعض سیٹوں پر کثیر ووٹ پاکر تیسرے نمبر پر آئی۔ وہ کچھ اور سیٹیں بھی جیت سکتی تھی اگر مسلمانوں نے تھوڑی سی ہوشمندی دکھائی ہوتی۔ مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ آج بھی یہ سوچتا ہے کہ اگر کانگریس یا این سی پی کے علاوہ کسی اور پارٹی کو ووٹ دیا تو بی جے پی ۔شیوسینا جیت جائینگی اور اسی خوف میں وہ کانگریس کو ووٹ دیتا ہے۔ مہاراشٹر میں مسلم ووٹ تقسیم درتقسیم کے عمل سے گزرا ہے اور مسلمان ووٹنگ کرنے میں کنفیوزن کا شکار رہے ہیں مگر ان کی اکثریت نے جس انداز میں ووٹ کیا ہے اور جس طرح سے وہ مجلس کی طرف بڑھے ہیں اس نے سیاسی تجزیہ کاروں کو بھی حیرت میں ڈال دیا ہے۔پارٹی کی جیت سے خوش اسدالدین اویسی (ایم پی)نے اعلان کیا کہ اب وہ ممبئی کارپوریشن الیکشن میں بھی اپنے امیدوار اتارینگے اسی کے ساتھ دوسری خبر یہ آئی کہ اب وہ مغربی بنگال، اترپردیش اور بہار میں بھی اپنے امیدوار اتارینگے۔ 
کسے کتنے ووٹ ملے؟
آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین نے کل ۲۴ امیدوار اسمبلی الیکشن میں اتارے تھے جن میں سے دو سیٹوں پر اسے کامیابی ملی۔ ممبئی کے کولابہ سے ایدوکیٹ وارث پٹھا ن جیتے ہیں جنھیں ۳۱۴،۲۵ ووٹ ملے تھے جب کہ ان کے مدمقابل بی جے پی کے مدھو چوان کو ۹۵۷،۲۳ ووٹ ملے۔ یہاں سے مشہور ڈان ارون گاؤلی کی بیٹی گیتا گاؤلی بھی شیوسینا کی حمایت یافتہ امیدوار تھی جسے ۲۰ ہزار سے زیادہ ووٹ حاصل ہوئے۔یونہی اورنگ آباد(سنٹرل ) سیٹ پرجرنلسٹ امتیاز جلیل کامیاب ہوئے جنھیں ۸۴۳،۶۱ ووٹ حاصل ہوئے جب کہ ان کے مدمقابل شیوسینا کے امیدوار کو صرف ۸۶۱،۴۱ووٹ ملے۔ مزے کی بات یہ تھی کہ امتیاز جلیل کوئی منجھے ہوئے سیاست داں نہیں تھے بلکہ صرف ایک مہینہ قبل سیاست میں آئے تھے۔
مجلس کے تین امیدوار رنر اپ کے طور پر سامنے آئے اور اپنے مدمقابل کو زبردست ٹکر دی۔ ان میں سولا پور(سنٹر)پربھنیا اور اورنگ آباد(ایسٹ) شامل ہیں۔ لیکن اسی پر بس نہیں بلکہ ایم آئی ایم کے آٹھ امیدوار تیسرے نمبر پر بھی رہے اور انھیں کثیر ووٹ حاصل ہوئے۔ ان میں ناندیڑ(ساؤتھ)ناندیڑ(ایسٹ) اورنگ آباد (ویسٹ) ونڈیرا (ایسٹ)ورسونا، مالیگاؤں، ممبرا، کوریا اور ممبا دیوی شامل ہیں۔ ان میں سبھی امیدوار مسلمان نہیں تھے بلکہ کچھ غیرمسلم بھی تھے۔مجلس کے تمام چوبیس امیدواروں کو کل ملاکر۶۳۲،۱۶،۵ ووٹ حاصل ہوئے۔ کانگریس، این سی پی، بی جے پی، شیوسینا ، ایم این ایس اور سماج وادی پارٹی سبھی نے مسلم امیدوار اتارے تھے جنھیں کل ملاکر ۱۹لاکھ ووٹ حاصل ہوئے تھے اور ان ووٹوں کا ۲۷ فیصد ایم آئی ایم کو ملا ہے۔ سب سے زیادہ کانگریس کے مسلم امیدواروں کو ۳۱فیصد ووٹ ملے جب کہ این سی پی کے مسلم امیدواروں کو۲۱فیصد ووٹ ہاتھ لگے۔ غورطلب ہے کہ ۲۰۰۹ء کے اسمبلی انتخابات میں مسلم امدواروں کو ملنے والے ووٹوں کا ۷۰ فیصد کانگریس این سی پی اتحاد کے امیدواروں کو گیا تھا۔
اس جیت کا مطلب کیا ہے؟
آزاد بھارت کی تاریخ میں عموماً مسلمانوں کا ووٹ انھیں پارٹیوں کے ساتھ گیا جنھیں ہندو ووٹروں نے ووٹ کیا۔ جب ہندووں کا ووٹ کانگریس کے ساتھ تھا تو مسلمان بھی کانگریس کے ساتھ گئے اور جب باقی ملک جنتاپارٹی یا جنتادل کے ساتھ گیا تو مسلمان بھی انھیں پارٹیوں کے ساتھ گئے۔ مغربی بنگال میں جب ہندواکثریت کا ووٹ کمیونسٹ پارٹیوں کو ملا تو مسلمان بھی ان کے ساتھ گئے اور جب ترنمول کانگریس کے ساتھ بنگال کے عوام آئے تو مسلمان بھی اس کے ساتھ آئے۔ بہار میں لالو پرساد اور یوپی میں ملائم سنگھ یادو کو مسلم ووٹ ملے کیونکہ ہندووں کی اکثریت بھی ان کے ساتھ تھی۔ عام طور پر بھارت کے مسلمانوں نے کسی ایسی پارٹی کا ساتھ نہیں دیا جو خاص ان کے نام پر قائم کی گئی ہولہٰذا انڈین یونین مسلم لیگ ہو یا مجلس اتحادالمسلمین انھیں زیادہ کامیابی نہیں ملی اور وہ ایک خاص خطے تک محدود ہوکر رہ گئیں۔ غلام محمود بنات والا، سلیمان سیٹھ اور سلطان صلاح الدین اویسی کو مسلمان عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور یہ حضرات مسلم مسائل پر آواز بھی بلند کرتے تھے مگر انھیں عام مسلمانوں نے ووٹ نہیں دیئے۔ ایسے میں مہاراشٹر اسمبلی الیکشن میں مسلمانوں کا اس راستے پر چلنا جس پر وہ کبھی نہیں چلے ایک نئے تجربے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اس کا مطلب کیا یہ بھی لیا جاسکتا ہے کہ مسلمان اب ان نام نہاد سیکولر پارٹیوں سے اکتا چکے ہیں جو انھیں خوشنما وعدوں سے بہلاتی رہتی ہیں اور کبھی ان کے مسائل کی طرف توجہ نہیں دیتیں۔ مہاراشٹر اسمبلی انتخابات کے نتائج جس جانب اشارہ کررہے ہیں اس راستے پر تو مسلمان بابری مسجد کی شہادت کے بعد بھی نہیں چلے تھے۔ ممبئی کے ایک ووٹر محمد علی کا کہنا ہے کہ ہم کانگریس۔این سی پی سرکار سے عاجز آچکے تھے اور ہمارے لئے دوسرا متبادل بی جے پی ۔شیوسینا تھے جدھر ہم جانہیں سکتے تھے لہٰذا
ہم نے ایم آئی ایم کی طرف جانا پسند کیا۔ ہم جانتے ہیں کہ وہ سرکار نہیں بناسکتی مگر اسمبلی میں ہمارے مسائل تو اٹھاسکتی ہے۔ 
کانگریس سے مسلمانوں کی ناراضگی
کانگریس اسمبلی الیکشن میں شکست سے تلملائی ہوئی ہے اور اس سے بھی زیادہ اسے مسلم ووٹ کے ہاتھ سے نکلنے کا خوف ہے۔ یہاں مسلمانوں کی آبادی ۱۱ فیصد کے آس پاس ہے اور یہ ووٹر ہمیشہ سے کانگریس ۔این سی پی کے ساتھ رہا ہے مگر اب یہ جس طرح سے اس کے ہاتھ سے نکلا ہے اس سے بڑا خوف یہ ہے کہ جو بچے کھچے مسلم ووٹر اس کے ساتھ ہیں کہیں اگلے الیکشن میں وہ بھی نہ ساتھ چھوڑ دیں۔ کانگریس کے لیڈر اور ایم ایل اے عارف نسیم خاں کہتے ہیں کہ مسلم ووٹ کے بٹوارے سے فرقہ پرستوں کو فائدہ ہوا ہے اور سیکولر امیدوار ہارے ہیں۔ وہ مجلس کو ووٹ کاٹنے والی پارٹی قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کانگریس نے مسلمانوں کی ترقی کے لئے بہت کچھ کیا ہے۔ حالانکہ اس پر ایم آئی ایم کے ایک مقامی لیڈر کا کہنا ہے کہ کانگریس نے سیکولرزم کے نام پر بہت دنوں تک دھوکہ دیا ہے اور اب مسلمان اس فریب سے کو سمجھنے لگے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ بی جے پی اور شیوسینا کا خوف دکھا کر کانگریس ایک مدت تک مسلمانوں کے ووٹ لیتی رہی ہے، اور جہاں تک مسلمانوں کے لئے کام کرنے کی بات ہے تو یہی کام سے نے کیا ہے کہ مسلمانوں کی آبادی ریاست میں ۱۱ فیصد ہے اور جیلوں، پولس حراست اور مختلف مقدمات میں وہ ماخوذ ہیں۲۷ فیصد۔ کیا یہی کام کیا ہے کانگریس سرکار نے مسلمانوں کے لئے۔ غور طلب ہے کہ مجلس کے صدر اسدالدین اویسی نے الیکشن کے دوران کانگریس کے خلاف اس معاملے کو شدو مد سے اٹھایا تھا کہ یہاں مسلمان نوجوانوں کو دہشت گردی کے چھوٹے مقدمات میں بڑی تعداد میں پھنسایا گیا ہے۔
مسلم نمائندگی کم ہوئی
اس بار مہاراشٹر اسمبلی میں مسلم نمائندگی کم ہوئی ہے اور صرف ۹ مسلمان ہی جیتے ہیں۔ ان میں سے پانچ کانگریس کے ٹکٹ پر جیتے ہیں جبکہ ایک این سی پی، ایک سماج وادی پارٹی اور دو ایم آئی ایم کے ٹکٹ پر جیت کر اسمبلی میں پہنچے ہیں۔ ۲۰۰۹ء میں ۱۰ مسلمان جیتے تھے اور ۲۰۰۴ء میں ۱۱ جیتے تھے جب کہ ۱۹۹۹ء میں کل ۱۲ مسلم امیدواروں کی جیت ہوئی تھی۔ آج جو مسلم نمائندگی کم ہوئی ہے اس کا سبب مجلس کے ووٹ کاٹو امیدوار تو نہیں ہیں؟ اس سوال کے جواب میں مجلس کے ایک حامی جاوید شیخ کا کہنا ہے کہ مسلم ممبران اسمبلی کی کثرت سے کیا حاصل جب کہ وہ مسلمانون کے مسائل پر زبان کھولنے کے لئے تیار نہ ہوں۔ آپ رکارڈ اٹھاکر دیکھ لیجئے کانگریس کے ٹکٹ پر جیتنے والے مسلمانوں نے کبھی مسلمانوں کے ایشو پر زبان کھولی ہے؟ لیکن ایم آئی ایم کے ممبران اسمبلی کو آپ دیکھیں گے کہ وہ آواز بھی اٹھائیں اور کام بھی کرینگے۔ 
مجلس کا اگلا قدم کیا ہوگا؟
مہاراشٹر میں کامیابی سے پر جوش مجلس کے لیڈران نے اعلان کیا ہے کہ اب وہ بنگال ،یوپی اور بہار میں بھی اپنے امیدوار اتارینگے۔ یادرہے کہ مہاراشٹر کی بعض میونسپل کارپوریشنس میں مجلس کے کارپوریٹر پہلے سے موجود ہیں اور اب وہ ممبئی کارپوریشن کے لئے اپنے امیدوار اتارنے کی تیاری میں ہے۔ اس پر کانگریس ہی نہیں سماج وادی پارٹی کو بھی تشویش ہے۔ ممبئی کارپوریشن میں سماج وادی پارٹی کو اچھی خاصی سیٹیں مل جایا کرتی تھیں اور وہ عام طور پر مسلم حلقوں سے ہی جیت کر آتی تھی ۔ یہ سیٹیں اس سے پہلے انڈین یونین مسلم لیگ کو جاتی تھیں مگر اب یہ اندیشہ پیدا ہوگیا ہے کہ ان سیٹوں پر ایم آئی ایم کا قبضہ ہوجائے گا۔ سماج وادی پارٹی کے ایک مقامی لیڈر کا کہنا ہے کہ ایم آئی ایم کے پیچھے بی جے پی کا ہاتھ ہے جو چاہتی ہے کہ وہ مجلس مسلم سیاست کے نام پر مسلمانوں کا ووٹ کاٹے اور سخت زبان کا استعمال کرکے ہندوووٹوں کو اس کے حق میں متحد کرے مگر اس پر ناندیڑ کے احمد حسن کا کہنا ہے کہ جب بھی کوئی پارٹی مسلمانوں حق کے لئے آواز اٹھاتی ہے تو اسے فرقہ پرستوں کا ایجنٹ کہا جاتا ہے۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ سماج وادی پارٹی ہو یا کانگریس اور این سی پی ،ان کے چہروں سے نقاب اٹھتا جارہا ہے اور ان کا سیکولرزم بے پردہ ہوتا جارہا ہے۔ ان کی اب تک کی حرکتوں نے ثابت کردیا ہے کہ یہ مسلمانوں کی دوست نہیں بلکہ دشمن ہیں۔ اب مسلم ووٹ کے شفٹ ہونے کے خوف سے یہ ایم آئی ایم کو بی جے پی کا ایجنٹ قرار دے رہی ہیں۔ اسی کے ساتھ مسلم ووٹروں کے مزاج شناس بھی فکرمند ہیں کہ کہیں مسلم ووٹوں کا اتحاد ہندو ووٹ کے اتحاد کا سبب نہ بن جائے۔دلی کے ایک صحافی کا کہنا ہے کہ مسلم ووٹ اسی وقت تک کارگر رہتا ہے جب تک کہ ہندو ووٹ متحد نہ ہو۔ اگر ہندو ووٹ متحد ہوگیا تو اقلتیی مسلم ووٹ بے معنیٰ ہوجاتا ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ مہاراشٹر میں مسلمانوں کا ایم آئی ایم کی طرف رجحان اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ اب نام نہاد سیکولر پارٹیاں سے ناامید ہو چکے ہیں جو ان کے مسائل حل کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ یہ رجحان اگر باقی ملک میں بھی پھیلا تو پھر ان پارٹیوں کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے جو سیکولرزم کے نام پر مسلمانوں کے ووٹ لیتی رہی ہیں۔

«
»

اْداسی(ڈپریشن) سے نجات کے طریقے!

اسلام کی موجودہ تصویر بدلنے کی کوشش میں لگے ہیں اسماعیلی مسلمان

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے